قسط:۲۱

190 13 5
                                    

آئینہ کہتا ہے،کہنا تو نہیں چاہیے تھا
تو ابھی زندہ ہے،رہنا تو نہیں چاہیئے تھا🥀
دو دن حور کو ہسپتال رکھا گیا تھا۔طبیعت سنبھلنے پر ڈاکٹر نے اُسے ڈسچارج کر دیا تھا لیکن وہ مکمل ٹھیک نہیں ہوئی تھی۔طبیعت میں ابھی بھی کھنکی طاری تھی۔اور اس واقع کے بعد اس کے اندر کافی منفی تبدیلیاں آئی تھیں۔چہرے پر عجیب سی سنجیدگی، آنکھوں میں ویرانی،اور سب سے زیادہ جو تبدیلی حاوی تھی وہ اُس کی خاموشی تھی۔اذیت ناک خاموشی۔اس کی آنکھوں میں ویرانی دیکھ کر سب دہل کر رہ گئے تھے۔
حور میری جان کیا حالت بنا رکھی ہے تم نے۔۔اٹھو چلو پھرو فریش ہو جاؤ گی۔۔ہاجرہ بیگم نے اس کو بہلانے کے لیئے کہا۔ورنہ وہ اس کو اس حالت میں دیکھ کر جس اذیت سے گزر رہی تھیں یہ وہی جانتی تھیں۔
امی آپ کو لگتا ہے کہ میری زندگی پھر سے ویسی ہو جائےگی؟حور کے لہجے میں ٹرپ تھی۔
ہاں میری جان۔۔
نہیں امی نہیں۔۔۔سب کچھ کبھی بھی پہلے جیسا نہیں ہو سکتا۔پہلے میری ذات پاک تھی،سب سے محفوظ تھی لیکن اب،اب ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔میرا بس نہیں چلتا کہ میں خود کو کہیں چھپا لوں۔سب سے دور چلی جاؤں۔میں مر کیوں نہیں گئی تھی۔مجھے موت کیوں نہ آئی اس سب سے پہلے۔۔حور نے روتے ہوئے کہا۔اس کی سسکیاں کمرے میں گونج رہی تھیں۔
میری جان ایسی باتیں کیوں کر رہی ہو؟؟ہاجرہ بیگم نے ٹرپ کر کہا۔حور نے اُن کا ہاتھ تھام لیا۔
میں کسی کا سامنا نہیں کر سکتی۔اپنے لیے کوئی قدم نہیں اٹھا سکتی۔کیسے۔۔کیسے میں لوگوں کی باتوں کو برداشت کروں گی امی۔۔کیسے۔۔اُن کا سامنا کروں گی۔میں ہادی کا کیسے سامنا کروں گی۔۔نہیں ہے مجھ میں اتنی سکت۔۔۔وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔جوانی ہوتی ہی ایک خوبصورت کھلتے ہوئے پھول کی ماند ہے جسے سنبھالنا بھی مشکل ہوتا ہے۔۔اور جوانی میں ملے ہوئے دکھ ایسے ہوتے ہیں جن کو بھولنا بہت مشکل ہوتا ہے۔کھلا ہوا پھول ہر کسی کو اپنے جانب کھینچتا ہے۔لوگ اس کی جانب کھچے چلے جاتے ہیں۔اُسے اُس کی جڑ سے اکھاڑ پھینکتے ہیں۔پھول اپنا حُسن کھو دیتا ہے۔وہ مرجھا جاتا ہے۔اس کی خوبصورتی،اُس کا حُسن سب ختم ہو جاتا ہے۔اگر اُسے دوبارہ پانی میں ڈال لو تو جیسا پہلے کھچاؤ ہوتا ہے وہ نہیں رہتا۔پھول اپنی اصل پہچان کھو جاتا ہے۔حور بھی اپنے آپ کو اسی مرجھائے ہوئے پھول اور خذاں کے موسم میں درخت سے جھڑے ہوئے پتے کی ماند محسوس کر رہی تھی جسے لوگ اکھٹا کرنے کی بجائے اپنے پاؤں سے روندھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔۔ہادی جو حورین کے کمرے میں آ رہا تھا اس کے الفاظ سن کر وہیں سے واپس چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماما بابا میں چاہتا ہوں کہ آپ میری رخصتی کر دیں۔۔ہادی نے سنا بیگم اور اسد صاحب سے کہا۔دونوں اپنی جگہ چونکے۔
