حمیدہ بیگم ہسپتال کے کمرے میں داخل ہوئی تو اسد لیٹھا ہوا تھا اور انہیں دیکھتے ہی وہ سیدہ بیٹھتے ہوئے انکو سلام کیا خون زیادہ بہنے کی وجہ سے احمد کی حالت بگڑتی ہی جارہی تھی ڈاکٹرز اسکا بلڈ گروپ ملنے کا انتظار نہیں کر سکتے تھے اسد اور احمد کا بلڈ گروپ سیم تھا وہ جیسے ہی ہسپتال پھنچا ڈاکٹرز نے انہے ساری بات بتادی تھی تو اسد نے فورن سے کہا کے اسکا اور احمد کا بلڈ گروپ سیم ہے ڈاکٹرز بنا وقت برباد کیے اپنے کام میں لگ گئے تھے ڈاکٹرز نے اسد کو آرام کرنے کا کہا تھا پر اسد نے اس بات کو نظرانداز کر دیا جسکی وجہ سے وہ بے حوش ہوگیا تھا انہیں مجبورن اسد کو انجیکشن دینے پڑے تھے جس کی وجہ سے وہ کل رات سے سو ہی رہا اب جاکر اسے حوش آیا تھا
میری جان
حمیدہ نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے کہا
ماما احمد کی تبعیت کیسی ہے کہا ہے وہ؟
اچانک اسے احمد کا خیال آیا حمیدہ خاموش رہی اس کا دل بیچین ہونے لگا تھا اس نے ہاتھ سے ڈرپ نکالی اور باہر جانے لگا باہر جاکر دیکھا تو سب گھر والے باہر بیٹھے ہوئے تھے اس وقت دانش صاحب کی فیملی بھی وہا موجود تھی ماہی فاطمہ اما کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی احمد ابھی تک آئی سی یو میں ہی تھا
احمد ٹھیک ہے نا؟ پاپا ڈاکٹرز نے کیا کہا؟
اس کا دل عجیب سی کیفیت کا شکار ہو گیا تھا
اسے ابھی تک حوش نہیں آیا ہے دعا کرو اگلے چار گھنٹوں میں اسے حوش آجائے
احتشام صاحب نے جاوید صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
اور اگر حوش نہیں آیا تو؟
سیما نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہا
آپ ایسا کیو کہہ رہے ہے چچی جان دیکھیے گا ہمارا احمد بلکل ٹھیک ہوگا اور اسے بہت جلد حوش آجائے گا
اسد نے انہیں تسلی دی جاوید صاحب اور سیما بیگم پوری طرح ٹوٹ چکے تھے
اسے ہم سے کتنی امید تھی جاوید چاہے جو بھی ہوں ہم اسے سمجھے گے اس کا ساتھ دینگے اور ہم نے الٹا اسے ہی غلط کہہ دیا
سیما روتے ہوئے بولی
ہمت رکھو میری بچی اور اللہ تعالی سے دعا کرو اس وقت احمد کو صرف دعا ہی بچا سکتی ہے اسے دعا کی بہت ضرورت ہے
فاطمہ اما نے انہیں تسلی دی
مجھ سے بدنصیب باپ اور کون ہوگا امی جان جو اپنے بیٹھے کے لیے کوئی سٹیپ ہی نہیں لے سکا
جاوید صاحب کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر دانش صاحب بھی بہت اداس ہوگئے تھے انہیں بار بار ماہی کی کہی ہوئی باتیں یاد آرہی تھی
اگر میں ماہی کی بات مان لیتا تو آج احمد اس حالت میں نہیں ہوتا
وہ دل ہی دل میں کہنے لگے
اسد نے تو جیسے ہار ہی مان لی تھی گھر کے سب لوگ احمد کی اس حالت کا ذمےدار خود کو سمجھ رہے تھے
احمد یار پلیز ٹھیک ہوجا تیرے بغیر کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا یے
وہ قدم قدم چلتا پوا آئی سی یو کے باہر کڑا اسے دیکھتے ہوئے بولا
"ایسے غصہ نہ ہو ویسے غصے میں تم بہت حسین لگتے ہو"
اسے احمد کی کہی ہوئی باتیں یاد آرہی تھی
احمد ٹھیک ہو جائے گا اسد
