میٹنگ ختم ہو چکی تھی۔کلائنٹس آپس میں چپقلش میں مصروف تھے۔آفس ورکرز مقابل کو مسکرا کر مبارکباد دے رہے تھے۔۔
Congratulations sir!
مقابل کو تو بس اس آواز کا انتظار تھا جس کو حاصل کرنے کے لیے وہ دو سال سے محنت کر رہا تھا۔۔جب اچانک سے مقابل کو آواز سنائی دی۔۔*Congratulations Mr.Azlan shah at last u acheived this project..Proud of u my boy.. u r such a great buismessman ..well done my boy*
آخر کار اسے وہ آواز سنائی دی تھی۔۔۔ ازلان شاہ کو وہ پروجیکٹ مل ہی گیا تھا جس کے لئے اس نے دن رات محنت کی تھی۔۔آخر آج دو سال بعد ریاض ملک کا سب سے بڑا پروجیکٹ اس سے لے لیا گیا تھا۔۔ یہی سوچتے ہوئے ازلان کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ در آئی تھی جس کی وجہ سے اس کے دایاں گال کا ڈمپل نمایاں ہوا تھا۔۔جو کسی سے بھی مخفی نہیں رہا تھا۔۔ ریحام جو کب سے اپنے دل کو سنبھال رہی تھی اب تو ازلان کو مسکراتے دیکھ کر پاگل ہونے کو تھی اگر بر وقت سمعیہ جو ریحام کی کولیگ تھی اسے نہ سنبھالتی تو یقینًا گر جاتی۔۔۔
ریحام ازلان کی آفس ورکر ہے جو ازلان پر اپنا دل ہار بیٹھی تھی۔۔لیکن ہر بار اپنی پوزیشن اور ازلان کی پوزیشن کو دیکھتے ہوئے اپنے دل کو ڈپٹ دیتی تھی ۔۔۔
ازلان سب کو تھینکس بول کر اپنے کیبن کی طرف بڑھ گیا تھا۔۔آج وہ بہت خوش تھا۔۔
سعدیہ جو ازلان کی پرسنل سیکٹری تھی اسے بھی واپس آفس بلا لیا گیا تھا ۔۔اور یہ آفس ورکرز کے لئے سب سے حیران کن بات تھی۔
جیسے ہی ازلان شاہ اپنے کیبن میں آیا اور کسی کو کال ملانے کے لیے ابھی فون کان کو لگایا ہی تھا اور ایک فائل کو دیکھنے کے لیے جھکا تھا جب دھڑام سے دروازہ کھلنے کی آواز آئی لیکن ازلان اپنے کام میں ہی مصروف رہا۔۔کیوں کہ وہ جانتے تھا سامنے کون ہو گا۔صرف وہی اس کے اس طرح سے آفس میں آنے کی حرکت کر سکتا تھا اور کسی کی ہمت کیا جراَت بھی نہیں تھی کہ بغیر اجازت کہ اس کے آفس میں آ جاتا۔۔۔
ازلان ہنوز فائل پر جھکا رہا۔۔مقابل نے جب ٹیبل نوک کیا ۔۔لیکن ازلان نے سر نہ اٹھایا۔۔۔مقابل کو پتہ تھا ازلان کی کیسے توجہ مبذول کی جائے۔۔فوراً سے ٹیبل پر پڑا فون اٹھا کر کافی کا آرڈر دیا گیا۔۔ازلان نے اب کی بار ایک برو اٹھا کر سوال کیا یہ کیا تھا؟؟
ہاد جو کب سے مسکراہٹ دبا کر بیٹھا تھا ہنس پڑا بس ایسے ہی دل کر رہا تھا ۔۔تمہیں تو میرے آنے کی خبر نہیں تھی تو میں نےسوچا کیوں نہ کافی کے ساتھ انجواے کر لیا جائے مسکراتے ہوئے کہا گیا۔۔
ازلان جو اس کی بات کو غور سے سن رہا تھا اب کی بات پر گھور کر رہ گیا۔۔
ویسے مسٹر ہاد آپ وجہ بتانا پسند کریں گے یہاں تشریف کا ٹوکرا لانے کی۔۔ازلان نے پوچھا۔۔
ہاد اس کی اس بات پر قہقہہ لگا کر ہنس پڑا ہاہاہاہا۔۔تجھے واقعی ہی نہیں پتہ میں کیوں آیا ہوں۔۔ جواب نہ میں آیا تھا۔۔۔
ارے یار کیوں اپنے چھوٹے چھوٹے دماغ پر زور دے رہا ہے ہنس کر کہا گیا ۔۔
بہت بہت مبارک ہو میرے یار!!!
