دستکِ محبت قسط 1

3.1K 87 100
                                    

تیز تیز چلتے ہوئے وہ سڑک عبور کر رہی تھی جب اچانک سے ایک گاڑی یکدم بریک لگا کر رکی تو وہ وہی بیٹھ گئی۔ گاڑی کے اندر سے ایک  رعب دار آواز آئی کیا ہوا ملک داد آواز میں جھنجھلاہٹ تھی غصہ تھا کہ پہلے ہی دیر ہو چکی تھی اور اب گاڑی رک گئی۔۔۔ملک داد اپنے باس کے غصے سے واقف تھا جو فوراً  ہلکلاتے ہوئے بولا صاحب وہ وہ۔۔۔  داد کیا وہ وہ لگائی ہوئ ہے جلدی بتاؤ میں لیٹ ہو رہا ہوں داد فوراً سے بولا سر وہ ایک لڑکی ہے آگے ۔۔۔مقابل غصے سے بولا واٹ۔شٹِ۔۔۔جلدی دیکھو جا کر کون ہے پاگل؟؟ یہاں کیا کر رہی ہے۔۔۔ ملک داد نے تابعداری سے جواب دیا جی صاحب میں ابھی دیکھتا ہوں۔۔ملک داد فوراً سے اترا اور جا کر آواز دی میڈم آپ ٹھیک تو ہے چوٹ تو نہیں لگی آپ کو ۔۔۔ ایک انجانی آواز سے تھوڑا ہوش میں آئ اور سمجھ آیا کہ وہ بلکل ٹھیک ہے دل میں سوچتے ہوئے کہا او خدایا شکر ہے میں بچ گئی۔۔۔کھڑے ہو کر بلا خوف مقابل کو سنا دی آپ کو کیا نظر نہیں آتا کہ کوئی گزر رہا تو سپیڈ ذرا آہستہ کر لی جائے نہیں آپ لوگ کیوں کرے سپیڈ کوئی مرتا ہے تو مر جائے آپ کو کیا ۔۔۔ملک داد بولا میڈم  ایک منٹ ایک منٹ۔۔۔آپ خود غلط راستے پر آئی ہے میں تو بلکل صحیح راستے پر جا رہا تھا اب مقابل کو پتا تھا جلدی جلدی کے چکر میں وہ خود غلط راہ سے گزر رہی تھی اور گاڑی کو آتا دیکھ کر بھی نہیں رکی تھی  ۔۔ابھی کچھ اور بھی بولتی کہ گاڑی کے  سائڈ مرر سے   انگلی کے  اشارے سے داد کو بلایا گیا۔۔ اگر  ملک
داد  تمھارا یہاں سارا دن گزارنے کا ارادہ ہے تو ٹھیک ہے میں خود چلا جاؤں گا اور تمہیں یہ جاب مبارک ہو کہہ کر بات ختم کر دی گئی تھی۔۔۔داد جلدی سے گیا میڈم آپ سائڈ پر ہو جائے پلیز سر بہت غصہ ہو رہے ہیں ۔۔بہت دیر ہو گئی ہے ویسے بھی اور اتنا کہہ کر داد گاڑی کی طرف بڑھ گیا ۔۔ہوں۔۔دیر میں تو جیسے بہت فارغ ہوں نہ کہہ کر ایک طرف ہو گئ تھی اتنی جلدی ماننے والوں میں سے نہیں تھی پر مان گئی کیوں کہ وہ بھی بہت لیٹ ہو چکی تھی ۔۔جاتے جاتے  پیچھےموڑی جس کی وجہ سے صرف دو کالی گھنی آنکھیں ہی نظر آئ کیوں کہ وہ ہمیشہ باہر  اپنا چہرہ ڈھانپ کر رکھتی تھی  اور اونچی آواز میں کہا چچا جان اپنے باس کو تمیز بھی سیکھا دے بڑوں سے  بات کیسے کرتے ہیں اشارا داد کی طرف تھا جو کہ  ڈرائیور کے ساتھ ساتھ ادھیڑ عمر شخص بھی تھا  وہ کہہ کر رکی نہیں تھی چلی گئی تھی جاتے جاتے ایک لقب سے نوازا گیا تھا "کھڑوس باس"۔۔۔ آواز اتنی آہستہ  تھی کہ   بمشکل سنائ دی یہ سن کر   ملک داد مسکرا بھی نہ سکا کیوں کہ وہ اپنے باس کے غصے سے واقف تھا ۔۔کھڑوس باس پہلا لقب دے دیا گیا تھا ۔۔
_____________________________________
تیز تیز چلتے کلاس میں داخل ہوئ زبان پر ورد جاری تھا  آج وہ پھر کلاس میں دیر سے آئی تھی ۔۔سر سعید  بورڈ پر کچھ لکھ رہے تھے جب ایک نسوانی آواز ان کے کانوں میں پڑی
May I come in sir!!
سر نے کوئی جواب نہیں دیا دوبارہ سے پوچھا گیا لیکن کوئی جواب نہ پاکر پھر سے پکارا گیا ۔۔اب سر کی طرف سے صرف ایک لفظی  جواب آیا  تھا"نو"۔۔مقابل نے  بے یقینی سے کہا سررر۔۔پلیز آئندہ نہیں ہو گا  ۔۔۔ سر میں تو جلدی ہی آرہی تھی آپ کو نہیں پتہ میرا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا راستے میں تھوڑی سی چوٹ بھی لگی  لیکن پھر بھی دیکھے میں میڈیسن لینے کی بجائے آپ کی کلاس لینے آئی ہوں اس کی اس بات پر کلاس میں دبی دبی ہنسی کی گونجی  تھی ۔۔
