چلو کچھ دیر ہنستے ہیں
محبت پر،عنایت پر
کہ بےبنیاد ہیں باتیں
سبھی رشتے،سبھی ناطے
ضرورت کی ہیں ایجادیں
کہیں کوئی نہیں مرتا
کسی کے واسطے جاناں
کہ سب ہے پھیر لفظوں کا
ہے سارا کھیل حرفوں کا
نہ ہے محبوب کوئی بھی
جسے ہم زندگی کہتے
جسے ہم شاعری کہتے
غزل کا قافیہ تھا جو
نظم کا عنوان تھا جو
وہ لہجہ جب بدلتا تھا
قیامت خیز لگتا تھا
وقت سے آگے چلتا تھا
جو سایہ بن کے رہتا تھا
جدا اب اس کے رستے ہیں
چلو کچھ دیر ہنستے ہیں
صبح اپنے پر ہر سو پھیلا چکی تھی۔۔۔اسکولوں اور کالجوں کے بچے جانے کے لیے تیار تھے۔۔۔کاموں پر جانے والے بھی جانے کی تیاری کر رہے تھے۔۔اسی اثناء میں شاہنواز ولا میں بھی گہما گہمی کا سماں تھا۔۔۔گھر کے بچے تیاریوں میں مشغول تھے جبکہ عورتیں باورچی میں ناشتہ تیار کر رہی تھیں۔۔۔
شاہنواز ولا میں تین خاندان آباد ہیں۔۔غفور شاہنواز سب سے بڑے ہیں جن کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔۔بیٹا عدیل ان کے ساتھ بزنس میں ہیلپ کرواتا تھا جبکہ بیٹی عبیر ابھی کالج میں زیرِ تعلیم ہے۔۔۔
اسد شاہنواز جن کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔۔۔بیٹا ہادی یونی کے سیکنڈ سیمسٹر میں ہے۔۔جبکہ بیٹی امل عبیر کے ساتھ کالج میں زیرِ تعلیم ہے۔۔۔۔
عابد شاہنواز انتقال کرچکے ہیں جن کی ایک ہی بیٹی ہے حورین جو کے یونی کے سیکنڈ سیمسٹر میں ہے۔۔۔
شاہنواز ولا میں شروع سے ایک اصول تھا کے سب گھر والے ایک ساتھ کھانا کھاتے تھے۔۔۔حورین بھی جلدی جلدی اپنا حجاب کر رہی تھی جو کے ہر وقت گھر میں کرے رکھتی تھی اور گھر کے سب لڑکے كذنز سے دور ہی رہتی تھی۔۔حورین کی والدہ کی طبیعت بھی ناساز رہتی تھی جس کی وجہ سے اس پر بہت زمہداری تھی۔۔۔حورین جلدی جلدی حجاب کرتی کمرے سے باہر نکلی اور باورچی کا رکھ کیا جہاں سکینہ بیگم (تائی) اور سنا بیگم (چاچی) ناشتہ بنانے میں مشغول تھیں اور ساتھ ساتھ باتیں بھی کر رہی تھیں
تائی امی میں ہیلپ کرواؤں..حورین نے باورچی میں داخل ہوتے ہوئے کہا
ٹائم مل گیا ہے تمہیں یہاں آنے کا کوئی خیال نہیں ہے ماں بیٹی کو کے کوئی مدد ہی کروا دیں۔۔۔تائی امی نے درشتگی سے جواب دیا حورین خاموش ہو گئی جبکہ آنکھوں میں نمی آئی تھی جسے اس نے فوراً چھپایا تھا لیکن سنا بیگم دیکھ چکی تھیں
بیٹا آپ یہ ٹرے لے جاؤ باہر ڈائننگ پر رکھو۔۔۔سنا بیگم نے پیار سے کہا حورین نے زبردستی مسکراتے ہوئے اُن کے ہاتھ سے ٹرے تھامی اور باہر کی جانب بڑھ گئی جہاں سب ڈائننگ ٹیبل پر ناشتے کا انتظار کر رہے تھے۔۔
بھابھی بچی ہے آپ کیوں ایسا کرتی ہے۔۔معصوم سی ہے دیکھیں اگر خیال نہ ہوتا تو کبھی بھی نہ آتی مدد کروانے۔۔۔سنا بیگم نے اُنہیں کہا لیکن تائی امی کی نظروں نے اُنہیں خاموش کروا دیا۔۔سنا بیگم گہرا سانس بھر کر رہ گئیں۔۔۔حورین ناشتہ ٹیبل پر سیٹ کر رہی تھی لیکن جانے کیوں اُسے ایسا محسوس ہوا کے کوئی اُسے ہی دیکھنے میں مشغول ہے۔۔اس نے نظریں اُٹھائیں لیکن اپنا وہم سمجھ کر پھر سے نظریں جھکا لیں۔۔۔اپنا اور اپنی امی کا ناشتہ نکال کر وہ کمرے میں گئی اور اپنی والدہ ہاجرہ بیگم کو سہارا دے کر باہر لے کر آئی اُن کو جگہ دی اور خود بھی اُن کے ساتھ بیٹھ کر ناشتہ کرنے لگ گئی۔۔۔ناشتہ کرنے کے بعد سب اپنے اپنے کاموں کے لیے روانہ ہو گئے حورین اپنی امی کو کمرے میں لئے گئی
امی کچھ چاہیے آپ کو۔۔۔حور نے اُن سے پوچھا