بیٹا میرے خیال سے ابھی یہ صحیح وقت نہیں ہے۔اُسے ابھی ٹائم دو۔۔اسد صاحب نے اُسے سمجھایا۔
نہیں بابا میں اور ٹائم نہیں دے سکتا۔میرے خیال سے یہی وقت سب سے بہتر ہے ورنہ وہ جانے کیا کیا سوچتی رہے گی۔۔ہادی نے حورین کی کچھ دیر پہلے والی گفتگو یاد کرتے ہوئے کہا۔
لیکن بیٹا۔۔
بابا پلز۔۔مان جائیں۔۔۔ہادی نے التجا کی۔اسد صاحب خاموش ہو گئے۔
میں بھائی صاحب سے مشورہ کرتا ہوں۔۔کچھ دیر سوچنے کے بعد اسد صاحب نے جواب دیا۔ہادی خاموشی سے کمرے سے باہر نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حور آؤ باہر لان میں چلتے ہیں۔مریم نے حور سے کہا جس کی حالت اس طرح لگ رہی تھی جیسے صدیوں سے بیمار ہو۔
نہیں بھابھی میرا دل نہیں ہے۔۔حور نے جواب دیا۔مریم آئی اور اس کے پاس بیٹھ گئی۔
کیوں نہیں ہے دل؟؟مریم نے اُس کا ہاتھ تھامتے کہا۔
بھابھی پلز۔۔اس نے اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے چھٹوایا۔مریم نے بھی فوراً سے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔حور کو اس حالت میں دیکھ کر اس کا دل کانپ اٹھا۔بظاھر خود کو نارمل کرتے وہ اٹھی اور روم سے باہر نکل گئی۔
کیا ہوا بھابھی حور نہیں جا رہی؟؟ ہادی نے اس سے سوال کیا۔
ہادی وہ بہت بکھری ہوئی ہے اسے ابھی سمیٹ لو پلز۔۔۔مریم نے کہا اور وہاں سے چلی گئی۔جبکہ ہادی وہیں ششدّ کھڑا رہ گیا۔مریم کے الفاظوں نے اُسے بہت تکلیف دی تھی۔وہ چاہ کر بھی حور کو نہیں سمیٹ پا رہا تھا۔اب جو بھی فیصلہ کیا تھا (نکاح کا) اس پر اُسے جلد ازجلد عمل کرنا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب بڑے لاؤنج میں بیٹھے تھے۔
بھائی صاحب ہم حور کی جلد ازجلد رخصتی کرنا چاہتےہیں۔۔۔اسد صاحب غفور صاحب سے مخاطب ہوئے۔تائی جان نے بيقینی سے اُن کی جانب دیکھا۔
اسد یہ ابھی وقت نہیں ہے ابھی بچی سنبھلی نہیں ہے اس طرح زبردستی اگر کریں گے تو وہ رشتہ صحیح سےنہیں نبھا پائیں گے۔۔غفور صاحب نے کہا۔
بھائی صاحب آپ کی بات بھی درست ہے لیکن یہی ہادی اور حور کے لیئے بہتر ہے۔۔۔اسد صاحب نے کہا۔
جی بابا چاچو صحیح کہہ رہے ہیں۔۔عدیل نے بھی حامی بھری۔تائی جان اس سب سلسلے میں خاموش بیٹھی تھیں۔تایا جان چند پل کے لیئے خاموش ہوئے۔پھر بولے۔
ٹھیک ہے لیکن اس سب میں ہمیں حور کی رضامندی لینا بھی ضروری ہے۔ورنہ جس سچویشن سے وہ گزر رہی ہے اسے بتائے بغیر اگر کوئی بھی عمل کیا گیا تو اس کے ذہن میں مزید منفی خیالات پیدا ہوں گے جو کے افورڈ نہیں کیے جا سکتے۔۔۔تایا جان نے قدرے سوچ کر جواب دیا۔لاؤنج میں خاموشی چھا گئی۔اب حور کو کیا طرح سمجھایا جائے سب اسی سوچ میں پڑ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احسان زندگی پر کیے جا رہے ہیں ہم
