Last Episode part 1

438 17 21
                                    

فجر کا وقت تھا ماہی جائے نماز پر بیٹھی صبح کے اذکار پڑھ رہی تھی کمرے میں اس کے سوا کوئی نہیں تھا ہر طرف خاموشی چھائی ہوئہ تھی اسکے اندر ایک الگ سا سکون پھیلا ہوا تھا وہ اللہ پاک کی نعمتوں کا شکر ادا کر رہی تھی اس نے اپنی پریشانی میں اللہ پر اپنا یقین کامل رکھا اور آج اللہ نے اسے بہترین سے نوازا تھا اسے وہ ملا جس کی اس نے خواہش کی تھی اس کے اندر باہر سکون ہی سکون تھا اور ہوتا بھی کیسے نہیں من پسند انسان کا محرم بن جانا بہت بڑی نعمت ہے اللہ کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہوتا اللہ کے لیے کوئی چیز ناممکن نہیں ہوتی اس پاک ذات کے ایک کن بس ایک کن کہنے کی دیر ہوتی ہے اور پھر ہر ناممکن ممکن ہوجاتا ہے ہر آزمائش دور ہوجاتی ہے ہر تکلیف ہر پریشانی ٹھل جاتی ہے انسان بہت عجیب ہے اسے کوئی چیز چاہیے ہو اور وہ اس وقت پر نا ملے تو اللہ سے شکوہ کرنے بیٹھ جاتا ہے جانے وہ کب یہ بات سمجھے گا کہ ہر چیز کا اپنا ایک وقت مقرر ہے اور ہر چیز اپنے وقت پر ہی ہوگی تو جلد بازی میں اللہ سے شکوہ کرنے بیٹھ جانا سہی تو نہیں انسان کو چاہیے کے وہ ہر حال میں اللہ پاک کا شکر ادا کرے اللہ پاک خود کہتا ہے
"اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں اور زیادہ دونگا"
اس کے فیصلوں پر یقین رکھے بیشک وہ رب بہتر لے کر بہترین سے نواز دیتا ہے
ماہی نے جائے نماز تہہ کر کے رکھا اور اتنے میں احمد کمرے میں داخل ہوا جو کے نماز پڑنے گیا ہوا تھا
پڑھ آئے نماز؟
ماہی جائے نماز اپنی جگہ پر رکھتے ہوئے بولی
ہاں ایک کپ کافی لادو گی پلیز
احمد نے مسکراتے ہوئے کہا
میں ابھی لاتی ہوں
اتنا کہتے ہی ماہی کمرے سے باہر آئی اور نیچھے کچن کی طرف گئی احمد اور اپنے لیے کافی بنانے لگ گئی اور کافی سے بھرے ہوئے کپس کو ٹرے میں رکھ کر لے واپس اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ابھی صبح کے چھ بھج رہے تھے ناشتے میں کافی وقت تھا اسے لیے وہ صرف کافی پی کر ہمیشہ کی طرح ناشتہ سب کے ساتھ کرنے والے تھے
تھینکیو
احمد کافی کے سپ لیتے ہوئے بولا جواب میں ماہی مسکرائی اور اپنی کافی پینے لگی
فائنلی آج ہم آرام سے بیٹھ کر باتھ کر سکتے ہے شادی کے بعد پہلی بار ہمیں آرام سے بیٹھ کر باتیں کرنے کا موقعہ مل رہا ہے مسلسل ڈنررز اور لنچ سب نے بہت تھکا کر رکھ دیا
ہمیں اپنی آنے والی لائف کے بارے میں کچھ باتیں ابھی سے ڈسکس کرنی چاہیے تاکہ آگے ہمیں کسی مشکل کا سامنا نا کرنا پڑے تمہیں پتا ہے کے میں نے بہت غلطیاں کی ہے تمہیں بہت تکلیف پہنچائی ہے تم سے کافی باتیں چھپائی ہے اور تم نے بھی مجھے کافی چیزوں کے بارے میں کبھی خبر نہیں ہونے دی ہے جو بھی تھا جیسا بھی تھا وہ ہمارا کل تھا اور یہ ہمارا آج ہے آگر ہم دونوں آج بھی وہی غلطیاں دوہرائنگے تو ہمارا آنے والا کل اچھا نہیں ہوگا میں چاہتا ہوں ہم دونوں مل کر اپنے آج کو خوبصورت بنانے کی کوشش کرے ہمارا آج خوبصورت ہوگا تو انشاءاللہ ہمارا آنے والا کل بھی خوبصورت ہی ہوگا ماہی میں چاہتا ہوں کے ہم دونوں ہمیشہ ایک دوسرے پر بھروسہ کرے ایک دوسرے کو شکایت کا کوئی موقع نا دے ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کرے زندگی میں اگر کبھی کوئی بھی مسئلہ ہوں تو سب سے پہلے ہم دونوں ایک دوسرے سے شیئر کریں اور مجھے امید ہے کے تمہیں میری بات پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا
احمد نے اس کا ایک ہاتھ پکڑتے ہوئے محبت سے بھرپور لہجے میں کہا
احمد میں تمہارے بھرو سے پر پورا اتروں گی اور ہمارے رشتے کو نبھانے کی پوری کوشش کرونگی
مجھے تم سے یہی امید تھی
احمد نے اسے ماتے پر بوسہ دیا
چلو نیچھے سب ناشتے پر ہمارا انتظار کر رہے ہونگے
ماہی نے مسکراتے ہوئے کہا اور دونوں ناشتہ کرنے کے لیے جانے لگے
کبھی بھی اپنے ہمسفر سے لمبی لمبی امیدیں نہیں لگانی چاہیے بلکہ خود کو کمپرومیز کے لیے تیار رکھنا چاہیے خوشی سے زندگی گزارنے کے لیے دوسروں کو خوش کرنے کے لیے سب کو اپنا بنانے کے لیے اپنی شادی شدہ زندگی سنوارنیں کے لیے کمپرومیز کرنا پڑتا ہے
☆☆☆☆☆
معیز ہاؤس میں تو خوشیوں کی بہار چھائی ہوئی تھی کچھ دن پہلے سب گھر والوں کے لیے بہت مشکل رہے تھے احمد کی حالت کا ذمےدار وہ سب خود کو ہی سمجھ رہے تھے کسی نے بھی نہیں سوچھا تھا کے ان سب کی زندگی ایک بار پھر سے خوشیوں سے بھر جائنگی دانش صاحب کی ایک ہاں سے معیز ہاؤس کی ساری خوشیاں لوٹ آئی تھی جس طرح اندھیرے کے بعد روشن صبح آتی ہے ویسے ہی ہر مشکل کے ساتھ آسانی بھی تو ہوتی ہے احمد اور ماہی کی شادی سے سب گھر والے بےحد خوش اور مسرور تھے فاطمہ اما کی تو دلی خواہش پوری ہوگئی تھی پر وہ پرسکون نہیں تھی کیونکہ انہیں اچھے سے اندازہ تھا کے اسد پر کیا گزر رہی ہے اسد نے تو سب سے ملنا ہی چھوڑ دیا ہے ایک ہی گھر میں ایک ہی چھت کے نیچھے رہ کر وہ کسی سے بھی نہیں ملتا تھا پوچھنے پر اسکا یہی جواب ہوتا تھا کے وہ پڑھائی کی وجہ سے ڈسٹرب ہے اور سب اس کا یقین بھی کر لیتے سوائے فاطمہ اما کے انہیں تو شروع سے سب پتا تھا اور پورے گھر میں وہی تھی جس سے اسد بات کر لیتا اور وہ اسے سنبھال بھی لیتی تھی پر افسوس انہیں اس بات کا تھا کے وہ اسد کو صرف سنبھال ہی سکتی تھی اس کی تکلیف دوڑ نہیں کر سکتی تھی وہ چاہتی تھی اسد کی جلد از جلدشادی کردے لیکن انہوںنے کبھی اسد سے یہ بات نہیں کی تھی کیونکہ وہ اسے توڑا وقت دینا چاہتی تھی
