Second Last Episode (part2)

961 26 64
                                    

صبح بہت خوشگوار ہوئی تھی اس وقت موعز ہاؤس میں سب گھر والے ناشتہ کر رہے آج کافی دونوں بعد سب ایک ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ناشتے کی ٹیبل پر کافی گہماگہمی سی تھی ناشتے کے بعد احتشام صاحب اور عمر آفس چلے گئے جب کے جاوید صاحب آج گھر پر ہی رکھ گئے تھے اسد یونی چلا گیا اور اکرام بھی اس کے ساتھ سکول چلا گیا تھا جاوید صاحب اور باکی سب لاؤنج میں اکر بیٹھ گئے احمد نے بھی اپنا ناشتہ کیا اور سب کے ساتھ لاؤنج میں آکر بیٹھ گیا
احمد کی تبعیت اب پہلے سے کافی زیادہ بہتر ہو گئی تھی مگر اسے ابھی بھی چلنے میں کافی کمزوری ہو رہی تھی سر پر پر پھٹی تھی اور اس کے ہاتھ پر پلاسٹر لگا ہوا تھا جاوید صاحب حنین کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھے ان کی نظر احمد پر پڑھی جو جانے کب سے علوینہ کو اشاروں کرتے ہوئے کچھ بول رہا تھا
احمد بیٹھا سب ٹھیک ہے نا؟
جاوید صاحب نے کہا
یس ڈیڈ
احمد نے بس اتنا ہی کہا اور دوبارہ سے وہی سب کرنے لگا وہ اس بات سے انجان
تھا کے اس بار جاوید صاحب کی نظریں اسی پر تھی
ڈیڈ احمد آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہے
علوینہ یہ کہتے ہی فورن سے کہا جاوید صاحب نے احمد کو سوالیہ نظروں سے دیکھا
کیا باتھ ہے احمد
فاطمہ اما نے احمد کو دیکھتے ہوئے کہا
کچھ بھی نہیں دادوں آپی بس ایسے ہی تنگ کر رہی ہے
وہ چھرے پر جھوٹی مسکراہٹ لاتے ہوئے بولا
واقعی کوئی بات نہیں ہے نا
سیمابیگم نے کہا
یس موم
پکا نا؟
علوینہ نے اسے آنکھیں دکھائی تھی تو وہ چپ ہوگیا تھا
ڈیڈ مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے
کچھ دیر کے بعد اس نے حمت کر کے کہا
بولو بیٹھا کیا بات ہے
جاوید صاحب نے محبت سے جواب دیا
ڈیڈ میں...وہ....میں...
وہ بات کرتے کرتے رکھ گیا اور ایک نظر علوینہ کو دیکھا
میں ماہی سے بہت محبت کرتا ہوں آئی نو اس کا کسی اور کے ساتھ رشتہ پکا ہو گیا ہے لیکن آپ ایک بار انکل سے بات تو کرکے دیکھیں کیا پتا وہ مان جائے
ابکی بار اس نے بولنا شروع کیا تو رکھنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا وہا موجود لوگ اسے دیکھتے ہی رہ گئے تھے
پانی پی لو
علوینہ اس کا مذاق اڑاتی ہوئی بولی
تو یہ بات ہے جس کی وجہ سے تم صبح سے علوینہ کے پیچھے پڑے ہوئے ہوں
سیما بیگم نے اسے گھورا تھا
تمہیں سمجھ نہیں آرہی ہماری بات ایک بار نا کا مطلب نا ہی ہوتا ہے
جاوید صاحب نے کہا
اسے تو کھانا بنا بھی نہیں آتا
سیما بیگم مشرقی ماں کی طرح کہنے لگی
تو میں بنایا کرونگا نا
وہ سر جھکانے معصومیت سے کہنے لگا علوینہ کے لیے مشکل ہو رہا تھا اپنی ہنسی روکھنا
میری بات سنو احمد چاہے جو بھی ہوں ہم ایسی لڑکی سے تمہاری شادی نہیں کرا سکتے جسے کچھ بنانا ہی نہیں آتا ہوں
فاطمہ اما نے بھی ان سب ڈرامے میں حصہ لیتےہوئے کہا
دادوں آپ کو پتا نہیں ہے ماہی بہت اچھا میگی بناتی ہے
اس کی بات پر سب کہکہہ لگا کر ہسنے لگے احمد نا سمجھنے والے انداز میں سب کو دیکھنے لگا
میرے لیے وہ بہت احم ہے بابا پلیز مان جائے
احمد نے ایک بار پھر ڈرتے ڈرتے اپنی بات کہی
بابا؟
علوینہ حیرت سے احمد کو دیکھنے لگی احمد سر جھکائے خاموش رہا
چلو اب بہت ہو گیا اور تنگ مت کرو میرے بچے کو
حمیدہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
فکر مت کرو بیٹھا جی آپ کی شادی وہی ہوگی جہا آپ چاہتے ہے
فاطمہ اما نے اسے تسلی دی احمد کو ابھی بھی کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا
احمد یار یہ جو کچھ بھی یہا ہو رہا تھا سب ڈرامہ تھا
علوینہ ہستے ہوئے بولی
مطلب...