جیا نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے تسلی دی اسد نے ہامی میں سر کو ہلایا اور جاکر بیٹھ گیا
اسد پلیز کچھ کھالو تم نے صبح سے کچھ بھی نہیں کہایا ہے
جیا اس کے ساتھ آکر بیٹھ گئی
نہیں شکریہ
اسد نے مختصر جواب دیا جیا سمجھ گئی کے اسکی موجودگی اسد کو اچھی نہیں لگی وہ آنکھوں میں آنسو چھپائے خاموشی سے چلی گئی اسد لگاتار احمد کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا
☆☆☆☆☆
فجر کہ اذان میں توڑی ہی دیر رہ گئی تھی ماہی اسٹول پر خاموشی سے بیٹھی ہوئی تھی باکی سب اس وقت کہا تھا اسے کوئی خبر نہیں تھی احمد کو کچھ ہو گیا تو وہ اس کے بغیر کیسے رہے گی کیا وہ خود سے نظرے ملا پائے گی؟ کیا وہ خود کو معاف کر پائے گی؟ اس کے دل میں بار بار یہی باتیں آرہی تھی اس کے سر میں بہت درد ہو رہا تھا
ماہی ثناء نے اس کا نام پکارا تھا ماہی نے سر اٹھا کر ثناء کو دیکھا تو فورن سے اٹھ کر ثناء کے گلے جا لگی
سب ٹھیک ہو جائے گا ماہی
ثناء نے اس کا کندھا تھپتپایا
صرف ایک گھنٹا ہی رہ گیا ہے اور احمد کوابھی تک حوش نہیں آیا ہے
اس کی تو جیسے جان پر بن آئی تھی محبت بھی کتنی عجیب چیز ہے نا انسان کو پتا بھی نہیں چل پاتا اور وہ کسی کو اتنا چاہنے لگ جاتا ہے کے اسے کھونے کے تصور سے بھی اپنی دھڑکنے رکھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اپنی محبت کو کھونے کا سوچ کر بھی جان پہ بن آتی ہے کسی سے محبت کرنا آسان نہیں ہوتا
محبت کسی کی خوبیاں اور خامیاں دیکھ کر نہیں ہوتی یہ خود ہی ہو جاتی ہے اور ہمیں پتا تک نہیں چلنے دیتی جب پتا چل جاتا ہے تب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے دنیا میں بہت کم لوگ ہے جنہیں ان کی محبت مل جاتی ہے باکی تو آج بھی روتے ہے اپنی اک طرفہ محبت کے لیے ان دونوں کی محبت اک طرفہ نہیں تھی مگر انہیں مل بھی تو نہیں رہی تھی محبت کے بغیر زندگی بے رنگ سی ہو جاتی ہے آج اسے اپنی زندگی بے رنگ سی نظر آرہی تھی اسے اپنی محبت ختم ہوتے ہوئے نظر آرہی تھی اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی محبت کو کھو دینا بلکل بھی آسان نہیں ہوتا
میری جان سب ٹھیک ہوجائے گا
ثناء نے اسے تسلی دی ثناء کے آنے سے ماہی کو بہت ہمت ملی تھی وہ کسی سے اپنا دکھ نہیں کہ سکتی تھی کسی کو اپنی تکلیف کا بتا نہیں سکتی تھی ثناء ماہی کے پاس بیٹھی ہوئی اسے سمبھال رہی تھے
ماہی احمد کو ہوش آگیا ہے جلدی چلو دادو تمہیں ہی بلا رہی ہے
علوینہ نے دور سے ہی اسے آواز دی تھی اس کا دل زور سے دھڑک نے لگا تھا وہ مشکل سے قدم برھاتی ہوئی آگے بڑھ گئی اس کے ساتھ ثناء بھی تھی دروازہ کے پاس پہنچتے ہی ماہی بولی
مجھ میں ہمت نہیں ہے اندر جانے کی
ماہی حار مانتے ہوئے بولی اس کی آنکھیں نم ہوگئی تھی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ احمد سے نظریں کیسے ملا پائے گی؟ اس کا ماننا تھا احمد کا ایکسیدینٹ اس کی وجہ سے ہوا ہے
دیکھنا انشاءاللہ سب ٹھیک ہوگا
