#Do_not_copy_paste_wihtout_my_permission
#حصارِ_یار
#رابعہ_خان
#چوتھی_قسط”ولی۔۔ ادھر آ۔۔۔ “ نثار نے تحکم سے اسے پاس بُلایا تھا۔ یہ اُن وقتوں کی بات ہے جب ولی صرف تیرہ سال کا تھا۔ اس سے بڑے نثار، بختیار، نذیر یہاں تک کے گھر کے کچھ ملازم بھی اسکی تذلیل کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ وہ ان سب سے سہما سہما ڈرا ڈرا رہتا تھا۔ کبھی وہ لوگ اسکے پیچھے حویلی کے کتّوں کو لگا دیتے اور وہ بھاگ بھاگ کر اپنی جان بچاتا کبھی کتّے اسکو بُری طرح زخمی کر دیا کرتے تھے اور کبھی محلّے کے بچوں سے اسکو پٹوایا جاتا تھا۔ اسکے اسکول، کالج یہاں تک کے یونیورسٹی میں بھی لوگوں کو اسکے ماضی سے آگاہ کرنے والے اس حویلی کی اولادیں تھیں جو اس سے ہر گزرتے لمحے میں نفرت کیا کرتی تھیں۔ اسے انکی نفرت کی وجہ آج تک سمجھ نہیں آٸ تھی۔ لوگ اسے مکروہ گردان کر اس سے فرار کیوں چاہتے تھے اسے اس بات کی سمجھ اتنی چھوٹی عُمر میں آ بھی کیسے سکتی تھی مگر اسے اس بات کا اندازہ تھا کہ جو بھی اس سے اسکے باپ کا نام پوچھتا تو پوچھنے والے کے چہرے پر عجیب قسم کی کمینگی پھیلی ہوتی۔ وہ جواب سے زیادہ اسکے چہرے کے بدلتے تاثرات سے حظ اُٹھایا کرتے تھے اور سب سے زیادہ اذیت اسے یہی ایک چیز دیتی تھی۔۔
نثار کے بُلانے پر وہ سہما سا قریب آکھڑا ہوا تھا۔۔ بختیار، ہاشم، نفیس اور نذیر آپس میں باتیں کررہے تھے۔ اسے آتا دیکھ کر یکدم خاموش ہوۓ۔۔
”ارے ولی۔۔ ذرا اپنے باپ کا نام تو بتا۔۔“
نثار نے سفّاکی سے مسکرا کر اسکے چہرے پر سوال کا طمانچہ مارا تو وہ ضبط سے سُرخ ہو گیا۔ وہ چاروں بھی متوجہ ہوکر اسے دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔
”بتا ناں۔۔“ ہاشم نے حد کردی تھی کمینگی کی۔۔
”مجھے نہیں پتہ۔۔ آپ لوگ مجھ سے ایسے سوالات مت کریں۔۔ میں بی جان کو بتا دونگا۔۔“
اس نے زور سے مٹھی بھینچ کر سُرخ چہرے کے ساتھ کہا۔۔
”اے۔۔ زیادہ بک بک مت کر۔۔ سیدھی طرح سے بتا دے“
اب کے بختیار نے کہا تو اس کا خون کھول اُٹھا۔
”مجھ سے ایسی باتیں مت کریں آپ لوگ۔۔“
اسکی نسواری آنکھیں اب کے بھیگنے لگی تھیں۔۔ غصّے سے۔۔ غم سے۔۔ وہ لوگ اسکی عزت کو تار تار کررہے تھے۔۔ اسے بے لباس کرنے میں کوٸ کسر نہیں اُٹھا رکھتے تھے۔ اسکا وجود بکھرنے لگا تھا۔ اسکا بچپن اذیت بننے لگا تھا۔ اسکی زندگی عذاب کا گڑھا بنتی جارہی تھی۔۔
”حرام زادہ۔۔“
نذیر احمد کی پھنکار نے اسے پل میں بھسم کردیا تھا۔۔
”حرام کی اولاد۔۔ ہمارے گھر میں آکر۔۔ ہمارے سامنے کھڑا ہوکر۔۔ ہمیں ہی جواب دیتا ہے۔۔“
بختیار نے اسکے معصوم رخسار پر رکھ کر زنّاٹے دار چانٹا مارا تو وہ دُور جا گرا۔ اسکے ہونٹ سے خون آنے لگا تھا۔ اس نے بے اختیار اپنے ہونٹ کو چُھوا۔ رول دیا تھا۔۔ اسکے ماں باپ نے اسے مٹی میں رول دیا تھا۔۔
بختیار اب اسے لاتوں سے ماررہا تھا۔ وہ اسکے باپ کی محبّت میں حصّے دار تھا۔ وہ اسکے حصّے کی محبّت ان سے لے رہا تھا۔ وہ اسے بالکل برداشت نہیں کرسکتا تھا۔۔ہرگز نہیں۔۔
وہ ہذیانی انداز میں لاتیں اسکے منہ پر ماررہا تھا۔ اور ولی نیچے گِرا بلبلا رہا تھا۔ اسکا لباس خاک آلود ہوگیا تھا۔ کھینچا تانی میں جگہ جگہ سے پھٹ گیا تھا۔۔
کسی نے بی جان کو اطلاع کی تو وہ دوڑتی ہوٸیں حویلی کے پیچھے والے دالان میں آٸیں۔ بختیار مستقل اسکے چہرے پر لاتیں ماررہا تھا۔ وہ چاروں بیٹھے دلچسپی سے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔۔
اور ولی۔۔ وہ تڑپ رہا تھا۔۔ ماہی بے آب کی طرح۔۔ انکا کلیجہ منہ کو آیا۔۔
DU LIEST GERADE
حصارِ یار
Aktuelle Literaturوالدین کے ظلم کی بِنا پر۔۔ سفّاک معاشرے کا نشانہ بنی ولی کی ذات۔۔ ایک درد بھری کہانی۔۔ ٹوٹے بکھرے وجود کی کہانی۔۔ ولی اور امل کی کہانی۔۔ حصارِ یار کی کہانی۔۔ 💔