گیارھویں قسط

323 9 0
                                    

#Do_not_copy_paste_without_my_permission
#حصارِ_یار
#رابعہ_خان
#گیارہویں_قسط

اس کا داخلہ اسکول میں دوبارہ ہوگیا تھا اور اس دفعہ اسے نویں جماعت میں داخلہ دلوایا گیا تھا۔ اپنے اسکول کے بچوں میں وہ خاصہ بڑا بڑا سا لگتا تھا۔۔ کیونکہ اس کے دوسال تو ویسے ہی ضاٸع ہو چکے تھے اور اس کے ساتھ پڑھنے والے بچّے اس سے عمر میں دو سال چھوٹے تھے۔۔ کلاس کے دوران بریک ہوا تو وہ بھی سب بچوں کے ساتھ کلاس سے باہر نکل آیا۔۔ باہر طویل راہداری کے آخری سِرے پر مڑنے کے بعد ایک تنگ سی گلی تھی جس سے گزر کر کینٹین آیا کرتی تھی۔۔ اس نے بھی اپنے قدم کینٹین تک جاتے راستے پر موڑے اور پھر ایک ریلے کے ساتھ چلتا گیا۔۔ وہاں پہنچ کر اس نے دیکھا گراٶنڈ میں ایک جانب لڑکوں کا رش سا لگا تھا۔۔ اس نے نظرانداز کر کے قدم آگے کی جانب بڑھاۓ مگر پھر گویا وہ برف بن گیا۔۔
کُھلے میدان کے ایک طرف لڑکے فُٹ بال کھیل رہے تھے اور اس سے آگے کی جانب درمیان میں ایک جالی کے آر پار دو لڑکے بیڈ منٹن میں مگن تھے۔۔ اور میدان کے اس طرف کرکٹ میچ ہورہا تھا۔۔ مگر اب لڑکوں کے جمِ غفیر کے باعث اسے کہیں بھی میچ نظر نہیں آیا۔۔ مگر پھر اسکی نظر جُھنڈ کے اُس پار گرے لڑکے پر پڑی جس کے منہ سے خون نکل رہا تھا اور اوپر سے لڑکے اسے لاتوں سے بار بار منہ پر ضرب لگا رہے تھے۔۔ اس نے سر نفی میں ہلا کر گویا خود کو روکا اور پھر آگے بڑھتا گیا۔۔ تیز تیز قدموں سے۔۔ مگر پھر اس سے برداشت نہ ہوا۔۔ دانت جما کے اسی تیزی کے ساتھ مُڑا اور پھر لڑکوں کے بناۓ حلقے تک پہنچا۔۔
وہ نیچے گرا تھا اور بختیار اسکے چہرے پر مسلسل اپنے جُعتے سے ٹھوکریں مار رہا تھا۔۔۔ اس کا خون کنپٹی میں ابلنے لگا۔۔ لڑکوں کے جُھنڈ کو گویا چِیرتا وہ مارنے والوں کے سر پر پہنچا اور پھر اس نے آٶ دیکھا نہ تاٶ بے اختیار ان پر پل پڑا۔۔ جو مار رہا تھا اسکو پیچھے شرٹ سے جھپٹا اور اسے اُٹھا کر دور پھینک دیا۔۔ لڑکا سُوکھا سڑا سا تھا اڑتا ہوا دوسری جانب گرا اور پھر گھسِٹتا ہوا دیوار سے جا لگا۔۔ اس نے سُرخ آنکھوں سے اس کے دوسرے ساتھیوں کو دیکھا اور پھر جو بھی اس کے سامنے آیا اس نے کسی پر رحم نہیں کیا۔۔ مار مار کر ان لڑکوں کا اس نے حشر بگاڑ دیا تھا۔۔ تھوڑی دیر بعد لڑکے ادھر اُدھر کرّاہتے ہوۓ زمین پر لوٹ رہے تھے۔۔ اس نے نیچے گِرے لڑکے کو ایک نظر دیکھا اور سب کے درمیان سے نکل آیا۔۔ اپنے پیچھے اسے لڑکوں کے تالیاں بجانے اور اس کے حق میں کوٸ نعرہ لگانے کی آواز آٸ تھی مگر وہ پرواہ کیۓ بغیر وہ آگے بڑھتا گیا۔۔ دوسرے دن جب وہ اسکول آیا تو سب نا محسوس طریقے سے اسے ہی دیکھ رہے تھے۔ اس نے کوفت سے سر جھٹک کر قدموں کو آگے بڑھایا۔۔ لوگوں کی نظروں کا مرکز بننا اسے کبھی بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔۔ کلاس میں بھی سب کا یہی حال تھا۔۔ اس کے پاس سے گزرتے لڑکے اسے مُڑ مُڑ کر دیکھتے تھے۔۔ اسے اپنے کیۓ پر کوٸ پچھتاوا کوٸ ملال نہیں تھا۔۔ وہ کسی کو آٸندہ ایسے دیکھے گا تو وہ ان کو اسی طرح مارے گا۔۔ ہزار دفعہ مارے گا۔۔ وہ اپنے سامنے کبھی بھی ظلم ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا اسے اس بات کا اندازہ نویں جماعت میں ہوگیا تھا۔۔ بریک ہوا تو وہ اپنی سیٹ سے اُٹھ کر باہر کی جانب جانے لگا۔۔ اس کا کوٸ دوست نہیں تھا۔۔ ایسا نہیں تھا کہ اس میں کوٸ کمی تھی یا وہ ذہین نہیں تھا مگر اس نے اپنا حلقٸہ احباب انتہاٸ محدود کرلیا تھا۔۔ نہ ہونے کے برابر۔۔ کوٸ اس کے ساتھ رہتا تو اس کی کمزوری جان لیتا اور یہ وہ ہرگز بھی نہیں چاہتا تھا سو اکیلا رہنا اس ساری اذیت سے کہیں زیادہ آسان تھا۔
مگر پھر باہر نکلتے ہی اس نے دیکھا کہ سامنے وہی لڑکے کھڑے ہیں جو کل اس سے پِٹ چکے تھے۔۔ اس نے آس پاس دیکھا۔۔ راہداری میں موجود ہر لڑکا اسی کی طرف متوجہ تھا۔۔ ایک لڑکا اس کے سامنے آیا۔۔ اس کی آنکھ پر زخم آیا تھا۔۔ نیلا جامنی سا زخم اور آنکھ سُوجھ کر گویا ذرا باہر آنکلی تھی۔۔ اس نے بے تاثر نظروں سے اس کی آنکھ سے زخم کو دیکھا اور پھر اسے۔۔
دور پیچھے اس کے اور بھی دوست کھڑے تھے جن کے چہروں پر بھی اسی قسم کے نِیل اور گہرے جامنی سے نشان تھے۔۔
"کل تم نے ہمیں مارا۔۔ یہ بات سوچے بغیر کے ہم سات آٹھ تھے اور تم ایک۔۔ یہ سارا اسکول ۔۔ بلکہ یہ سارے لڑکے جو تمہارے آس پاس کھڑے ہیں یہ سب ہم سے۔۔" انگوٹھے سے پیچھے کی جانب کھڑے اپنے دوستوں کی طرف اشارہ کیا۔۔ " ڈرتے ہیں اور تم۔۔ تم نے ہمیں اتنی بے خوفی سے مارا۔۔ جانتے ہو انجام کیا ہوتا ہے ہم سے پنگا لینے کا۔۔۔؟" امیر باپوں کی بگڑی اولادیں تھیں وہ۔۔ مگر اس نے اتنا کچھ دیکھ لیا تھا کہ اسے ان باتوں سے اب فرق نہیں پڑتا تھا۔۔ دو قدم اس نے آگے بڑھاۓ تو وہ لڑکا بے اختیار پیچھے ہوا۔۔
اس کے عین سامنے رُک کر اس نے اسے بے تاثر نظروں سے دیکھا۔
"مجھے پھنسانے سے پہلے تمہیں اپنا جرم بتانا پڑتا جو کہ تم نے بتانا نہیں تھا سو۔۔ میں تم سے۔۔ نہیں ڈرتا۔۔" چبا چبا کر کہا۔۔
"اور تم جتنی دفعہ میرے سامنے کسی کو ایسے ماروگے تو میں بھی اتنی ہی دفعہ تمہیں مارونگا۔۔ ہزار دفعہ مارونگا۔۔ تمہیں جو اُکھاڑنا ہے اُکھاڑ لو۔۔" آخر میں "ہونہہ" سر جھٹک کر ساٸیڈ سے نکلتا چلا گیا۔۔ اور پھر اس دن کے بعد کبھی وہ لڑکے اس کے سامنے نہیں آۓ اور نہ کبھی دوبارہ انہوں نے کسی کو مارا پیٹا۔۔ اس دن اسے ایک بات سمجھ آگٸ کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے کیوں بہتر ہوتی ہے۔۔ اگر کوٸ آپ پر شیر ہو اور غرّاۓ تو جواباً آپ بھی اسی طرح دھاڑیں، ان کا رعب جھاگ کی طرح بیٹھ جاۓ گا۔۔ یہ اس نے اس دن سیکھ لیا تھا۔۔
ایک دو دن بعد جب سب اس بات کو بُھولنے لگے تو کلاس کے دوران وہ واش بیسن پر جُھکا اپنا چہرہ دھو رہا تھا۔۔ جب کسی احساس کے تحت اس نے سر اُٹھا کر دیکھا۔۔ چہرے پر مندمل زخموں کے نشان لیۓ وہ پیارا سا لڑکا بلاشبہ وہی تھا جسے اس نے اس دن بچایا تھا۔۔ وہ دروازے میں کھڑا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔ اس نے آستین سے چہرہ صاف کیا اور سیدھا ہوگیا۔۔ آنکھیں اب تک رونے کے باعث سُرخ ہورہی تھیں اور چہرہ قدرے گلابی۔۔
وہ خاموشی سے اس کے پیچھے آیا اور پھر ہاتھ میں پکڑا ٹِشو اس کی جانب بڑھایا۔۔ جب اس نے ٹِشو کے لیۓ ہاتھ نہیں بڑھایا تو وہ بولا۔۔

حصارِ یارحيث تعيش القصص. اكتشف الآن