ثناء اس کی ہمت بڑھاتے ہوئے بولی تو ماہی دوبارہ سے چل پری اس نے دروازہ کھولا تو سامنے کا منظر دیکھ کر اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے سب گھر والے وہا موجود تھے احمد لیٹھا ہوا مسکرا رہا تھا
تم نے ہمیں ڈرا ہی دیا تھا
اسد اس کے قریب بیٹھا ہوا بول رہا تھا احمد کی نظر سامنے ماہی پر پڑھی تو وہ مسکرا دیا تھا اس وقت اسکی حالت ایسی نہیں تھی کے وہ کچھ بھی بول پاتا ماہی کو اپنے سامنے دیکھ کر اسے ایک عجیب سا سکون مل گیا تھا جواس وقت وہ سمجھ نہیں سکھا تھا گھر کے سب لوگ بہت خوش تھے گزرے ہوئے دو دن ان پر بہت مشکل سے بیتے تھے اب جاکر سب کی جان میں جان آئی تھی وہ دل ہی دل میں اللہ پاک کا شکر ادا کر رہی تھی عمر نے سب کو گھر جانے کا کہا اور خود احمد کے ساتھ رکھ گیا اسد بھی اس کے ساتھ ہی رکھ گیا تھا وہ نہیں چاہتا تھا احمد کو اکیلا چھوڑ کر جانے خا فاطمہ اما نے دانش صاحب ماہی اور مسکان بیگم کو بھی گھر جانے کا کہا ماہی نے ہسپتال میں رکھنے کا کہا پر دانش صاحب اسے اپنے ساتھ لے گئے یہ کہہ کر کے وہ گھر جاکر توڑا آرام کرلے اس کے بعد پھر سے ہسپتال آجائے گی باکی گھر والے بھی چلے گئے تھے جاوید صاحب کا دل نہیں کر رہا تھا جانے کا آرام نا کرنے کی وجہ سے انکی تبعیت خراب ہونے کے در سے احتشام صاحب نے اسے گھر جانے دیا اور خود ہسپتال میں رکھ گئے کل سے سب لوگ ہسپتال میں تھے اسی لیے احتشام صاحب نے سب کو وہا سے جانے کا کہا کیونکہ وہ چاہتا تھا توڑی دیر سب آرام کرلے احمد بستر پر لیٹھا سو رہا تھا احتشام صاحب سائڈ رکھے ہوئے صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے اچانک ان کی آنکھ لگ گئی تھی اسد احمد کے پاس کرسی پر بیٹھا احمد کو دیکھ رہا تھا
☆☆☆☆☆☆
صبح کے آٹھ بھج رہے تھے اس وقت سب گھر والے ناشتہ کر رہے تھے دانش صاحب کی نظر ماہی پر پڑی جو ہاتھ میں چمچ لیے کسی اور ہی دنیا میں گم تھی
ماہی آپ ناشتہ کیو نہیں کر رہی
دانش صاحب کی باتھ پر وہ ہلکا سا مسکرائی اور ہاں میں سر ہلایا
تبعیت تو ٹھیک ہے نا آپ کی
ہارون نے ماہی سے سوال کیا
ماہی نے اسکی بات کا کوئی جواب نہیں دیا وہ جانتی تھی ہارون صرف دانش صاحب کی آنکھوں پہ اپنی جھوٹی محبت کی پھٹی باندھنے کے لیے ہی ایسا کر رہے ہیں
چلو پھر میں چلتا ہوں
دانش صاحب کرسی سے اٹھتے ہوئے بولے
ارےآپ نے توٹھیک سے ناشتہ بھی نہیں کیا
مسکان بیگم نے کہا
مجھے دیر ہو رہی ہے افس جاتے ہوئے ہسپتال بھی جانا ہے
دانش صاحب نے کہا ایک نظر ماہی پر ڈالی
ڈیڈ کیوں نا ہم سب بھی آپ کے ساتھ چلے احمد کو دیکھنے
ردا نے کہا
ہاں نا بابا ہم بھی احمد کو دیکھنے کے لیے چلے جاتے ہے
سنبھل نے ردا کا ساتھ دیتے ہوئے کہا
مجھے دیر ہورہی ہے بیٹھا آپ لوگ شیری کے ساتھ چلے جائے
ڈیڈ ماہی بھی ہمارے ساتھ جائے گی نا؟
ماہی کو جانے کی کیا ضروت ہے تم دونوں چلی جاو
دانش صاحب رداکی بات کا جواب دیتے اسے پہلے ہارون نے کہا ماہی نے اسے گھوری سے نوازا
ہارون ماہی میری بیٹھی ہے وہ کہا جائے گی کہا نہیں اس کا فیصلہ میں کرونگا تم نہیں
