قسط نمبر 16

1.3K 31 20
                                    

ایمن نے گھر میں قدم رکھا تو ایک عجیب سی خاموشی نے اس کا استقبال کیا تھا۔۔۔
سامنےصوفے پر میر شاہ موجود تھے۔۔جو غصے سے بھرے بیٹھے ہوئے تھے۔۔روحیلہ شاہ نظریں جھکائے زمین کو تک رہی تھیں۔۔۔ان کے بالکل سامنے کے صوفے پر ازلان ہاتھ میں پکڑے موبائل کو گھما رہا تھا۔۔۔
"تم نے ایسا کیوں کیا؟"میر شاہ کی رعب دار آواز پورے ہال میں گونجی تھی۔۔لیکن ازلان کے چلتے ہاتھ مسلسل چل رہے تھے۔۔سنجیدگی سے موبائل کو گھما رہا تھا۔۔لیکن موبائل کے گھمانے کی رفتار تھوڑی تیز ہو گئی تھی۔۔
"میں نے پوچھا ایسا کیوں کیا؟؟"میر شاہ نے لفظوں پر دباؤ ڈال کر کہا تو ازلان کے چلتے ہاتھ کچھ دیر کے لیے تھے۔۔لیکن پھر دوبارہ سے نیلی آنکھوں میں سنجیدگی لیے موبائل گھمایا تھا۔۔۔
روحیلہ شاہ نے میر شاہ کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ ایک بے بس سی نظر ڈال کر دوبارہ ازلان کی طرف متوجہ ہوئے۔۔
"بیٹا میں تمہارا باپ ہوں۔۔میں تمہارا کبھی برا نہیں چاہوں گا۔۔"بے بس سی، پست سی آواز میں میرشاہ نےکہا تو ازلان موبائل کو گھماتے ہاتھوں کو روکا تھا اور پھر نظر اٹھا کر دیکھا تو نیلی آنکھوں میں سنجیدگی کے سوا کچھ بھی نہیں تھا ۔
"ڈیڈ۔۔آپ برا کر بھی نہیں سکتے۔۔"ایک چبھتی نگاہ ڈال کر کھڑا ہونے لگا تھا کہ دوبارہ سے میر شاہ کی آواز آئی تھی۔۔
"کون ہے وہ لڑکی؟جس کے لیے تم نے اپنے ماں باپ سے ایک بار بھی نہیں پوچھا اور ڈائریکٹ آکر نکاح کرنے کی اطلاع دی ہے ۔"میر شاہ خود کو خول میں بند کر کے سرد لہجے میں بولے تھے۔۔
"آپ نے بھی تو نکاح کر کے آکر اطلاع دی تھی۔میں تو پھر کرنے سے پہلے بتا رہا ہوں۔۔"لفظوں پر دباؤ ڈال کر چبا چبا کر کہتے سیڑھیاں چڑھنے لگا تھا کہ ایمن فوراً سے بھاگی آئی تھی۔۔
"بھیو۔۔"ایمن نے خوشی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ کہا تو ازلان بھی ہلکا سا مسکرایا تھا۔۔
"جی بھیو کی جان۔۔"ازلان نے سیڑھیوں پر کھڑے کھڑے ہی کہا تھا۔۔
"بھیو آپ شادی کر رہے ہیں؟اور مجھے کسی نے بتایا ہی نہیں۔۔"ناراضگی سے چہرہ موڑ کر ایمن نے کہا تو ہلکے ہلکے غصے سے ناک لال ہوئی تھی۔۔گوری رنگت میں ہلکے ہلکے غصے کا عنصر شامل تھا۔۔گول گول گلاسیز کے نیچے سے آنکھیں چھوٹی نظر آرہی تھیں۔۔بار بار اپنے ہاتھوں سے گلاسیز اوپر کر غصے سے ناک پھلائے کمر پر ہاتھ رکھے اپنے غصے کا اظہار ازلان شاہ سے کر رہی تھی۔۔۔

ایک واحد وہ ہی تھی جس کی ایک ہاں پہ ازلان دن رات ایک کرتا تھا۔۔اپنی بہن کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے وہ کچھ بھی تو کر سکتا تھا۔۔اب تو اس کی دنیا میں ایک اور شخص اپسرا کا اضافہ ہوا تھا۔
اپنے باپ سے جتنے مرضی اختلافات تھے لیکن اپنی بہن کے لیے دنیا ہار بھی سکتا تھا اور دنیا جیت بھی سکتا تھا۔۔۔اسی شان اور اسی غرور کے تحت تو وہ سر اٹھا کے اپنے بھائی سے بات کر رہی تھی۔۔وہ جانتی تھی اس کے لیے اس کا بھائی کیا ہے اور وہ اپنے بھائی کے لیے کس مقام پر ہے۔۔
اسی مان، غرور کا تو فائدہ اٹھا کر وہ سر اٹھا کر باہر چلتی تھی۔۔

میرشاہ چپ چاپ سر جھکائے وہاں بیٹھے منظر کو دیکھ رہے تھے۔۔میر شاہ کے کہنے کے لیے کوئی الفاظ تو  ازلان نے چھوڑے ہی نہیں تھے۔۔۔۔۔
"بہن،بھائیوں کا پیار اسی تو چیز کا نام ہے بغیر کسی غرض کے چاہے جانا۔۔ایک بھائی اپنی بہن کو ہر سردو گرم سے بچانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔۔ہر ان نظروں سے بچانے کی کوشش کرتا ہے جو کسی کی زندگی کو نگل جاتی ہیں۔۔ایک بھائی ہی تو ہے جو اسے اس دنیا سے بچا بچا کر رکھنے کی کوششوں میں رہتا ہے۔۔"
اللّٰہ تعالٰی نے بہن بھائیوں کا رشتہ ہی عجیب بنایا ہے۔۔ناراض ہو کر بھی ناراض نہیں ہے۔۔۔بہن بھائیوں کا پیار ایک الگ طرح کی پہچان ہے۔۔جتنا مرضی ایک دوسرے سے چھپانے کی کوشش کرتے رہیں نہیں چھپا پاتے۔۔۔ بہن بھائیوں کا ساتھ تو دھوپ چھاؤں جیسا ہے۔۔جو ہر جگہ اپنی بہن کے لیے سایہ کیے رکھتا ہے۔۔تاکہ اسے دھوپ کی تپش بھی چھو نہ پائے۔۔۔

دستکِ محبتWhere stories live. Discover now