احمد نے نا سمجھی سے سب کو دیکھا
مطلب ڈیڈ نے دانش انکل سے تمہاری اور ماہی کی بات پکی کردی ہے اس مہینے کےآخر میں تمہارا اور ماہی کا نکاح ہے
اسے جیسے علوینہ کی بات کا یقین ہی نہیں آرہا تھا احمد نے جاوید صاحب کو دیکھا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے ہامی میں سر کو حلایا تب جاکر اس نے سکون کا سانس لیا تھا
ماہی میگی بڑا اچھا بناتی ہے
علوینہ نے مسلسل ہستے ہوئے بول رہی تھی
شادی کے بعد کھانا بھی احمد بنایا کریگا
سیما بیگم نے بھی علوینہ کا ساتھ دیا
ارے ارے ہمارےاحمد کے لیے وہ بہت احم ہے
حمیدہ بیگم کی بات پر سب زور زور سے ہسنے لگے
میں چلتا ہوں
اتنا کہتے ہی وہ سر جھکائےوہا سے چلا گیا اور پیچھے سب لوگ ہنس دئے
☆☆☆☆☆
آج جاوید صاحب کے گھر ایک فیملی ڈنر رکھا تھا اور وہی پر بیٹھ کر شادی کی ساری باتیں بھی ہو جائے گی احمد اپنے کمرے میں تھا عاروش اور ذیشان بھی اس کے پاس چلے گئے تھے ردا سنبھل جیا صالحہ عالیہ اسد سمیر شیریار ماہی اور اکرام اور تینوں بچھے یہ سب کزن الگ سے بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے فاطمہ اما جاوید صاحب اور انکی زوجہ احتشام صاحب اور انکی زوجہ دانش صاحب اور انکی زوجہ حکمت صاحب اور انکی زوجہ عمر اور علوینہ سب الگ بیٹھے ہوئے تھے اور اپنی باتوں میں مصروف تھے کھانا ملازم بنا رہے تھے توڑی دیر بعد ایک ملازم نے آکر کہا کے کھانا لگ چکا ہے تو سب کھانے کی ٹیبل کی طرف بھڑ گئے اور جو موجود نہیں تھے ملازم کو انہیں بلانے کے لیے کہا توڑی دیر بعد سب لوگ آچکے تھے اور کھانا کھانے لگ گئے تھے
کیا دیکھ رہے ہوں احمد ماہی میرے ساتھبیٹھی ہے
احمد بار بار ادر عدر دیکھ رہا تھا آخر صالحہ کی نظر اس پر پڑھی تو اسے تنگ کیے بنا وہ رہ نہیں سکی
صالحہ تم بار بار کباب میں ہڈی کیوں بنے آجاتی ہوں
احمد اس کی طرف متوجہ ہوا
کیا کرو عادتن مجبور ہوں کسی کپل کو ایک ساتھ دیکھ ہی نہیں سکتی
صالحہ افسوس کرتی ہوئی بولی
میری بات کان کھول کر سن لو صالحہ قیامت کے دن تمہارا الگ سے حساب ہوگا
احمد کہ بات پر صالحہ کو ہنسی آرہی تھی
کوئی بات نہیں تب کا تب دیکھ لینگے
صالحہ نے سنجیدگی سے کہا
ویسے آگر میں چاہوں تو آپ کو موقع مل سکتا ہے میری دوست سے بات کرنے کا
کچھ دیر بعد صالحہ نے کہا
نیکی اور پوچھ پوچھ
احمد کھانا کھاتے ہوئے بولا تو صالحہ مسکرادی
زیادہ اڑو نہیں شادی سے پہلے تم میری دوست سے بات نہیں کر سکتے
صالحہ نے اس کے سارے پلان پر پانی پھیرتے ہوئے کہا
اور آگر میں نے آپ کی دوست سے بات کرلی تو؟
احمد ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے دھیمی آواز میں بولا
فضول میں محنت کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں ہونے ہی نہیں دونگی
صالحہ تنزیہ مسکراتے ہوئے ماہی کی طرف متوجہ ہوئی تھی
کھانا کھانے کے بعد سب بڑے ایک جگہ بیٹھ گئے اور اب کزنز جاکر اسد کے کمرے میں بیٹھ گئے تھے سب لوگ اپنی باتو میں مگن تھے احمد ہر ممکن کوشش کر رہا تھا کے کسی طرح وہ ماہی سے بات کر سکے جب سے انکا رشتہ پکا ہوا ہے تب سے اسے کوئی موقع ہی نہیں ملا تھا کے وہ جی بھر کے ماہی سے بات کر سکے آخری بار ماہی اور اس کی بات ہسپتال میں ہی ہوئی تھی جب اسے پتا لگا کے دانش صاحب کے ساتھ ماہی بھی آرہی ہے اس کہ خوشی کا تو کوئی ٹکانا ہی نہیں تھا پر اب صالحہ ان کے بیچھ دیوار بنی کڑی تھی جس پر احمد کو کافی چڑھ ہو رہی تھی صالحہ ہے جب کے ماہی ان دونوں کی نوک جھوک کو مزے سے انجوئے کر رہی تھی توڑی دیر بعد دانش صاحب کی فیملی اپنے گھر کو روانا ہوگئ تھی جب کے باکی سب ابھی تک موعز ہاؤس میں ہی تھے توڑی دیر بعد باکی سب بھی اپنے اپنے گھر کو چل دئے تھے