☆☆☆☆☆
احمد اسد کہا ہے؟
سب گھر والے ڈائننگ ٹیبل پر کھانا کھا رہے تھے گھر کے سب ہی لوگ وہا موجود تھے سوائے جاوید صاحب سیما بیگم اور اسد کے جاوید صاحب اور سیما بیگم کراچی گئے ہوئے تھے جب کے اسد ابھی تک گھر نہیں آیا تھا
دادو مجھے نہیں پتا
احمد نے لاعلمی سے کہا
وہ کونسا کسی کو بتا کر جاتا ہے
عمر نے سنجیدگی سے کہا
ایک تو پتا نہیں اس لڑکے کو ہو کیا گیا ہے صبح جلدی چلا جاتا ہے اور رات کو دیر تک باہر رہتا ہے
پریشان مت ہوں حمیدہ اسد اب بڑا ہو چکا ہے اپنا اچھا برا اچھے سے سمجھتا ہے وہ
فاطمہ اما حمیدہ بیگم کو سمجھاتے ہوئے بولی
امی جان وہ بیٹھا ہے کیسے پریشان نا ہوں اس کے لیے
آپ فکر مت کرے تائی امی میں آج بات کرتا ہوں اس سے
احمد نے کہا
کوئی ضرورت نہیں ہے بات کرنے کی اسد کو توڑا وقت دو خود ٹھیک ہو جائے گا
فاطمہ اما نے کہا
معاف کیجیے امی جان مگر آپ کے لاد پیار نے ہی اسے بگاڑ کر رکھ دیا ہے اس کی ہر بات پر آپ اس کا ساتھ دیتی ہے جس کیوجہ سے وہ دن بدن بگڑتا چلا جا رہا ہے
احتشام صاحب کو اسد پر کافیغصہ تھا آج کہی جاکر انہوں نے اپنے غصےکا اظہار بھی کر دیا
اسد میرا پوتا ہے احتشام اور میں اچھے سے جانتی ہوں مجھے اس سے کیا بات کرنی چاہیے اور کیا سمجھانا چاہیے
لیکن امی
اسلام علیکم اسے پہلے احتشام صاحب کچھ اور کہتے اتنے میں اسد داخلی دروازے سے سب سلام کرتے ہوئے آیا
سب نے آگے پیچھے سلام کا جواب دیا
کس کے ساتھ تھے تم؟
احتشام صاحب سرد لہجے میں بولے
دوستوں کے ساتھ تھا
اسد نے انہی کے اانداز میں جواب دیا
کیا پوچھ سکتا ہوں کن دوستوں کے ساتھ تھے تم؟
عمر نے سخت بےزاریت سے کہا
عمر کیا باتیں لیکر بیٹھ گئے ہوں
فاطمہ اما کی بات پر عمر چھپ ہوگیا
اسد اجاو بیٹھا کھانا کھالو
دادو میں کھانا کھا کر آیا ہوں امی آپ جب فارغ ہوجائے تو پلیز ایک کپ کافی بھجوا دے
وہ کہتا ہوا سیڑھیوں سے چڑھتے ہوئے اپنے کمرے میں چلا گیا
☆☆☆☆☆
کمرے میں آتے ہی وہ سائڈ ٹیبل کی دراز سے سیگریٹ کا ڈبہ لے کر بالکونی میں چلا گیا اسے بہت عجیب سا محسوس ہو رہا تھا اس کے بہت دوست تھے اور سب سے بات بھی ہوتی تھی کہنے کو تو اس کے سب چاہنے والے اس کے ساتھ تھے لیکن اس کے باوجود بھی نا جانے کیو وہ خود کو بہت اکیلا محسوس کر رہا تھا دن تو جیسے تیسے نکل جاتا تھا لیکن رات کو تو اسے گھر ہی لوٹ کر آنا تھا احمد نے بہت کوشش کی کے اسد اسے اپنی پریشانی بتائے مگر اسد نے تو جیسے کچھ نا کہنے کی قسم کھا رکھی تھی کمرے میں آنے کے بعد اسے توڑی ہی دیر ہوئی تھی جب دروازہ پر دستک ہوئی اسے معلوم تھا کے وہ حمیدہ بیگم ہی ہوگی کیونکہ اس نے آتے وقت اپنی امی سے کافی مانگی تھی اسد نے فورن سے سیگریٹ بھجا کر جلدی جلدی میں وہی پر پھینک دی
تم کیا کر رہی ہوں یہاں؟
دیکھائی نہیں دیتا کافی لائی ہوں تمہارے لیے
میں نے تم سے نہیں امی سے مانگی تھی
اس نے سخت جھنجھلاہٹ سے کہا
ہاں جیسے مجھے تو بڑا شوق ہے تمہارے لیے کافی بنانے کا
ماہی نے کافی کا کپ میز پررکھا
تو پھر بنائی کیوں ہے؟
زیادہ اڑنے کی ضرورت نہیں ہے احمد کے لیے بنا رہی تھی سوچھا تمہارے لیے بھی بنا لو
ماہی کی بات پر اسد نے اسے گھوری سے نوازا تھا
مجھے یہ نہیں پینی جاتے وقت اسے اپنے ساتھ لیتی جانا
اسد نے کافی کی طرف اشارہ کیا
اسد کیا ہم کچھ دیر بات کر سکتے ہے کیا؟
نا چاہتے ہوئے بھی اسے بولنا پڑا
رات بہت ہو گئی ہے مجھے سونا ہے
وہ دوٹوک انداز میں بولا
لیکن مجھے بات کرنی ہے تم سے
ماہی نے انجان بنتے ہوئے جواب دیا
لیکن مجھے نہیں کرنی کوئی بات
ابکی بار وہ غصے میں بولا
ایسا کیا ہو گیا ہے اسد جس کی وجہ سے تم یہ سب کرنے پر اتر آئے ہو ایسا کیا کر دیا ہے میں نے جو تم مجھ سے اتنی نفرت کرتے ہوں
میں نفرت نہیں کرتا تم سے
ماہی کے اور کچھ بولنے سے پہلے ہی اسد نے کہا
پلیز جاو یہا سے
وہ ماہی کی طرف پیٹھ دکھاتے ہوئے بولا
اسد ہم بچپن سے ساتھ ہے ایک دوسرے کو اچھی طرح سے جانتے ہے ہمیشہ ایک دوسرےکا ساتھ دیا ہے تو اب ایسا کیا ہو گیا ہے جو تم مجھے نہیں بتا رہے؟ ایسی کونسی بات ہے جو دن بدن تمہیں اندر ہی اندر کھوکلہ کر رہی ہے
وہ مدھم سی آواز میں بولی
دیکھوں ماہی مجھ سے جتنا دور رہو گی اتنا بہتر ہوگا تمہارے لیے پلیز جاو یہا سے
میں تم سے بات کیے بغیر کہی نہیں جانے والی
ماہی ضد کرنے پر اتر آئی
بکواس بند کروں اور جاو یہا سے
اسد نے غصے میں کافی کا کپ اٹھا کر زمین پہ دے مارا ماہی کو پہلی بار اس سے اتنا خوف آرہا تھا آنسو تھے کے آنکھوں کے قید سے نکلنے کے لیے تیار تھے اسنے جیسے تیسے خود کو سنبھالا
میں..تو...
