ایمن اور عفاف دونوں کیفیٹریا سے نکل کر یونیورسٹی کے مین گیٹ کی طرف بڑھ گئی ۔۔دونوں نے تب سے اب تک کوئی بات نہ کی تھی۔۔
اس خاموشی کو عفاف نے توڑا ۔۔ایمی یار ۔۔۔
ایمن نے صرف ہوں کہہ کر جواب دیا۔۔
ایمی بات تو سنو وہ اب مکمل ایمن کی طرف گھوم گئ تھی ۔۔ایمن تو حیران رہ رہی گئی وہ ایسے ری ایکٹ کر رہی ہےجیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔۔۔
عفاف موڈ چینج کرنے کے لئےاپنی ٹون میں واپس آئی۔۔معصوم سی شکل بنا کر کہا آج تو میرا کھانا ٹھنڈا ہو گیا تھا کھایا بھی نہیں گیا ایک آنکھ بند کر کے فوراً سے کہا کل تم مجھے ڈبل کھانا کھلاو گی ۔۔
ایک آج کا ایک کل کا اور وہ یہ کہہ کر بھاگ گئی تھی۔۔ کیوں کہ اسے پتہ تھا اگر کھڑی رہی تو ایمن سے نہیں بچنا تھا ایمن عفاف کو ایسے جاتے دیکھ کر مسکراتی رہ گئی جب دور کھڑی ہو کر عفاف نے آواز دی اللہ حافظ کل ملے گے۔۔۔ایمن مسکرا کر دیکھتی رہی ۔۔۔وقت نے سیکھا دیا ہے ہمیں جینا
ہر وقت چہرے پر مسکراہٹ سجائ رکھتے ہیں
(ماہم)شہرام جو کب سے دور کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا اب کی بار اس کی اس حرکت پر مسکرا دیا۔۔
ارے شہرام تم اکیلے اکیلے ہی مسکرائ جا رہے ہو ہمیں بھی بتاؤ بھلا کیا بات ہے؟؟
احمد ایسی کوئی بات نہیں ہے بس ایک بات یاد آگئی تھی اس لیےمسکرا رہا تھا ۔۔۔چلو چلتے ہیں اب کافی ٹائم بھی ہوگیا کلاس بھی اب تو ختم ہو چکی ہونی ۔۔اوکےخدا حافظ۔۔
علی جو ابھی کلاس لے کر آیا تھا فوراً سے آواز دی شہرام شہرام رکو۔۔ہاں بول علی ۔۔شہرام بات ہوئ عفاف سے کچھ پتہ چلا کیا ہوا تھا؟؟؟۔۔۔
زخمی سی چہرے پر مسکراہٹ سجا کر جواب دیا وہ پہلے کرتی ہے کیا بات جو اب کرے گی۔۔۔
علی اور شہرام دونوں بیسٹ فرینڈ ہیں ایک دوسرے کے رازداں دونوں ہی بیچلرز کے آخری سمیسٹر میں تھے۔۔
عفاف اور ایمن کے سینئر۔۔
شہرام نے تھوڑی سی مسکراہٹ سجا کر کہا لیکن مجھے لگتا ہے وہ اب ٹھیک یے ان کو وقت کے ساتھ جینا آتا ہے یہی تو ان کی سب سے اچھی بات ہے ۔۔
علی نے تھوڑا آہستہ سے کہا اچھا چل یار تو ٹینشن نہ لے ۔۔شہرام نے مسکرا کر جواب دیا علی جو دل کے قریب ہو نہ ان کے لیے فکر مند ہونا لازمی لکھ دیا جاتا ہے وہ کہہ کر رکا نہیں تھا چلا گیا تھا ۔۔۔علی بس اسے جاتا دیکھتا رہا۔۔
ایمن کا ڈرائیور اس کا کب سے انتظار کر رہا تھا ۔۔بی بی جی آپ آج کچھ ذیادہ ہی لیٹ نہیں ہوگئ ۔۔ہاں چچا جان تھوڑا کام تھا اس وجہ سے ایمن نے احترام کے ساتھ جواب دیا۔چلیں جی کہہ کر گاڑی منزل کی طرف روانہ ہو گئی تھی ۔۔
------------------------ہاد اور مناہل دونوں ابھی ریان کے کمرے میں داخل ہی ہوئے تھے کہ سامنے کا منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔۔وہ جو سمجھے ریان پڑھ رہا ہونا۔۔ریان صاحب آرام سے بیڈ پر سوئے ہوئے ۔۔جگہ جگہ چیزیں بکھری پڑی ۔۔بیڈ شیٹ بیڈ کی بجائے زمین کو سلام کر رہی۔۔
