#Do_not_copy_paste_without_my_permission
#حصارِ_یار
#رابعہ_خان
#آخری_قسطقتل کے بعد۔۔
نگار بیگم جو اس کے اس طرح آناً فاناً آنے پر ابھی سنبھلی ہی نہیں تھیں کہ وہ ان کو ہونق بنا چھوڑ کر جا بھی چکا تھا۔ انہوں نے بمشکل حسین کے لاغر وجود کو سیدھا کیا اور پھر دوپٹے سے آنسو پونچتی باہر کو بھاگیں۔ وہ جس حالت میں گیا تھا، انہیں بالکل بھی ٹھیک نہیں لگا تھا۔ اس کی حالت بہت بکھری ہوٸ بہت ٹوٹی ہوٸ تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے کوٸ تنو مند سا مرد آگاہی کے ایک ہی جھٹکے سے ڈھے گیا ہو۔ باہر بھاگتے ہوۓ ان کا دل لرز رہا تھا اور جسم پسینے میں شرابور تھا۔۔ ہر ہر مسام سے گویا پسینے کی بوندیں پھوٹ کر بہہ نکلی تھیں۔ وہ ان کا سگا بیٹا نہیں تھا۔۔ لیکن وہ انہیں سگے بیٹوں جیسا ہی عزیز تھا۔ یہ ان دنوں کی بات تھی کہ جب نگار کی گود بالکل خالی تھی۔ اجاڑ اور خاموش۔۔ تب ایک دن حسین نے ان کی آغوش میں ہاشم لا تھمایا تھا اور کہا بھی تھا کہ آج سے وہ ان کا بیٹا ہے۔ لیکن انہوں نے نگار کو ساری زندگی یہ نہیں بتایا کہ وہ انہی کا ناجاٸز بیٹا تھا۔ وہ اکثر حیران ہو کر حسین سے کہتی بھی تھیں کہ ہاشم بالکل ان کا پرتو لگتا تھا۔۔ بالکل ان کی سی شخصیت لیۓ۔۔ انہی کی طرح کا قد کاٹھ لیۓ۔ اونچا لمبا اور سیاہ چمکتی آنکھوں والا زیرک سا ہاشم۔۔ لیکن وہ ان کی بات کو ہر دفعہ کا اتفاق کہہ کر ٹال دیا کرتا تھے۔
باہر بھاگتے ہوۓ نگار بیگم کا پسینے میں شرابور جسم ہولے ہولے کانپ بھی رہا تھا۔ وہ ان کا سگا بیٹا نہیں تھا لیکن وہ ان کے لٸے سگوں سے بڑھ کر تھا۔ انہیں یہ جان لینے کے بعد بھی اس سے گھن نہیں آٸ تھی کہ وہ ناجاٸز تھا۔۔ وہ ایک ایسی اولاد تھا جو حرام کی تسکین سے وجود میں آٸ تھی۔۔ یہ سب جان لینے کے بعد بھی ان کے اندر اس سے نفرت کا کوٸ رنگ نہ جاگا۔۔ کسی تنفر، کسی تضحیک اور کسی کمتری نے ان کا دل ایسے نہیں جکڑا تھا جیسے ہاشم کی ٹوٹی بکھری حالت نے جکڑ لیا تھا۔ اور رہا وہ ولی۔تو اس کا انکشاف بھی ان پر آج ہو ہی گیا تھا کہ وہ بھی ان کے شوہر ہی کا بیٹا تھا۔ حسین کی ایک اور ناجاٸز اولاد۔ ایک ایسی اولاد جس سے نگار نے ہمیشہ اس کی پیداٸش کی وجہ سے نفرت کی تھی۔ اس کے وجود سے ہمیشہ گھن صرف اسی لیۓ کھاٸ تھی کیونکہ وہ ان کے مقابلے پر نہیں تھا۔ وہ ان کے مقابلے پر کبھی آ ہی نہیں سکتا تھا۔ وہ ایک کمتر اور ذلیل انسان تھا کیونکہ اس کے ماں باپ نے اس کو پیدا ہی ذلت کے ساتھ کیا تھا۔ لیکن ہاشم۔۔ آج انہی کا ہاشم اس سانچے میں پورا اتر رہا تھا جو سانچہ انہوں نے ولی کے لیۓ تیار کررکھا تھا۔ یہ قدرت کا آخر کیسا انتقام تھا۔۔ یہ اس کہانی کا کونسا ورق تھا کہ جس کے الٹنے پر دل اس قدر کٹ جایا کرتا تھا۔ آخر یہ سب کیا تھا۔
لوگ کہا کرتے ہیں کہ کہانیاں آغاز کے ساتھ جڑی ہوتی ہیں لیکن کیا میں تمہیں بتاٶں۔۔ کہانیاں انجام کے ساتھ نتھی ہوتی ہیں۔ کہانیوں کا وجود، ان کی بقاء اور ان کا سرواٸیول ہمیشہ انجام کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ وہ عورت جس نے برسوں سے ہاشم کی تربیت ہی ایسی کی تھی کہ جس میں انسانیت کا کوٸ شاٸبہ تک نہ تھا، جس میں اپنے حلال اور برتر ہونے کا گھمنڈ اور تکبر کوٹ کوٹ کر بھرتے انہیں اتنا اندازہ نہ تھا کہ ایک دن۔۔ ہاں ایک دن حقیقت کا آٸینہ اس طرح کا عکس بھی دکھاۓ گا۔۔ اس طرح کا رنگ بھی دکھاۓ گا۔