دانش صاحب کی بات پر ہارون چپ ہوگیا
مانو آپ میرے ساتھ آجائے آپ کے جانے سے امی کو بھی اچھا لگے گا ردا تم لوگ بھی یاد سے آجانا
دانش صاحب اتنا کہتے ہوئے وہا سے چلے گئے ان کے جاتے ہی ماہی بھی انکے پیچھے چلی گئی
کہی سے جلنے کی بو آرہی ہے
ردا ہارون کی طرف دیکھتے ہوئے بولی مہارون نے اسے گھورا تھا
چپ چھاپ ناشتہ کرو
مسکان بیگم نے اسے گھورتے ہوئے کہا اور وہا سے چلی گئی اب ناشتے کی ٹیبل پر صرف یہ چارو کزنز ہی تھے ہارون شیریار ردا اور سنبھل
ماہی کو جانے کی کیا ضروت ہے تم دونو چلی جاو نا
ردا جوس کا گلاس لبو سے لگاتے ہوئے ہارون پر اپنی نظریں جماتے ہوئے بولی
میرے منہ مت لگو ردا ورنا بہت برا ہوگا
ہارون جو کے ناشتہ کر کے اٹھا ہی تھا ردا کی بات پر واپس مڑ کر کہا
لو بھائی اب کیا میں اپنی بہن سے بات بھی نہیں کر سکتی
ردا معصوم بنے کی کوشش کرتے ہوئے سنبھل کو دیکھنے لگی
تمہیں تو میں دیکھ لونگا
ہارون اسے دھمکی دے کر جانے لاگا
ہاں ہاں آرام سے دیکھ لینا کوئی جلدی نہیں ہے
پیچھے سے ردا لگ بھگ چلاتے ہوئے ہی بولی تھی
آپ کو پتا تو ہے ہارون بھائی کا پھر بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آنے والی اور شیری تم بھی تو اسے کچھ نہیں کہتے
سنبھل نے کہا
ہاں جیسے اس نے فورن میری بات پے عمل کر دینا ہے
سہی تو بول رہا ہے
شیریار کی بات پر ردا ہسنے ہوئے بولی
اچھا چلو جلدی کرو ہمیں ہسپتال بھی جانا ہے
سنبھل کہتے ہی تیار ہونے چلی گئی
☆☆☆☆☆
جب ماہی ہسپتال کے کمرے میں داخل ہوئی تو احمد بستر پر لیٹھا سو رہا تھا اس وقت کمرے میں احمد کے پاس نرس موجود تھی کیونکہ اسد اور عمر کینٹین گئے ہوئے تھے اب تک تو گھر کے باکی لوگ بھی ہسپتال آگئے تھے پر احمد آرام کر رہا تھا اسی لیے وہ لوگ احمد کے پاس نہیں آئے تھے یہ سوچ کر کہی احمد ڈسٹرب نا ہو جائے ماہی کے آتے ہی نرس وہا سے چلی گئی ماہی نم آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے اس کے قریب ہی کرسی پر بیٹھ گئی وہ بہت کمزور ہوگیا تھا اس کے چھرے پر زخموں کے نشان تھے جو ابھی تک تازہ ہی تھے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی حوش میں آنے کے بعد اسے دوائیاں دے کر سلا دیا گیا تھا تاکے وہ توڑا آرام کر سکے
(آج تمہاری وجہ سے وہ آئی سی یو میں اپنی زندگی کی سانسیں گن رہا ہے آج احمد کی جو بھی حالت ہے اس کی ذمہ دار تم ہوں ماہی صرف اور صرف تم آج وہ تمہاری وجہ سے موت کے منہ میں چلا گیا ہے)
آنکھوں سے خود بخود آنسو گرنے لگے تھے اس نے احمد کا ہاتھ پکڑا اور روتے ہوئے اسے ہی دیکھی جارہی تھی اسے یو محسوس ہو رہا تھا جیسے پچتاوے نے اسے گھیر لیا ہوں
میں نے ایسا تو کبھی نہیں چاہا تھا
تو تمہیں یہ کس نے کہا کےان سب کی ذمےدار تم ہوں
احمد نے اسے مسکراتے ہوئے دیکھا
تم سو نہیں رہے تھے؟
ماہی نے فورن سے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا
نہیں جھاگ رہا تھا پر اب افسوس ہو رہا ہے کے کاش سویا ہوا ہوتا کم سے کم تم میرا ہاتھ تو نہیں چھوڑتی
