دستکِ محبت قسط نمبر 12

504 22 3
                                    

عفاف اور ایمن دونوں گارڈن سے واپس آگئیں۔۔گھر میں قدم رکھے لاؤنج میں وجود صوفے پر ہی بیٹھ گئیں۔۔۔۔
صوفے پر بیٹھتے ہی عفاف نے اردگرد نظر گھمائی پھر سے کہیں وہ کھڑوس ہی نہ نکل آئے۔۔
ایمی ایک بات پوچھوں؟؟ عفاف نے آہستگی سے کہا۔
ایمن جو اٹھنے لگی تھی مسکرا کر بولی۔۔
"ہاں ہاں پوچھو۔۔اس میں پوچھنے کی کیا بات؟"
ہاں تو میں پوچھنا چاہ رہی تھی۔عفاف ہاتھوں میں انگلیاں پھنسائے بولی۔
" تمہارےبھائی پہلے تو کبھی نظر نہیں آئے۔اب کیسے، مطلب کہاں سے آٹپکے" ٹپکے آہستہ سے بولا کہ کہیں ایمن سن کر ناراض ہی نہ ہو جائے۔
ہاں وہ باہر سٹڈیز کے لیے گئے ہوئے تھے ابھی تھوڑی دنوں پہلے ہی واپس آئے ہیں۔سٹڈیز مکمل کر کے۔۔
اسی وجہ سے کبھی نظر نہیں آئے۔۔ایمن نے مسکرا کر کہا۔۔
"اچھا" عفاف نے منہ بنا کر جواب دیا۔۔
"ہونہہ مجھے کیا؟؟"سوچ کر چپ کر گئی۔۔

عفاف نے سامنے  دیوار پر لگے وال کلاک پرایک نظردہرائی ۔۔گھڑی شام کے سات بجا رہی تھی۔۔
عفاف ٹائم دیکھ کر فوراً اٹھی۔۔
"ایمی اب مجھے چلنا چاہیے بہت دیر ہو گئی ہے مما ویٹ کر رہی ہو گی۔۔" عفاف نے تیز تیز بولتے کہا۔
ایمن بھی سیدھا ہوئی۔
"ابھی تو سات بجے ہیں بس رک جاؤ تھوڑی دیر مام بھی آتی ہوگی مل کر چلی جانا۔۔۔" ایمن نے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجا کر کہا۔۔
نہیں ایمی بہت دیر ہو گئی ہے اب جانا چاہیے ویسے بھی کل سر رحمان کے  سائیکولوجی سبجیکٹ کا ٹیسٹ ہے یاد ہے ۔۔وہ بھی تو تیار کرنا ہے۔عفاف نے یاددہانی کروانا ضروری سمجھا۔۔۔
ایمن نے آنکھیں دکھائیں ۔۔"ٹیسٹ پورے دو دن بعد ہے تم پڑھ ہی نہ لینا آج جا کر۔۔ کتابی کیڑا تو تم ہو نہیں کہ تم آج جا کر ہی پڑھو گی۔۔"ایمن نے ہلکا سا طنز کیا۔۔
عفاف دبا دبا سا مسکرائی تھی۔۔
"لیکن جو بھی ہے چاہے کتابی کیڑے نہیں ہوں۔پھر بھی اللّٰہ کا شکر ہے کہ جتنا پڑھتی ہوں اس حساب سے رزلٹ بھی آ جاتا۔۔"عفاف نے آنکھیں پٹپٹا کر کہا۔
دونوں کا ہال میں جاندار قہقہہ لگا تھا۔۔
ایمن نے ہنستے ہوئے تائید کی۔۔"،ہاں یہ تو ہے۔۔"
ان بچوں میں شمار ہیں سارا سارا سمیسٹر بکس کو ہاتھ نہیں لگاتے۔اور پیپر کی رات اودھم مچا کر رکھ دیتے ہیں ہنستے ہوئے ایمن نے کہا۔۔
عفاف نے گھوری سے نوازا۔۔
بات تو صحیح کی ہے۔۔بس غرور نہیں کہا۔الحمداللہ۔۔عفاف نے ایک ادا سے کہا تھا۔۔
ایمن نے قہقہہ لگایا۔۔ہاہاہاہا

ا"چھا بیٹھو۔۔کھانا کھا کر جانا اب رات تو ہو گئی ہے۔۔ایمن نے عفاف کا ہاتھ پکڑتےہوئے کہا۔
نہیں یار ابھی تو کھایا ہے ویسے بھی بھوک نہیں ہے عفاف نے رسمی انداز میں منع کیا۔ َ
ایمن نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔
"بھکڑ دوست تم کہہ رہی ہو۔۔ ۔۔مجھے یقین نہیں آرہا۔۔"
عفاف ہنسی۔"ہاں کیونکہ اگر میں نے یہاں سب کچھ کھا لیا نا۔تو گھر میں جو بریانی بنی ہوئی ہے بندر نے کھا جانی۔عفاف نے نقاب لگا تے ہوئے یاد کو یاد کرتے کہا۔
اور میں نہیں چاہتی بندر سب کچھ چت کر جائے۔اور میں بس دیکھتی رہ جاؤں۔۔عفاف نےآخری بات بیچارگی سے کہی۔۔"
"اس لیے کہا گھر جا کر کھاؤں گی اب۔۔"عفاف نے ہنستے ہوئے کہا۔۔
اچھا ٹھیک ہے ۔۔بات تو تم نے سننی نہیں ہوتی۔ایمن نے خفگی سے کہا۔۔
عفاف نے ایمن کے گال کھینچے۔"ناراض مت ہو پھر آؤں گی۔۔"
"چلو ٹھیک ہےجیسی تمہاری مرضی۔۔"ایمن نے مسکرا کر کہا۔۔اور پھر دونوں گلے ملیں۔۔
اور گیٹ عبور کر کے باہر پورچ میں آگئیں۔۔۔
ایمن نے وہاں موجود ڈرائیور کو آواز لگائی۔۔
"رحیم کاکا۔۔رحیم کاکا۔۔"
رحیم کاکا بھاگتے ہوئے آیا۔۔ ہانپتے ہوئے لہجے میں کہا۔۔"جی جی بی جی۔۔"
رحیم کاکا عفاف کو اس کے گھر چھوڑ آئیں۔۔""ایڈریس یاد ہے نا آپ کو؟"
"جی بی بی جی یاد ہے۔۔"تابعداری سے رحیم نے جواب دیا۔۔
دونوں مسکراکر گلے ملیں۔۔ چندکلمات کہے اور ڈرائیور نےگاڑی کا دروازہ کھولا اور عفاف بیٹھ گئی۔۔
گاڑی شاہ ولا عبور کر کے مراد ہاؤس کی جانب بڑھی۔۔ایک نئے سفر ،ایک نئی منزل کا آغاز ہو چکا تھا۔۔اوپر ریلنگ پر کھڑے ازلان نے یہ منظر مسکرا کر دیکھا تھا۔۔۔

دستکِ محبتDonde viven las historias. Descúbrelo ahora