دستکِ محبت قسط نمبر 11

514 21 4
                                    

حسن ملک کے چہرے پر تھپڑ پڑنے کی وجہ سے زبان کو بریک لگی۔حسن ملک کا ایک ہاتھ گال پر تھاجو کافی حد تک سرخ ہوچکا تھا اور دوسرا ہاتھ سامنے کھڑے شخص کے بازو پربے یقینی سے حسن ملک کی آنکھیں پوری کی پوری کھلی تھیں۔۔اس نے اپنے ڈیڈ سے اس بات کی تو بالکل توقع نہیں کی تھی۔۔
سامنے کھڑا شخص اب بھی غیض و غضب کا شکار تھا۔
غصے سے بولا۔۔"میں نے تمہیں منع کیا تھا نا کہ آج کہیں نہیں جانا،آج ہمارا ایک اہم دن تھا اس کے بعد پروجیکٹ ہمارے ہاتھ میں ہونا تھا لیکن تم پھر چلے اور تمہاری وجہ سے آج وہ بزدل اصغر کے ساتھ ساتھ پورا ٹرک ہاتھ لگ گیا ہے اور ابھی تک مجھے پتا نہیں چل رہا کہ کس کی اتنی ہمت ہوئی ہے کہ ریاض ملک کے کام میں اپنی ٹانگ پھنسائے" وہ دھاڑے اور سامنے پڑے شیشے کےمیز پر ایک زور دار ٹانگ رسید کی اور میز چکنا چور ہو گیا۔۔
ڈیڈ میری بات سنیں کب کا چپ حسن ملک بولا۔۔
"یہ کسی اور کا کام نہیں ہے یہ اسی ازلان شاہ کا کام ہے ۔اسے تو میں کسی کام نہیں چھوڑوں گا۔آپ فکر مت کریں۔میں پتا کرواتا ہوں کہاں لے کر گیا ہے وہ ان سب کو ۔۔ایک دفعہ ،بس ایک دفعہ اس کی کمزوری ہاتھ لگ جائے میرےڈیڈ میں اسے چھوڑوں گا نہیں ہر بار ہر بار یہ ہمارے کام میں رکاوٹ بنتا ہے۔۔"وہ طیش میں بولا لیکن ہاتھ ابھی بھی اسی گال پر تھا جو کچھ حد تک اب کم سرخ ہو گئی تھی۔۔
ریاض ملک جو سیڑھیاں چڑھنے لگے تھے واپس مڑے میرے پاس اس کی کمزوری ہے لیکن موقع نہیں ملتا وہ خباثت سے ہنسے۔
ایک دم حسن ملک کی آنکھوں میں شیطانی چمک آئی۔۔"ڈیڈ کیا؟"
اب وہ سب بلائے اس بات کی طرف متوجہ تھا۔۔
"ارے بیٹا!باپ باپ ہوتا ہے کہہ کر قہقہہ لگایا اور بولے اپنے اس دماغ پر زور مت ڈال اور جو کہا ہے کر جا کر ورنہ تمہارا اس گھر سے کوئی رشتہ نہیں کہہ کر سیڑھیاں چڑھ گئے۔۔۔۔
حسن ملک نے فوراً سے حیب سے فون نکالا تھا اوراب تیزی سے کالز ملا رہا تھا۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہاد ہال سے نکل کر فوراً مطلوبہ جگہ پہنچا۔قدم کال کوٹھری کی جانب بڑھائے۔ باہر کھڑے شخص نے ایک سائڈ پر گن لٹکائی ہوئی تھی ہاد کو دیکھ کر مؤدب انداز میں سلام کیا ۔ہاد نے سر کو ہلکی سی جنبش دی تو عمر خان نے کوٹھری کا دروازہ کھول دیا اور ہاد نے قدم اندر بڑھائے۔سامنے کا منظر ہاد کے لیے بھی قابل دید تھا۔۔
چھوٹا سا کمرہ تھا۔۔جس کے چاروں طرف دیوار تھی۔ایک دائیں جانب دیوار کی اوپرچھوٹی سی جگہ خالی تھی جس پر لوہے کی سلاخ لگائی تھی تاکہ باہر کی روشنی آسکے اور پھر بھی بمشکل کمرہ میں روشنی آتی تھی۔۔اسی وجہ سے پورا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا تھا سوائے اس دیوار کے اوپری حصے کے ۔۔
دروازے کے بالکل سامنے وہ شخص بیٹھا تھا جس کورسیوں سے جکڑا گیا تھا۔۔اور ہاتھ پر پڑنے والے بار بار گرم پانی نے اس کے ہاتھ کو جلا کر رکھ دیا تھا اور وہ اب تڑپ رہا تھا۔۔ پاس پڑاابلتا گرم پانی بار بار اس کے جلتے ہاتھ پر ڈالا جا رہا تھا۔۔جتنی بار وہ ہاتھ جھٹکتا اتنی بار ڈالا جاتا۔۔
ہاد نے آکر روکا ازی تمہیں میں نے کہا تھا تم کچھ نہیں کرو گے جب تک میں نہ آؤں۔۔دبے دبے غصے سے کہا۔۔
ازلان نے صرف ایک سنجیدہ نظر ہاد پر ڈالی کہ ہاد چپ کر گیا اور اب سامنے کا منظر دیکھنے لگا۔۔
ازلان نامی شخص دنیا میں صرف ایک ہی تھا جو صرف اپنی کرنا جانتا تھا اور کسی چیز کو پانے کا جنون اس کے سر چڑھ کے بولتا تھا۔۔ ہاد دل میں ہی سوچ سکا سامنے بولتا تو یقینًا دوستی کو ایک طرف رکھ کے سامنے بیٹھے شخص کی جگہ ہاد ہی ہوتا۔۔ ہاد نے مشکل سے اپنی امڈنے والی مسکراہٹ کو روکا اور سوچ جھٹک کر دوبارہ ازلان کی طرف متوجہ ہوا ۔۔اب جو ہونا تھا ہاد نے بس دیکھنا تھا۔۔۔

دستکِ محبتWhere stories live. Discover now