ماہی بھری ہوئی آواز میں ہکھلاتے ہوئے بول رہی تھی اسے پہلے وہ اپنی بات مکمل کرتی اتنے میں اسد نے اسکا کا ہاتھ پکڑا اور کمرے سے باہر نکال کر دروازہ بند کر دیا
کوئی ضرورت نہیں ہے مجھ پہ ترس کھانے کی میری فکر کرنے کی
وہ چلاتے ہوئے ساری تصویروں کو دیوار سے گرانے لگا
تم سب مطلبی ہوں تم سب کو صرف اپنی خوشیوں کی پڑی ہے سیلفش ہوں تم سب
ماہی باہر کڑی سب سن رہی تھی آج حمیدہ بیگم کے کہنے پر وہ اسد سے باتھ کرنے کے لیے آئی تھی اسنے سوچھا بھی نہیں تھا کے اسد اس کے ساتھ ایسے بھی پیش آسکتا ہے ماہی روتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی
اچانک اسد کی نظریں ایک تصویر پر جا رکھی اب جاکر اسے جیسے ہوش آیا تھا اس نے آگے بڑھ کر وہ تصویر اٹھائی اور دیوار کے ساتھ ٹیگ لگا کر بیٹھ گیا وہ تصویر ماہی اور اسکے بچپن کی تھی جس میں وہ دونوں ساتھ میں بیٹھے ہوئے کھیل رہے تھے اور کافی خوش بھی نظر آرہے تھے اس کی آنکھوں سے بااختیار آسنوں گرنے لگے
کیا ضروری تھا کہ تمہیں کسی اور سے محبت ہوں؟ اگر تمہیں کسی اور سے محبت ہونی بھی تھی تو کیا یہ ضروری تھا کے مجھے تم سے محبت ہوں؟ تم میری زندگی میں کیو آئی ماہی اور مجھے تم سے ہی محبت کیو ہوئی میں چاہ کر بھی تمہیں اپنی زندگی سے نہیں نکال سکتا کیونکہ میری دنیا تو تم سے شروع اور تم پہ ہی ختم ہے
اسد تصویر ہاتھ میں لیے روتے ہوئے بول رہا تھا
کاش کاش یہ وقت واپس آجائے یا تو تمہیں پوری طرح میرا بنا دے یا پوری طرح میرے دل و دماغ سے نکال دے
آنسو تھے کے رکھنے کا نام نہیں لے رہے تھے
زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جسے ہم چاہ کر بھی بھول نہیں پاتے ہم کتنا کچھ سوچتے ہے اپنے آنے والے کل کو لیکر سوچتے سوچتے یہ بھول جاتے ہے کے ہر چیز ہمارے مطابق کہا ہوتی ہے کچھ بھی ویسا نہیں ہوتا جیسا ہم سوچتے ہے ہم بھی تو ویسے نہیں رہتے جیسے پہلے تھے وقت ہر چیز بدل کر رکھ دیتا ہے اور ایسے کہ یقین کرنا مشکل ہوجاتا ہے وقت کے بدلنے کے ساتھ ساتھ ہم بھی بدلتے رہتے ہے ہمارے حالات ہمارے جذبات سب بدل جاتے ہے اور سب سے بڑھ کر لہجے بدل جاتے ہے وقت بدل جائے تو اتنی تکلیف نہیں ہوتی جب لہجے بدل جاتے ہے تو بہت تکلیف ہوتی ہے
☆☆☆☆☆
صبح کے آٹھ بھج رہے تھے علوینہ ملازمہ کے ساتھ کچن میں ناشتہ بنا رہی تھی احمد فجر کی نماز پڑھ کر دوبارہ سے سو گیا تھا جب کے ماہی بس ابھی ابھی ہی نیچھے آئی تھی سب کو سلام کرنے کے بعد وہ علوینہ کی مدد کرنے کا سوچھ کر سیدھا کلچن کی طرف بڑھی تھی
گڈ مارننگ بھابھی
گڈ مارننگ ماہی
علوینہ نے خوشگوار لہجے میں جواب دیا
کچھ چاہیے تھا؟
علوینہ مصروف انداز میں بولی
میں نے سوچھا ناشتہ بنانے میں آپ کی ہیلپ کر ڈو
ارے نہیں سب کچھ تیار ہو گیا ہے تم جاو باہر سب کے ساتھ بیٹھوں
بور ہو رہی ہوں بھابھی کوئی کام ہی دے دے مجھے
ماہی کی بات پر علوینہ مسکرائی تھی
اچھا تم جاکر اسد کو ناشتے کرنے کے لیے بلا لوں
نا چاہتے ہوئے بھی وہ سر ہلاتی ہوئی باہر سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی تھی جب وہ اسد کے کمرے تک پھنچی تو وہی پر رکھ گئی اسے اچھے سے اندازہ تھا کے اسد پھر سے اس پر غصہ کریگا وہ واپس مڑ گئی اور اکرام کے کمرے میں چلی گئی کمرے میں جاتے اسنے دیکھا کے ملازمہ وہا کی صفائی کر رہی تھی
نوری تم پلیز اسد کو ناشتے کے لیے بلا دو گی
جی ٹھیک ہے بی بی جی
ملازمہ کے جاتے ہی ماہی بھی اپنے کمرے میں احمد کو اٹھانے کے لیے چلی گئی
☆☆☆☆☆
سب ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھے ہوئے تھے ماہی اور احمد بھی ناشتے کے لیے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ گئے تھوڑی دیر بعد اسد بھی سیڑھیاں اترتے ہوئے نیچے آگیا
اسلام علیکم
اسد سلام کرکے ناشتے کے لیے بیٹھ گیا وہا موجود سب نے سلام کا جواب دیا اور ناشتہ شروع کر دیا اسد کی نظریں احمد سے ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی احمد جو سب کی نظروں سے بچھ کر ماہی کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ناشتہ کر رہا تھا وہ اسد سے بلکل باخبر تھا