اپنے بے طرح ابلتے آنسو، کانپتے ہاتھوں سے پونچتے ان کا دل ہر آن سمندر کی گہری اور لپٹتی لہروں میں ڈوب ڈوب کر ابھر رہا تھا۔ حویلی کے داخلی دروازے سے قد آور گیٹ کی جانب جنونی سے انداز میں بھاگتے ہوۓ انہیں اتنا اندازہ تھا ہی نہیں کہ ان کا ہاشم۔۔ ہاں ان کا ہاشم ان سے کھو چکا ہے۔۔ ان کے ہاتھوں سے جا چکا ہے۔۔ کسی بہتی نہر کے منہ زور پانی میں اس کی لاش آگے ہی آگے بہتی جارہی ہے۔۔ ایک ایسی لاش۔۔ جو انتہاٸ نجس اور بدبودار ہوتی ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
ولی اسی وقت سردار بابا اور بی جان کے سوالوں پر انہیں مطمٸن کرتا واپس اپنے کمرے میں آیا تھا مگر لگتا تھا کہ قدموں سے کسی نے جان سلب کر لی ہو۔ دھم سے صوفے پر بیٹھتے وہ اس پری زاد ہی کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ جس کی خاموش آنکھیں اس کے اندر کٸ دنوں تک کی باتیں چھوڑ جایا کرتی تھیں۔ اگر جو وہ سردار بابا کو ایک دفعہ بھی اس کے رشتے پر غیر مطمٸن یا پریشان دیکھتا تو وہ ضرور ان کا ہاتھ روکتا یا انہیں اس شادی سے منع کرتا لیکن مسٸلہ تو یہی تھا کہ اس نے زمان کو کبھی اس رشتے پر کوٸ اعتراض کرتے دیکھا ہی نہ تھا۔ آخر وہ خود سے اعتراض کرتا بھی تو کس بات پر۔۔۔!
نفیس اور اس حویلی کے ہر لڑکے کا کردار تو اسے معلوم تھا۔ سردار بابا ان سب باتوں سے بے خبر نہیں تھے لیکن بہر حال، وہ ان سب باتوں سے اتنے باخبر بھی نہیں تھے کہ جن سے ولی نے ہمیشہ ان کے سامنے نگاہ چراٸ تھی۔ اگر جو وہ انہیں بتادیتا کہ نفیس بھی انہی جہنمی راتوں کا مسافر ہے کہ جس کا بختیار اور ہاشم عادی تھا تو کیا وہ اپنی اس شفاف آٸینہ سی نازک بیٹی کا نکاح اس سے ہونے دیتے؟ اس سب میں وہ کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ بختیار اور نثار نفیس کی حقیقت سے واقف ہونے کے بعد بھی اپنی بہن کی شادی ہنسی خوشی اس لفنگے سے کررہے تھے تو یہ مشکل ہی تھا کہ اس کے لاکھ دلاٸل پر بھی یہ شادی رک سکتی۔ اسی لیۓ اس نے بہتی لہروں کے ساتھ بہنے کا فیصلہ کرلیا۔ امل جو اس کی وجہ سے اس سارے عذاب، دکھوں اور ذلت کا شکار ہوٸ تھی بہتر تھا کہ اب وہ اس کی زندگی سے کہیں بہت۔۔ بہت دور چلا جاتا اور اس دن کچن میں اسے بلک بلک کر روتے دیکھ کر اس نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ اب وہ اس کے سامنے کسی صورت بھی نہیں آۓ گا۔ کیونکہ اگر اس سے زیادہ وہ اس کا امتحان لے گا تو شاید اس کا گنہگار ہوجاۓ گا، جو وہ کسی بھی صورت ہونا نہیں چاہتا تھا۔ وہ یہی چاہتا تھا کہ جب یہاں سے جاۓ تو ہلکے کندھے اور ہلکے وجود کے ساتھ جاۓ۔۔ وہ اس کی زندگی کو کسی بھی طرح اپنی موجودگی کے باعث تماشہ نہیں بنانا چاہتا تھا سو اس نے بھی وہ فیصلہ کر ہی لیا جو اسے بہت پہلے کرلینا چاہیۓ تھا۔
یہاں سے جانے کا فیصلہ۔۔
کبھی یہاں نہ لوٹنے کا فیصلہ۔۔
سردار بابا اور بی جان کو اس نے کہہ دیا تھا کہ وہ آتا جاتا رہے گا، ان سے رابطے میں رہے گا وہ انہیں کبھی نہیں بھولے گا۔۔ لیکن درحقیقت وہ نہ تو ان سے رابطہ رکھنے والا تھا، نہ ہی آنے جانے والا تھا اور نہ ہی وہ سردار بابا، بی جان اور امل کے علاوہ کسی کو یاد رکھنا چاہتا تھا۔ سو بس۔۔ اب یہاں سے چلے جانے ہی میں عافیت تھی۔۔ عزت تھی اور سکون بھی تھا شاید۔۔!
