عالیہ کمرے میں پھولوں سے سجے بیڈ پر اپنا لہنگا پہلائے سمیر کی منتظر بیٹھی ہوئی تھی اسنے دروازے کے کھولنے کی آواز سنی تو نظرے نیچھے کی سمیر قدم قدم اس کی جانب بڑھ رہا تھا اور بیڈ پر ٹھیک اس کہ سامنے اکر بیٹھ گیا
اچھی لگ رہی ہوں
سمیر نے محبت سے بھر پور انداز میں کہا تو عالیہ مسکرائی اور اس سے نظرےچرانے لگی
بندہ شکریہ ہی بول دیتا ہے
وہ شکوہ کرنے پر اتر آیا
جب مجھے پتا ہے کہ میں اچھی لگ رہی ہو تو شکریہ کی کیا بات ہے
وہ اسے تنگ کرتی ہوئی بولی
اچھا جی مانا کہ تم ہمیشہ حسین لگتی ہوں پر آج بہت زیادہ حسین لگ رہی ہوں
سمیر مسکراتے ہوئے بولا اس نے سائد ٹیبل کہ دراز میں سے ایک box نکالا جس میں ڈائمنڈ کے دو خوبصورت کنگن تھے اس نے عالیہ کے ہاتھوں میں پہنائے
بہت خوبصورت ہے
اس نے خوشگوار لہجے میں سمیر کو دیکھا
ہاں مگر تم سے تو کم ہی ہے
اسنے عالیہ کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیا تو عالیہ نے اس کی جانب دیکھا اور نظرے نیچھے کی
شکریہ میری زندگی کا حسہ بنے کے لیے اور اسے خوبصورت بنانے کے لیے
سمیر نے اس کے ہاتھ کی پشت پر اپنے لب رکھ دیے
☆☆☆☆☆
صبح بہت خوشگوار ہوئی تھی ماہی کی آنکھ کھلی تو فجر کی اذان ہو رہی تھی وہ اٹھی نماز پڑھی اور نیچھے آکر اپنے لیے کافی بنا کر واپس کمرے میں چلی گئی اس کی عادت تھی صبح صبح کافی پینے کی دروازہ کھولنے کی آواز سے صالحہ کی آنکھ کھلی
اوفففف مجھے سمجھ نہیں آتا اتنی صبح صبح تم یہ زہر پی کیسے لیتی ہوں؟
صالحہ کی نظر ماہی کے ہاتھ میں پکڑی کافی کے کپ پر پڑی
بلکل اسی طرحہ جس طرح تم صبح صبح میرا دماغ کھا رہی ہوں
اس نے کافی ٹیبل پر رکھی اور دراز میں سے ایک کتاب نکالی
دفعہ ہو یار اتنی صبح جگا دیا مجھے اس نے ایک کشن ماہی کی طرف پھینکا جو کے ماہی کو نہیں لگا
صالحہ یہ تمہاری بہن نے کون سا نشا کیا ہوا ہے رات سے ایک ہی شائد پر سوئی ہوئی ہے
وہ بات کو دوسری جانب لے گئی
یار ایسی زندگی مجھے بھی چاہیے دیکھو نا فضول میں اتنی صبح اٹھی
وہ شکوہ کرتے ہوئے بولی
اچھا کوئی بات نہیں ابھی سو جاو
اسنے کپ اٹھایا اور بالکونی کی طرف جانے لگی کے پیچھے سے صالحہ نے آواز دی
ماہی تم ٹھیک ہوں نا؟
صالحہ نے ایک کشن کو گود میں پکڑتے ہوئے ماہی کی طرف چھرا کیا
ہاں میں ٹھیک ہوں کیو کیا ہوا؟
وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی
کل رات تم ٹھیک نہیں لگ رہی تھی مجھے
صالحہ کو فکر ہو رہی تھی