بچپن سے جو نام میں اپنے نام کے ساتھ سنا چاہتا تھا جو ساری زندگی سنا چاہتا ہوں وہ تمہارا نام تھا وہ تم ہی تو ہوں جس کے ساتھ میں اپنی ساری زندگی گزارنا چاہتا تھا وہ آنکھوں میں آنسو لیے ان دونوں کو دیکھ رہا تھا فاطمہ اما کی نظریں اسد پر ہی ٹکی ہوئی تھی ناشتے کے بعد احمد اور اکرام گاڑی میں بیٹھے ہوئے ماہی کا انتظار کر رہے تھے ماہی جو کے کمرے میں اپنا بیگ لینے کے لیے گئی تھی وہ جلدی جلدی سیڑھیاں اترتے ہوئے آرہی تھی جب اچانک سامنے والے سے ٹکرائی اسے پہلے وہ گرتی اسد نے اسے ہاتھ سے تھام لیا اس نے سادہ سے پیلے جوڑے میں دوپٹہ سٹالر کی طرح لیا ہوا تھا اور اپنے سلکی بالوں کو کیچر میں کیڈ کیے ہوئی تھی سادگی میں بھی وہ بہت پیاری لگ رہی تھی اسد کے لیے مشکل ہو رہا تھا ماہی پر سے اپنی نظروں کو ہٹانا دھیرے دھیرے اسد کی گرفت کمزور ہوئی تو ماہی نے خود کو سنبھالا ایک نظر اسد کی طرف دیکھ کر وہ چپ چھاپ وہا سے چلی گئی اسد سمجھ گیا تھا کے وہ اس سے ناراض ہے ماہی کے جاتے ہی اسد بھی اس کے پیچھے گھر سے باہر نکل آیا
ماہی تم آگے بیٹھ جاؤ
ماہی جو پیچھے بیٹھنے ہی والی تھی اسد کی بات پر رکھ گئی
میں اپنی جگہ سہی ہوں
ماہی اسکی طرف دیکھے بنا بولی
وہ جگے اب تمہاری ہے میری نہیں
غلط وہ جگہ میرے بھائی کی ہے اور ماہی میرا بھائی نہیں ہے
احمد کے کہنے پر اکرام ہسنے لگا جب کے اسد چپ چاپ احمد کے ساتھ آگے بیٹھ گیا اور احمد نے گاڑی منزل کی اور روانا کردی
اسد آج ڈیڈ نے مجھے آفس آنے کا کہا ہے تم آتے وقت ماہی کو بھی اپنے ساتھ گھر لے آنا پلیز
احمد ڈرائیو کرتے ہوئے بولا
میں صالحہ کے ساتھ چلی جاؤنگی
ماہی نے فورن جواب دیا
میرے ساتھ آنے میں کیا برائی ہے؟
اسد سنجیدہ ہو کر بولا
اگر اسد ساتھ ہے تو صالحہ کی کیا ضرورت
احمد نے کہا
مجھے شاپنگ پہ جانا ہے
وہ دوٹوک انداز میں بولی
ہاں تو اسد کے ساتھ چلی جانا
احمد خوشگوار لہجے میں بولا
اسد انتظار نہیں کر پائے گا
کوئی بڑی بات نہیں مجھے انتظارکرنے کی عادت ہے
وہ ہلکا سا مسکرایا ماہی کے پاس اور کوئی بہانا نہیں تھا اسی لیے وہ بھی چپ چھاپ راضی ہوگئی
اکرام کو سکول چھوڑ کر وہ تینوں یونیورسٹی کے لیے روانا ہوگئے تھے یونی پہنچتے ہی اسد اور احمد کلاس لینے چلے گئے تھے جب کے ماہی کیفے میں چلی گئی تھی صالحہ اور ثناء کا انتظار کرنے لگی توڑی ہی دیر میں وہا صالحہ اور ثناء دونوں آگئی تھی اور وہ لوگ ادھر ہی بیٹھ گئے ابھی انکی کلاس میں بہت وقت تھا تینوں بیٹھ کر کافی پینے لگے
جلدی کافی پی لوں صالحہ ہمیں لائبریری بھی جانا ہے مجھے اسائنمنٹ بنانی ہے
صالحہ کو فضول باتیں کرتا دیکھ ثناء نے کہا
ہاں یار جلدی کر ورنہ آج کلاس میں ہمیں زلیل ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا
صالحہ نے کہا
اوو ہیلو ایک ویک سے پہلے ملی تھی یہ اسائنمنٹ تم دونوں کو اب یاد آگئی اسکی؟
ماہی نے پوچھا
ہاں بہت جلدی یاد آگیا نا
صالحہ نے مسکراتے ہوئے کہا
شکر ہے ایک نمونہ تو آگیا
سمیر کو انکے پاس آتا دیکھ کر ثناء نے کہا
آج اس کے ساتھ میں دوسرا والا نہیں آیا
سمیر کے بیٹھتے ہی صالحہ بول پڑی
نہیں وہ آج نہیں آرہا ہے
سمیر نے ہستے ہوئے کہا
کیوں وہ کیوں نہیں آرہا؟
ماہی نے کہا
کیونکہ یونیورسٹی آنا اسکی شان کے خلاف جو ہے
صالحہ کی بات پر سب کہکہہ لگا کر ہنس پڑے توڑی دیر وہی پر بیٹھ کر باتیں کرنے کے بعد وہ چاروں اپنی کلاس اٹینڈ کرنے چلے گئے
☆☆☆☆☆
بابا آپ کی بات ہوئی تایا ابو سے؟
دانش صاحب اسٹڈی روم میں بیٹھے ہوئے تھے جب سنبھل نے میز پر چائے کا کپ رکھ کر انہیں مخاطب کیا
ہاں بیٹھا ہوگئی بات
دانش صاحب نے مایوسی سے کہا
تو ہم واپس پاکستان کب جارہے یے؟
سنبھل نے خوش ہوکر کہا
وہ نہیں چاہتے کے ہم پاکستان چلے جائے
کیا مطلب بابا آپ نے کہا تھا تایا ابو کو مناکر ہم واپس چلے جائنگے آخر تایا ابو چاہتے کیا ہے؟
وہ توڑا غصہ ہوکر بولی
وہ چاہتے ہے میں ردا کی شادی ہارون سے کرا دو
کیا ہوگیا ہے تایا ابو کو انہو نے ایسی بات ہی کیو کی آپ سے ہارون بھائی ایک نمبر کے سائیکو ہوں آپ کو پتا ہے بابا وہ ماہی کو بلیک میل کرتے تھے ہمیشہ اسے توچر کرتے تھے آپ پلیز چلے یہا سے مجھے کچھ بھی ٹھیک نہیں لگ رہا ہم واپس پاکستان چلتے ہیں نا پلیز
سنبھل ان کے سینے پر سر رکھ رونے لگہ
فکر مت کرو میری پیاری سی بیٹھی جب تک میں زندہ ہوایسا کبھی نہیں ہونے دونگا ہم کل ہی یہا سے جا رہے ہے
دانش صاحب نے اسے تسلی دی اسٹڈی روم کے باہر ردا نے ان کی ساری باتیں سن لی تھی وہ تیزی سے اپنی ماں کے پاس نیچے آئی جو ٹی وی لاؤنچ میں بیٹھی ہوئی تھی