من تو نہیں پھر بھی جیئے جا رہے ہیں ہم🥀
دروازہ نوک ہونے کی آواز پر حور جو کے آنکھیں موندے بیڈ سے اپنا سر ٹکائے بیٹھی تھی،اس نے آنکھیں کھولیں۔تایا جان اور چاچو آئے تھے۔وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔تایا اور چچا نے اس کے سر پر پیار کیا اور وہیں اس کے پاس بیٹھ گئے۔
کیسی طبیعت ہے اب؟؟تایا جان کا لہجہ شفقت بھرا تھا۔حور کی آنکھیں بروقت نم ہوئیں۔
بھلا جس کی عزت کا جنازہ نکل جائے اس کا کیا حال ہوسکتا ہے؟؟حور نے بس سوچا کہا تو بس اتنا ہی۔
ٹھیک ہوں۔۔اور نظریں جھکا لیں۔۔وہ ان سے نظریں ملانے سے گریز کر رہی تھی۔
بیٹا باہر چلو پھرو فریش ہو جاؤ گی۔۔اسد صاحب نے کہا۔
میرا دل نہیں ہے۔۔اُس کی آواز بہت دھیمی تھی۔
حور۔۔تایا جان نے اُسے مخاطب کیا۔حور نے اُن کی جانب دیکھا۔آنکھوں میں ویرانی تھی۔دردناک ویرانی۔تایا جان جو بات کہنے والے تھے اپنا ارادہ بدلتے اُسے خیال رکھنے کا کہے کمرے سے باہر نکل گئے۔چچا جان بھی ان کے پیچھے ہو لئے۔
بھائی صاحب کیا ہوا؟؟چچا جان نے سوال کیا۔
اسد میری بچی کتنی اذیت میں ہے مجھ سے ہمت نہیں ہوئی بات کرنے کی۔اس کی آنکھیں دیکھی تھیں کس قدر ویران تھیں۔۔تایا جان کا حور کی یہ حالت دیکھ کر دل دہل کر رہ گیا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے بھی اور اپنے آپ سے بھی
ہم ہیں بے واسطہ کئی دن سے🥀
رات اپنے پر ہر سو پھیلا چکی تھی۔حور کو سب لڑکیاں ہادی کے روم میں چھوڑ گئی تھیں۔حور خالی خالی نظروں سے سب ہوتا دیکھ رہی تھی لیکن خاموش تھی جیسے اس کے لب سی دیے ہوں۔سب اس کی حالت سے واقف تھے لیکن یہ سب اس کے لیے بہت ضروری تھا۔اُسے سمیٹنے کے لیے، اذیت سے نکالنے کے لیے۔
کمرے کا دروازہ کھلا۔ہادی کمرے میں داخل ہوا۔اگر عام طور پر شادی ہوئے ہوتی تو دونوں کےاحساسات اور خیالات مختلف ہوتے۔۔ہادی چلتا ہوا آیا اور اس کے سامنے بیٹھ گیا۔۔۔حور نے خالی نظروں سے ہادی کی جانب دیکھا۔۔وہ چہرے پر مسکراہٹ لیے اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔حور اس کی آنکھوں میں ہی دیکھتی رہی گویا تلاش کرنا چاہ رہی ہو کہ اس کی آنکھوں میں کیا ہے۔لیکن محبت کے سوا اُسے کوئی اورچیز دکھائی نہیں دے رہی تھی۔حور دیکھتے ہوئے بھی انجان بن گئی۔اس کے احساسات کو فقط ہمدردی سمجھا اور کچھ نہیں۔
حور۔۔ہادی نے اُسے پُکارا۔
کیوں کیا آپ نے یہ سب؟؟حور نے اس کے کچھ بولنے سے پہلے ہی اس کی بات کاٹی۔ہادی اس کا مطلب سمجھ گیا تھا اسی لیے خاموش رہا۔
کیوں بتائیں مُجھے؟کیوں میرے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے آپ اُنہیں مزید کریدنا چاہتے ہیں؟حور کی آنکھوں سے آنسو باڑ توڑ کر باہر نکلا۔
حور تم غلط سمجھ رہی ہو۔میں تمہارا ہر دکھ،ہر غم بانٹنا چاہتا ہوں۔ہادی کے لہجے سے سچائی ٹپک رہی تھی۔حور نے نفی میں سر ہلایا۔
