#Do_not_copy_paste_without_my_permission
#حصارِ_یار
#رابعہ_خان
#پہلی_قسطدُور اُفق پر تیرتے بادلوں نے نیلگوں آسمان پر سفید سی چادر تان دی تھی۔۔ ہوا کے دوش پر اپنی منزل کی جانب گامزن بادل مختلف اشکال اختیار کرتے پیغام رسانی کررہے تھے کی کوٸ بھی ایک جیسا نہیں رہتا۔۔ زندگی کے تند و تیز جھکّڑ۔۔ انسان کو تبدیل کر دیتے ہیں ۔۔۔ وہ انسان کو ہمیشہ اُجلا اور ہمیشہ میلا نہیں رہنے دیتے۔۔ وقت کی مدھم رفتار پر قدم دھرتا انسان آخر عُمر میں پہنچ کر کیا بن جاتا ہے کوٸ ادراک کیسے کرسکتا ہے۔۔!
وہ بھی اپنی زندگی کے گرم تھپیڑوں کو یاد کرتا لان کی یخ دُھند میں جاگنگ کررہا تھا،پسینے کی بوندیں اسکے جسم پر اُبھری ہوٸ معلوم ہوتی تھیں۔۔ چہرے کے تاثرات پتھریلے تھے۔۔ پہاڑوں پر جمی یخ برف جیسے۔۔
ہلکی پھلکی ورزش سے فارغ ہو کر وہ خود کو تولیۓ سے پونچتا کمرے کی جانب آیا۔۔
نوراں نے دروازے پر دستک دے کر اسے متوجہ کیا تو وہ گردن خشک کرتا پلٹا۔۔”صاحب ناشتہ لگادوں“
وہ موءدب سی کھڑی اجازت طلب کر رہی تھی۔۔
”ہوں۔۔ میں شاور لے کر آتا ہوں۔۔“
اورپھر واشروم کی جانب بڑھ گیا۔۔
شاور لے کر فریش ہوتا وہ کچن کی سمت آگیا۔۔ کچن میں ناشتے کی طویل ٹیبل پر۔۔ معمول کی گہماگہمی تھی۔۔ وہ ہمیشہ کی طرح خاموشی سے آیا۔۔ اور کرسی کھینچ بیٹھا۔۔
وہ عموماً ناشتہ اپنے کمرے میں ہی کیا کرتا تھا۔۔ اسے یوں سب کے درمیان بیٹھنا کسی عذاب سے کم نہیں لگتا تھا ۔۔ طنز اور حقارت سے لبریز نگاہیں۔۔ اسے اور اسکی بھرپور ابھرتی جوانی کو تار تار کردیا کرتی تھیں۔۔
مگر یہ اس سفید حویلی کا حسن تھا۔۔ اور اسکے کچھ اُصول تھے۔۔ جنکی پابندی اسے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھی۔۔ چھٹی کے دن سب اکھٹے ناشتہ کیا کرتے تھے۔۔ اور ہر چھٹی پر اسکے حلق سے نوالہ نگلنا مشکل ہوجاتا تھا۔۔”ولی ڈیرے پر سب ٹھیک جارہا ہے۔۔؟“ شیخ زمان نے ناشتے کے دوران اس سے پوچھا۔۔ کاروبار کے تمام کام اسی کے ذمّے تھے۔۔
”جی سردار بابا۔۔“ اس نے ادب سے جواب دیا۔۔
”پچھلے دنوں کچھ نقصان ہوگیا تھا۔۔ اشرف نے بتایا مجھے۔۔ مگر تمہارے منہ سے تو اس بات کی بھنک بھی نہیں نکلی۔۔“تحکم اور رعونت سے بھر پور جملہ اسے کوڑے کی طرح رسید کرنے والا بختیار احمد تھا۔۔
اس نے ضبط سے سرخ ہوتی آنکھیں اُٹھاٸیں اور سردار بابا کو دیکھا۔۔”یہ ہمیں آگاہ کرچکا ہے بختیار۔۔ ہر دفعہ بغیر تحقیق کے بات مت کیا کرو۔۔“
زمان احمد کی مضبوط آواز نے ڈاٸننگ ہال کو سنّاٹے میں غرق کردیا تھا۔۔”آغا جان میں آپکی اولاد ہوں۔۔ اپنے کاروبار کے بارے میں پوچھ گچھ کرنا میرا فرض ہے،جب آپ ذاتی کاروبار کی ڈوریں غیروں کے ہاتھ میں دینگے تو یقیناً کسی کو تو چیک رکھنا ہوگا۔۔“
اس نے پھر سے زہر اُگلا تھا۔۔ پھر ولی کو لفظوں کا کوڑا رسید کیا تھا۔۔ اس نے سختی سے لب بھینچے۔۔ جیسے بہت سا ضبط کیا۔۔
YOU ARE READING
حصارِ یار
General Fictionوالدین کے ظلم کی بِنا پر۔۔ سفّاک معاشرے کا نشانہ بنی ولی کی ذات۔۔ ایک درد بھری کہانی۔۔ ٹوٹے بکھرے وجود کی کہانی۔۔ ولی اور امل کی کہانی۔۔ حصارِ یار کی کہانی۔۔ 💔