ماما آپ اپنی بہن کو سمجھاتی کیو نہیں ہے
ردا ناراضگی سے بولی
کیا ہو گیا ہے ردا غصہ کیو ہو رہی ہوں؟
مسکان بیگم اٹھکر اس کے قریب آئی
تایا ابو چاہتے ہے کے میں اور ہارون شادی کرلے
وہ بھری ہوئی آواز میں بولی
میں ہرگز اس سے شادی نہیں کرونگی سن لے
آخر کیا برائی ہے ہارون میں؟
سیما بیگم ان کے سامنے آتے ہوئے بولی
میری بات غور سے سن لے ماما میں مر جاونگی لیکن ان کے بیٹھے سے کبھی شادی نہیں کرونگی
ردا پیر پٹک تھے ہوئے وہا سے چلی گئی
آپی چلے ہم چائے پیتے ہیں
سیما بیگم نے اپنی بڑی بہن سے کہا
یہ جو تم بھائی صاحب کے دل میں یہ سب باتیں ڈال رہی ہوں نا اس کا انجام بہت برا ہوگا
مسکان بیگم غصے میں وہا سے چلی گئی کوئی بھی ماں باپ نہیں چاہتے کے ان کی پھول جیسی بیٹھی کو ہارون جیسا شوہر ملے
ایک نا سہی تو دوسری ہی سہی لیکن پراپرٹی تو میری ہی ہوگی
سیما بیگم تنبیہ مسکرا کر بولی
☆☆☆☆☆
ماہی گیٹ کے پاس آئی تو اسد سامنے گاڑی کے ساتھ ٹیگ لگائے اس کا انتظار کر رہا تھا اس نے بلیک کلر کی شرٹ اور بلیک جینس پہنے ہوئے تھا آنکھوں پر چشمہ لگائے وہ اپنے فون میں مصروف تھا ماہی آگے بڑھنے لگی
بہت جلدی آگئی تم
ماہی پر نظر پڑتے ہی اسد بڑبڑایا
سوری مجھے پتا نہیں تھا
ماہی نے سرد لہجے میں کہا اور کہتے ساتھ ہی ماہی گاڑی میں بیٹھ گئی اسد بھی بیٹھ گیا اور گاڑی سٹارٹ کی
بتاؤ کہاں جانا ہے؟
اسد نے بات شروع کی
زاہر سی بات ہے گھر جانا ہے اور کہا؟
ماہی نے کہا
تمہیں شاپنگ نہیں کرنی؟
اسد نے پوچھا
نہیں میں نے ایسے ہی کہا تھا
اسد نے بنا کچھ اور کہے گاڑی گھر کی طرف روانا کردی اسے معلوم تھا ماہی اس سے ناراض ہے اسی لیے تو ماہی نے اسد کے ساتھ نا آنے کے لئے احمد کو جھوٹ بولا تھا کے اسے صالحہ کے ساتھ شاپنگ پر جانا ہے توڑی دیر میں وہ لوگ گھر پہنچ گئے تھے
ماہی
ماہی گاڑی سے اترنے لگی تو اسد نے کہا ماہی نے کوئی جواب نہیں دیا اور سوالیہ نظروں سے اسکی طرف دیکھا
آئی ایم سوری مجھے تم سے ایسے بات نہیں کرنی چاہیے تھی میں جانتا ہوں تم ناراض ہوں اور ہونا بھی چاہیے میری غلطی ہے مجھے اتنی بدتمیزی سے بات نہیں کرنی چاہیے
اسد نظریں نیچے کیئے ہوئے مایوسی سے بولا ماہی اس سے ناراض تھی مگر اسد کو یو معافی مانگتے دیکھ اسے بھی برا لگا تھا وہ جانتی تھی اس کی بھی غلطی تھی
تمہیں معافی مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اسد غلطی میری ہی تھی اگر تمہیں مجھ سے بات نہیں کرنی تھی تو مجھے بھی تمہیں تنگ نہیں کرنا چاہیے تھا
اسے اپنی غلطی کا احساس تھا
ایسا نہیں ہے میرا یہ بلکل مطلب نہیں تھا
وہ فورن سے بولا
اسد ہم نے آج تک کوئی بات ایک دوسرے سے نہیں چھپائی تو آج تم کیو چھپا رہے ہوں جو بھی مسلہ ہے مجھ سے شیر کرو تمہارا دل حلقۂ ہو جائے گا
اسد سر جھکائے خاموشی سے اسے سن رہا تھا
چلو اندر چلتے ہے
اسد نے اس کی طرف دیکھ کر کہاں
اوکے
اس کے کہتے ہی وہ دونوں گاڑی سےاتر کر اندر جانے لگے
اسد
ماہی کی آواز پر اس نے مڑ کر ماہی کو سوالیہ نظروں سے دیکھا
اگر تم آج سب کے ساتھ بیٹو گے تو یقینن سب کو بہت اچھا لگے
ماہی کی بات پر اسد ہلکا سا مسکرایا اتنے میں ہارن کی آواز سنتے ہی ان دونوں کا دھیان سامنے سے آتی ہوئی احمد کی گاڑی پر گیا جس سے احمد اتر رہا تھا
تمہیں تو اس وقت آفس میں ہونا چاہئے تھا نا؟
اسد نے دور سے آتے ہوئے احمد کو کہا
دراصل میں بھول گیا تھا مجھے آفس کل جانا تھا آج نہیں
احمد مسکراتے ہوئے اس کے گلے لگا اور ماہی کی طرف بڑھا
تم شاپنگ پر کیوں نہیں گئی؟
ایسے ہی کل چلی جاؤ گی
چلو ٹھیک ہے کل یونہ سے آتے ہی دونوں ساتھ چلے جائنگے
اتنا کہتے ہی وہ دونوں اندر کی طرف بھر گئے اسد وہی پر کڑا ہوکر ان دونو کو دیکھ رہا تھا
یکطرفہ محبت کرنے والے لوگ بھی کمال کے ہوتے ہے ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کے ان کا ظرف بڑا ہوتا ہے وہ دوسروں کی طرح اپنی محبت کا یقین نہیں دلاتے نا ہی دوسرے لوگوں کی طرح تقاضے کرتے ہے وہ تو ہسی خوشی ہر دکھ ہر تکلیف ہر غم سہہ لیتے ہے
کچھ دیر وہی کڑے ہونے کے بعد وہ اندر چلا گیا تو دیکھا ماہی احمد دونوں گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر باتوں میں مصروف تھے وہ سب کی نظروں سے خود کو بچاتے ہوئے اوپر اپنے کمرے میں چلا گیا جس عزیت میں اسد تھا اس کی خبر صرف اللہ کو ہی تھی ایسا نہیں ہے کے اسنے کبھی کوشش نہیں کی ماہی کو بھول جانے کی مگر ایسا ممکن نہیں تھا دن بدن اسے کسی اور کے ساتھ دیکھ کر اس کی محبت میں مزید اضافہ ہو رہا تھا اس کے لاکھ خود کو روکنے کے بعد بھی اس کا بس نہیں چلتا کے وہ ماہی کو بھول جائے پہلی محبت بھالانا آسان نہیں ہوتا
