دسویں قسط

246 10 0
                                    

#Do_not_copy_paste_without_my_permission
#حصارِ_یار
#رابعہ_خان
#دسویں_قسط

کمرے میں آکر اس نے دروازہ بند کیا اور پھر راٸیٹنگ ٹیبل تک آتے اس کی نظر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھے تحفے پر پڑی تو وہ ہلکے سے مسکرادیا۔۔ کمرے میں اب تک پرفیوم کی خوشبو رچی بسی تھی۔۔ دوسری جانب وہ مسکراتی ہوٸ بستر پر لیٹی اس کے جوابات سے محظوظ ہورہی تھی۔۔ تھوڑی دیر پہلے والی تنگی کا شاٸبہ تک آس پاس نہیں تھا۔۔ اسے خود پر غصّہ بھی آیا۔۔ اگر تاٸ نے اسے ایسا بول بھی دیا تھا تو اسے کم از کم یوں رو کر نہیں بھاگنا چاہیۓ تھا۔۔ اسے پوچھنا چاہیۓ تھا کہ وہ اسے ایسے کیوں کہہ رہی تھیں۔۔ کوٸ وجہ تو ہوگی ان کے اس رویے کی۔۔ کچھ تو ہوگا ناں۔۔ آٸندہ وہ کبھی اس طرح سے بھاگ کر نہیں آۓ گی۔۔ اس نے جب کچھ کیا ہی نہیں تھا تو ڈرنا کیسا۔۔ سمجھ کر پرسکون ہوتی وہ اب کروٹ لے کر لیٹی تو ولی چھم سے اس کے سامنے آیا۔۔ ایک مسٸلے سے تو جان بچ گٸ تھی مگر اب وہ اس سے کیسے بچے گی۔۔؟ وہ جو اب اسے ساری رات جگانے والا تھا اس کا وہ کیا کرے گی۔؟ کیا پتہ وہ بھی جاگ رہا ہو۔۔ اور ہو سکتا ہے وہ بھی مجھے یاد ۔۔۔
اس سوچ پر وہ بے کل ہو کر بستر پر اُٹھ بیٹھی۔۔۔ اف۔۔۔ خفت سے آنکھیں زور سے مینچیں۔۔ نہیں۔۔ ایسا نہیں سوچتے امل۔۔ بری بات۔۔ مگر اسے اپنا چہرہ کانوں کی لوٶں تک تپتا محسوس ہوا۔۔ اسے پتہ تھا۔۔ بغیر دیکھے پتہ تھا کہ وہ بلش کررہی ہے۔۔ اف۔۔۔ نہیں۔۔ اس نے ہاتھوں سے چہرہ چھپایا اور سر زور زور سے نفی میں ہلایا۔۔
نیچے وہ مسکرا کر سر جھٹکتا راٸٹنگ ٹیبل کے سامنے لگی کرسی کھینچ کر بیٹھا پھر سامنے رکھا ایک سرخ جِلد والا فولڈر کھول لیا۔۔ نورآباد والی زرعی زمین کے کاغذات۔۔! اس نے گہرا سانس لے کر اصغر کو فون کیا اور پھر چند لمحے کچھ سوچتا دوسری جانب جاتی گھنٹی کو سنتا رہا۔۔ قریباً تیسری گھنٹی پر فون اُٹھایا گیا تو اسے اصغر کی مصروف سی آواز سُناٸ دی۔

"کہو ولی۔۔۔؟"

"اصغر۔۔ میں ایک مسٸلے میں پھنس گیا ہوں۔۔"

اس نے ہاتھ میں پکڑا قلم گھماتے ہوۓ کہا تو دوسری جانب اصغر متوجہ ہوا۔۔

"کیسا مسٸلہ۔۔۔؟"

اسکی آواز اٸیر پیس میں اُبھری تو ولی چند پل سوچتا رہا۔۔ پھر بولا۔۔

"آپ کا دشمن آپ سے طاقتور ہو اور تعلقات بھی رکھتا ہو۔ حال فی الحال پاور سِیٹ کا مالک بھی ہو اور اس کے پاس آپ پر حملہ کرنے کا ٹھوس جواز بھی ہو اگر تب بھی وہ خاموش رہے تو ایسی خاموشی کو کیا سمجھنا چاہیۓ۔۔۔؟"

دوسری طرف اصغر نے گہرا سانس لیا تھا۔

"اس کا مطلب ہے کہ آپ کا دُشمن آپ کی کسی ایسی کمزوری کی تلاش میں ہے کہ جس کو جان لینے کے بعد آپ کو اس کے ہاتھ سے کوٸ نہیں بچا پاۓ گا۔۔ وہ انتظار کررہا ہے۔۔ سہی وقت کا۔۔ تمہیں ایسی جگہ ضرب لگانے کا جہاں پر زخم لگنے کے بعد تم کبھی بھی سنبھل نہیں پاٶگے۔۔"

حصارِ یارDonde viven las historias. Descúbrelo ahora