پہلے آ جاتی تھی ______قابو میں اُداسی پر اب
ایسی وحشت ہے کہ لوں سانس تو دل دُکھتا ہے 🥀
"بسمل بیٹا اٹھو یخنی پی لو"اسکی امی نے اُسے کچھ کھلانا چاہا جو کے کب سے نہ کھانے کی ضد کیے لیٹی تھی۔
"نہیں ماما مجھے نہیں کھانا"اُسنے آنکھیں موندے کہا۔
"ارے میری بیٹی کچھ کھائے گی نہیں تو ٹھیک کیسے ہو گی ہاں!؟چلو جلدی سے اٹھو کھانا کھاؤ جتنی جلدی ٹھیک ہوگی اتنی جلدی ہم گھر واپس جائیں گے"جہانزیب صاحب نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔بِسمل نے آنکھیں کھولیں اور اُنہیں دیکھے مسکرا دی۔جہانزیب صاحب نے اس کی پیشانی پر پیار کیا۔
"چلو اٹھو شاباش۔"جہانزیب صاحب نے اُسے سہارا دے کر بٹھایا لیکن اب کی بار چونکنے کی باری بسمل کی تھی۔
"ب۔۔بابا ی۔۔یہ مم۔۔میری ٹانگیں۔۔ ایسا لل۔۔لگ رہا ج۔۔جان نہیں ه۔۔ہے ان میں۔۔ سچ سچ بتائیے گا س۔۔سب ٹ۔۔ٹھیک تو ہے"بِسمل کے الفاظ ٹوٹے ہوئے ادا ہوئے تھے آنکھوں میں اچانک نمی دوڑی تھی۔
"نہیں نہیں بیٹا سب ٹھیک ہے تم کھانا کھاؤ آؤ اسے پلاؤ یخنی۔۔۔"جہانزیب صاحب نے اُسے جھوٹی تسلی دی اور ساتھ ہی اپنی بیوی کو اُسے کھلانے کا کہا۔وہ کرسی کی جانب بڑھنے ہی والے تھے جب بِسمل نے جہانزیب صاحب صاحب کا ہاتھ تھاما۔
"بابا کیا میں چل نہیں سکوں گی"کس قدر درد تھا بِسمل کی آواز میں۔جہانزیب صاحب اور اسکی امی دونوں کی آنکھیں نم ہو گئیں۔
"میری جان تم فکر مت کرو ہم۔۔ہم جلد ہی تمہارا علاج کروانے باہر کسی اچھے ڈاکٹر کے پاس جائیں گے تم۔۔تم بس جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ"انہوں نے اُسے تسلی دی۔بِسمل نے ہونٹ میچے آنکھیں ضبط سے بند کر لیں۔آنسو بند آنکھوں سے تیز رفتار میں گالوں پر رقص کرنے لگے۔جہانزیب صاحب اپنے آپ پر ضبط نہیں کر پا رہے تھے اسی لیے کمرے سے باہر نکل گئے۔
"میں جانتی ہوں یہ سب میرے اپنے کیے گناہوں کی سزا ہے۔یہ دنیا مکافات عمل کا نام ہے۔میں نے حورین کی زندگی تباہ کرنا چاہی اللہ نے میری زندگی کی رونق ہی مجھ سے چھین لی۔میں اس قدر بدقسمت ہوں کے کئی موقعے آئے اللہ نے مجھے روکنا چاہا لیکن میں اپنے مقصد پر ڈٹی رہی لیکن یہ بھول گئی کہ جس کے لیے گڑھا کھود رہی ہوں اتنا خود ہی زمین میں دھنسی جا رہی ہو۔۔"اس کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے اور ندامت اور دکھ اُسے مزید اذیت و تکلیف پہنچا رہے تھے۔
"بسمل تم کس بارے میں بات کر رہی ہو؟کس کی زندگی کیسے برباد کرنا چاہی؟؟"انہوں نے سوال کیا۔
بسمل نے اپنی امی کی جانب دیکھا پھر گویا ہوئی۔
"ماما محبت کی آگ کی وجہ سے میری آنکھوں پر پردہ پڑ گیا تھا۔میں اچھائی اور برائی میں فرق بھولے بس اپنی ضد اور انا کی جو توہین ہوئی تھی اُس کے واسطے اس قدر آگے نکل گئی کہ اپنی زندگی برباد کر ڈالی۔۔"