کمرے میں آتے اسے توڑاہی وقت گزرا تھا کے اتنے میں اس کے فون کی بیل بجی اسد نے پاکٹ سے اپنا فون نکال کر دیکھا تو سکرین پر جیا کا نام ابھر رہا تھا
اسلام علیکم
فون اٹھاتے ہی جیا کی آواز آئی
وعلیکم اسلام کیسی ہوں جیا؟
اسد نے سوال کیا
میں ٹھیک ہوں اسد تم سناو کیسے ہوں؟
جیا نے پوچھا
کچھ کام تھا کیا؟
اسد کی بات سن کر ایک پل کے لیے تو جیا خاموش ہوگئی
دراصل مجھے تم سے ملنا ہے کیا ہم کہی پر مل سکتے ہیں؟
جیا نے پوچھا
ابھی تو میں گھر پہ نہیں ہوں کل ملتے ہے
اسنے جھوٹ بول کر بات کل پہ ڈال دی
اوکے ڈن ٹینک یو اسد
جیا نے خوشگوار لہجے میں کہا اسد نے بنا کچھ کہے فون کاٹ دیا اور اپنے بیڈ پر لیٹ گیا
کیا کہا اسد نے؟
جیا کے فون رکھتے ہی صالحہ نے سوال کیا جو جیا کے ساتھ ہی بیٹھی ہوئی تھی
کل ملنے کا کہا ہے
جیا اپنی الماری سے کچھ کپڑے نکال کر آئینہ کے سامنے کڑی ہوگئی
ابھی کیو نہیں؟
صالحہ منہ بناکر بولی
وہ گھر پہ نہیں ہے
وہ باری باری ایک ایک ڈریس اٹھا کر خود پہ دیکھ رہی تھی
کیا مطلب گھر پہ نہیں ہے کچھ دیر پہلے ہی تو میں نے اسے اندر جاتے دیکھا تھا وہ جو اپنی ہی دنیا میں گم تھی اچانک سے پھول سا چھرا مرجا گیا
میں فضول میں سپنے سجا رہی ہوں اور وہ پیچھا چھوڑ وانے کے لیے جھوٹ بول رہا ہے مجھ سے
مایوسی سے کہتے ہوئے وہ کپڑے بیڈ پر پھینک کر بیٹھ گئی
نہیں جیا وہ جھوٹ کیو بولے گا کیا پتا وہ سچ میں گھر پر نا ہوں میں نے ہی سہی سے دیکھا نہیں ہوگا
صالحہ نے اسکے کندھے ہر ہاتھ رکھ کر اسے جھوٹی تسلی دی جیا نے مایوسی سے اسکا ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹایا اور اٹھ کر جانے لگی
کہا جا رہی ہوں؟
صالحہ نے پیچھے سے آواز دی وہ سوال کا جواب دئے بغیر ہی کمرے سے نکل گئی
☆☆☆☆☆
رات کا پہلا پھر تھا گھڑی کی سوئیاں رات کے بارہ بجا رہی تھی جب اسنے دھیرے سے کمرے کا دروازہ کھول دیا کمرے میں آتے ہی سب سے پہلے اس کی نظریں ماہی پر پڑھی جو اس کا انتظار کرتے ہوئے صوفہ پر ہی سوگئی تھی احمد اور اسد ذیشان کے ساتھ عاروش کے گھر چلا گیا تھا آج عاروش اور ثناء کی بات پکی ہونے کی خوشی میں عاروش نے انہیں اپنےگھر پہ انوائٹ کر دیا تھا احمد نے اسے فون پہ بتایا تھا کے آج وہ دیر سے آئے گا پر اسے آنے میں اتنی دیر ہو گی وہ یہ نہیں جانتی تھی احمد دھیرے سے چلتا ہوا اس کے پاس آکر بیٹھ گیا وہ مسلسل اسے سوتے ہوئے دیکھ رہا تھا نظریں تھی کے اس پر سے ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی وہ کافی سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا جیسے کافی عرصے بعد دیکھ رہا ہوں اس نے ہاتھ بڑھا کر ماہی کے ہاتھ میں پکڑی کتاب اٹھا کر ٹیبل پر رکھی جس پر ماہی کی آنکھ کھل گئی اس نے دیکھا تو احمد اس کے سامنے تھا ماہی فورن سے اپنی حالت ٹھیک کرنے لگی اور اٹھ کر بیٹھ گئی
اگئے تم میں کب سے تمہارا ہی انتظار کر رہی تھی
وہ آنکھ مسلتے ہوئے بولی
میں نے کہا تھا میرا انتظار مت کرنا
احمد اس کے چھرے پر آتی ہوئی لٹو کو پیچھے کرتے ہوئے بولا
کافی بناؤ تمہارے لیے؟
ماہی نے مسکراتے ہوئے کیا
نہیں بس چینج کر کے سونا ہے
وہ تھکے ہوئے انداز میں نولا
اچھا میں تمہارے لیے کپڑے نکالتی ہوں تم جاکر فریش ہو جاو
ماہی اٹھی اور اسکے لیے کپڑے نکالنے لگی احمد بھی فریش ہونے کے لیے چلا گیا تھا توڑی دیر بعد جب وہ جینج کر کے باہر آیا تو ماہی بید پر بیٹھی ناول پڑھ رہی تھی
بس باکی کل پڑھ لینا ابھی سوجاؤ رات بہت ہوگئی ہے
احمد نے اسکے سامنے سے ناول بک لیکر سائڈ ٹیبل پر رکھی اور خود لیٹ گیا اسکے لیٹ تھے ہی ماہی نے دوبارہ اپنے نول لینے کے لیے ہاتھ آگے کیا اتنے میں ہی احمد نے اس اسے اپنی طرف کھینچا اور اس کا سر اپنے سینے پر رکھا اور آنکھیں بند کر کے اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا احمد کے اس ردعمل پر ماہی نے بھی بنا کچھ کہے آنکھیں بند کرلی
☆☆☆☆☆