صوفہ پر کپڑے بکھرے پڑے۔۔
کمرہ کم چڑیا گھر زیادہ لگ رہا تھا ۔۔مناہل تو گرتے گرتے بچی کیوں کہ وہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی صفائی کر کے گئی تھی اور اب یہ کمرے کی حالت۔۔
ہاد تو ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہو رہا تھا جیسے ہی مناہل نے ایک نظر دیکھا تو فوراً سے سنجیدہ ہو گیا۔۔بمشکل اپنی مسکراہٹ کو روکے ہوئے تھا۔۔
ریان جو ابھی سویا ہی تھا اپنے اوپر یکدم ٹھنڈا پانی پڑنے سے ہڑبڑا کے اٹھا ۔۔سامنے مناہل کو دیکھ کر تو چیخ ہی پڑا جو اب مزے سے ہنسنے میں مصروف تھی۔۔ ہاد بس دونوں کو ہی دیکھتا رہا جو اب بچوں کی طرح لڑنے میں مصروف تھے ۔۔۔ہاد نے ہلکا سا کہا میں بھی یہاں ہوں اگر کسی کو نظر آئے رہا ہو تو ۔۔
ریان فوراً سے اٹھ کر گلے ملا بھائی آپ کب آئے بتایا بھی نہیں میں لینے ہی آجاتا۔۔۔ہاں تم ضرور آتے جیسے اب آۓ ہو کہہ کر مسکرایا۔۔
دونوں باتوں میں مصروف ہوگئے تھے جب اچانک سے مین گیٹ کھلنے کی آواز آئی ۔۔بھائی لگتا ہے آپی آگئی ہے میں دیکھتی ہوں جا کر ۔۔۔مناہل نے کہا۔۔
ہاد نے آواز لگائی میرا مت بتانا کہ میں آیا ہوا ہوں میں خود ملوں گا آکر۔۔ٹھیک ہے نہیں بتاتی کہہ کر چلی گئی۔۔
عفاف جو ابھی گھر میں داخل ہوئ تھی اپنا نقاب اتارا اتنی گرمی ہونے کے باوجود اس کا چہرہ نکھرا نکھرا تھا لیکن چہرے پر تھکان واضح تھی۔۔
جیسے ہی پورچ سے ہوتے ہوئے لاؤنج میں آئ کوئ بھی وہاں موجود نہیں تھا ۔۔آواز لگانا شروع ہی کی تھی کہ مناہل نے جلدی سے آکر بتایا کہ امی ہمسایوں کے گئی ہوئی ہے کافی دیر کی اب تک آنے والی ہو گئی اور پانی پلایا کھانا دیا ۔۔
اور کچھ باتیں کی آج کے دن کے واقعہ کو وہ۔ بالکل فراموش کر چکی تھی ۔۔
عفاف اٹھنے ہی لگی تھی کہ ہاد نے آکر اسے ڈرا دیا اور وہ اچھل کر پیچھے ہوئی حیرانی کے اور خوشی کے ملے جلے اثرات تھے۔۔۔بندر ۔۔تم کب آئے ؟؟کل تک تو تمہاری کوئی خبر نہیں تھی ۔۔۔
ہاد تو اسے دیکھ کر ہنس رہا تھا۔۔بندر کہنے پر تو گھور کر رہ گیا۔۔
ایک منٹ ایک منٹ چڑیل بندر کس کو بولا کتنی دفعہ بولا ہے تم سے بڑا ہوں تمیز سے بولا کرو ۔۔۔
عفاف نے بھی دو بدو جواب دیا تھا ۔۔کتنی دفعہ بولا ہے بندر چھوٹی ہوں تمیز سے بلایا کرو کہہ کر وہ اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی۔۔۔ ہاد اور مناہل قہقہہ لگا کر ہنس پڑے ہاہاہاہا۔۔
میں نے تمہیں کہا تھا نہ یہ تمہاری بہن کم ہٹلر زیادہ ہے۔۔۔
اچھا چلے بھائی آپ بیٹھے آپ نے کچھ کھایا بھی نہیں جب سے آئے ہیں۔۔ہاں یہ تو تم نے صحیح کہا بھوک تو مجھے لگ ہی گئی ہے ۔۔دونوں بیٹھ کر کھانا کھانے لگ گئے تھے۔۔۔