آخر کار تجھے یہ ڈیل مل ہی گئی جس کے لئے تو نے دن رات ایک کر دیا۔۔۔بس ایسے ہی کامیاب ہوتا رہ اور میرا نام روشن کرتا جا آنکھ مار کر کہا ۔۔ازلان تو ہاد کے سٹائل کو دیکھ کر قہقہہ لگانے پر مجبور ہو گیا۔۔
ساتھ ہی دروازہ نوک ہوا ازلان سنجیدہ ہو گیا اور ریحام کافی لے کر اندر داخل ہوئ۔۔
السلام وعلیکم سر آپ کی کافی ۔۔۔یس پلیز کیپ اٹ(yes please keep it) اور وہ رکھ کر چلی گئی آج اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ تھی جو ہاد دیکھ چکا تھا۔۔
اسکے جانے کے فوراً بعد ازلان نےآئ برو اٹھا کر پوچھا تمہیں تو میں نے ابھی بتایا نہیں تو پتہ کیسے لگا ۔۔اس بات پر ہاد نے بمشکل اپنی امڈنے والی مسکراہٹ کو روکا اور سنجیدگی سے تھوڑا آگے جھک کر جواب دیا ۔۔دراصل مجھے میٹنگ کی ساری ریکارڈنگ فوراً مل گئی تھی اور مجھے پورا یقین تھا کہ آج یہ پروجیکٹ تمہیں مل کر ہی رہے گا۔اسی لیے میں گاڑی میں بیٹھا اسی انتظار میں تھا کہ مجھے میسج ملے اور میں اڑ کر آجاوں لیکن میرے پاس جہاز نہیں تھا اس لیے میں آہستہ آہستہ آیا۔۔
ریکارڈنگ کے نام پر تو ازلان حیران کن تاثرات سے ہاد کو دیکھتا ہی رہ گیا ۔۔ہاد نے ازلان کے اس طرح سے دیکھنے پر چوٹ کی ۔۔اچھا نہ ایسے تو مت دیکھ مجھے پتہ ہے تم سے زیادہ ہینڈسم اور پیارا لگ رہا ہوں نظر نہ لگا دی مجھے اب ۔۔اس بات پر
دونوں قہقہہ لگا کر ہنس پڑے تھے ہاہاہاہا۔۔
ازلان نے سنجیدگی سے سوال کیا ۔۔ویسے مجھے سمجھ نہیں آتا کہ یہ آفس اور ورکرز میرے ہیں یا تمہارے؟؟ ۔۔۔ہر ایک بات کی رپورٹ ٹائم سے پہلے تمہیں پہنچا دیتے ہیں۔۔۔مطلب کمال ہو گیا میٹنگ کی ریکارڈنگ تک بھیج دی۔۔
ہاد نے ہنستے ہوئے جواب دیا ہاں نہ تجھے آج پتہ چلا آفس تو میرا ہی ہے ورکرز بھی میرے ہی ہے بس ایک باقی بچے تم سر کھجاتے ہوئے کہا تم پر میں نے ترس کھا کر آفس میں جگہ دے دی کہ کہی میرا دوست بیچارا بیکاری نہ بن جائے پھر میری بھی بے عزتی کروائے گا سب کہے گے وہ دیکھو وہ دیکھو ہاد کا دوست جا رہا ہے کیا عزت رہ جائے گی میری مسکراہٹ دبا کر کہا گیا بس اس لیے سوچا تجھے یہاں رکھ لوں اس کی اس بات پر تو ازلان عش عش کر اٹھا اور پیپر ویٹ اٹھا کر مارنے لگا اگر بروقت ہاد اس کا ہاتھ نہ پکڑتا ۔۔ دونوں ہنس ہنس کر پاگل ہو رہے تھے اگر یہی کوئی آفس ورکر ازلان کو ہنستے ہوئے دیکھ لیتا تو یقینًا حیران رہ جاتا۔۔ازلان کی زندگی میں کچھ ہی لوگ تھے جن کے ساتھ وہ ہمیشہ ہنس کر بات کرتا۔۔
YOU ARE READING
دستکِ محبت
Fantasyیہ کہانی ہے محبت کو پانے کی ۔دلی جذبات کو اجاگر کرنے کی۔ یہ کہانی ہے کھوے ہوۓ رشتوں کو پانے کی۔ یہ کہانی ہے وعدوں کو نبھانے کی۔ ۔ یہ کہانی ہے عشق کے سفر پر چلنے کی..