☆☆☆☆☆
اسلام علیکم دادوں
فاطمہ اما بیڈ پر بیٹھی تصیح پڑھ رہی تھی جب اسد نے ان کے پاس آکر سلام کیا جیسے ہی وہ یونی سے آیا ملازمہ نے اسے خبر دی کے فاطمہ اما کب سے اس کا انتظار کر رہی ہے ملازمہ کی بات سنتے ہی وہ سیدھا فاطمہ اما کے کمرے میں آگیا تھا
وعلیکم اسلام
فاطمہ اما نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا
آپ میرا انتظار کیو کر رہی تھی
اسد مسکراتے ہوئے بولا
بس ایسے ہی کافی دنو سے دیکھ رہی ہوں زیادہ طر گھر سےباہر ہی رہنے لگے ہوں تم
افاطمہ اما کی بات پر اسد مسکرا دیا
دادوں ایک بات پوچھوں؟
اسد نے فاطمہ اما کہ گود میں اپنا سر رکھا
ہاں پوچھوں
لوگوں کو ہمارے احساسات ہمارے جذبات کی کوئی پرواہ کیو نہیں ہوتی
وہ الجھے ہوئے انداز میں بولا فاطمہ اما سمجھ گئی وہ کیا کہنا چاہتا ہے
یہ ضروری تو نہیں کے جو تم محسوس کرواس کا احساس سب کو ہو جائے
وہ پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی
ایک اور سوال پوچھو
وہ بچھو کی طرح کہنے لگا فاطمہ اما نے اسے مسکرا کر دیکھا
کیا واقعی دنیا مکافات عمل ہے ہوتی ہے یا یہ محض ایک تسلی ہے
اسد تھکے تھکے انداز میں بولا
میری جان دنیا مکافات عمل ہے اس بات کی تمہیں خبر ہوجائے گی بس سہی وقت کا انتظار کرو
نہیں دادوں دنیا مکافات نہیں ہے دنیا مکافات عمل ہے تو محبت کے بدلے محبت کیو نہیں ملتی
اس نے دھیمی آواز میں کہا
کچھ محبتوں کا زندگی میں نا پانا ہی ہمارے لیے بہتر ہوتا ہے
فاطمہ اما نے دو ٹوک لہجے میں کہا
وہ بہت پرسکون ہو گیا تھا آج اتنے عرصے بعد اسے اپنے سوال کا جواب مل گیا تھا آپ کسی شخص پر اپنی قیمتی محبت عقیدت اور اعتماد دل کے ساتھ نچھاور کرتے رہو اور آخر میں وہی شخص ہمارے آنکھوں کے آنکھوں کے سامنے ہمارے جذبات کو ہیرو تلے کچل دیتا ہے
کسی سے خاموش محبت کرنا آسان نہیں ہوتا اور آخر کون ہے وہ لوگ جو کہتے ہے کے کسی سے خاموش محبت کرنے سے کوئی تکلیف نہیں ہوتی جان سے پیارے شخص کو کسی اور کا ہوتے دیکھنا آسان ہوتا ہے کیا کسی سے خاموش محبت کرنا گھاٹے کا سودا ہوتا ہے آپ کو نا چاہتے ہوئے بھی ساری اذیت برداشت کرنی پڑتی ہے اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں ہوتا اسد کے پاس بھی برداشت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا
☆☆☆☆☆
مانو یہ دیکھو یہ کیسا ہے؟
ردا ایک ایک کر کے ماہی کو نکاح کے ڈریس دکھا رہی تھی وہ دھٹائی سے موبائل یوس کر رہی تھی اس وقت ردا ماہی سنبھل صالحہ سب شادی کی شاپنگ کرنے آئی تھی ماہی ان کے ساتھ نہیں جانا چاہتی تھی پر دانش صاحب نے اسے جانے کا کہا تھا یا یو سمجھ لے کے زبردستی بھیج دیا تھا جس کا بدلہ وہ اب ان سب سے لے رہیتھی انہوں اگنور کرتے ہوئے
ماہی.ی.ی.ی.ی
صالحہ اس کے کان میں چلاتے ہوئے بولی
اللہ صالحہ انسانوں والی حرکتیں کب سیکھو گی تمہارا بھس چلے مجھے جان سے ہی مار دو
وہ بیزاریت سے کہنے لگی
چپ چاپ بتاو یہ ڈریس کیسا ہے؟
صالحہ ایک بار پھر اسے ایک ایک کر کے ڈریس دکھانے لگی
کوئی سا بھی پسند کرلوں میں پہن لونگی
سنبھل اور ردا ان دونو کو دیکھتے ہوئے ہنس رہی تھی جب کے صالحہ شدید غصے کی حالت میں ماہی کو دیکھ رہی تھی