اس نے رات کے چار بجاتی گھڑی کی جانب دیکھ کر سر جھٹکا اور پھر واش روم میں شاور لینے چلا گیا۔ وجود پر چڑھی تھکن اور اعصاب پر جمی برف شاید اسی طرح پگھل سکتی تھی۔ اس نے گہرا سانس لے کر رخ ڈریسنگ روم کی جانب پھیرا اور پھر اگلے ہی چند لمحوں میں سر کے بالوں کو رگڑتا وہ باہر نکل رہا تھا۔ سنگھار میز کے آگے کھڑے بالوں کو رگڑتے اس کے ہاتھ پل بھر کو ساکت ہوۓ تھے جب اس نے اپنے واٸبریٹ موڈ پر لگے موباٸل کو زوں زوں کی آواز کے ساتھ بجتے دیکھا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر ایک نظر گھڑی کو دیکھا اور پھر پیشانی پر لکیریں لیۓ موباٸل اٹھا لیا۔ اسے اس سارے عرصے میں صرف اتنا ہی اندازہ تھا کہ کرتار پور والوں کی ہاشم سے کیا دشمنی تھی اور وہ انہیں زندہ سلامت کیوں چاہیۓ تھے۔ لیکن اس کال کے بعد اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ انہیں کیوں چاہیۓ تھا۔
انجان نمبر سے آٸ کال اس نے محتاط سے انداز میں رسیو کر کے کان سے لگاٸ اور پھر خاموشی سے کھڑا رہا۔ یہ احتیاط اسے اس جنگل نے سکھا ہی دی تھی۔ پھر اسے کوٸ انجان سی آواز سناٸ دی۔ وہ اس آواز کو نہیں پہچانتا تھا لیکن جو وہ آواز کہہ رہی تھی اسے سن کر اس کا سارا جسم پل میں جم کر پگھلا تھا۔
اس کے آدمی نے ہاشم کی لاش اگلے سے اگلے گاٶں میں دیکھی تھی۔ وہ نہر کے پانی کے ساتھ بہتا اب گاٶں کے کسی کنارے پر بے یار و مددگار پڑا تھا۔ بغیر کسی جنازے اور بغیر کسی غسل کے۔ اس نے خالی خالی نظروں سے سنگھار آٸینے میں نظر آتے اپنے عکس کو دیکھا۔۔ اس کا دل لمحوں میں سکڑ کر پھیلا تھا۔ تولیہ بیڈ پر ڈالتے اس نے بے جان ہوتے قدموں کے ساتھ خود کو بمشکل کھڑا رکھا۔ اس کا دل واقعی سکڑ کر پھیل رہا تھا۔ کوٸ آواز سی تھی جو اسے بہت بری طرح جھنجھوڑ رہی تھی۔ اس نے بے تحاشہ بند ہوتے دل پر ہاتھ رکھا اور پھر بیڈ پر آبیٹھا۔۔ سر دونوں ہاتھوں میں گرا لیا۔۔ بار بار سر جھٹکا۔۔ کڑے ضبط کی وجہ سے اس کے دانت جم گۓ تھے اور کنپٹی کو جاتی رگ سختی کے باعث پھول گٸ تھی۔۔ نسواری آنکھوں میں گہری سرخی اترنے لگی۔۔ ولی احمد ٹوٹنے لگا۔۔
أنت تقرأ
حصارِ یار
قصص عامةوالدین کے ظلم کی بِنا پر۔۔ سفّاک معاشرے کا نشانہ بنی ولی کی ذات۔۔ ایک درد بھری کہانی۔۔ ٹوٹے بکھرے وجود کی کہانی۔۔ ولی اور امل کی کہانی۔۔ حصارِ یار کی کہانی۔۔ 💔