قسط:۲۰

206 15 8
                                    

حور کہاں ہے؟کیوں نہیں آئی اب تک؟بھابھی پلز مجھے بتا دیں میری بچی کہاں ہے؟ہاجرہ بیگم نے سنابیگم سے سوال کیا۔وہ خاموش رہیں اور اپنے آنسوؤں کو قابو کرنے لگیں۔
چچی جان آپ کیوں پریشان ہو رہی ہیں وہ ٹھیک ہے۔۔عدیل جو کے صبح ہی واپس آیا تھا اُس نے انہیں تسلی دی۔
لیکن وہ ہے کہاں پورا ایک دن ہو گیا میں نے اُسے نہیں دیکھا جب تک دیکھ نہیں لیتی میری آنکھوں، میرے دل کو قرار نہیں آئے گا۔۔ہاجرہ بیگم پرنم لہجے میں بولیں۔دل عجیب وسوسوں سے گھرا ہوا تھا۔ماں تھیں بھلا کیسے دوری برداشت کر سکتی تھیں۔اور دوری بھی اس کی جو ہلکی سے تکلیف پر اُن کے ساتھ جڑ جاتی اور جب تک وہ ٹھیک نہ ہو جاتیں وہ اُن کے ساتھ رہتی۔تو بھلا اب وہ کہاں تھی۔کوین اپنی ماں کے پاس نہیں آ رہی تھی۔یہی بات اُنہیں مزید اذیت دے رہی تھی۔
وہ آ جائے گی جلد ہی آ جائےگی آپ پلز پریشان مت ہوں۔۔مریم نے اُنہیں تسلی دی۔ہاجرہ بیگم خاموش ہو گئیں۔فون کی بیل بجی۔سنا بیگم نے فوراً سے فون اٹھایا۔ہادی کی کال آرہی تھی۔اُن نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ کال اٹھائی اور فون کان سے لگایا۔دوسری جانب سے جو بھی کہا گیا،سنا بیگم کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے جانے اب یہ آنسو کس بات پر نکلے تھے۔سب اُن کی جانب متوجہ ہوئے۔سب  اُنہیں اس طرح دیکھ کی پریشان ہوئے۔
کیا ہوا ہے سنا تم رو کیوں رہی ہی؟؟تائی جان نے ہمت کر کے سوال کیا۔سنا بیگم نے اُن کی جانب دیکھا اور نفی کی سے ہلایا۔سب پھٹی پھٹی نظروں سے اُن کی جانب دیکھنے لگے۔ماحول میں خاموشی چھا گئی۔۔۔۔
ہم نے سمجھا کہ آزمائش ہے
وقت تو فیصلے کیے بیٹھا تھا🥀
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پریشان رات ساری ہے__ستاروں تم تو سو جاؤ🔥
سکوتِ مرگ طاری ہے__ستاروں تم تو سو جاؤ🥀
ہنسو اور ہنستے ہنستے ڈوبتے جاؤ__خلاؤں میں🔥
ہمیں پر رات بھاری ہے__ستاروں تم تو سو جاؤ🥀
ہمیں تو آج کی شب پوپھٹے تک جاگنا ہوگا🔥
یہی قسمت ہماری ہے__ستاروں تم تو سو جاؤ🥀
تمہیں کیا! آج بھی اگر کوئی__ملنے نہیں آیا🔥
یہ بازی ہم نے ہاری ہے__ستاروں تم تو سو جاؤ🥀
کہے جاتے ہو رو رو کر__ہمارا حال دنیا سے🔥
یہ کیسی رازداری ہے__ستاروں تم تو سو جاؤ🥀
ہمیں بھی نیند آ جائے گی__ہم بھی سو ہی جائیں گے🔥
ابھی کچھ بیقراری ہے__ستاروں تم تو سو جاؤ🥀
حور۔۔ہادی جس کی کچھ دیر پہلے ہی آنکھ لگی تھی،اٹھا اس کے چہرے پر پسینے کے ہلکے ہلکے چھینٹے تھے۔شاید اس نے کوئی ڈراؤنا خواب دیکھا تھا اٹھتے ساتھ ہی اس نے حور کا نام پُکارا۔
کیا ہوا ہادی۔۔شہریار پریشانی سے اس سے مخاطب ہوا۔
حور۔۔مجھے حور کے پاس جانا ہے۔۔ہادی کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔وہ کہے اٹھا اور اس کے روم کی جانب اپنے قدم بڑھا لئے۔ڈاکٹرز اس کا چیک اپ کر رہے تھے۔گلاس ڈور کے باہر کھڑا وہ پرنم آنکھوں سے اُسے دیکھ رہا تھا۔
ڈاکٹر باہر آیا۔۔ہادی پریشانی کی کیفیت میں اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔
شی از آؤٹ آف ڈینجر ناؤ!! ڈاکٹر نے اُسے خوشخبری سنائی۔اس نے حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات سے ڈاکٹر کی جانب دیکھا گویا یقین کرنا چاہ رہا ہو کے یہ سچ کہہ رہا ہے۔
اُن کے بچنے کے چانسز بہت کم تھے لیکن اُن کا بچ جانا کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔شی از لکی جو اتنی ہائی ڈوز ڈرگز کے باوجود بھی بچ گئی ہیں۔کچھ ہی دیر میں اُنہیں روم میں شفٹ کر دیا جائے گا۔۔ڈاکٹر کہے وہاں سے چلا گیا۔ہادی کا دل اللہ کے ہاں سجدہ ریز ہوا۔اس کی دعا سن لی گئی تھی۔اُس کی ہمراز،ہمسفر،ہمدم کو قدرت نے ایک اور موقع دیا تھا۔اُس کے دل میں سکون اترا کے جو خواب اس نے دیکھا تھا وہ سچ نہیں تھا۔حور اس کے سامنے تھی۔اس کی سانسیں چل رہی تھیں۔قسمت نے اس کے ساتھ دغا نہیں کیا تھا۔پریت کی داستان شروع ہونے سے پہلے ختم نہیں ہوئی تھی،وقت اور حالات نے اُنہیں ایک بار پھر سے مہلت دی تھی اپنی محبت کی داستان کو آگے بڑھانے کے لیے۔ہادی نے گھر کال کی اور اُنہیں حور کی زندگی کی نوید سنائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا ہے ماما آپ ایسے کیوں رو رہی ہیں؟؟امل نے ڈرتے ڈرتے سوال کے۔
بیٹا یہ خوشی کے آنسو ہیں اللہ نے حور کو ایک نئی زندگی دی ہے۔۔۔سنا بیگم نے اپنے آنسو صاف کرتے کہا۔سب نے حیرانگی سے اُن کی جانب دیکھا۔سب کے چہروں پر پرنم مسکراہٹ آ گئی۔۔سب جتنا بھی اللہ کا شکر ادا کرتے کم تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حورین کو روم میں شفٹ کر دیا گیا تھا۔سب اس کے روم میں تھے،سوائے ہادی کے،اس کے ہوش میں آنے کا انتظار کر رہے تھے۔ہاجرہ بیگم اس کے پاس بیٹھی تھیں۔حورین نے تھوڑی تھوڑی اپنی آنکھیں کھولیں۔لائٹ کی چبن کی وجہ سے اس کی آنکھیں چندھیا گئیں اس نے اپنی آنکھیں پھر سے موند لیں۔۔
حور۔۔اُسے اپنے پاس اپنائیت بھری آواز سنائی دی۔وہ بھلا اس آواز کو کیسے بھول سکتی تھی۔سکنڈز کے اندر اس کے دماغ نے ہاجرہ بیگم کی آواز پہچانی تھی۔سب اُن کے نام پکارنے اور حور کی جانب متوجہ ہوئے۔ہاجرہ بیگم اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگیں۔دواؤں اور اذیت سے اس کا چہرہ پیلا پڑ چکا تھا۔یہ بلکل پہلے جیسی حورین نہیں لگ رہی تھی۔اسا نے آنکھیں کھولیں ہاجرہ بیگم اس کے ساتھ بیٹھی تھیں۔حور کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔وہ اُن کے سینے سے لگ کر اپنا سارا غم نکال دے۔ہاجرہ بیگم کے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ رینگی۔اس نے نظریں اِدھر ادھر دوڑائیں سب آنکھوں میں چاہت اور اپنائیت لیے اُسے دیکھ رہے تھے۔مریم کے گھر والے اور انس بھی اس کی عیادت کو آئے تھے۔حور کا دل کیا یہیں زمین میں دھنس جائے۔سب کا سامنا کرنے کی اس میں ہمت نہیں تھی۔اُس نے آنکھیں بند کر لیں۔سب کو لگا وہ آرام کرنا چاہتی ہے۔وہ روم سے باہر نکلنے لگے۔حور نے ایک بار پھر سے آنکھیں کھولیں اور کمرے میں نظریں دوڑائیں۔ہادی کہیں پرنہیں تھا۔دکھی دل کے ساتھ اُس نے پھرسے آنکھیں موند لیں۔
دل نا امید تو نہیں__ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام__مگر شام ہی تو ہے🥀
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سو بار کہا دل سے چل بھول بھی جا اُس کو!!