میری بات سنو ماہی شرافت سے ڈریس پسند کرلو ورنا قتل کر دنگی میں تمہیں سن لیا تم نے
صالحہ کی دھمکی دینے پر ماہی نے اسے حیرت بھری نظروں سے دیکھا
ارے آرام سے صالحہ ابھی تو میری بہن کی شادی بھی نہیں ہوئی ہے
سنبھل ان کے پاس آکر بولی
صالحہ تم میرے ساتھ آجاو ماہی کو سنبھل دیکھ لیگی
ردا صالحہ کو اپنے ساتھ لے گئی اور سنبھل ماہی کے لیے ڈریس پسند کرنے بیٹھ گئی کیونکہ اسے پتا تھا ماہی یہ سب نہیں کرنے والی کچھ ہی دیر گزری تھی جب ماہی کا موبائیل بھجنے لگا تھا
اچھا آپی آپ ان میں سے کوئی ڈریس پسند کرلے میں توڑی دیر میں آتی ہوں
مجھے اکیلا چھوڑ کر تم کہا جا رہی ہوں؟
سنبھل نے اسے روکھتے ہوئے کہا
کام ہی آپی توڑی دیر میں آتی ہوں نا
وہ ضد کرتے ہوئے بولی
پتا ہے کون سا کام ہے تمہیں لاو فون دو اپنا
ماہی نے دیکھا تو صالحہ پھر سے اس کے سامنے کڑی تھی صالحہ نے اسے فون لیا اور کال ریسیو کی اسے پتا تھا یہ احمد ہی ہے جو بار بار اسے فون کر رہا ہے
ہاں بولو کیا مصلہ ہے؟
صالحہ تیزی سے بولی
وہ دراصل میں کچھ بھول گیا تھا کے تمہارا میں نے کیا بگاڑا ہے تم یاد کرا لو گی پلیز
احمد تنگ آکر کہنے لگا
بکواس نہیں کرو احمد کام بتاؤ کس لیے فون کیا
صالحہ کے کہتے ہی ردا اور سنبھل ہنس دئے جب کے ماہی سنجیدگی سے ان دونوں کو سن رہی تھی
میں نے تمہیں فون نہیں کیا ہے اپنی ہونے والی و ایف کو فون کیا ہے چلو ماہی کو فون دو
احمد نے ناک سکوڑتے ہوئے کہا
ہا بھائی ہمیں پتا ہے آپ کی ہونے والی و ایف ہے پر ہوئی ہوئی تو نہیں ہے نا
صالحہ نے زوجہ لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا
یار صالحہ ایک بار ماہی سے بات کرنے دو نا پلیز
ابکی بار وہ ہار مانتے ہوئے بولا
بلوکل بھی نہیں
صالحہ نے کہتے ہوئے فون کٹ کر دیا دوسری جانب احمد اس کی دھٹائی پر سر پیٹھتا رہ گیا
☆☆☆☆☆
آج ماہی اور احمد کی مایو تھی صبح سے اسد اور عمر کام میں لگے ہوئے تھے صالحہ بھی ان دونوں کے ساتھ چھوٹی موٹی مدد کر رہی تھی موعز ہاؤس میں کافی عرصہ بعد کسی کی شادی ہو رہی تھی وہ کسی کسم کی کوئی کمی نہیں چاہتے تھے رات ہو چکی تھی اور مایو کا فنکسن بھی شروع ہو چکا تھا پر ابھی تک سب تیار ہونے میں لگے ہوئے تھے
ماہی نے پیلے رنگ کا بہت ہی خوبصورت مایو ڈریس زیب تن کیا ہوا تھا اور ساتھ ہی اس نے مایو کے زیور پہنے ہوئے تھے اس نے صرف پنک کلر کی لپ اسٹک اور آنکھوں میں کاجل لگایا ہوا تھا اس نے توڑے سے بالو کو آگے کاندھے کی طرف ڈالا ہوا تھا اور ساتھ ہی اس پر hair spray کیا ہوا تھا تاکہ curls خراب نا ہو جائے اور بڑی ہی خوبصورتی سے اس نے دوپٹہ سیٹ کیا ہوا تھا وہ نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی
ردا سنبھل جیا صالحہ عالیہ ثناء علوینہ ان سب نے ایک ہی طرح کے فراک پہنے ہوئے تھے جو ہلدی کلر کے تھے اور وہ سب بہت خوبصورت لگ رہی تھی دوسری جانب
احمد نے سفید رنگ کی شیروانی اور ہلدی کلر کا واسکوٹ پہنا ہوا تھا اور سیم کلر کی شیروانی اسد نے بھی پہنی ہوئی تھی فرک بس اتنا تھا کے اسد نے واسکوٹ پہنے کے بجائے ہلدی کلر کا مفلر لیا ہوا تھا وہ دونوں زیادہ طر ہر فنکشن میں ایک جیسے کپڑے ہی پہنتے تھے آج بھی احمد نے ضد کر کے اسد کو وہی شیروانی پہنے کا کہا جو اس نے اپنے اور اسد کے لیے لی تھی وہ دونو کسی سلطنت کے شہزادے لگ رہے تھے دونوں بھائی ایک سے بھڑ کر ایک لگ رہے تھے