آپ نے مجھ پر ترس کھا کر یہ سب کیا ہے نا!! مجھ سے ہمدردی کے لیے۔۔حور اپنی ہی دھن میں کہی جا رہی تھی۔ہادی کے دل میں ٹھیس اٹھی۔کیسے وہ اس کے پاکیزہ جذبے کو ہمدردی اور ترس کا نام دے رہی تھی۔۔
حور تمہیں کیا لگتا ہے مجھے تم سے ہمدردی کیوں ہو گی ہاں؟ہمدردی اور ترس تو اُن پر کھایا جاتا ہے جن کے پاس کوئی سہارا نہ ہو،کوئی اپنا نہ ہو۔وہ اس دنیا میں اکیلے رہ جائیں۔اذیتیں،مصیبتیں اُن پر آ ٹوٹیں۔لیکن تمہارے پاس تو اپنا دکھ،درد بانٹنے کے لیے تمام رشتے موجود ہیں۔بھلا پھر کوئی کیوں تم پر ترس کھائے گا۔۔ہادی نے اُسے سمجھانے کے لیے کہا۔
حور کی آنکھوں میں بيقينی تھی جو کہ ہادی سے چھپی نہیں رہی تھی۔
حورین۔۔۔ہادی نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔حور پیچھے ہو گئی۔اس کی آنکھوں میں خوف واضع تھا۔ہادی نے اپنا ہاتھ پیچھے کیا۔
جب تک تم نہیں چاہو گی میں تمہارے قریب نہیں آؤں گا۔اور مجھے یقین ہے کہ میری محبت تمہاری اذیت کو دور کر دے گی۔۔ہادی سوچتا اٹھا اور کمرے میں موجود ٹیرس پر چلا گیا۔حور اُسی پوزیشن میں بیٹھی رہی۔چاند کی مدھم ہوتی روشنی کی طرح رات بھی مدھم ہوتی گئی۔
ہوش والوں کو کیا خبر بیخودی کیا چیز ہے
عشق کیجیۓ پھر سمجھیے زندگی کیا چیز ہے
ان سے نظریں کیا ملیں روشن فضائیں ہو گئیں
آج جانا پیار کی جادوگری کیا چیز ہے
بکھری زلفوں نے سکھائی موسموں کو شاعری
جھکتی آنکھوں نے بتایا مے کشی کیا چیز ہے
ہم لبوں سے کہہ نہ پائے اُن سے حالِ دل کبھی
اور وہ سمجھے نہیں یہ خاموشی کیا چیز ہے🥀
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حور بیٹا آج آپ کی رخصتی ہے۔۔۔ہاجرہ بیگم نے حور سے نظریں ملائے بغیر کہا۔حور نے حیرانگی سے اُن کی جانب دیکھا۔
امی یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟؟اس کو یقین نہیں آیا۔ہاجرہ بیگم خاموش رہیں۔اس کی آنکھوں میں نمی دوڑ گئی۔
امی کیوں کر رہی ہیں آپ ایسے؟؟کیوں۔۔
بیٹا تمہارے لیے ہی یہ سب کر رہے ہیں۔۔
لیکن امی مجھ سے نہیں ہو پائے گا یہ سب۔۔پلز مجھے اور اذیت سے دوچار مت کریں۔۔حور نے روتے ہوئے کہا۔ہاجرہ بیگم کی آنکھوں سے بھی آنسو نکل آئے۔۔ہادی اگر مجھ سے شادی نہ کرنا۔۔اسنے ابھی یہی کہا تھا کہ ہاجرہ بیگم نے اس کی بات کاٹی۔
ہادی بھی یہی چاہتا ہے کہ رخصتی جلد ہو۔۔۔حور خاموش ہو گئی۔لیکن اب کی خاموشی معنی خیز تھی۔۔آخر ہادی کیوں مانا؟؟وہ کیوں چاہتا ہے کہ رخصتی ہو؟؟کہیں یہ ہمدردی کی تحت تو نہیں؟؟اسی طرح کہ سوالات اس کے ذہن میں گردش کرنے لگے۔۔۔۔رخصتی تک وہ بس خاموش ہی بیٹھی رہی۔وہ نہیں جانتی تھی کہ کب سب ہوا بس یہی اس کے ذہن میں گردش کرتا رہا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پوشیدہ محبت🥀 از: ماہی (مکمل)Where stories live. Discover now