#Do_not_copy_paste_without_my_permission
#حصارِ_یار
#رابعہ_خان
#اکیسویں_قسط
#second last episodeاس نے زمان کے ساتھ کھانا کھایا۔ سارے دورانیے میں زمان کی باتوں پر مسکراتی وہ اب کے بہت بہتر محسوس کررہی تھی۔ گردن کا زخم البتہ ذرا سی جنبش پر تکلیف دیا کرتا تھا باقی کے زخموں اور چھوٹی چوٹوں میں تکلیف کا اثر بہت کم تھا یا پھر شاید اسے محسوس کم ہورہا تھا، وہ اندازہ نہیں کرپاٸ۔ اس نے کھانا کھایا اور پھر ان کو سلام کرتی کھانے کے برتن لیۓ کمرے سے باہر نکل آٸ۔ لاٶنج سے گزرتے اس کی نگاہ بے ساختہ اس کے کمرے کے بند دروازے پر پھسلی تھی۔
جانے کہاں تھا وہ۔۔؟
گہرا سانس بھرتی وہ آگے بڑھی تو بی جان کو کچن میں کام کرتا دیکھ کر انہی کے پاس چلی آٸ۔ بختیار کی ساری باتیں یقیناً وہ بھی سن چکی تھیں اور اب اس سے رخ پھیرے کھڑی تھیں کہ اس کا سامنہ کرنا ان کے لیۓ مشکل ہورہا تھا۔۔"بی جان۔۔"
اس نے پاس جا کر انہیں پکارا پھر سلیب پر برتن رکھتی ان تک آٸ۔ انہوں نے خواہ مخواہ ہی سنہری ہوتی پیاز میں چمچ چلایا تھا۔
"بی جان۔۔؟"
اس نے اب کے انہیں کندھے سے تھام کر اپنی جانب نرمی سے گھمایا تو دھک سے رہ گٸ۔ ان کی خوبصورت آنکھوں میں بےتحاشہ آنسو جمع تھے اور پلکوں پر تو اتنا پانی لدا تھا کہ حد نہیں۔۔
"بی جان۔۔! کیا ہوا ہے۔۔۔؟"
اس نے بوکھلا کر ان کا چہر دوبارہ اپنی جانب پھیرا تھا۔
"بختیار نے جو کچھ بھی کہا بچے، م۔۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ اس سب کے بعد تمہارا سامنہ کیسے کروں۔ وہ کیسے اتنی گھٹیا بات کرسکتا ہے۔۔!! اسے میں نے یہ تو نہیں سکھایا تھا۔ میں نے تو کبھی اس میں اور ولی میں فرق نہیں کیا۔ پھر کہاں سے بھر گیا ہے اس کے اندر اتنا زہر۔۔! اسے اور ولی ۔۔ دونوں کو ہر ہر نوالہ کلمہ پڑھ کر کھلایا ہے۔ دونوں کو قرآن سناتے سناتے بڑا کیا ہے میں نے تو امل۔ پھر۔۔ پھر کیوں ہے ایسا کہ ایک ریشم ہے اور دوسرا ٹاٹ۔۔ ایک عزت کا محافظ ہے تو دوسرا سر سے چادر کھینچنے کی باتیں کرتا ہے۔ ایک زخم سمیٹتا اور دوسرا زخم دیتا ہے۔۔ میں نے تو کبھی فرق کی کسی لیکر کو ان دونوں کے درمیان نہیں آنے دیا پھر یہ سب۔۔ یہ سب اس نے کہاں سے سیکھ لیا۔۔۔!! مجھے لگتا ہے میرا دل پھٹ جاۓ گا امل اسے ایسے دیکھ کر۔ مجھے نہیں سمجھ آرہا کہ مجھے اسے کیسے سمجھانا چاہیۓ۔۔"
ایک ماں اپنی زندگی بھر کی ریاضت کو ضاٸع ہوتے دیکھ کر بلبلا اٹھی تھی۔۔ ہاں اب ان کی برداشت سے بھی سب کچھ باہر ہونے لگا تھا۔ اس نے دکھ سے انہیں دیکھا اور پھر آہستہ سے انہیں اپنے گلے لگا لیا۔
یہ ہمت اسے ہی کرنی تھی۔ اچھی بیٹی اسے ہی بننا تھا۔ اس کے والدین۔۔ ہاں اس کے والدین بوڑھے ہونے لگے تھے اور انہیں اب سنبھالنا اس کی ذمہ داری تھی۔ ان کے ہر ہر آنسو کو سمیٹنا اب اس کے کندھوں پر آگرا تھا۔ وہ وقت آگیا تھا کہ جب ان کی زندگی بھر کی محنت کا صلہ انہیں مل ہی جانا چاہیۓ تھا۔ اور اب وہ وقت بھی آگیا تھا کہ جب اسے اپنے آنسوٶں کو بھی خود ہی صاف کرنا تھا۔۔! گر کر خود اٹھنا تھا۔ گرے ہوٶں کو اٹھانا تھا۔
اس نے انہیں خود سے الگ کیا پھر مسکرا کر ان کی جانب دیکھا۔۔

YOU ARE READING
حصارِ یار
General Fictionوالدین کے ظلم کی بِنا پر۔۔ سفّاک معاشرے کا نشانہ بنی ولی کی ذات۔۔ ایک درد بھری کہانی۔۔ ٹوٹے بکھرے وجود کی کہانی۔۔ ولی اور امل کی کہانی۔۔ حصارِ یار کی کہانی۔۔ 💔