کچھ دیر بعد ماہی کو سٹیج پر لے آئے تھے سب ایک جگہ جمہ ہوگئے تھے کوئی سیلفیز لے رہا تھا تو کوئی ایک دوسرے کو چرھانے میں مگن تھے تھے دوسری جانب احمد کے ساتھ سٹیج پر اسد عمر عاروش سمیر اکرام ذیشان سب بیٹھے ہوئے تھے توڑی ہی دیر میں مایو کی رسم شروع کردی گئی تھی احمد کو مردو والی جگہ پر بٹھایا گیا اور ماہی کو عورتوں والی جگہ پر جیا صالحہ عالیہ علوینہ سب دانس کر رہی تھی جب کے ماہی کے ساتھ سٹیج پر سنبھل ردا اور باکی عورتیں ماہی کے ساتھ سٹیج پر بیٹھی ہوئی تھی فنکسن میں گھر کے سب ہی لوگ تھے سوائے سیمی بیگم اور ہارون کے ماہی اور احمد کی شادی کا سن کر سلیمان صاحب ناراض ہوکر ملک سے باہر چلے گئے تھے اور ساتھ ہی سیمی بیگم اور ہارون کو بھی لے گئے تھے انہوں نے شیریار کو بھی اپنے ساتھ جانے کا بہت کہا پر شیری ان کے ساتھ نہیں گیا دانش صاحب کو دکھ تھا کے انہوں نے اپنے بھائی کوناراض کر دیا تھا پر ایک خوشی بھی تھی کے ماہی کی شادی اسکی مرضی سے ہو رہی ہے وہ چاہتے تھے کے ایک بار شادی آرام سے ہوجائے پھر وہ اپنے بھائی کو منانے کے لیے چلے جائنگے ابھی وہ کسی کسم کی روکاوٹ نہیں چاہتے تھے وہ ہارونکو جانتے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے ایک بار بھی سلیمان صاحب کو جانے سے نہیں روکھا تھا
توبہ ہے یار تم لوگو سے کہا بھی تھا بھاری ڈریس نہیں لے میری تو حالت بری ہوگئی اسے سنبھالتے سنبھالتے
ماہی نے اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہی ڈھائی دی
اتنا ہی مسلہ تھا تو خود پسند کر لیتی نا
صالحہ نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا
بس کردو صالحہ اب تم شروع مت ہو جانا ویسے بھی آج میں بہت تھک گئی ہوں
ماہی شیشے کے سامنے کڑے ہوکر دوپٹہ ہٹانے لگی
ہم تو بلکل نہیں تھکے ہم نے تو کوئی کام ہی نہیں کیا
ثناء کسی کی پرواہ کیے بغیر ماہی کے نرم بستر وملائم بستر پر لیٹ گئی
کہہ تو ایسے رہی ہوں جیسے سارے کام یہ کر کے آئی ہے
صالحہ بھی ثناء کے برابر بستر پر لیٹ گئی
فضول بہس نہیں کرو تم دونوں چلو اٹھو اور جاکر کھانا لاو میرے لیے
ماہی بھی ان دونو کی ہی دوست تھی
توبہ ہے بہن توڑی شرم ہی کرلو ایک بار کھانے کے بعد دوبارہ کھانے کا بول رہی ہوں
صالحہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی
مجھے نہیں پتا تھا تم گھر آئے مہمانوں سے کام بھی کرواتی ہوں
ثناء افسوس کرتی ہوئی بولی
تم لوگ مہمان نہیں ہو بڑی آئی خود کو مہمان کہنے والی
ماہی نے تنبیہ کہا
اچھا بکواس نہیں کرو جب کھانا آجائے تو مجھے جگا دینا
صالحہ آنکھیں بند کرتی ہوئی بولی
بلکل بھی نہیں کچن کا راستہ پتا ہے تمہیں جاکر لا دو میں نماز پڑھنے لگی اور تم بھی تو ایک بار کھا چکی ہوں
ماہی افسردہ چھرا بناتے ہوئے بولی
اچھا یار نماز پڑھنے کے بعد لی آنا
صالحہ ہار مانتے ہوئے بولی
ٹھیک ہے میں پہلے نماز پڑھتی ہوں پھر تینو ساتھ ڈنر کرتے ہے
ماہی بات مکمل کرتے ہوئے نماز پڑھنے کڑی ہوگئی صالحہ اور ثناء آج اسی کے گھر رکھ گئی تھی فنکسن ہال میں رکھا گیا تھا فنکشن ختم ہونے کے بعد جب وہ گھر پھنچ گئے تھے تو عشاء کی اذان کب کی ہوچکی تھی
☆☆☆☆☆
تم ابھی تک تیار کیو نہیں ہوئی
ردا جیسے ہ ماہی کے کمرے آئی اس نے دیکھا کے ماہی اپنی مہندی کی ڈریس بیڈ پر پھیلائے گھر کے سادہ سے کپڑوں میں بیٹھی کچھ سوچھ رہی تھی اس نے نظر اٹھا کر ردا کو دیکھا تو وہ رو رہی تھی
کیا ہوا مانو رو کیو رہی ہوں
ردا اسے خود سے لگاتے ہوئے بولی