ہر بار کہا دل نے تم "دل" سے نہیں کہتے🥀
اسمارا خاموشی سے آنسو بہائی جا رہی تھی اور اپنے دیکھ اور اذیت کو آنسو کی صورت باہر نکال رہی تھی۔وہ رونے میں اتنا مصروف تھی کہ اُسے پتہ ہی نہ چلا کب شہریار آئی اور اس کے قریب بیٹھ گیا۔
کچھ دیر یوں ہی آنسو بہانے کے بعد اس نے نظریں اُٹھائیں تو نظریں شہریار سے جا ملیں۔وہ اسے ہی تک رہا تھا۔
کیوں رو رہی ہیں آپ؟؟اُس کے لہجے میں اپنائیت کیا کچھ نہیں تھا اسمارا نے نظریں پھیر لیں۔
میں رو نہیں رہی بلکہ بہت خوش ہوں۔۔اللّٰہ نے میری پیاری سی بہن جیسی دوست کو نئی زندگی بخشی ہے بھلا آخر میں خوش کیوں نہ ہوں۔۔اسمارا مسکرائی۔شہریار اُسے ہی تک رہا تھا۔
جانتے ہو حور جب زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی تھی تو مجھے لگ رہا تھا کے اگر اس کی سانسیں رکیں تو میری بھی سانسیں بند ہو جائیگی۔۔میرے بھی جینے کا مقصد ختم ہو جائے گا۔۔اب کی بار اسمارا نے شہریار کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔لیکن حور ٹھیک ہو گئی مجھے لگا میری زندگی مجھے واپس مل گئی ہے۔اللّٰہ نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا وہ جانتا ہے کہ میں کتنی اکیلی ہمیں اس نے مجھ سے میرا واحد سہارا نہیں چھینا۔۔میں جتنا بھی اس کا شکر ادا کر لوں کم ہے۔۔۔اسمارا پرنم آنکھوں سے مسکرا دی۔۔شہریار کے پاس الفاظ نہیں تھے کہنے کو۔وہ جانتا تھا کہ اسمارا کس قدر اذیت اور قرب سے گزری ہے۔۔۔
وہ کہتے ہیں کہ ایک وقت ہوتا ہے قبولیت کا
حیران ہوں کس وقت نہیں مانگا اس کو🥀
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے مرنے پر لاکھ روئیں گے
میرے رونے پر کون مرتا ہے!؟
حور کی بند آنکھوں سے آنسو باڑ توڑ کر باہر نکلتے اس سے پہلے کسی نے اسے اپنی انگلی کی پور سے چن لیا تھا۔حور نے آنکھیں کھولیں۔ہادی سامنے بیٹھا آنکھوں میں ڈھیروں جذبات لیے اسی کی جانب دیکھ رہا تھا۔حور کی آنکھوں سے آنسو بےاختیار نکلنے لگے۔اب اس کے آنسو سسکیوں کی صورت اختیار کر رہے تھے۔
مم۔۔میں کیوں زندہ ہوں۔۔میں مر کیوں نہیں گئی۔۔آپ لوگوں نے مجھے کیوں بچایا۔۔مرنے دیتے میں کیسے آپ سب کا سامنا کروں گی۔۔حور نے سسکیوں کے درمیان کہا۔ہادی نے اُسے زور سے اپنے سینے سے لگا لیا۔
حورین آئیندہ ایسی بات اپنی زبان پر بھی مت لانا۔یہ سب تمہارے لیے کہنا بہت آسان ہے لیکن پتہ ہے تمہیں اس حالت میں دیکھ کر سب کہ کیا حال تھا۔۔ہاں؟؟ہادی کا لہجہ تھوڑا سخت ہوا تھا۔اور جو سب بھی ہوا اس میں تمہاری غلطی نہیں ہے۔۔لیکن جس نے تمہارے ساتھ یہ سب کیا ہے میں اُسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔۔ہادی نے اپنی گرفت مضبوط کی۔۔حور خاموشی سے آنسو بہانے لگی۔۔یوں روتے روتے ہی اس کی آنکھ لگ گئی۔ہادی نے اس کو سہی کر کے لٹایا اس پر چادر دی اور اپنے لب اس کی پیشانی پر رکھ دیئے۔اور وہیں اس کے پاس بیٹھ گیا۔
کون کہتا ہے کہ تیری یاد سے بےخبر ہوں میں
میری آنکھوں سے پوچھ میری رات کیسے گزرتی ہے🥀
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پوشیدہ محبت🥀 از: ماہی (مکمل)Where stories live. Discover now