سر نے ایک گھوڑی سے نوازا اور  غصے سے بولے مس عفاف فرقان حیدر جائے جا کر بیٹھے۔۔۔اور یہ سننے کی ہی دیر تھی کہ وہ فوراً   اپنی بیسٹ فرینڈ کے ساتھ بیٹھ گئی جو کب سے اس کا انتظار کر رہی تھی ۔اور لیکچر نوٹ کرنا شروع کر دیا مقابل بس اسے دیکھ کر سر ہی جھٹک سکی کیوں کہ جو مرضی وہ کہہ لیتی لیکن اس نے کرنا وہی ہوتا تھا جو اس کا دل کرتا وہ ایسی ہی تھی اپنی من مرضی کرنے والی۔۔۔کیا ہمیشہ ہی اس کی زندگی اپنی مرضی سے چلنے والی تھی یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔۔
_____________________________________
لینڈ کروزر جیسے ہی شاہ انڈ سٹڈیز آکر رکی فوراً سے گارڈ نے آکر دروازہ کھولا اور سلام لیا مقابل تیزی سے   اترا  کیوں کہ آج اس کی ایک اہم میٹنگ تھی اور وہ لیٹ ہو چکا تھا بلیو جینز کے ساتھ وائٹ شرٹ لائٹ بلیو ٹائ بلیو ہی کوٹ پہنے ہوئے آنکھوں پر بلیک گلاسیز لگاۓ ترتیب سے جیل سے بال سیٹ کئے   آئی فون کان کو   لگائے مغرور چال چلتا آفس میں داخل ہوا۔  ہر ستائشی نظر اٹھی تھی سب آفس ورکرز نے  فوراً سے کھڑے ہو کر سلام کیا تھا اور مقابل نے صرف سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا  ۔سب اپنے اپنے کام میں دوبارہ مصروف ہو گئے سواۓ ایک جسکی نظروں نے ابھی  بھی اسی کا احاطہ کیا ہوا تھا جب تک وہ اپنے کیبن میں داخل نہیں ہو گیا۔۔۔جیسے ہی وہ اپنے کیبن میں داخل ہوا اوکے میں تم سے بعد میں بات کرتا میٹنگ کا وقت ہو گیا ہے  پہلے بہت دیر ہو گئی ہے کہہ کر کال کاٹ دی گئی تھی۔ جیسے ہی ٹیبل سے فائل اٹھائی تو ایک گرج دار آواز پورے آفس میں گونجی پی۔ایس۔۔۔۔۔ سعدیہ جو کہ پرسنل سیکٹری تھی اپنے باس کی آواز پر فوراً  بھاگتی ہوئی کیبن میں آئی کیوں کہ باس کے غصے سے ہر کوئی واقف تھا۔۔  ہلکلاتے ہوئے پوچھا جی۔جی۔ جی۔ سر ؟ مس سعدیہ کیا آپ کو یہ کہا تھا فائل لانے کے لئے ؟؟؟؟
Are u in your senses???
مقابل آج بہت غصے میں تھا ایک تو صبح کے واقعہ کی وجہ سے لیٹ ہو گیا اور اب یہ سب ۔۔ابھی سیکٹری نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ دوبارہ سے کہا گیا ؟؟
What is this??Damn it
U fired ...
سر بے یقینی سے کہا گیا ۔۔۔۔
I say you are fired  now u can leave ...
ابھی سیکٹری روتے ہوئے آفس سے نکلی ہی تھی کہ ملک داد اندر داخل ہوا سر وہ آپ کی فائل گاڑی میں ہی رہ گئ تھی۔۔ مقابل کا غصہ کچھ حد تک کم ہوا اور وہ میٹنگ اٹینڈ کرنے چلا گیا جہاں اس کا کب سے انتظار ہو رہا تھا ۔۔۔وہ ایسا ہی تھا دوسروں سے اہمیت لینا جانتا تھا دینا نہیں لیکن جو اس کے دل کے قریب لوگ تھے ان کے لیے جان تک دینے کے لئے تیار تھا اب دیکھنا یہ تھا کہ کیا کوئی ایسا  اس کی زندگی میں آئے گا جو اس کو بدل کر رکھ دے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔۔۔۔۔

السلام وعلیکم!

امید ہے سب خیریت سے ہونگے یہ میرا  ناول لکھنے کا پہلا ایکسپیرنس ہے ۔۔۔ اگر کچھ غلط لکھا گیا ہو تو معذرت ....
ووٹ اور کمنٹ  کے ساتھ ساتھ  اپنی قیمتی رائے دینا مت بھولیے گا ۔۔
اور ساتھ میں یہ بھی ضرور بتائیے گا سٹارٹنگ ایپی کیسی لگی؟؟

شکریہ۔۔

دستکِ محبتWhere stories live. Discover now