مجھ سے یہ سب نہیں ہو رہا میں نہیں کر سکتی یہ سب
ماہی بھری ہوئی آواز میں بولی
کیا نہیں کر سکتی بتاو مجھے
ردا پریشانی سے بولی
آپ لوگوں کو تو میرا پتا ہے پھر بھی میرے ساتھ ایسا کیا آپ لوگوں نے
ابکی بار اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے
کیا کیا ہے ہم نے؟ بولو میری جان کیا ہوا ہے؟
ردا اس کے گالو پر بہتے آنسو کو صاف کرنے لگی
یہ بہت بھاری ہے مجھ سے نہیں پہنا جائے گا
وہ معصوم شکل بنا کر بولی ردا تو اسے دیکھتی ہی رہ گئی
تم اس کی وجہ سے رو رہی تھی؟
ردا نے بیڈ پر رکھے لہنگے کو دیکھ کر کہا
تو اور کہا بات ہوگی؟
ماہی نا سمجھنے والے انداز میں بولی
چپ چاپ جا کر تیار ہوجاو ورنا جھوٹی اتار دینی ہے میں نے
ردا غصے سے بولتی ہوئی بیڈ سے اٹھی
یار آپی نہیں کرے نا پلیز مجھ سے یہ سب نہیں پہنا جائے گا
وہ ضد کرنے لگی
رکھ جاو میں ابھی صالحہ کو بلاتی ہوں وہی ہے جو تمہیں درست کر سکتی ہے
ردا دھمکی دینے والے انداز میں بولی
کیا ہوگیا ہے یار اسے کیوں بلا رہی ہے آپ پہن رہی ہوں نا میں
ماہی اپنی ڈریس اٹھا کر چینج کرنے چلی گئی اس کے جاتے ہی ردا بھی وہا سے چلی گئی توڑی دیر بعد جب وہ تیار ہوگئی تھی اچانک ماہی کے موبائل پر احمد کی کال آگئی ماہی نے مسکراتے ہوئے کال اٹینڈ کی
کیا باتھ ہے بڑا نظرانداز کیا جا رہا ہے ہمیں
ماہی نے اٹھائی ہی تھی کے احمد کی پرجوش آواز سنائی دی
میں نے کب نظرانداز کیا ہے آپ کو؟
اس کی بات پر ماہی نے حیران ہوکر جواب دیا
کب سے فون کر رہا ہوں مجال ہے کے جواب دیا ہوں تم نے
وہ شکوہ کرنے لگا
فون میرے پاس نہیں تھا نا اسی لیے
ماہی نے فون سپیکر پر کیا اور شیشے کے سامنے کڑے ہوکر اپنا دوپٹہ سیٹ کرنے لگی
اچھا مجھے تمہیں دیکھنا ہے
وہ کچھ سوچتے ہوئے بولا
نہیں نانو نے کہا ہے شادی سے پہلے ہم مل نہیں سکتے
تو میں ملنے کا کو نہیں بول رہا دیکھنے کا کہہ رہا ہوں
احمد نے شرارت سے کہا
بلکل بھی نہیں فون رکھے ورنا صالحہ نے آجانا ہے اور پھر کیا ہوگا یہ تم اچھے سے جانتے ہوں
احمد کا جواب سنے بغیر ماہی نے فون بند کر دیا اج ماہی کی مہندی تھی
کچھ ہی دیر بعد سنبھل اور ردا ماہی کو نیچے لے گئی تھی ماہی نے گرے کلر کا لہنگے کے ساتھ پھولو سے بنے ہوئے خوبصورت زیور پہنے ہوئے تھے وہ بہت سادہ سا تیار ہوئی تھی اس کے باوجود بھی وہ بےحد خوبصورت لگ رہی تھی سنبھل اور ردا نے گرے اور میرون کنٹراس میں میکسی پہنی ہوئی
دوسری جانب احمد نے سفید شلوار سوٹ اور الٹے ہاتھ میں رست واچ پہنا ہوا تھا اس کی قدرتی نیلی آنکھیں اس کی خوبصورتی میں چار چاند لگا رہی تھیں وہ بہت وجیہہ لگ رہا تھا
اور گھر کے باقی سب لڑکوں نے ایک جیسے ہی ہلکے پیلے رنگ کے کرتے پہنے ہوئے تھے تھی مہندی کا فنکشن شروع ہو چکا تھا سب لڑکیاں اپنی اپنی مہندی لگوانے میں مصروف تھی
آپ ماہی کے ہاتھ میں احمد کا نام بھی لکھ دے
صالحہ نے مہندی والی کو کہا صالحہ کی اس فرمائش پر مہندی والی نے اس کے ہاتھ پر A لفظ لکھ دیا جسے دیکھ کر ماہی ہلکہ سا مسکرائی تھی
ابھی کل کی ہی بات ہے تم ان دونوں کو بات کرنے نہیں دے رہی تھی
ثناء نے حیرت بھری نظروں سے صالحہ کو دیکھا
وہ تو احمد کو تنگ کر رہی تھی
صالحہ آنکھ کا کھونا دباتے ہوئے بولی
احمد کو تنگ کرنےکے چکر میں میری بہن کی بینڈ بجا رہی ہوں
ردا نے کہا
کیو ان دونوں کی بد دعا لے رہی ہوں یاد رکھو تمہارا بھی ٹائم آئے گا
ثناء کی بات پر ماہی اور ردا ہسنے لگی جب کے صالحہ منہ بنا کربیٹھ گئی