احمد معصوم شکل بنا کر بولا ماہی کو توڑی شرمندگی ہوئی تھی
ویسے کب سے جہاگ کر میری باتیں سن رہے تھے؟
ماہی کچھ سوچتے ہوئے بولی
میں اس وقت جھاگ گیا تھا جب تم میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے رو رہی تھی
وہ مزے سے اسے آرام آرام سے بتا رہا تھا اور ماہی حیرت سے اسے دیکھنے لگی
آپ چھپ چھپ کر باتیں سن رہے تھے میری
ماہی نے توڑی ناراضگی سے کہا تو وہ ہنس دیا
ڈرامے ہی ختم نہیں ہو رہے تمہارے
اب کونسا تم روز میرا ہاتھ پکڑتی ہوں جو ڈرامے نا کرو
ماہی کہنے لگی تو احمد بھیچ میں بول پڑا احمد کے منہ سے بار بار ہاتھ پکڑنے کی بات سن کر وہ شرمندہ ہوئی تھی
اب کیسی تبعیت ہے؟
کچھ دیر خاموشی کے بعد ماہی نے مسکراتے ہوئے پوچھا
اب ٹھیک ہو
احمد نے بھی مسکراتے ہوئے جواب دیا درد کم ہو چکا تھا اور اسکی حالت میں بھی بہت سدھار آگیا تھا جس کی وجہ سے وہ اب اچھے سے بول پا رہا تھا ماہی ہلکا سا مسکرائی اور بنا کچھ کہے وہی بیٹھی رہئ
کیا اب ہاتھ نہیں پکڑو گی میرا؟
احمد نے شرارت بھرے لہجے میں کہا ماہی اسے حیرت سے دیکھنے لگی
بڑے تیز ہوگئے ہوں تم دونوں
اسے پہلے احمد کچھ اور کہتا اتنے میں علوینہ کمرے میں اس کے لیےناشتہ لے کر آگئی تھی
ارے بیٹھ جاو ماہی میں بس ناشتہ ہی لیکر آئی کو کباب میں ہڈی بنے نہیں آئی
علوینہ ان دونوں کامذاق اڑانے والے انداز میں بولی
آپ بن گئی ہے آپی
احمد افسوس کرتا ہوا بولا
اب مجھے کیا خبر میرے بھائی کو میرے آنے سے کوئی مسلہ ہوگا
علوینہ نے اسے سہارا دیتے ہوئے بٹھایا اور اس کے پیچھے تکیہ رکھتے ہوئے کہا علوینہ نے انہیں بتایا کے جاوید صاحب کی ڈاکٹرز سے بات ہو چکی ہے اور بہت مشکل سے انہیں احمد کو دسچارج کرنے کی اجازت ملی ہے سب گھر والو کا ماننا تھا کے ماحول بدلنے کی وجہ سے احمد کی حالت میں کافی سدھار آجائے گا اور وہ گھر پر ذیادہ خوش رہے گا ماہی وہا سے چلی گئی اور علوینہ ماہی کی جگہ پر بیٹھ کر احمد کو ناشتہ کرانے لگ گئی
☆☆☆☆☆
ماہی باہر فاطمہ اما کے ساتھ بیٹھی باتیں کر رہی تھی اچانک اس کی نظر اسد پر پڑھی اسے اسد سے کچھ بات کرنی تھی اسی لیے وہ فاطمہ اما کے پاس سے اٹھ کر اسد کی طرف بڑھنے لگی
اسد ایک بار میری بات سنو پلیز
ماہی نے اسے آواز دیپر اسد نے اس کی جانب بھی نہیں دیکھا اور آگے بڑھنے لگا
اسد مجھےکچھ بات کرنی ہے تم سے
اسد جو کے وہا سے جانے ہی لگا تھا کے اک دم رکھ گیا
اور کیا بات کرنی ہے تمہیں
وہ سرد لہجے میں بولا
تم جو میرے بارے میں سوچھ رہے ہوں وہ غلط ہے میں بس کچھ باتیں کلیئر کرنا چاہتی ہوں
وہ ہمت کر کے کڑی ہوئی اور آگے بھڑکر کہا
تو تمہیں کونسا فرک پڑھتا ہے میں تمہارے بارے میں سہی سوچھو یا غلط
اسد نے ایک نظر ماہی ہو دیکھا
کیونکہ ہم دوست ہے اور میں نہیں چاہتی کے تم میرے بارے میں ایسا کچھ بھی سوچھو جو ہماری دوستی خراب کردے
دیکھو ماہی مجھے نہیں لگتا کے یہ کوئی سہی وقت ہے بہتر ہوگا ہم اس بارے میں کوئی بات نہیں کرے
ا..اسد میں واقعی...