میں ٹھیک ہوں میری جان تم سو جاو
اتنا کہتے ہی ماہی وہا سے چلی گئی اور بالکونی میں صوفہ پر بیٹھ کر کتاب پڑھنے لگی اس کے جاتے ہی صالحہ نے بھی سونے کے لیےآنکھیں بند کرلی
☆☆☆☆☆
دن کے ایک بج رہے تھے سب ناشتے کی ٹیبل پر موجود تھے صرف نام کا ہی ناشتہ تھا وہ سب لنچ کے ٹائم ناشتہ کر رہے تھے کیونکہ سب کافی دیر سے جھاگ گئے تھے سمیر عالیہ حکمت صاحب صفیہ بیگم احمد کی فیملی دانش صاحب ہارون اور سب کزن تھے اسد کو چھوڑ کر وہ ابھی تک سو رہا تھا سب ناشتہ کرنے میں مصروف تھے جیا اور صالحہ اپنی ہی باتوں میں مگن تھی ماہی دانش صاحب کے ساتھ بیٹھی ہوئی حمین کو ناشتہ کروا رہی تھی علوینہ حسن اور حانیہ کے ساتھ مصروف تھی وہ ان دونوں کو ناشتہ کروا رہی تھی اور ساتھ ہی خود بھی ناشتہ کر رہی تھی فاطمہ آما صفیہ بیگم سیما بیگم حمیدہ بیگم ناشتے کے بعد ہال میں جاکر بیٹھ گئی اور گھریلوں باتوں میں مصروف ہوگئی جبکہ حکمت صاحب دانش صاحب جاوید صاحب اور احتشام صاحب سب مل کر مسجد میں فجت کی نماز آدا کرنے چلے گئے ہارون کو شیریار کی کال آگئی تھی وہ اسے باتھ کرنے باہر چلا گیا
ٹیبل پر اب صرف کزن ہی موجود تھے
ماہی اسے مجھے دے دو تم ناشتہ کرو
علوینہ حسن اور حانیہ سے فارغ ہوئی تو اپنی جگہ سے اٹھی
کوئی بات نہیں بھابھی میں بعد میں ناشتہ کر لونگی
ماہی نے مصروف انداز میں کہا مگر چھرے پر مسکراہٹ تھی
تم ناشتہ کرو اسے میں سنبھال تھی ہوں
علوینہ نے ماہی کے گود سے حمین کو لیا اور اسے لیکر سب عورتوں کی جانب بڑھی جہاں سب عورتیں بیٹھی باتیں کر رہی تھی
کیا بات ہے اسد آج کچھ زیادہ ہی جلدی نہیں اٹھے تم
اسد کو ڈائننگ ٹیبل کے پاس آتا دیکھ کر احمد نے اسے آگاہ کیا تو اسد نے پھیکی سی مسکراہٹ دی تھی
میں کچن جارہی ہوں تمہیں کچھ چاہیے تو بتا دو؟
ماہی نے اسد سے پوچھا کیونکہ وہا موجود سب لوگ اپنا ناشتہ کر رہے تھے اور اسد کے کھانے کے لیے نا ہی انڈا تھا نا پراٹہ اور نا کچھ اور سوائے چائے جوس اور فروٹس کے
تمہیں بنانا آتا ہے کیا؟
اسد نے گلاس میںجوس ڈالا
شمائلہ آنٹی (ملازمہ) کچن میں ہے ان سے کہہ دونگی
ماہی نے سادگی سے جواب دیا
آگر مجھےکھانا ہوگا کچھ تو خود بول دونگا
اسد نے گلاس اٹھایا اور جوس پینے لگا ماہی اس کہ انداز سمجھ نہیں پائی تھی
کوئی نہیں میں ویسے بھی جارہی ہوں تم بتاؤ کیا کھانا ہے
ماہی اپنی کرسی سے اٹھی تو اسد نے اسے گھوری سے نوازہ تھا
اتنی بڑی مہربانی کی کوئی ضرورت نہیں ہے