"بسمل صاف صاف الفاظ میں کیوں نہیں بولتی پہیلیاں کیوں بوجھوا رہی ہو؟"اسکی امی کا لہجہ سنجیدہ ہوا تھا۔بِسمل نے شروع سے لے کر آخر تک کی ساری داستانِ کاروائی سنائی۔وہ جیسے جیسے آگے بڑھ رہی تھی ویسے ویسے اسکی امی کے تاثرات سنجیدہ ہوئے جا رہے تھے۔بِسمل نے بات مکمل کی ہی تھی کہ کمرے میں تھپڑ کی آواز گونجی۔بِسمل نے اپنے چہرے پر ہاتھ رکھا نظریں نیچے رکھے وہ مسلسل رو رہی تھی۔
"بسمل تمہیں شرم نہیں آئی یہ سب کرتے ہوئے ہاں!؟کبھی بابا کے بارے میں سوچا؟اس بارے میں سوچا کہ آگے تمہارے ساتھ کیا ہو سکتا ہے ہاں؟اپنے بابا کے مان کو ٹھیس پہنچائی ہے تم نے۔اتنی محبت کا یہ صلہ دیا ہے تم نے؟"اُنکا غصہ تھا کہ آڑے نہیں آ رہا تھا۔
"کبھی کبھار بے جا محبت بھی انسان کو بگاڑ دیتی ہے"بِسمل نے اپنے ہاتھوں پر نظریں جمائے جواب دیا۔کمرے میں خاموشی چھا گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عشق کرنے کا ارادہ ہرگز نہ تھا
بخدا ہو گیا دیکھتے دیکھتے🥀
"چاچو مجھے آپ سے بات کرنی ہے"انس اورنگزیب صاحب سے مخاطب ہوا۔
"ہاں بیٹا کہو"
"وہ چاچو بات یہ ہے کہ۔۔۔"وہ خاموش ہوا۔
"بیٹا کہو میں منتظر ہوں۔۔"انہوں نے محبت سے کہا۔
"وہ چاچو میں شادی کرنا چاہتا ہوں"اسنے بغیر ان کی جانب دیکھے تیزی سے کہا۔اورنگزیب صاحب کو خوشکن حیرانگی ہوئی۔
"کیا میرے کانوں نے صحیح سنا ہے برخوردار شادی کرنا چاہتے ہیں"اورنگزیب صاحب نے گویا تصدیق چاہی۔
"جی چاچو"وہ نظریں جھکا گیا۔
"لڑکی۔۔۔اُمم کہیں امل تو نہیں؟"اُن کے کہنے پر انس نے چونک کر اُنکی جانب دیکھا۔
"چاچو آپ۔۔آپ کیسے آئی مین"اس سے پہلے وہ بات مکمل کرتا اُنکا قہقہ کمرے میں گونجا۔
"بیٹا آپ ہی کا چاچو ہوں کیسے بھلا آپکی پسند سے غیر واقف ہو سکتا ہوں؟"انہوں نے اسکے کندھے پر تھپکی دی۔انس مسکرا دیا۔
"میں مریم سے کل کہتا ہوں کہ بات کرے کہ اس طرح ہم آنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے آنا چاہتے ہیں"انہوں نے کہا۔انس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
"خوش رہو برخوردار! "انہوں نے مسکرا کر کہا اور دل سے دعا دی۔انس مسکرا دیا اور کل کا بےصبری سے انتظار کرنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے حکم ہوا کچھ اور مانگ اسکے سوا
میں دستِ طلب سے اٹھ گیا مجھے طلب نہیں کسی اور کی🥀
اسمارا آج حورین کے ہاں جارہی تھی وجہ یہ تھی کہ کافی دن ہو گئے تھے ملاقات نہیں ہوئی تھی دونوں کی۔وہ گھر کو اچھے سے لاک کیے دعائیں پڑھے باہر نکلی اور گلی کے کونے پر جاکر سواری تلاش کرنے لگی۔۔کچھ آوارہ گرد لڑکے ادھر اُدھر منڈلا رہے تھے۔اکثر ایسا ہی ہوتا تھا جب بھی وہ باہر نکلتی لڑکے اُس پر سیٹیاں کستے،اونچی آواز میں گانے گانے لگ جاتے۔آج بھی یہی سب ہو رہا تھا اُس نے اس سب سے بچنے کے لیے تیزی سے آگے بڑھنا شروع کر دیا۔اُسکے تیز قدموں کی چاپ کے ساتھ کسی اور کے قدم بھی تیز ہوئے تھے۔اسمارا کی دھڑکن معمول سے ہٹ کر تیز ہونے لگی۔قدموں کی آہٹ قریب ہوتی جا رہی تھی۔سٹریٹ سے کتے کے بھونکنے کی آواز آئی اور یہاں اسمارا کی ہمت جواب دے گئی۔اسمارا کی آواز فضاء میں گونجی۔وہ کانوں پر ہاتھ رکھے آنکھیں زور سے ميچے وہاں کھڑی ہو گئی جب کہ وہ خوف کی وجہ سے کانپ رہی تھی۔