احمد کے ایکسیدینٹ کے بعد اسد کا رویہ ماہی کے ساتھ نارمل تھا وہ احمد کے ایکسیدینٹ کی وجہ ماہی کو سمجھ رہا تھا
مجھے کوئی سفائی نہیں چاہیے میں ہوں ہی کیا؟ حیثیت کیا ہے میری؟ تم جاو یہا سے پلیز
وہ روتے ہوئے وہا سے جانے لگی تو اسد کی نظر اس کے پٹی والی کلائی پر پڑھی وہ کچھ پوچھتا اسے پہلے ماہی وہا سے چلی گئی تھی
☆☆☆☆☆
●•••"چند دن پہلے"•••●
اسد جب ہسپتال پھنچا تو ڈاکٹرز نے اسے احمد کی حالت کے بارے میں بتا دیا کے احمد کا بچھنا بہت مشکل ہے یہ سنتے ہی وہ تو اندر ہی اندر پوری طرح سے ٹوٹ گیا تھا اسد احمد کی اس حالت کا ذمےدار ماہی کو سمجھ رہا تھا اسے ماہی پے شدید غصہ آرہا تھا وہ دوسری جانب چلا گیا اور موبائل پر کسی کو کال کرنے لگا
کافی ٹائم ہوگیا تھا ماہی نے خود کو کمرے میں بند کیا ہوا تھا اور وہ کب سے احمد کا ہی انتظار کر رہی تھی جانے کب آئے گا وہ اسے لینے اسے احمد سے بہت سی باتیں کرنی تھی اتنے میں اسے کسی کی کال آئی اسے لگا یہ احمد کی ہی کال ہوگی تو اس نے بنا نام دیکھے ہی فون ریسیو کر دیا
احمد میں کب سے تمہارا انتظار کر رہی ہوں
ماہی پریشانی سے بولی
اسد بول رہا ہوں
آواز غیرمانوس تھی
کیا بات ہے اسد؟
احمد سے کیا بات ہوئی تھی تمہاری؟
اسد دھیمی آواز میں بولا
تم مجھ سے یہ سوال کیو کر رہے ہوں اسد؟
وہ الجھی
بہتر ہوگا تم میرے سوال کا جواب دو
وہ سرد لہجے میں بولال
اسد تم ایسے کیو بات کر رہے مجھ سے
ماہی گھبراتے ہوئے بولی
جواب دو ماہی
اسد نے پھر سے کہا
میں تمہیں جواب دینا ضروری نہیں سمجھتی
ماہی کپکپاتی آواز کے ساتھ بولی
تمہارے پاس جواب ہی نہیں ہے کس منہ سے جواب دوگی؟
اسد نے سوال کیا
کیا بکواس کر رہے ہوں
ماہی غصے سے بولی
وہ کتنا چاہتا ہے تمہیں اندازہ بھی ہے اس بات کا اس کی زندگی کا مذاق بنا کے رکھ دیا ہے تم نے تم اتنی پتھر دل کیسے ہو سکتی ہو ماہی
کیا ہوا ہے اسد احمد ٹھیک تو ہے نا
ماہی گھٹی ہوئی آواز میں بولی
وہ ٹھیک نہیں ہے ماہی وہ کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے آج تمہاری وجہ سے وہ آئی سی یو میں اپنی زندگی کی سانسیں گن رہا ہے آج احمد کی جو بھی حالت ہے اس کی ذمہ دار تم ہوں ماہی صرف اور صرف تم آج وہ تمہاری وجہ سے موت کے منہ میں چلا گیا ہے
اسد نے اپنی بات مکمل کی اور بنا ماہی کا جواب سنے بغیر فون کٹ کر دیا ماہی نے اسے کافی مرتبہ کالز کی لیکن اسد نے ایک بھی ریسیو نہیں کی پریشانی کے عالم میں اس نے جیا کو کال کی تو جہاں سے اسے احمد کے ایکسیڈنٹ کا پتا لگا تھا جیا نے اسے کہا کے وہ ہسپتال جارہی ہے اسے احمد کی حالت کا نہیں پتا جب اسنے اسد کو فون کیا تو اسد نے پریشانی کی حالت میں اسے ہی سنا دیا تھا ماہی جانتی تھی کے اسد سہی بھی تھا اب تو وہ بھی ان سب کی ذمےدار خود کو سمجھ رہی تھی رونے سے اس کی بوری حالت ہو چکی تھی وہ احمد کو دیکھنا چاہتی تھی اس سے ملنا چاہتی تھی اس کے پاس جانا چاہتی تھی پر آج اس کےساتھ جو بھی ہوا اسے بلکل بھی امید نہیں تھی کے دانش صاحب اسے احمد سے ملنے دینگے اور ہارون کے ہوتے ہوئے تو بلکل بھی نہیں اسے اپنے سامنے سب راستے بند دکھائی دے رہے