نویں قسط

294 11 0
                                    

#حصارِ_یار
#رابعہ_خان
#نویں_قسط

تنگ و تاریک کباڑ خانے میں خون اور ٹھنڈے گوشت کی عجب سی بُو پھیلی ہوٸ تھی۔ یکا یک بے سُدھ پڑا کتا اپنے کٹے گلے کی پرواہ کٸے بنا اُٹھا اور دیوار سے لگے لڑکے کی جانب بڑھنے لگا۔۔ اس کا خون گردن سے ٹپ ٹپ ٹپک رہا تھا۔۔ لڑکا ساکت ہوا پھیلی پھیلی آنکھوں سے کتے کو خود کی جانب بڑھتے ہوۓ دیکھتا رہا۔۔ یک دم کتے نے جست لگا کر اس پر حملہ کیا اور۔۔۔
وہ ہڑ بڑا کر اُٹھا۔۔ اسکا سانس دھونکنی کی مانند چل رہا تھا۔۔ دل اتنی زور سے دھڑک رہا تھا گویا ابھی باہر آ گرے گا۔۔ اس نے اپنی پیشانی پر جمے پسینے کو آستین سے صاف کیا۔ اور پھر چونک کر آس پاس دیکھا۔ کمرہ لیمپ کی مدھم روشنی میں نیم تاریک لگ رہا تھا۔۔۔ سکون میں ڈوبا۔۔ خاموش۔۔ اوہ۔۔ اس کے لبوں سے سانس خارج ہوٸ۔۔ "خواب تھا۔۔ ہاں۔۔ بس خواب۔۔" بڑبڑاتا ہوا کمبل خود پر سے ہٹا کر وہ بستر سے باہر نکلا اور چند پل یونہی پیر لٹکاۓ بیٹھا رہا۔ یہ خواب۔۔۔ یہ خواب اب اس کی زندگی کا حصّہ بن چکے تھے۔۔ اور اس کتے کو جسے اس نے مار دیا تھا۔۔ اسے تو وہ اکثر اپنے خوابوں میں دیکھا کرتا تھا۔ کبھی حسین کو دیکھتا۔۔ جو اس پر جُھکا پوری قوت سے اسکا گلا دبا رہا ہوتا۔۔ کبھی وہ سیاہ سُرنگ اس کے ذہن میں آجاتی جس میں اس نے بہت سی راتیں گزاری تھیں۔۔۔ سر جھٹک کر سوچوں سے ذہن کو آزاد کرتا وہ واش روم کی جانب بڑھ گیا۔ کچھ دیر بعد باہر نکلا تو اب کے چہرہ دُھلا ہوا تھا ہاتھ کہنیوں تک گیلے تھے اور ماتھے پر نم بال پڑے تھے۔۔ اس نے سر ذرا ہلایا تو نم بال لہراۓ۔۔ ان سے بہت سے قطرے گِرے۔۔ پھر اس نے تولیے سے چہرہ اور بال خشک کر کے انہیں ہاتھوں کی کنگھی سے پیچھے کیا۔ اور دیوار پر لگی گھڑی میں وقت دیکھتا لیمپ کی جانب آیا۔۔ ساڑھے تین بج رہے تھے۔۔ تولیہ پھیلا کر صوفے کی پشت پر ڈالا اور جاۓ نماز بچھاتا اس پر کھڑا ہوا۔۔ وہ اوپر والے سے شکوہ نہیں کرتا تھا تو اس سے دعا مانگنے سے بھی گریز کرتا تھا۔ اس کا ابھی اس سے ایسا تعلق تھا ہی نہیں کہ جس میں وہ اس سے لمبی لمبی دعاٸیں کرتا شکوے کرتا۔۔ اس کا بس اس سے اتنا ہی تعلق تھا۔۔ کہ نماز پڑھ لی یا پھر دوسرے لوگوں سے اس کا ذکر سُن لیا۔۔ بس۔۔ اس نے کبھی اس کی جانب بڑھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔۔ وہ اس کے لیۓ اجنبی اجنبی سا تھا۔۔ ایک عقیدے کی طرح کہ بس وہ ہے۔۔ اس کے پاس کیسے جایا جاتا ہے۔۔ اس سے بات کیسے کی جاتی ہے۔۔ اس سے شکوے کیسے کیۓ جاتے ہیں اسے یہ سب نہیں آتا تھا۔۔ اور نہ اس نے جاننے کی کوشش کی تھی۔۔