اس وقت لاہور میں صبح کے چھ بھج رہے تھے سردیوں کا مہینہ تھا جسکی وجہ سے لان میں اندھیرا چھایا ہوا تھا ماہی کی آنکھ فجر کی اذان سے کھلی تھی وہ اٹھی اور نماز پڑھی نماز پڑھنے کے بعد اس نے احمد کو اٹھایا اور روز کی طرح سورہ یاسین کی تلاوت سے اپنے دن کا آغاز کرنے لگی اور احمد وضو کرنے واشروم میں چلا گیا جب وضو کر کے باہر نکلا تو ماہی کمرے میں نہیں تھی اس نے پہلے سے ہی احمد کے لیے جائے نماز بچھا رکھا تھا احمد فجر کی نماز پڑھنے لگا نماز پڑھنے کے بعد اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دئے اور دعا مانگنے لگا دعا مانگنے کے بعد اس نے دیکھا ماہی اب بھی کمرے میں نہیں تھی احمد ماہی کو دیکھنے کمرے سے باہر نکل گیا ماہی کچن میں تھی اس وقت سب ملازم سرونٹ کوٹیچ میں تھے ابھی تک سرونٹ کوٹیچ سے کوئی ملازم نہیں آیا تھا وہ یہی تو چاہتی تھی آج ناشتہ وہ بنانا چاہتی تھی اسی لیے نماز اور تلاوت کے بعد وہ سیدھا نیچھے کچن میں آئی تھی کسی ملازم کے مدد کے بغیر وہ کچھ کر نہیں سکتی تھی کیونکہ اسے کچھ خاص بنانا نہیں آتا تھا صبح کے اس وقت اتنی ٹھنڈ میں کسی ملازم کو تنگ کرنا اس نے مناصب نہیں سمجھا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ شروعات کہا سے کرے کافی سوچنے کے بعد اس نے فریج کھولا بہت دیر تک فریج کو کھول کر دیکھنے کے بعد اس نے فریج بند کر دیا آخر بہت دیر سوچنے کے بعد اس نے اپنا فون نکلا جو کے وہ اپنے ساتھ نیچھے لائی تھی اسے انداذہ تھا فون کی ضروت ہوگی اس نے فون پر کچھ ویڈیوز دیکھنی شروع کردی اور توڑی دیر بعد اس نے دو اندھے نکا لے اور انڈو کو پھینٹا اور اس میں چوپ کی ہوئی ہری مرچیں اور نمک ملایا اس کے بعد فرائنگ پین کو چھولے پر رکھ کر تیل ڈال کر اسکے گرم ہونے کا انتظار کرنے لگی کچھ دیر بعد جب تیل گرم ہو گیا تو اس نے دو قدم کی دوری سے انڈا ڈال دیا توڑی دیر بعد جب آملیٹ تیار ہونے کے قریب تھا تو اس نے چیز بھی ڈال دی اور چائے بنانے کے لیے دودھ نکال دیا احمد کچن کے دروازے میں کڑا مسلسل مسکراتے ہوئے اسے دیک رہا تھا جس کا ماہی کو پتا نہیں تھا ماہی نے ٹوسٹ مشین میں دو بریڈ کے سلائس ڈالے اچانک اسے کسی چیز کے جلنے کی بو آئی پیچھے دیکھا تو آملیٹ کی بری حالت بن چکی تھی اس نے جلدی جلدی میں آملیٹ کو پلٹنا چاہا اتنے میں احمد نے اسے روکھ دیا تھا
آرام سے ابھی ہاتھ جل جاتا تمہارا
ماہی چہرے پر دنیا بھر کی سنجیدگی لیے اس جلے ہوئے آملیٹ کو دیکھ رہی تھی احمد نے اپنی ہنسی روکھنے کی پوری کوشش کی اور چھولے کو بند کر دیا
اتنی محنت کی تھی میں نے
ماہی مایوسی سے بولی
ہاں تو کوئی بات نہیں گھر میں اتنے ملازم ہے وہ بنا دے گے اور یہ کوئی وقت تو نہیں ہے یہ سب بنانے کا
تمہیں آفس جلدی جانا ہے نا
نہیں آج ناشتہ کرکے ہی جاونگا
ماہی چھپ رہی اور سب چیزے صاف کرنے لگی
چلو چھوڑو یہ سب کوئی اور کرلےگا آجاؤ
احمد کہتے ہی اسے اپنے ساتھ لے گیا کیونکہ اس وقت کافی صبح تھی سردیا ہونے کی وجہ سے ابھی بھی اندھیرا چھایا ہوا تھا تھا
☆☆☆☆☆
ماہی کی کلاسز ختم ہو چکی تھی وہ کاریڈور میں کھڑی صالحہ اور ثناء کے ساتھ باتو میں مصروف تھی ابھی وہ تینوں باتیں کرتے کرتے آگے بڑھ ہی رہی تھی کہ ماہی نے دیکھا احمد انہی کی جانب آرہا ہے
یہ کس کی غیبتیں کر رہی ہو تم تینو کہی میرا نامہ اعمال نیکیوں سے تو نہیں بھر رہے تم لوگ؟
احمد تینوں کے پاس آکر بولا
احمد بھائی آپ اتنی خوش فہمیاں کیوں پال رہے ہوں
ثناء نے کہا
مجھے تو یہ سمجھ نہیں آرہا کے تم ہر وقت اتنا فارغ کیو ہوتے ہوں جب دیکھوں کہی سے بھی تپک جاتے ہوں
صالحہ اس کا مذاق اڑانے والے انداز میں بولی
دیکھ لو ماہی تمہاری دوست کتنی بدتمیزی سے پیش آرہی ہے میرے ساتھ
احمد شکایت کرنے پر اتر آیا
آپ جب بھی ہمارے ساتھ ماہی کو دیکھتے ہے تو فورن سے آجاتے ہوں
ماہی کے کچھ بولنے سے پہلے صالحہ نے پھر سے کہا
تو تمہیں کیا مسلہ ہے تمہارے لیے تو نہیں آتا اپنی بیوی کو لے جانے کے لیے آیا ہوں
احمد ماہی کو اپنی سائد کرتے ہوئے بولا
ماہی کہی نہیں جائے گی یہ ہماری دوست ہے
صالحہ نے ماہی کو اپنی طرف کھینچا
اب میری وائف ہے
احمد نے پھر سے ماہی کو اپنی طرف کیا تھا
ماہی تم بتاو تم کس کے سائڈ ہوں؟
ثناء کے سوال کرنے پر ماہی نے احمد کی طرف دیکھا
دوست دوست نا رہا پیار پیار نا رہا
صالحہ اسے حیرت سے دیکھ کر بولنے لگی
زندگی ہمیں تیرا اعتبار نا رہا
ثناء نے بھی اس کا ساتھ دے کر جملہ پورا کیا ماہی نظریں چرانے لگی
