انیسویں قسط

233 14 1
                                    


#حصارِ_یار
#رابعہ_خان
#انیسویں_قسط

فجر کی پاکیزہ سی ٹھنڈک میں صبح کی نماز ادا کر کے اس نے سلام پھیرا اور پھر چند لمحے جاۓ نماز پر ہی بیٹھی رہی۔ وہ اللہ سے بات کرنا چاہتی تھی۔ وہ اس سے بہت سی باتیں کرنا چاہتی تھی۔ اپنی، ولی کی، اپنے اندر جمع ہوتی گھٹن کی، اس سیاہ رات کی جو ابھی تک ختم نہیں ہوٸ تھی، اس سرنگ کی جس کے پار نور کی چاندی پگھل کر گرا کرتی تھی، اس چاہ کی جو اس کے دل پر اب ہر دم رقم رہنے لگی تھی، اس محبت کی جو غلطی سے ہوگٸ تھی، اور اس خواب کی جو اس نے ابھی چند لمحے پہلے دیکھا تھا۔۔ ایک انتہاٸ بھیانک اور درد ناک خواب۔۔
اس نے اپنے رخسار کو بے ساختہ چھوا تو احساس ہوا کہ وہ گیلا تھا۔ اتنے دن سے اس نے مضبوط بن کر زمان اور بی جان کو سنبھالا تھا۔ وہ انہیں یا پھر خود کو یہی دلاسہ دیتی رہی تھی کہ وہ ٹھیک ہوجاۓ گا۔ اسے ٹھیک ہونا ہی ہوگا۔ وہ اسے دیکھ کر جیا کرتے تھے۔ اسے کچھ بھلا کیسے ہوسکتا تھا۔ اس نے آنسو صاف کیۓ مگر پھر گویا کوٸ اندیکھی سی درد کی ٹیس نے دل کو جکڑ لیا۔ آنسو روکنے کے باوجود بھی رخساروں پر پوری شدت کے ساتھ پھسلنے لگے۔ آج تین دن ہوگۓ تھے اسے دیکھے۔ اور یہ تین دن، تین صدی سے کم کا عرصہ نہیں تھے۔ ان تین دنوں کی اذیت، تین دہاٸیوں کے برابر تھی۔ بے ساختہ اس کی ہچکی ابھری۔۔
ایسا ہی ہوتا ہے۔۔
بہت آنسو روکنے کی کوشش میں سانسیں شور کرنے لگتی ہیں۔ اس نے بھی آنسو روکنے کی کوشش ترک کردی۔ یہ ایسے تھا تو پھر ایسے ہی سہی۔ ایک دم اندر جمے آنسو آنکھوں سے گرتے رخساروں کو بھگوتے اس کے دوپٹے میں جذب ہونے لگے۔ اس کے چہرے کے گرد گلابی رنگ کا دوپٹہ بالکل اس کی سرخ ہوٸ ناک کے ہم رنگ ہوچکا تھا۔

"مت رویا کریں، تکلیف ہوتی ہے مجھے۔۔"

اس کے کانوں میں ولی کی آواز گونجی تھی۔ وہ یکدم چہرہ ہاتھوں میں چھپاۓ رو پڑی۔ وہ نہیں رونا چاہتی تھی کیونکہ اس سے ولی کو تکلیف ہوتی تھی مگر وہ خود کو روک نہیں پارہی تھی۔ اس کے چھپے چہرے پر جابجا آنسوٶں کے نشان جمع ہونے لگے تھے۔

"آنسو صاف نہیں کرسکتا کیونکہ اس کا حق نہیں رکھتا میں۔ ہاں آنسو دینے والوں کی چمڑیاں اُدھیڑ سکتا ہوں۔ بتاٸیں کس نے رُلایا ہے آپ کو۔۔؟"

اس نے گھٹنے سمیٹ کر سینے سے لگاۓ۔ وہ کانوں پر ہاتھ رکھ کر اس آواز کو روکنا چاہتی تھی مگر وہ اس آواز کو روک نہیں پارہی تھی۔ وہ اسے بھول جانا چاہتی تھی مگر وہ اسے نہیں بھول پارہی تھی۔ بے بسی سی بے بسی تھی۔۔

"تو یہ طے ہے کہ آپ صرف تب ہی بولیں گی جب آپ کو غصہ آۓ گا۔۔"

اس نے آنسوٶں کو مخروطی انگلیوں سے صاف کیا اور پھر خود میں کچھ اور سمٹ کر رونے لگی۔ آہستہ آہستہ اس کی آواز بلند ہونے لگی تھی۔ سانسیں شدید تکلیف کے باعث بوجھل ہو کر بے ترتیب ہورہی تھیں۔ ہونٹ لرز رہے تھے اور سارا وجود زلزلوں کی زد میں تھا۔ ولی یاد آرہا تھا۔۔ آۓ جارہا تھا۔۔ دل کی اذیت سوا ہونے لگی تھی۔۔ آنکھوں میں بے انتہا سی جلن ہورہی تھی۔۔ مگر یادیں۔۔ یادیں کبھی ساتھ نہیں چھوڑا کرتیں۔ صدا انسان کے وجود میں بسیرا کیۓ رہتی ہیں اور کسی جذباتی لمحے کے زیرِ اثر یوں باہر نکل کر جسم سے جان کھینچا کرتی ہیں۔۔ یادیں جان لیوا ہوتی ہیں۔۔ بے حد۔۔ بے حساب۔۔!

حصارِ یارHikayelerin yaşadığı yer. Şimdi keşfedin