تھے اسے یو لگ رہا تھا جیسے جینے کی وجہ ہی باکی نہیں رہی جب اسے کچھ سمجھ نہیں آیا تو اسے سب سے آسان راستہ اپنی جان لینے کا ہی نظر آیا تھا اور اسنے ایسا ہی کیا وہ تو اس کی قسمت اچھی تھی جو شیری اس کے کمرے میں آیا تو اسے ماہی زمین پر بے حوش ملی دانش صاحب نہیں چاہتے تھے کے یہ بات گھر سے باہر نکلے اسی لیے انہوں نے اپنے ایک دوست کو گھر پر ہی بلا لیا تھا جو کے ایک اچھے اور جانے مانے ڈاکٹر تھے ڈاکٹر نے کہا کے گھبرانے کی بات نہیں ہے ماہی خطرے سے باہر ہے بس خون بہنے کی وجہ سے وہ بےحوش ہوگئی ہے ڈاکٹر نے اسے کچھ انجیکشن دئے تھے جسکی وجہ سے وہ کچھ وقت کے لیے سوئی رہے گی کافی دیر بعد جب اس کی آنکھ کھلی تو اسنے اپنے پاس ردا اور سنبھل کو پایا
ایسا کیوکیا تم نے
ردا نے اس کے سر پر ہاتھ پھرتے ہوئے کہا
ایک بار بھی ہمارا نہیں سوچھا؟
سنبھل ماہی کے قریب آکر بیڈ سائڈ پر بیٹھتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑا تھا
کیا آپ سب نے میرے بارے میں سوچھا؟
وہ شکوہ کرتے ہوئے بولی
ماہی ہمیں فکر ہے تمہاری
ردا نے اسے پیار کیا
آپی پلیز آپ بابا کو فون کرے نا انسے پوچھے کے احمد کیسا ہے
ماہی پچوں کی طرف روتے ہوئے بولی
مانو وہ ہسپتال میں ہے سب ہونگے انکے پاس جب گھر آئنگے تو میں پوچھ لونگی ان سے
ردا نے کہا
آپی پلیز ایک بار آپ کال تو کرے انہیں
ماہی کو روتا دیکھ سنبھل نے دانش صاحب کو فون کیا اور سپیکر آن رکا
دانش صاحب کو کسی کی کال آئی انہوں نے دیکھا تو وہ سنبھل کی کال تھی سنبھل کا نام دیکھتے ہی انہوں نے فورن کال ریسیو کرلی تھی
ہاں بولو بیٹھا سب ٹھیک ہے نا؟
دانش صاحب نے پریشانی سے کہا
بابا سب ٹھیک ہے میں نے احمد کے لیے کال کی تھی کیا ابھی تک حوش نہیں آیا اسے؟
سنبھل نے کہا
نہیں بیٹھا اسے ابھی تک حوش نہیں آیا ہے
دانش صاحب افسوس سے بولے سنبھل نے ایک نظر ماہی کو دیکھا جو انکی باتیں سن رہی تھی
میں گھر آکر بات کرتا ہوں ماہی کا خیال رکھنا
دانش صاحب نے فون کاٹ دیا کیونکہ اس وقت سب کے سامنے انہیں بات کرنا مناسب نہیں لگ رہا تھا
سب میری وجہ سے ہوا ہے ان سب کی ذمےدار میں ہوں
ماہی روتے ہوئے بولی
مانو پلیز رونا بند کردو وہ بلکل ٹھیک ہوجائے گا
سنبھل نے اسے گلے سے لگاتے ہوئے کہا
پلیز آپی مجھے ایک بار احمد کو دیکھنا ہے بس ایک بار مجھے احمد سے ملوا دے
وہ مسلسل روتے ہی جا رہی تھی
مانو تمہاری تبعیت ٹھیک نہیں ہے ہم تمہیں کیسے وہا جانے دے سکتی ہوں
ردا نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا
پلیز آپی مجھے ایک بار احمد سے ملنا ہے اسے دیکھنا ہے پلیز
ماہی مسلسل روتے ہی جا رہی تھی
اچھا تم رونا بند کرو ہم تمہیں لیکر چلتے تم پہلے یہ دوڑائی لو اس کے بعد ہم چلتے ہے
ردا نے اسے نیند کی دوائی دی تھی جسے لینے کے چند ہی لمحوں بعد ماہی سو گئی تھی●•••اوپر جو سین دیا گیا ہے یہ اس وقت کی بات تھی جب احمد کا ایکسیدینٹ ہوا تھااس کے بعد کا جو سین ہے وہ اب کی بات ہے•••●
☆☆☆☆☆