چلو اب جاؤ یہا ہے کتنی بھیڑ لگا رکھی ہے
احمد کہکہہ لگاتے ہوئے بولا صالحہ نے اسے گھورا تھا
تم لوگ تو جانے سے رہی ہم ہی چلے جاتے ہے
احمد نے ہستے ہوئے ماہی کا ہاتھ پکڑا اور وہا سے جانے لگا
ماشااللہ دونوں ایک ساتھ کتنے خوش ہے نا
ان کے جانے کے بعد ثناء نے کہا
ہاں لیکن جو بھی اس احمد نے کیا ہے اس کاتو میں بدلہ لیکر رہونگی
صالحہ منہ بنا کر بولی
ہاہاہاہا چلو صالحہ کل بدلہ لے لینا
ثناء اسے اپنے ساتھ لے جانے لگی
تم نے لنچ تو نہیں کیا ہے نا؟
احمد ڈرائیو کرتے ہوئے بولا
نہیں ابھی تک نہیں کیا
ٹھیک پھر ہم پہلے اچھے سے ریسٹورنٹ میں لنچ کرتئ ہے اور اس کے بعد گھر چلے جائنگے ٹھیک ہے؟
ماہی نے بھی ہامی بھر لی ان دونوں کی زندگی بہت اچھی گزر رہی تھی وہ دونوں ایک دوسرے کا ساتھ پاکر بہت خوش تھے من چاہے شخص کا محرم بنے پر بھلا کون خوش نہیں ہوگا
☆☆☆☆☆
میں کوئی بہانہ نہیں سنا چاہتا بس تم آرہے ہوں تو مطلب آرہے ہوں
ذیشان کو اب غصہ آنے لگا تھا
اسد بالکونی میں صوفہ پر بیٹھا ہوا لیپ ٹاپ سامنے رکھے ہوئے ویڈیو کال پہ ذیشان اور عاروش سے باتیں کر رہا تھا اور ساتھ ہی کافی پی رہا تھا دراصل ان سب دوستوں نے پلان بنایا تھا کے آج رات وہ سب ڈنر ساتھ کریں گے لیکن اسد نہیں جانا چاہتا تھا آدھے گھنٹے سے عاروش اسے منا رہا تھا
یار مجھے بہت کام ہے میں نہیں آسکتا تم لوگ میرے بغیر چلے جاو پلیز
وہ سمجھ گیا تھا یہ لوگ آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑنے والے اس لیے بھانا بنانے لگا
یار اسد جھوٹ تو نا بول آگر تجھے نہیں جانا ہے تو صاف صاف بول دے
عاروش نے دہائی دی
آدھے گھنٹے سے صاف صاف ہی تو بول رہا ہوں
اسد دل ہی دل میں بولا
اسددد نیچے چچی تمہیں کب سے بلا رہی ہے---
احمد کی آواز آئی اسد نے پیچھے مڑ کر دیکھا
احمد---
ذیشان نے اسے پکارا
اوہ اسلام علیکم ذیشان کیسے ہوں؟
احمد لیپ ٹاپ کی اسکرین کے سامنے آیا
وعلیکم اسلام یار احمد تو سمجھا نا اسے
ذیشان نے منت بھرے لہجے میں کہا
کیو کیا ہوا سب خیریت؟
احمد نے سوالیہ نظروں سے اسد کی طرف دیکھا
یار آج باہر جانا تھا نا ہم سب نے تو یہ صاحب نہیں جا رہے ہمارے ساتھ
عاروش نے اسے پوری بات سمجھائی
کیا ہوا اسد کیو نہیں آرہا ہے؟ دیکھ میں ناراض ہو جاو گا
تم سب چلے جاو میرا جانا اتنا ضروری نہیں ہے
اسد نے کہا
دیکھا ہمیں بھی کب سے یہی پٹی پڑھا رہا ہے
عاروش نے تنگ ہوکر کہا
تم لوگ فکر مت کرو میں اور اسد ٹائم پہ آجائے گے
احمد لیپ ٹاپ ہاتھوں میں لیے صوفہ پہ اسد کے ساتھ بیٹھ گیا
احمد میں نہیں آنے
بیٹھا تو جا رہا ہے میرے ساتھ مطلب جا رہا ہے
لیکن
لیکن ویکن کچھ نہیں جا تجھے آنٹی بلا رہی
اسد اپنی بات پوری کرتا اسے پہلے ذیشان نے اسے روکھ دیا
جا رہا ہوں بھائی
وہ کشن صوفہ پر رکھ کر بڑبڑاتے ہوئے انہیں دفعہ کرتا ہوا وہا سے چلا گیا اس کے جاتے ہی وہ تینوں ہنس دئے
شکر ہے تم نے اسے منا لیا ورنہ آج تو اس نے نا جانے کی قسم کھائی تھی
عاروش بولا
ہاہاہاہاہا چلو تم دونوں شام کو 8 بجے پہنچ جانا اوکے؟
وہ ہاتھ میں پہنی ہوئی گھڑی کی طرف دیکھ رہا تھا اور پھر عاروش اور ذیشان سے باتو میں مصروف ہوگیا
☆☆☆☆☆
اسلام علیکم ماما
اس نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کتابیں ٹیبل پر رکھی اور صفیہ صاحبہ کے کے گلے لگ کر بیٹھ گئی
آگئی میری بچی
صفیہ بیگم نے اسے پیار کیا
جی ماما
صالحہ تھکے تھکے لہجے میں بولی
چلو تم اپنے کمرے میں جاکر فریش ہو جاو تب تک میں سلمی آپا سے کہہ کر تمہارے لیے کھانا لگوا تھی ہوں
صفیہ صاحبہ کے کہتے ہی صالحہ سیڑھیوں کی جانب بڑی
ماما جیا کہا ہے؟
اچانک اسے جیا کا خیال آیا تو واپس مڑ گئی
جیا تمہارا ہی انتظار کر رہی تھی اپنے کمرے میں ہوگی جاکرمل لو اس اے
ٹھیک ہے ماما
صالحہ تھکے تھکے قدموں سے کمرے کی طرف بڑھی کمرے کا دروازہ کھلتے ہی اس نے اے سی آن کیا اور اپنے لیے کپڑے نکال کر وہ فریش ہونے کے لیے چلی گئی توڑی دیر بعد جب وہ باہر آئی تو yellow کلر کی شرٹ اور white کلر کی جینز پہن رکھی تھی وہ گدم بڑھاتی ہوئی آئینہ کے سامنے کڑی ہوگئ yellow کلر اس پر کافی اچھا لگ رہا تھا وہ اپنے بال باندھنے لگی ساتھ بھج چکے تھے تو وہ اپنے کمرے سے باہر آکر جیا کے پاس چلی گئی

دلِ نادان Tempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang