آٹھویں قسط

337 10 1
                                    

آٹھویں قسط
وہ حویلی سے باہر نکلا تو اسکا فون بج اُٹھا۔ اس نے ایک پل کو رُک کر ہاتھ میں پکڑا فون نگاہوں کے سامنے کیا اور پھر نمبر دیکھ کر اسکے تنے اعصاب ڈھیلے پڑے۔ سپاٹ سے چہرے پر شناساٸ اُبھری اور پھر وہ شناساٸ دھیرے سے مسکراہٹ میں ڈھلتی گٸ۔ وہ اب تک حویلی کے سرسبز سے دالان میں کھڑا تھا اور خنک سی ہوا سے اسکے بال ہلکے ہلکے اُڑ رہے تھے۔ اس نے مسکراتے ہوۓ کال کاٹ کر دوبارہ سے رابطہ ملایا اور پھر دور تک خاموشی میں ڈوبے لان کو دیکھتے دوسری طرف جاتے فون کو سنے گیا۔۔ ایک گھنٹی کے بعد ہی فون اُٹھا لیا گیا تھا۔

"تو پھر کیا فیصلہ کیا ہے تم نے۔۔؟" اس نے بہت نرمی سے پوچھا تھا۔۔ اور پھر لبوں کو دانتوں تلے دباۓ اس نے آگے والے کی بات سُنی۔۔
"میں آپکو جنازہ دونگا ولی۔ میں کبھی آپ کو ڈس اون نہیں کرونگا۔ میں کبھی بھی آپ کو پہچاننے سے انکار نہیں کرونگا۔۔ کیونکہ ساری دنیا آپ کو چھوڑ سکتی ہے مگر زین۔۔ زین آپ کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا۔۔"
معصوم آواز میں کہے گۓ چند جملوں نے جیسے اس پر جمی سالوں کی کثافت کو ایک ہاتھ مار کر جھاڑ دیا تھا۔ یہ احساس کہ کوٸ اسے بھی جنازہ دے گا۔۔ کوٸ ہوگا جو اس کے مرجانے پر اسکی لاش کو اون کرے گا۔۔ بھلے ہی وہ ایک چھوٹا سا بچّہ ہی کیوں نہ ہو اسے اس بات کا کوٸ تردد نہیں تھا۔۔ مہیب تاریکی میں ڈوبے دالان کو یاسیت سے دیکھتے وہ مسکرایا تھا۔۔

"تھینک یو زین۔۔ " اور پھر فون کان سے ہٹا کر باہر کی جانب بڑھا۔ ڈیرہ اب تک بند ہوچکا ہوگا مگر وہ ایک نظر ادھر کے معاملات دیکھنا چاہتا تھا۔ ان تین دنوں کی مستقل غیر حاضری کے بعد پتہ نہیں اسے کیوں احساس ہورہا تھا کہ کوٸ اسکے پیچھے ہے۔ کوٸ اسے کھوج رہا ہے۔۔ اور کوٸ اسے کھودنے نکلا ہوا ہے۔۔ چلو جو بھی ہوگا وہ جا کر دیکھ لے گا۔ اسی پل اسے سامنے ہاشم کی اکارڈ اپنی جانب بڑھتی ہوٸ نظر آٸ۔ تیز ہیڈ لاٸٹس کے باعث اس نے آنکھیں چُندھیا کر اس پر ہاتھ کا چھجّا بنایا اور آنے والے کو بغور دیکھا۔ ہیڈ لاٸٹس ذرا مدھم ہوٸیں تو اسے فرنٹ سیٹ پر بیٹھا ہاشم نظر آیا۔ اس نے گہرا سانس لے کر بیزاریت سے اسکی گاڑی کو دیکھا اور اپنی کار کی جانب بڑھ گیا۔۔ مگر اس سے پہلے ہی ہاشم کار کا دروازہ کھولتا اسکی جانب آچکا تھا۔۔

"کیا لینے آۓ تھے تم ہمارے گھر۔۔؟" بغیر کسی تمہید کے اس نے درشتی سے پوچھا تو ولی کا دروازہ کھولتا ہاتھ رُکا۔۔ اونچے سے ہاشم کا قد بالکل اسکے برابر تھا۔۔

"یہ جاکر تم اپنے باپ سے پُوچھو۔۔ لیکن رُکو۔۔ تم نے یقیناً پوچھا ہوگا مگر تمہارے باپ نے تمہیں نہیں بتایا۔" محظوظ ہو کر کہتا جیسے وہ اسکے موڈ سے حظ اُٹھا رہا تھا۔ ہاشم نے بمشکل اپنے اندر اُٹھتے غصّے کے اُبال کو دبایا تھا۔۔ پھر ذرا قریب آیا۔۔ اسکی نسواری آنکھوں میں اپنی سیاہ آنکھیں گاڑھیں۔ ایک پل کی بھی جنبش نہیں تھی دونوں نظروں میں۔۔ وہ آگ اور کہر کا لمحہ تھا۔۔ بچپن سے جو آگ ان کے درمیان پک رہی تھی وہ اب بھی دونوں نگاہوں میں بخوبی دیکھی جاسکتی تھی۔

حصارِ یارDonde viven las historias. Descúbrelo ahora