نہیں نہیں بیٹا آپ لیٹ ہو رہی ہو جاؤ شاباش مجھے کچھ چاہیے ہو گا میں کے لوں گی۔۔۔ہاجرہ بیگم نے اُسے پیار کرتے ہوئے کہا
اوکے ماما اپنا خیال رکھیے گا۔۔ٹھیک ہے۔۔اللّٰہ حافظ۔۔۔وہ اُنہیں پیار کیے چابیاں اٹھائے باہر کی جانب بڑھ گئی۔۔۔لیکن باہر گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوا ہوا تھا۔۔حور نے اپنا سر تھام لیا
افو۔۔۔اب کیا کروں۔۔۔وہ اِدھر ادھر چکر کاٹنے لگی یونی سے لیٹ ہو رہا تھا۔۔وہ اپنی ہی پریشانی میں چکر کاٹ رہی تھی جب ہادی کے ساتھ ٹکڑا گئی۔۔۔اس نے اپنا سر تھام لیا
آہ۔۔۔وہ اپنے سر کو مسلنے لگی لیکن ہادی کی خونخوار نظروں سے اس کی جانب متوجہ ہوئی
دیکھ کر نہیں چل سکتی۔۔اور کیا كالی بلی کی طرح ادھر اُدھر چکر کاٹ رہی ہو۔۔۔ہادی کا لہجہ سخت تھا
وہ۔۔وہ میری گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو گیا ہے۔۔اور یونی سے لیٹ ہو رہا ہے۔۔۔حور نے نظریں جھکائے کہا
تو یہ تمہیں پہلے دیکھنا چاہیے تھا۔۔۔ہادی اس پر ہی چڑھائی کر رہا تھا چلو اب۔۔مجھے بھی لیٹ کروانا ہے کیا۔۔۔ہادی نے کہا حور نے اس کی جانب دیکھا اور خاموشی سے اس کی گاڑی میں جا کر بیٹھ گئی۔۔ہادی نے گاڑی یونی کی جانب بڑھا دی۔۔۔سارا راستہ خاموشی سے کٹا تھا حور نے ایک دو بار نظریں اٹھا کر ساتھ بیٹھے نفوس پر ڈالی لیکن اس کا چہرہ بلکل سپاٹ تھا حور نے نظریں دوبارہ جھکا لیں۔۔۔یونی آ چکی تھی۔۔۔دونوں گاڑی سے باہر نکلے اور یونی میں داخل ہو گئے۔۔۔دونوں بلاشبہ ایک ساتھ بہت حسین لگ رہے تھے۔۔ہادی اپنے اوپر کئی نظروں کو محسوس کر رہا تھا لیکن سب کو نظر انداز کیے وہ شان بےنیازی سے آگے بڑھتا گیا۔۔۔اس وقت ہادی نے بلیک جینز پر ڈارک بلو شرٹ پہن رکھی تھی آنکھوں پر گوگلز لگائے وہ بہت حسین لگ رہا تھا جبکہ بال اس کی پیشانی پر بکھرے ہوئے تھے چہرے پر گھنی داڑھی اس کی شخصیت کو مزید چار چاند لگا رہی تھی۔۔۔جبکہ حور نے لال رنگ کا پلین سوٹ پہن رکھا تھا اس کے اوپر لمبی کر کے چادر لے رکھی تھی جبکہ بالوں کو بھی کالے حجاب سے ڈھکا ہوا تھا میک اپ سے پاک چہرہ تھا۔۔وہ بھی بہت حسین لگ رہی تھی۔۔۔خیر۔۔ہادی اور حور ایک ہی کلاس میں تھے دونوں بائیو کے سٹوڈنٹس تھے تو دونوں کلاس کی جانب بڑھ گئے ۔۔۔حور جا کر اپنی دوست کے ساتھ بیٹھ گئی جبکہ ہادی اینڈ والے بینچ پر اپنے دوست کے ساتھ بیٹھ گیا۔۔
یار دیر کر دی آج آنے میں۔۔۔حور کی دوست اسمارا اس سے مخاطب ہوئی
ہمم بس گاڑی کا مسئلہ ہو گیا تھا۔۔۔بس اسی لیے۔۔۔حور نے جواب دیا تبھی سر کلاس میں داخل ہوئے سب بچے احتراماً کھڑے ہوئے سر نے سب کو بیٹھنے کا کہا اور لیکچر دینے لگے سب بچے ساتھ ساتھ لیکچر نوٹ کر رہے تھے۔۔۔حور کو بار بار ایسا محسوس ہوتا کے کوئی اُسے دیکھ رہا تھا لیکن جب وہ اِدھر ادھر نظریں دوڑاتی مگر سب اپنے اپنے کاموں میں مگن ہوتے۔۔۔اسا اس کے ساتھ اکثر ہوتا تھا لیکن وہ اس سب کو ایک وہم سمجھ کر کما میں مشغول ہو گئی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
YOU ARE READING
پوشیدہ محبت🥀 از: ماہی (مکمل)
Mystery / Thrillerپوشیدہ محبت کہانی ہے دو ایسے کرداروں کی جو ایک دوسرے سے واقف ہیں مگر وہ محبت جو دونوں کو ایک اٹوٹ رشتے میں باندھتی ہے اس سے انجان ہیں یہ وہ محبت دونوں سے ہی ہوشیدہ ہے۔ کہتے ہیں موتی سیپ میں پوشیدہ ہو، خوشبو پھول میں بند ہو اور پورا چاند بادلوں کو ا...