اسد نے جوس کا گلاس ٹیبل پر رکھا اور سرد لہجے میں بولا
کیا ہوا ہے اسد تم ایسے کیو بات کر رہے ہوں
وہ کچن جانے ہی والی تھی کے اسد کی بات سن کر رکھ گئی
کم آن ماہی اب میں چوبیس گھنٹے تمہاری ہاں میں ہانں نہیں ملا سکتا
وہ غصے سے بولا تو وہا بیٹھے سب اس کی جانب مخاطب ہوئے
ماہی نے ناشتے کا ہی پوچھا ہے نہ تو کہدو کیا کھانا ہے نہیں کھانا تو صاف صاف بتا دوں اسے ڈانٹ کیو رہے ہوں
احمد نے اسے ٹوکٹے ہوئے کہا
اتنا ہی شوق ہے تو کہو تمہارے لیے بنائے مجھے یہ سب پسند نہیں
اسد نے ایک نظر ماہی کو دیکھا
کہنا کیا چاہتے ہو تم
ابکی بار ماہی نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا
اپنے کام سے کام رکھو تو بہتر ہے
یہ کیا بدتمیزی ہے اسد یہ کس طرح بات کر رہے ہوں تم ماہی سے
سمیر نے اسے ٹوکہ تھا تو اسد چپ ہو گیا وہا بیٹھے جیا صالحہ عالیہ احمد اکرام سمیر کسی کو بھی اسد کی بات اچھی نہیں لگی اور سب حیران بھی ہوگئے چاہے جو بھی ہوں بڑی سے بڑی بات کیو نا ہوں اسد نےماہی سے کبھی ایسے بات نہیں کی تھی ماہی اسد کی بات پر خفہ ہوئی تو دوسری جانب اسد اپنے اندر ہی سب سہہ رہا تھا وہ نا چاہتے ہوئے بھی ایسا کررہا تھا صرف اسی لیے کے ماہی اسے بات کرنا چھوڑ دے جب ماہی اسے بات نہیں کریگی تو اسے خود اپنے آپ صبر آجائے گا اس کی معصومیت بات نا کرنے سے محبت ختم نہیں ہوتی اور پھر اسے ماہی سے محبت نہیں تھی اسے تو ماہی سے عشق تھا
تم ناشتہ کرو اپنا اس کی وجہ سے موڈ کیو آف کر رہی ہوں
سمیر نے ماہی سے کہا تو ماہی نے ایک نظر اسد کو دیکھا ماہی جو کے اسد کے سامنے ہی کڑی تھی سمیر کی بات پر وہ وہا سے جانے لگی
ناشتہ تو کرتی جاو
احمد نے اسے آواز دی تھی اس کی بات سن کر بھی ان سنی کردی تھی اس نے
اس کہ جاتے ہی احمد نے اسد کو گھورا تھا جس پر اسد نے کوئی دھیان نا دیتے ہوئے وہا سے اٹھا اور باہر جانے لگا سمیر کی شادی کی وجہ سے وہ لوگ حکمت صاحب کے گھر ہی رکھے تھے ان کا گھر بہت قریب تھا پر پھر بھی وہ سب مل کر ہرمومنٹ اینجوائے کرنا چاھتے تھے اور آج ناشتہ کے بعد سب اپنے اپنے گھر کو ہی جا رہے تھے
☆☆☆☆☆
واووو ماما یہ گھر کتنا اچھا ہے نا
سنبھل پرجوش انداز میں بولی
اور ہمارے پہلے والے گھر سے بڑا بھی ہے
ردا نے گھر کا جائزہ لیتے ہوئے کہا
آپ سب اپنے اپنے کمرے میں جاکر فریش ہو جائے تب تک میں کچھ آرڈر کرتا ہوں
شیریار نے اپنا فون نکالا اور کچھ ٹائپ کرنے لگا