امل کبھی کبھی کہتی تھی کہ اللّہ سنتا ہے۔۔ جیسے وہ سُنتا ہے ویسے کوٸ نہیں سُنتا مگر اسے اس بات پر یقین نہیں آتا تھا۔۔ جو اس کی تار تار ذات کو دیکھ کر بھی انجان بنا ہوا تھا اس سے وہ بول کر کیا کرتا۔۔؟ یہی اس کی سوچ تھی اور اوپر والے سے تعلق۔۔ بس ۔۔ فل اسٹاپ۔۔
اسی سپاٹ پن کے ساتھ اس نے نیت باندھی اور سر جُھکا کر ہاتھ باندھے مدھم آواز میں پڑھنے لگا۔۔ اسی تاریک سی سرد رات میں کرم ایک قبر کے برابر میں ویران سا بیٹھا تھا۔۔ قبروستان کی گہری خاموشی میں سینکڑوں قبریں دُور تک سوٸ ہوٸ تھیں۔۔ ان میں سے کچھ پکّی تھیں، کچھ کچّی اور کچھ بالکل تازہ جن پر پھول پڑے تھے اور گیلی مٹی کی مہک میں کافور کی بُو رچی بسی تھی۔۔ وہ اکڑوں بیٹھا گھٹنوں میں سر دیٸے ہوۓ تھا۔ سرد ہوا سے سارا قبروستان سیاہ رات کی تاریکی میں عجیب پُراسرار لگ رہا تھا۔۔ اس نے سر اُٹھا کر ہاتھ ذرا آگے بڑھایا اور پھر تین چار سال پُرانی قبر کی خشک مٹی پر انگلی سے لکیریں کھینچنے لگا۔۔ ایک آنسو اسکی آنکھ سے لڑھکا تھا جسے اس نے بے دردی سے رگڑ دیا۔۔ "میں ان کو نہیں چھوڑونگا آپا۔۔ میں ایک ایک کی جان لونگا۔۔ ایک ایک کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرونگا۔۔ آپ بس۔۔ بس تھوڑا سا صبر کر لیں۔۔ میں جلد آپ کے پاس آٶنگا اور اب کی بار میں خالی ہاتھ نہیں آٶنگا۔۔ بلکہ اس کا کٹا سر لاٶنگا جس نے آپ کو اس قبر میں سُلادیا ہے۔۔ ہاں آپا۔۔۔" وہ پھر سے قبر پر لکیریں کھینچتا بڑبڑا رہا تھا۔۔ اب کہ اسکی آنکھوں کی نمی میں سُرخی تھی۔۔ گہرے ضبط کی سُرخی۔۔ انتقام کی سُرخی۔۔
ولی نے سلام پھیر کر خالی خالی نظروں سے سامنے دیوار کو دیکھا۔۔ اور پھر چند لمحے ویسے ہی بیٹھا رہا۔ اس نے نماز پڑھی تھی۔ رات کے آخری پہر میں۔۔ اس پہر میں جب آسمانِ دنیا پر خدا زمین والوں سے بہت قریب ہوا کرتا ہے۔۔ لوگ کہتے تھے کہ اس پہر میں نمازیں ادا کرنے والے اس کے محبوب ہوا کرتے ہیں۔۔۔ ان کے دل روشن اور ارواح مطمٸن ہوا کرتی ہیں۔۔ مگر اس کے اندر اتنی خاموشی کیوں تھی پھر۔۔؟ وہ کیوں کچھ بھی اس کے لیۓ محسوس نہیں کر پارہا تھا۔۔۔؟ اس نے دل پر ہاتھ رکھ کر اسے محسوس کرنا چاہا مگر پھر بیزاری سے سر جھٹک کر اُٹھ گیا۔۔ جاۓ نماز لپیٹا اور پھر سے بستر پر آکر لیٹ گیا۔۔ اسے یاد تھا۔۔ بچپن میں زمان جب اسے ہاتھ سے پکڑ کر مسجد لے جایا کرتے تھے۔۔ تب وہ انہیں فجر کی نماز میں طویل قیام کرتا دیکھ کر سوچا کرتا تھا کہ آخر یہ اس میں کیا پڑھتے ہونگے۔۔؟ پھر ایک دن اس نے ان سے پوچھ ہی لیا۔ وہ مسکرا کر اس کا ہاتھ پکڑے مسجد سے نکل آۓ۔۔ ان دنوں اس کی عمر نو سال تھی۔۔ وہ ان کی انگلی پکڑ کر مسجد جاتا اور انہی کے ساتھ واپس۔۔ اسے زمان کے ساتھ بہت سکون ملتا تھا۔۔
"میں اللّہ کا قرآن پڑھتا ہوں۔۔"

حصارِ یارNơi câu chuyện tồn tại. Hãy khám phá bây giờ