آپ ایک کام کرے اس کے ہاتھ پر بھی عاروش کا نام چھپوا دے
صالحہ ناک سے مکھی اڑانے والے انداز میں بولی صالحہ کی بات پر ثناء نے اسے چٹکی کاٹی سب لوگ بہت خوش تھے اور بہت انجوائے بھی کر رہے تھے جیا اور علوینہ دونوں مل کر ڈانس کر رہی تھی جبکہ باکی سب انہیں دیکھ کر تالیہ بجا رہے تھے اور توڑی ہی دیر میں گھر کے باکی لوگو نے بھی ڈانس میں ان دونو کا بھر پور ساتھ دیا تھا
☆☆☆☆☆
شادی کی تیاریاں زور و شور پر تھیں سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے شادی حال میں رکھی گئی تھی دانش صاحب اور انکی فیملی بارات کا ویلکم کرنے کے لیے پہلے سے ہی حال میں پہنچ گئی تھی کیونکہ وہ لڑکی والے تھے ماہی پارلر میں تھی اس کے ساتھ ثناء بھی تھی ردا اور سنبھل کو بارات کا ولکم کرنا تھا اسی لیے ان دونوں میں سے ماہی کے ساتھ کوئی پارلر نہیں گیا تھا ان دونوں نے پیلے رنگ کا لہنگا پہنا ہوا تھا جو ان پر بہت جچ رہا تھا احمد کی کزن کا فرض ادا کرتی صالحہ اور جیا نے بارات کے ساتھ آنے کا کہا تھا توڑی دیر میں ہی بارات آگئی تھی ہر طرف مہمان اور گھر والے کڑے ہو کر احمد کا استقبال کر رہے تھے ردا اور سنبھل بھی پھولوں کی پلیٹ پکڑے باکی لڑکیوں کے ساتھ بارات کے استقبال کے لیے کڑی تھی اور ان پر پھول برسا رہی تھی عاروش کی نظریں ثناء کو ہی ڈھونڈ رہی تھی اسے پتا نہیں تھا کے ثناء ماہی کے ساتھ پارلر گئی ہوئی ہے احمد کو سٹیج پر بٹا دیا تھا اب سب کزنز مل کر تصویرے لے رہے تھے کچھ دیر میں ماہی کو سٹیج پر لاکر احمد کے ساتھ بٹھا دیا گیا تھا مولوی صاحب بھی آچکے تھے
نکاح پڑھانے کی اجازت ہے؟
مولوی صاحب نے دانش صاحب سے کہا
جی بلکل بسم اللہ کریں
دانش صاحب ماہی کی دوسری جانب بیٹھ گئے
ماہی بنت دانش آپ کا نکاح احمد ولد جاوید موعز کے ساتھ آپ کا نکاح آپکی رضا مندی سے ہو رہا ہے؟
جی ماہی نظریں نیچےکیئے مدھم سی آواز میں بولی
ماہی بنت دانش کیا آپ کو احمد ولد جاوید موعز بیس لاکھ حق مہر نکاح میں قبول ہے
ماہی نے ایک نظر دانش صاحب کو دیکھا تو ان کی آنکھیں نم تھی اس کا ضبط جواب دے گیا اتنی مشکل سے اس نے خود کو سنبھالا تھا پر اب اسے خود کو سنبھالا نا گیا اس کے ہاتھ مسلسل کپکپا رہے تھے دانش صاحب سے ماہی کی یہ حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی انہوں نے مضبوطی سے ماہی کا ہاتھ پکڑا تو اسکی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو گئے تھے سیما بیگم نے اسے گلے سے لگایا اور پیار کیا فاطمہ اما بھی اس کے پاس آئی اور ماتھے پر بوسہ دیا
ماہی بنت دانش کیا آپ کو احمد ولد جاوید موعز بیس لاکھ حق مہر نکاح میں قبول ہے؟
مولوی صاحب نے دوبارہ کہا احمد نے اس کے کپکپاتے ہوئے ہاتھ کو تھاما تھا اس نے احمد کی جانب دیکھا
جی قبول ہے....
وہ بھری ہوئی آواز میں بولی اسد احمد کے پیچھے کڑا آنکھوں کے گیلے گوشے کو انگلی کے پوروں سے صاف کرنے لگا آج اس نے ماہی کی اپنی محبت کہنے کا بھی حق کھا دیا تھا باری باری اس نے تین بار قبول ہے کہا دانش صاحب نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا
احمد جاوید موعز کیا آپ کو ماہی بنت دانش اپنے نکاح میں قبول ہے؟
مولوی صاحب نے اب احمد سے پوچھا اس نے مسکراتے ہوئے ماہی کی طرف دیکھا
ہاں قبول ہے....
احمد نے سر ہاں میں ہلایا مولوی صاحب نے دو بار اور پوچھا پھر اس نے ہاں کہا
ہاں قبول ہے....