شیری سہی کہتا ہے جاو جا کر فریش ہو جاو پھر سب مل کر لنچ کرینگے
مسکان بیگم نے ردا اور سنبھل کو کہا تو وہ دونوں اپنے اپنے کمرے میں چلی گئی
سیمی تم بھی جاکر فریش ہو جاو
مسکان بیگم نے اس بار اپنی بہن سے کہا
میری فکر کرنا چھوڑ دے آپی
سیمی بیگم خفگی سے بولی
میں تمہاری فکر نہیں کرونگی تو اور کون کریگا
مسکان بیگم اپنی بہن کے قریب آکر بیٹھ گئی
آگر اتنی ہی فکر ہوتی تو آپ بھائی صاحب کو کبھی لاہور نہیں آنے دیتی
انہوں نے ایک نظر شیریار پر ڈالتے ہوئے کہا جو فون پر ہی لگا ہوا ہے
بس کردو سیمی کتنی بار بول چکی ہوں یہا آنے کا فیصلہ دانش کا تھا نا کہ میرا اور تم اچھی طرح جانتی ہوں ایک بار وہ کوئی فیصلہ کرے تو کبھی اپنا فیصلہ نہیں بدلتے لاہور میں رہنے پر بھالہ تمہیں کیا اعتراض ہے
مسکان بیگم نے وضاحت دی
مجھے لاہور میں رہنے پر اعتراض نہیں ہے ہم لاہور کس کی وجہ سے آئے ہے اس پر اعتراض ہے کاش وہ بھی اپنی ماں کی طرح ہمارا پیچھا چھوڑ دے
وہ نفرت سے بھرپور انداز میں بولی
بس کردے ماما بہت ہو گیا
شیریار جو کب سے انکی باتیں سن رہا تھا اپنی کزن کے بارے میں اپنی ماں سے ایسا سن کر وہ برداشت نہیں کر سکا
تم ہماری باتیں سن رہے تھے شرم نہیں آتی چھپ کر ماں کی باتیں سنتے ہوں
سیمی بیگم نے غصے سے کہا
میری ماں کو بھی خیال ہونا چاہیے کہ وہ کیا بول رہی ہے
شیریار غصے پر کابو پاتے ہوئے بولا
دیکھ رہی ہے باجی ہارون کو تو پہلے سے ہی اپنے ساتھ کر دیا اب یہ بھی اس منحوص کے ساتھ ہو گیا ہے
سیمی بیگم اپنی بہن کی طرف دیکھ کر لاچاری سےبولی تھی
مجھے سمجھ نہیں آرہا آپ کی بھابھی کے ساتھ کیا دشمنی ہے
شیریار سیم یبیگم کا جواب سنے بغیر اپنے کمرے میں چلا گیا
بھابھی....میری تو قسمت ہی خراب ہے
اس کہ جاتے ہی سیمی بیگم مگرمچھ کے آنسو بھانے لگی
☆☆☆☆☆
کل ماہی اپنے گھر جانے والی تھی دانش صاحب نے اسے لاہور شفٹ ہونے کا بتا دیا تھا دانش صاحب اور ہارون اپنےگھر چلے گئے تھے جبکہ ماہی کو لینےکل ہارون آئے گا وہ اپنا سامان پیک کر رہی تھی اچانک اس کی نظریں الماری میں رکھی گئی ایک گفٹ باکس پر پڑھی
YOU ARE READING
دلِ نادان
Fantasyیہ کہانی ایک ضدی بدتمیز لاپرواہ طوفانی لڑکی کی جسے محبت نے بدل دیا ایک ایسی لڑکی جو لوگوں میں مسکراہٹیں بانٹتی ہے جو کسی کو غمزدہ نہیں دیکھ سکتی جو ہر وقت مدد کے لئے تیار رہتی ہے مگر اس کو یہ نہیں پتا کے دکھ اس کا مقدر بن جائنگے یہ کہانی ہے صبر و ا...