دوسری قسط

316 15 0
                                    

#Do_not_copy_paste_without_my_permission
#حصارِ_یار
#رابعہ_خان
#دوسری_قسط
زمان احمد اور بی جان شہر سے واپس آرہے تھے،رات کا گھٹا ٹوپ اندھیرا ہر طرف سنّاٹا قاٸم کیۓ ہوۓ تھا۔۔ یکدم زمان احمد نے گاڑی کو بریک لگایا تو گاڑی جھٹکے سے رُکی۔۔

"کیا ہوا آغا جان۔۔؟" بی جان نے حیرت سے اِنہیں دیکھا۔۔ وہ گاٶں کے داخلی حدود میں پہنچ چکے تھے۔۔

"مجھے بچّے کے رونے کی آواز آرہی ہے۔۔"
انکی بات پر بی جان نے آنکھیں پھیلاٸیں۔۔

"مگر رات کے اس پہر۔۔۔" وہ انکی بات سُنے بغیر گاڑی سے اُترچکے تھے۔۔
آواز کا تعاقب کرتے وہ گاٶں کی مسجد تک پہنچ چکے تھے۔۔ مسجد کی سیڑھیوں پر تولیۓ میں بچّہ لپٹا رکھا تھا۔۔ اور مستقل رو رہا تھا۔۔
انہوں نے اسے آگے بڑھ کر اُٹھایا اور پھر چہرہ آس پاس گُھما کر دیکھا مگر کسی انسان کا نام و نشان تک نہ تھا۔۔ وہ اسے اپنے ساتھ گاڑی تک لاۓ۔۔ بی جان نے ششدر ہو کر پہلے زمان احمد کو دیکھا اور پھر انکے ہاتھ میں پکڑے نو مولود کو۔۔

"یہ۔۔۔ یہ کیا ہے آغا جان۔۔ یہ کس کا بچّہ ہے۔۔؟"

"مجھے نہیں معلوم زمانی بیگم۔۔ یہ معصوم مسجد کی سیڑھیوں پر پڑا تھا۔۔ آس پاس بھی کوٸ نہیں تھا۔۔" انہوں نے بی جان کو بچّہ تھمایا۔۔ بچّہ بے حد خوبصورت تھا۔۔ انکی آغوش میں آتے ہی خاموش ہوگیا تھا۔۔

"یہ تو بہت خوبصورت ہے آغاجان۔۔"

"ہاں پتہ نہیں کس بے حِس نے اسکے ساتھ ظلم کیا ہے۔۔۔" وہ ڈراٸیو کرتے پریشانی سے بول رہے تھے۔۔
صبح ہوتے ہی انہوں نے پورے گاٶں میں اعلان کروادیا تھا کہ یہ جسکا بھی بچّہ ہے حویلی سے لے جاۓ۔ مگر دودن کی مسلسل جدّوجہد سے بھی کوٸ حل نہ نکلا تھا۔۔

"یہ بچّہ کس گند کی پوٹلی ہے زمان۔۔ ابھی پھینک آٶ اسے۔۔ "

حُسین احمد گرج رہے تھے۔ بی جان نے دہل کر انکی سفّاکی کو دیکھا تھا۔۔ سفید حویلی میں سارے گھر والے اکھٹے تھے۔۔

زمان احمد نے بے یقینی سے بڑے بھاٸ کو تکا تھا۔۔
"بھاٸ صاحب یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔ "

"ٹھیک کہہ رہا ہوں۔۔ کسی کے گناہ کی ذلّت تم ہمارے خاندان کےماتھے پر پوتنا چاہتے ہو۔۔ میں تمہیں اسکی اجازت ہر گز نہیں دے سکتا۔۔"

"میں اس معصوم کو ظالم معاشرے کے حوالے نہیں کرسکتا۔۔ جنہوں نے گناہ کیا ہے۔۔ وہ انکا اپنا فعل ہے۔۔ اور ہر کوٸ اپنی بد فعلیوں کا خود ذمّہ دار ہے۔۔ کسی اور کے گناہوں کی سزا میں اس معصوم ذات کو نہیں دے سکتا۔۔ ہرگز بھی نہیں۔۔"

"وہ بچّہ ناجاٸز ہے زمان۔۔ کوٸ اولاد کو یوں رات کے اندھیرے میں مسجد کے باہر نہیں ڈالتا۔۔ کوٸ بھی اپنے گناہوں کی سزا کو گلے کا طوق نہیں بناتا،پھر تم کیوں جذباتی ہو کر کسی کی،کی گٸ بد فعلی کا عذاب اپنے سر پر ڈال رہے ہو۔۔؟ ہوش کے ناخن لو۔۔ اور اس سے پہلے کہ وہ بچّہ بڑا ہوکر سوالیہ نشان بن جاۓ۔۔ اسے اس حویلی سے نکال باہر کرو۔۔ "

حصارِ یارDonde viven las historias. Descúbrelo ahora