#Do_not_copy_paste_without_my_permission
#حصارِ_یار
#رابعہ_خان
#اٹھارویں_قسطاصغر کی گاڑی ڈیرے کی جانب بڑھ رہی تھی۔ ابھی وہ ڈیرے سے کچھ ہی فاصلے پر تھا کہ اسے گن فاٸر ہونے کی آواز آٸ۔ ایک انتہاٸ بھیانک سی آواز۔۔ جو رات کی تاریکی کو چیرتی اس کی سماعت میں اتری تو اس کی پیشانی پر بل پڑے۔ گاڑی تیزی سے ڈیرے کے آگے روکی تو ٹاٸر چرچرا اُٹھے۔ اور ابھی وہ گاڑی کا دروازہ تیزی کے ساتھ کھولتا باہر کی جانب بھاگا ہی تھا کہ لڑکھڑاتا ہاشم باہر نکلا اور ایک سیکنڈ کی بھی دیر کیۓ بغیر گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی بھگا لے گیا۔ اس کا انداز اصغر کو بری طرح چونکا گیا تھا۔ ہاشم وہ بھی رات کے اس پہر۔۔ ولی کے ڈیرے پر۔۔! ولی کی اس سے آدھے گھنٹے پہلے ہی بات ہوٸ تھی اور طے یہی پایا تھا کہ وہ اسے راستے سے اپنے ساتھ گھر لیتا جاۓ کیونکہ آج کی رات وہ کم از کم حویلی نہیں جانا چاہتا تھا۔
اس سے آگے کچھ سوچنے کا موقع اسے ملا ہی نہیں۔ رات کی خاموشی میں کسی کی کرّاہ سناٸ دی تو وہ ڈیرے کا دروازہ کھولتا اندر دوڑا۔ اندر بھاگتے اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اپنی زندگی کا انتہاٸ تکلیف دہ منظر دیکھنے والا ہے۔۔ ایک ایسا منظر جس سے اس کے سارے وجود پر پورا گلیشیٸر پگھل کر گرا تھا۔۔
سبزہ زار پر وہ سفید سے سرخ لباس میں اوندھے منہ گرا ولی ہی تھا جو ہولے ہولے تکلیف کے باعث کرّاہ رہا تھا۔۔ولی۔۔!
اس کے لب بے آواز ہلے تھے۔ دل میں کوٸ کانچ سا کھبا تھا۔
ایک لمحے کی بھی دیر کیۓ بغیر وہ اس کے پاس بھاگتا آیا۔ دونوں کندھوں سے تھام کر اسے سیدھا کیا تو اس کے اپنے ہاتھ بھی ولی کے خون سے سرخ ہوگۓ۔ ولی کی آنکھیں تکلیف کے باعث بند ہوتی جارہی تھیں۔۔"ولی۔۔ ولی۔ آنکھیں کھولو ولی۔۔! ولی۔۔"
اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں سے تھپتھپا کر اس نے اسے جگاۓ رکھنے کی کوشش کی تو تکلیف سے کانپتے ولی نے نیم بے ہوشی کی سی کیفیت میں سر ہلایا۔۔ یہ خون ۔۔ خدایا اتنا خون۔۔ وہ کیا کرے۔۔ یا اللہ وہ کیا کرے۔۔ !!!
اس نے بٹن والی شرٹ جلدی سے اتار کر ولی کے پیٹ پر آۓ گھاٶ پر باندھی اور پھر آناً فاناً کچھ بھی سوچے بغیر اسے اپنے کندھے پر لاد لیا۔ اس کے پاس زیادہ وقت نہیں تھا۔۔ اگر وہ ایک گھنٹے میں اسپتال نہ پہنچا تو ولی کا بچنا بہت مشکل تھا۔۔ خون زیادہ بہہ جانے کی صورت میں پھر کوٸ کچھ بھی نہیں کرسکتا تھا۔۔ اس نے اسے گاڑی کے پچھلے حصے میں لٹایا اور پھر جتنی تیزی سے کچی سڑک پر وہ گاڑی دوڑا سکتا تھا اس نے دوڑاٸ۔۔ پریشانی سے ایک آدھ بار وہ کرّاہتے ولی کو بھی دیکھ لیتا تھا جس کی بند آنکھوں کے پار بہت سے آنسو چمک رہے تھے۔ اس نے ایک ہاتھ زور سے اسٹیرنگ پر مارا اور پھر کار کی رفتار اس قدر بڑھادی کہ جتنی بڑھاٸ جاسکتی تھی۔ ڈیڑھ گھنٹے کے فاصلے کو اس نے آدھے گھنٹے میں پار کر لیا تھا۔۔ اسپتال کے باہر پہنچ کر اس نے جلدی سے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا اور ولی کو اپنے کندھے پر ڈالتا اسپتال کے اندر دوڑا۔۔

YOU ARE READING
حصارِ یار
General Fictionوالدین کے ظلم کی بِنا پر۔۔ سفّاک معاشرے کا نشانہ بنی ولی کی ذات۔۔ ایک درد بھری کہانی۔۔ ٹوٹے بکھرے وجود کی کہانی۔۔ ولی اور امل کی کہانی۔۔ حصارِ یار کی کہانی۔۔ 💔