تبھی ایک لڑکا اس تک آیا اس سے پہلے کے وہ اُسے چھوتا اس کا فضاء میں اٹھا ہاتھ کسی نے پکڑ کے بازو موڑا۔اب کے درد بھری چیخ اُس شخص کی نکلی تھی۔اسمارا نے فوراً سے آنکھیں کھولیں تو سامنے شہریار نے اس شخص کو اپنے قبضے میں لیا ہوا تھا اور مسلسل اُسے پنچ مار رہا تھا۔وہ اسمارا کی چیخ کی آواز سن کر آیا تھا وہ اسی کے گھر کے قریب تھا لیکن اسی کشمکش میں تھا کے جائے یا نہ جائے اتنے میں اسمارا کی چیخ کی آواز آئی اور وہ آؤ دیکھا نہ تاؤ اس جانب بڑھ گیا۔
"تیری ہمت کیسے ہوئی ہاں؟؟"شیری چیختے ہوئے گویا ہوا۔ارد گرد کے لوگ اکٹھے ہو گئے تھے جبکہ اسمارا هونکوں کی طرح اس سب منظر کو دیکھ رہی تھی۔شیری اُسے مسلسل مار رہا تھا۔اس شخص کی حالت بگڑ رہی تھی۔لوگوں نے اس لڑکے کو شہریار کی گرفت سے آزاد کروایا۔شیری نے ایک خونخوار نظر اُس شخص پر ڈالی اور اسمارا کی جانب بڑھ گیا۔اس نے اسکا بازو زور سے دبوچے اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔شہریار کی گرفت بہت سخت تھی۔
"کون ہو اس لڑکی کو کہاں لے کر جا رہے ہو؟؟"وہاں موجود لوگوں میں سے کسی نے شیری کو اسمارا کا بازو پکڑے لیتے جاتا دیکھ کرکہا۔
"شوہر ہوں اسکا اور میرے نہیں خیال سے مجھے کسی کو بتانے کی ضرورت ہے"اس کا لہجہ سخت تھا جبکہ اسمارا "شوہر"کے لفظ پر ٹھٹکی تھی۔شہریار نے پٹکھنے کے سے انداز میں گاڑی میں اسمارا کو پھینکا اور زور سے دروازہ بند کیا۔اسمارا اُسکے غصے کا اندازہ لگا سکتی تھی۔اور وہ ڈرائیونگ سیٹ پر آ کر بیٹھ گیا۔اسٹیئرنگ پر اپنے دونوں ہاتھ جمائے وہ لمبے لمبے سانس بھرنے لگا۔یقیناً وہ یہ اپنے غصے پر قابو پانے کے لیے کر رہا تھا۔
"شیری وہ۔۔۔"
"خاموش ہو جائیں اس سے پہلے میں کچھ غلط کر جاؤں"اس نے بغیر اُس کی جانب دیکھتے سخت لہجے میں کہا۔اسمارا تو پہلی بار اُس کا یہ روپ دیکھ رہی تھی اسی لیے خاموش ہو گئی۔شیری نے گاڑی سٹارٹ کی اور تیزی سے آگے بڑھا دی۔۔۔انجان راستے پر گاڑی جاتا دیکھ اسمارا چپ نہ رہ پائی۔
"یہ آپ کہاں جا رہے۔۔میرا مطلب حورین کا گھر اس طرف نہیں ہے"اس نے جھجھکتے ہوئے سوال کیا۔
"جانتا ہوں ہم وہاں جا بھی نہیں رہے ہیں"اس کی نظریں سڑک پر مرکوز تھیں۔
"کک۔۔کیا مطلب؟؟"
"مطلب آپ کو جلد ہی سمجھ آ جائے گا"اب کی بار اُس نے یہ بات اسمارا کی جانب دیکھتے ہوئے کہی پھر واپس سڑک کی جانب متوجہ ہو گیا جبکہ اب اسمارا کی جان نکلنے کے قریب تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کب کہتی ہوں تم میرے گلے کا ہار ہو جاؤ
وہیں سے لوٹ جانا تم جہاں بیزار ہو جاؤ
YOU ARE READING
پوشیدہ محبت🥀 از: ماہی (مکمل)
Mystery / Thrillerپوشیدہ محبت کہانی ہے دو ایسے کرداروں کی جو ایک دوسرے سے واقف ہیں مگر وہ محبت جو دونوں کو ایک اٹوٹ رشتے میں باندھتی ہے اس سے انجان ہیں یہ وہ محبت دونوں سے ہی ہوشیدہ ہے۔ کہتے ہیں موتی سیپ میں پوشیدہ ہو، خوشبو پھول میں بند ہو اور پورا چاند بادلوں کو ا...