ساتویں قسط
ہاشم نے ڈیرے کا لکڑی کی باڑھ کا بنا گیٹ پار کیا اور قدم قدم چلتا ڈیرے کے کٸ ایکڑ پر پھیلے باغ کو آنکھیں چُندھیا کر دور تک دیکھتا رہا۔ دُھوپ اب ذرا سر پر چڑھی محسوس ہورہی تھی اور سارا سبزہ زار سردی کی نرم سی دھوپ میں نہایا ہوا تھا۔ اس نے ایک نظر ڈیرے کے داخلی دروازے پر کھڑے ملازم پر ڈالی جو ہاتھ میں بڑی سی کلاشن لیۓ پتھر سا چہرہ سامنے کے جانب کیۓ بہت محتاط سا کھڑا تھا۔ اور سب جانتے تھے کہ وہ عام سا گارڈ ہرگز نہیں تھا۔ اس نے چُندھیاٸیں ہوٸ آنکھوں سے لان کی گھاس کو دیکھا اور پھر اوپری طرف اُٹھے سبزہ زار کے حصّے کی جانب بڑھ گیا۔ سبزہ زار کے پچھلی طرف ایک چھوٹا سا پُرانا کمرہ بنا تھا۔ اس کے لوہے کا دروازہ زنگ آلود تھا اور دروازے کے آگے بھی بے تحاشہ کاٹھ کباڑ پھیلا تھا۔۔ یہ کمرہ پُرتعیش سے ڈیرے سے قدرے مختلف قدرے قدیم سا لگتا تھا۔۔ بہت سے رازوں کا امین۔۔ بہت سے گناہوں کا گواہ۔۔ قدیم زندان۔۔۔!
اس نے سامنے پڑے کباڑ کو پیر سے پرے کیا اور دروازے کو دھکیلتا اندر داخل ہوا۔ دروازہ خاصہ پُرانا تھا اسی لیۓ اس پرکسی قسم کا کوٸ ناب کوٸ تالا نہیں تھا۔ اسکی ناب والی جگہ پر ایک گول سا خالی حصّہ تھا۔ جیسے اس دروازے کا کوٸ لاک رہا ہو مگر کسی کے بُری طرح سے کھینچنے پر وہ باہر نکل گیا ہو۔ کمرے کا اندرونی منظر ویسے ہی تھا جیسے کسی بھی کباڑ خانے کا ہونا چاہیۓ تھا۔ ایک طرف پڑی پُرانی لکڑیاں اور اسکے ساتھ ہی بکھرے بہت سے بڑے چھوٹے سریے۔۔ کمرے کے باٸیں جانب چند پیٹیاں رکھی تھیں جن پر صدیوں کی جمی دُھول اسے کمرے کی چھت کے کُھلے حصّے سے اندر گرتی روشنی میں نظر آرہی تھی۔ اس نے سامنے رکھی چند پُرانی کرسیوں کو دیکھا۔ وہ لکڑی کی خاصی مضبوط کرسیاں لگتی تھیں جنہیں آٶٹ آف فیشن ہونے کے باعث یہاں لا ڈالا گیا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر اوندھی پڑی ایک کرسی کو سیدھا کیا اور پھر اس پر لگے خون کے دھبّوں کو دیکھتے اسکی نظروں کے آگے بہت سے منظر لہرانے لگے۔۔ اس کے سرد چہرے پر کوٸ تاثر نہیں اُبھرا تھا۔"تم کچھ بھی کرلو حسین۔۔ مگر تم یہ سب اچھا نہیں کررہے۔۔ وہ میرا بیٹا ہے۔۔ اولاد ہے تمہاری وہ۔۔ اسے تم یوں اس طرح نہیں چھوڑ سکتے۔۔"
کسی کی آنسوٶں سے نم لرزتی آواز اسکی سماعت میں اُتری تو اس نے چہرہ سامنے کی جانب گُھمایا۔۔ چونکہ وہ کمرے کے عین وسط میں کھڑا تھا اسی لیۓ اسکے سامنے آدھا کمرہ خالی پڑا تھا۔ اور کمرے کی دیوار کے آگے بڑی سی چارپاٸ کھڑی کی گٸ تھی۔۔ چھت کے چھید ہوۓ حصّے سے گرتی روشنی میں بہت پرانے منظر اسکی آنکھوں کے آگے کُھلنےلگے۔ چارپاٸ کے آگے ایک مرد جو خاصہ جوان تھا اور جو اسکا باپ تھا وہ ایک عورت جو کہ شاید اسکی کچھ لگتی تھی اس پر جُھکا تھا۔۔ اور اسی وقت اس نے اس عورت کو رکھ کر زوردار چانٹا مارا تھا۔ وہ عورت لُڑھک کر ایک جانب گری۔۔ اس نے بڑے سے بالوں کی چُٹیا باندھ رکھی تھی جو بہت دن سے بال نہ بنانے کے باعث خستہ سی لگ رہی تھی۔اسکے چہرے کے اطراف میں چٹیا سے نکلے بال بکھرے تھے اور ہونٹ کےکنارے موجود نیلا سا زخم تھا۔۔ ہلکا سا سُوجا ہوا۔ اسکا وہ رخسار جس پر ابھی اسے چانٹا پڑا تھا وہ سُرخ پڑ رہا تھا مگر وہ پرواہ کیۓ بغیر حسین پر غرّاٸ۔۔
YOU ARE READING
حصارِ یار
General Fictionوالدین کے ظلم کی بِنا پر۔۔ سفّاک معاشرے کا نشانہ بنی ولی کی ذات۔۔ ایک درد بھری کہانی۔۔ ٹوٹے بکھرے وجود کی کہانی۔۔ ولی اور امل کی کہانی۔۔ حصارِ یار کی کہانی۔۔ 💔