ماہی اپنے کمرے میں بیٹھی عشاء کی نماز پڑھ چکی تھی اور وہ جائے نماز پر بیٹھی ہوئی تھی اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو اپنے سامنے کیا ہوا تھا اور بہت ہی سنجیدگی سے اپنی ہتھیلیوں کو دیکھے جا رہی تھی وہ کیا مانگے اسے سمجھ نہیں آرہا تھا اچانک اس کی نظر اپنی پھٹی سے بندھی ہوئی کلائی پر پڑھی اس کے آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی طرح سب آرہا تھا آنکھوں سے مسلسل آنسو بہنے لگے
دروازہ کھولنے کی آواز سنتے ہی اس نے فورن سے اپنے آنسو صاف کیے اور جائے نماز سے آٹھ گئی اسے لگا تھا سنبھل یا ردا ہوگی پر اس نے پیچھے دیکھا تو وہ دانش صاحب جو اس کے لیے کھانے کی ٹرے لیکر آئے تھے
بابا آپ نے زحمت کیو کی میں بعد میں کھا لیتی
ماہی ہلکہ سا مسکرائی تھی
تم کھانے پر نہیں آئی تھی تو مجھے لگا ناراض ہو مجھ سے
دانش صاحب نے کھانے کی ٹرے ٹیبل پر رکھی اور صوفے پر بیٹھ گئے
بابا آپ تو دنیا ہے میری آپ سے کیوں ناراض ہونگی میں
ماہی ان کے پاس بیٹھے ہوئے دانش صاحب کے دونوں ہاتھوں کو پکڑا تھا
میں بھول گیا تھا کے ایک بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ میں ایک باپ بھی ہوں اچھا بھائی بنتے بنتے نا جانے کب میں ایک برا باپ بن گیا
دانش صاحب افسوس کرتے ہوئے بولے
آپ ایسی باتیں کیو کر رہے ہے بابا آپ بہت اچھے بابا ہے بہت سے بھی زیادہ اچھے بابا ہے آپ
ایک بیٹھی کو اپنے باپ سے بہت امیدیں ہوتی ہے اسے یقین ہوتا ہے بھلے ہی پوری دنیا اس کا ساتھ چھوڑ دے مگر اس کا باپ کبھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑے گا اور میں کتنا برا باپ ہوں نا تمہارا ساتھ دینے کے بجائے تمہیں تکلیف دے دی
دانش صاحب آنکھوں میں نمی لیے بول رہے تھے ماہی کے لیے انہیں یو دیکھنا بہت مشکل ہو رہا تھا
آپ نے مجھے کوئی تکلیف نہیں دی ہے بابا آپ ایسی باتیں کیو کر رہے ہے
وہ روتے ہوئے بولی تھی
آئی ایم سوری بابا آپ کا جو بھی فیصلہ تھا مجھے بنا کسی شکایت کے ماننا چاہیے مجھے سمجھنا چاہیے تھا کے آپ کبھی میرا برا نہیں چاہنگے میں ہارون سے کبھی بھی کوئی بدتمیزی نہیں کرونگی بس آپ مجھے معاف کردے
وہ لگاتار روئے جا رہی تھی
میں ہارون کے لیے نہیں آیا ہوں آپ کے لیے آیا ہوں آپ جان ہے میری آپ کی خوشی سب سے بھڑ کر ہے میرے لیے
دانش صاحب نے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا ماہی نے اپنا سر ان کے کندھے پر رکھ دیا
میں نے ہارون کے ساتھ تمہاری منگنی توڑدی ہے
اچانک دانش صاحب نے کہا ماہی نے اپنا سر اٹھایا اور حیرانگی سے انہیں دیکھا
یقین نہیں ہو رہا ہے نا
دانش صاحب مسکرا دئے
چاچو کیا سوچھ رہے ہونگے
ماہی نے انہیں سوالیہ نظروں سے دیکھا
زندگی تمہیں گزارنی ہے چاچو کو نہیں
دانش صاحب ہستے ہوئے کہنے لگے
آئی لو یو بابا
ماہی مسکراتے ہوئے انکے گلے لگ گئی دانش صاحب نے اس کے سر پر بوسہ دیا اور اسے اپنے ساتھ ہی لگائے رکھا"جاری ہے"
YOU ARE READING
دلِ نادان
Fantasyیہ کہانی ایک ضدی بدتمیز لاپرواہ طوفانی لڑکی کی جسے محبت نے بدل دیا ایک ایسی لڑکی جو لوگوں میں مسکراہٹیں بانٹتی ہے جو کسی کو غمزدہ نہیں دیکھ سکتی جو ہر وقت مدد کے لئے تیار رہتی ہے مگر اس کو یہ نہیں پتا کے دکھ اس کا مقدر بن جائنگے یہ کہانی ہے صبر و ا...