قسط نمبر 15

491 21 3
                                    

رامین چھپکے چھپکے سے ہاد کی الماری کھول کر کچھ ڈھونڈ رہی تھی کہ پاس پڑا گلدان رامین کا ہاتھ لگنے سے زمیں بوس ہوا تھا اور وہ جلدی سے گلدان اٹھا رہی تھی کہ ہاد سٹڈی روم کے دروازے کے پاس کھڑے ہو کر رامین کے تیز چلتے ہاتھوں کو دیکھ رہا تھا جو ہڑبڑی میں کام ٹھیک کرنے کی بجائے بگاڑ رہے تھے۔۔۔آرام سے چلتا بیڈ کے ایک سائیڈ پر کھڑا ہو گیا جہاں سے نیچے بیٹھی رامین گلدان کے ٹکڑے اٹھا رہی تھی۔۔
جب اچانک رامین کے ہاتھ میں کانچ لگا تھا اور ہلکی سی منہ سے سسکی نکلی ۔فوراً سے ہاد نے ہاتھ پکڑ کر خون کو دبایا تھا۔اچانک اس افتاد پر رامین نے سر اٹھا کر دیکھا تو ہاد کو پایا۔۔
"بھائی آپ۔۔"رامین کچھ شرمندگی سے اور کچھ حیرانی سے ہاد کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔جس کا خیال تھا کہ ہاد ابھی نہیں آیا اس لیے وہ رایان ،مناہل کی ملی بھگت کے نتیجے میں اپنے ہی بھائی کے کمرے میں چوروں کی طرح گھس کر کچھ چیزیں لینے آئی تھی۔۔
ہاد نے ایک گھوری سے نوازا۔۔
"کیا کر رہی تھی تم یہاں؟"ہاد نے آہستہ سی غصے سے بھری آواز میں پوچھا تھا۔۔
"بھائی۔۔وہ میں کچھ نہیں۔۔بس ایسے ہی تھوڑا آپ
کے کمرے کا چکر لگانے کا دل کر رہا تھا۔وہ لگانے آئی تھی"رامین نے اپنے ہاتھ کو انگلیوں کو دوسرے ہاتھ پر رکھا تھا۔۔
"اچھا یہ کوئی امیوزمینٹ(تفریح گاہ)پارک ہے؟"ہاد نے آئی۔برو اچکا کر پوچھا تھا۔۔
رامین نے ایک نظر باہر کے دروازے کی طرف دیکھا تھا شاید مناہل اور ریان نظر آجائے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔۔وہ دونوں اسے الو بنا کر رفو چکر ہو گئے۔۔
"بھائی سوری۔۔وہ میں چاکلیٹس کا ڈبہ لینے آئی تھی جو آپ نے کل رات لاسٹ ڈراڑ میں رکھا تھا اب ادھر ہے ہی نہیں۔۔"رامین نے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے ہاد سے کہا۔۔
ہاد کا ناچاہتے ہوئے بھی بھرپور قہقہہ گونجا تھا اور پھر پیار سے سمجھایا۔۔
"وہ ڈبہ عفاف کے لیے تھا رامی۔۔کسی کا حق نہیں لیتے۔۔جو جس کا جتنا ہے اس کے مقدر میں ہے۔اسے وہی ملنا۔۔اگر یہ ڈبہ تمہاری قسمت میں ہوتا تو شاید ابھی تمہیں مل گیا ہوتا۔۔تمہیں نہیں ملا وجہ یہ نہیں کہ میں نے چھپایا تھا۔۔۔"ہاد سیدھا چلتا چلتا الماری کی طرف بڑھا۔۔الماری کا پہلا ہی ڈراڑ کھولا چاکلیٹس کا۔ڈبہ۔ادھر ہی سائیڈ پر پڑا ہوا تھا۔۔
"یہ دیکھو۔۔اگر یہ تمہاری قسمت میں ہوتا تو یقیناً آتے ہی تمہیں نظر آجاتا۔کبھی کبھار آپ کی نظروں کے سامنے موجود چیز نہیں ملتی۔۔بعض اوقات آپ کی اپنی لاپرواہی کا نتیجہ ہے اور بعض اوقات وہ۔چیزیں جو آپ چوری چھپے لینے کی کوششوں میں ہوتے ہو وہ آپ کو دکھائی ہی نہیں جاتی،نظروں سے اوجھل کر دی جاتی ہیں۔ تاکہ کسی دوسرے کا حق نہیں چھینا جائے۔۔ جو جس کا ہو وہ اسی کو ملے۔"ہاد نے ڈراڑ بند کیا تھا۔۔