عفاف کمرے میں آئ اپنا رجسٹر سائڈ ٹیبل پر رکھا اپنے حجاب کی پنز کھول رہی تھی جب اس کے کمرے کا دروازہ کھلا ۔۔اور آواز آئی عافی۔۔ی۔۔ی۔
جیسے ہی پلٹی سامنے ہی رامین کو دیکھ کر مسکرا اٹھی۔۔رامین فوراً سے آکر عفاف کے گلے ملی۔۔
دونوں الگ ہوئ ۔۔تم کب آئ رامین تم نے مجھے بتایا بھی نہیں ۔۔تم دونوں بہن بھائی نے تو آج سررپرائز ہی کر دیا۔۔
اگر تم بتا ہی دیتی تو میں جلدی آجاتی یاں پھر جاتی نہ۔۔آج کا واقعہ سوچتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
او ہو چٹکی بجا کر کہا کہاں کھو گئی ۔۔۔کہی بھی نہیں مسکرا کر عفاف نے جواب دیا۔۔ بتا دیتی تو سرپرائز کیسے رہتا مسکرا کر رامین نے کہا ۔۔۔ہاں یہ بھی ہے ۔۔۔
دونوں باتیں کرنے میں مصروف ہو گئی تھی جن کا اب نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا۔۔
جب اچانک سے رامین نے کہا عافی باہر چلے گھومنے اپنے فیورٹ ریسٹورنٹ کافی دیر ہو گئی ہے ہم گئے ہی نہیں ۔۔
عفاف نے فوراً سے حامی بھر لی کیونکہ اب وہ تھوڑا فریش ہونا چاہتی تھی ۔۔چلو ٹھیک ہے ریڈی رہنا ہم چلے گے تایاجان آتے ہیں تو ان سے اجازت لے لے گے ہاں ٹھیک ہے۔۔۔
-------------------------
ایمن جیسے ہی شاہ ولا داخل ہوئ سامنے صوفہ پر میر شاہ براجمان تھے ۔۔جن کے ساتھ ہی روحیلہ میر شاہ بیٹھی ہوئی تھی۔۔
ان کے بالکل سامنے ازلان شاہ بیٹھا ہوا تھا ۔۔
میر شاہ جانے مانے سیاستدان کے ساتھ ساتھ بزنس مین بھی ہیں ان کی شادی ان کی ماموں زاد روحیلہ سے ہوئی تھی ۔۔ جن کے دو بچے بیٹا ازلان شاہ اور بیٹی ایمن میر شاہ ہے۔۔
آتے ہی اس نے سلام کیا ۔۔اور ازلان شاہ کو دیکھ کر اس کی طرف بڑھی ۔۔بھیو آپ آگئے؟؟ کیسی رہی آپ کی میٹنگ مجھے امید تو ہے کیسی رہی ہو گی آپ بتائے۔۔۔ایسے بولتے ہوئے بالکل بچی لگ رہی تھی۔۔
جی بھیو کی جان بھیو کی میٹنگ اچھی رہی اور میر شاہ کی طرف دیکھ کر مسکراہٹ اچھالی۔۔۔ میر شاہ وہاں سے اٹھ کر چلے گئے۔۔ڈیڈ کو کیا ہوا؟ وہ میر شاہ کو جاتے ہوئے دیکھ کر بولی کچھ بھی نہیں ہوا ویسے ہی تمہیں پتہ تو ہے ان کا موڈ بدلتے دیر نہیں لگتی ازلان نے سنجیدگی سے جواب دیا۔۔۔
روحیلہ میر شاہ بولی چلو شاباش ایمن جاؤ فریش ہو جاؤ میں کھانا لگاتی ہوں اوکے موم تابعداری سے جواب دیتے ہوئے اٹھ گئی۔۔
ازلان بیٹا آپ بھی فریش ہو جاؤ تھک گئے ہو گے میں آپ کا کھانا بھی بھجواتی ہوں ۔۔۔نہیں آپ رہنے دے مجھے بھوک نہیں ہے کہہ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔
ابھی کچھ دیر ہی ہوئ تھی کہ فون بج اٹھا ۔۔
کال پہلی بیل پر اٹھا لی۔۔۔
ESTÁS LEYENDO
دستکِ محبت
Fantasíaیہ کہانی ہے محبت کو پانے کی ۔دلی جذبات کو اجاگر کرنے کی۔ یہ کہانی ہے کھوے ہوۓ رشتوں کو پانے کی۔ یہ کہانی ہے وعدوں کو نبھانے کی۔ ۔ یہ کہانی ہے عشق کے سفر پر چلنے کی..