پھر مکمل رامین کی طرف گھوم کے اسے تھوڑا سا سائیڈ پر کر کے اس کے بالکل پیچھے موجود ڈراڑ سے ایک اور ڈبہ نکالا تھا۔۔
"یہ لو ۔۔مجھے پتا تھا تم لوگ کوئی ایسی حرکت ضرور کرو گےاس لیے ہی ایک ایکسٹرا ڈبہ لایا تھا۔۔"رامین نے جھٹ سے ڈبہ لیا تھا اور ایک
چاکلیٹ نکال کر کھانے لگ گئی۔۔
"کل ہی تم لوگوں کو تمہارے حصے کا ایک ڈبہ دے دیا تھا۔۔اب آئندہ یہ حرکت مت کرنا بنا اجازت کے کسی کے بھی کمرے میں چوروں کی طرح مت آنا۔ورنہ مجھےاچھا نہیں لگے گا۔"ہاد نے دبے دبے غصے سے اور ناراضگی سے کہا تھا۔۔
ادب سے سر جھکا کر رامین نے گردن ہاں میں ہلائی تھی۔"ٹھیک ہے بھائی۔۔"
ہاد نے ایک ہلکی سی چت رامین کولگائی ۔۔
"پگلی۔۔"
"چلو جاؤ مجھے بھی کام کرنا ہے اور پھر جانا بھی ہے۔۔" ہاد نے حکمیہ انداز سے کہا تو رامین ہنسنے لگ گئی تھی۔۔
"بھائی اب رعب تو مت چڑھائے۔۔"رامین نے اپنا سر ہاد کے کندھے پر رکھا تو ہاد نے رامین کے ہلکے سے کھلے بال بکھیرے۔۔
"نہیں چڑھاتا۔۔اب جاؤ باہر افلاطون فوج تمہارے انتظار میں ہے ۔۔آیا تم جنگ لڑ کے آئی ہو کہ نہیں۔۔" ہاد نے کہا تورامین ہنسنے لگ گئی ۔۔چاکلیٹ بھی ختم ہو چکی تھی۔۔
"اب۔اس فوجی کے پاس بڑا اہم ہتھیار ہے۔۔جب یہ فوجی ایک مصیبت میں تھا تو رعایا دغا دے کر بھاگ گئی۔۔اب فوجی محاذ قائم کرنے میں کامیاب رہا ہے تو دوبارہ رعایا اپنا حق مانگنے آئے۔۔یہ تو سراسر ناانصافی ہے سلطان۔۔"رامین نے ڈرامائی انداز میں ہاد کے سامنے ایک اور چاکلیٹ کھولتے ہوئے کہا تھا۔۔ہاد کا فلک شگاف قہقہہ گونجا تھا۔۔
"کم انڈین ڈرامے دیکھا کرو۔۔چلو جاؤ اب۔۔"
ہاد نے ایک لگاتے ہوئے کہا تو رامین باہر ہنستی چلی گئی۔۔
"پگلی۔۔بڑی ہو کر بھی بچی ہے ابھی۔۔"
ہاد نے ہنستے ہوئے سوچا تھا اور سر جھٹک کے دوبارہ سے سٹڈی روم کی طرف بڑھ گیا۔۔ٹائم دیکھا تو صبح کے سات بج رہے تھے۔۔تیزی سے کمرے سے باہر نکلا تھا اور مناہل کے کمرے کی طرف رخ کیا۔۔لیکن کمرے کے پاس پہنچتے ہی مناہل کی کل والی بات یاد آئی تھی۔۔
" ایمن آپی اگر ہم کل صبح کی بجائے مغرب کے بعد پڑھ لے پلیز۔۔صرف کل کا دن۔۔پلیز۔۔پلیز۔۔"
دوسری طرف سے اسپیکر سے آواز ابھری تھی۔۔
"ٹھیک ہے۔۔"
پھر دونوں کے ہنسنے کی آوازیں آنے لگی تھیں۔۔وہ جو رات کو پانی پی کر اپنے کمرے کی طرف جا رہا تھا۔۔مناہل کے کمرے سےآتی آوازوں کی وجہ سے رک گیا تھا۔۔پھر دوازہ ناک کر کے مناہل سے پوچھنے پر اس نے بتایا تھا۔۔"ایمن آپی تھی کال پر" پھر مسکراتا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔
رات کا واقعہ یاد آنے پہ اپنے بالوں میں مسکراتے ہوئے ہاتھ پھیرا اور دوبارہ اپنے کمرے کی طرف رخ کیا تھا۔۔

دستکِ محبتWhere stories live. Discover now