احمد نے سر ہاں میں ہلایا مولوی صاحب نے دو بار اور پوچھا پھر اس نے ہاں کہا دونوں نے نکاح نامے پر دستخط کیے نکاح ہوتے ہی سب لوگ ایک دوسرے کو مبارک بات دینے لگے اسد بھی احمد کے گلے ملا اور اسے مبارک بات دی شادی کی ساری رسمیں ختم ہونے کے بعد ماہی کو موعز ہاؤس لے آیا گیا تھا گھر پہنچتے ہی کچھ رسموں کے بعد ماہی کو احمد کے کمرے میں گئے تھے اور سب لڑکے احمد کے ساتھ تھے سوائے اسد کے وہ آتے ہی اپنے کمرے میں چلا گیا تھا یہ کہہ کر کے اس کے سر میں درد ہے اسی لیے کسی نے اسے ڈسٹرب نہیں کیا
احمد کو صالحہ علوینہ جیا اور ثناء اندر نہیں جانے دے رہی تھی
تم تب تک اندر نہیں جا سکتے جب تک ہم سب کو پچاس ہزار نیک نہیں دے تھے
صالحہ نے کہا
کیا ہو گیا ہے نہیں خیر تو ہے نا؟ پچاس ہزار دیکھے بھی ہے کبھی
ذیشان اس کا مذاق اڑاتے ہوئے بولا
ذیشان تم چپ رہوں
اب کے جیا بولی
یہ نہیں دینگے چلو ہم سب اندر جاکر سو جاتے ہے
علوینہ نے سیریس انداز میں کہا
دے دو یار تمہیں تو پتا ہے تمہاری بہن سے کوئی نہیں جیت سکتا
عمر نے احمد کو ہستے ہوئے کہا احمد نے پیسے نکال کے انہوں دیے تب جاکر سب نے اسے اندر جانے دیا احمد کمرے میں آیا تو ماہی بیڈ پر گھونٹ کیے بیٹھی تھی
احمد کمرے میں داخل ہوا تو ماہی بیڈ پر گھونٹ کیے بیٹھی تھی
کمرے کو خوبصورتی سے سجایا گیا تھا احمد مسکراتے ہوئے چلتا بیڈ تک آیا اور ماہی کے سامنے بیٹھ گیا احمد نے بیٹھتے ہی سلام کیا
وعلیکم اسلام
ماہی دھمی آواز میں بولی احمد مسکرایا اور آگے بڑھ کر اس کا گھونگھٹ اٹھایا تو اسے دیکھتا رہ گیا
بہت پیاری لگ رہی ہوں
احمد نے دل کھول کر اس کی تعریف کی ماہی چپ رہی احمد نے سائڈ ٹیبل کے دراز میں سے ایک ڈبہ نکالا جس میں ایک انتہائی خوبصورت ڈائمند کا بریسلیٹ تھا جو احمد نے ماہی کے مہندی سے سجے ہاتھ میں پہنایا تھا
شکریہ میری زندگی کا حصہ بن کر اسے مکمل کرنے کے لیے پچلے کچھ دنو میں جو کچھ بھی ہوا مجھے لگا میری لاپرواہی اور خودغرضی کی وجہ سے میں تمہیں کھو دنگا میں نے یہ سوچھا بھی نہیں تھا کے ہم اب کبھی ایک ساتھ بھی ہوں گے بیشک میرے اللہ نے مجھے بہترین سے نوازا ہے
اس نے ماہی کے دونوں ہاتھوں کو پکڑتے ہوئے کہا
پتا ہے آج تمہیں پاکر میں خود کو دنیا کا سب سے خوش قسمت آدمی مانتا ہوں تمہیں پاکر میں بہت خوش ہوں
احمد محبت سے بھرپور انداز میں بولا
تم خوش تو ہوں نا؟
احمد کی بات پر ماہی نے نظر بھر احمد کو دیکھا
میں بہت خوش ہوں احمد
اس نے احمد کو دیکھتے ہوئے کہا
میں تم سے وعدہ کرتا ہوں میں تمہیں ہمیشہ خوش رکھو گا ہمیشہ تمہارا ساتھ دونگا کبھی تمہیں اکیلا نہیں چھوڑو گا
میں بھی کبھی تمہارا ساتھ نہیں چھوڑو گی احمد وعدہ کرتی ہوں
احمد نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا ان دونوں کی زندگی کی سب سے خوبصورت رات تھی کیونکہ ان دونوں کو ان کی محبت مل چکی تھی ماہی دانش سے ماہی احمد تک کا سفر آسان نہیں تھا وہ دونوں ایک دوسرے کو پاکر بہت خوش تھے سچی محبت کی آخری منزل نکاح ہی ہوتی ہے آگے ایک خوشگوار زندگی ان دونوں کی منتظر تھی
☆☆☆☆☆
احمد کی آنکھ کلی تو اسے اپنے بازو پر کسی چیز کا بوجھ محسوس ہوا اس نے اپنے پہلو میں دیکھا تو ماہی اس کے بازو پر سر رکھ کر سو رہی تھی احمد انتہائی دلچسپی سے یہ منظر دیکھ رہا تھا اس نے ماہی کے چھرے پر آتے ہوئے بالوں کو ہٹایا اور فریش ہونے کے لیے واشروم میں چلا گیا جب وہ فریش ہوکر باہر آیا تو ماہی ابھی بھی سو رہی تھی احمد نے اسے دھیرے سے اسے آواز دی تھی جس کا ماہی پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا احمد اس کے قریب گیا اور اس کے ماتھے پر بوسہ دیا جس پر وہ ہلکا سا کسمسائی تھی
"ماہی اٹھو نیچھے سب ہمارا انتظار کر رہے ہونگے"
احمد کی آواز پر ماہی کی آنکھ کھلی تو بستر سے اٹھ کر واشروم کی جانب بڑھی تھی کچھ دیر بعد ماہی اس کے سامنے تھی اس نے بےبی پنک کلر کی فراک پہنی ہوئی تھی اس کے بال کھلے ہوئے تھے ماہی کو شروع سے میک اپ کا کوئی خاص شوق نہیں تھا اس نے صرف ہلکی سی لپ اسٹک لگائی ہوئی تھی جس میں وہ انتہا کی حسین لگ رہی تھی احمد گھری نظروں سے ماہی کو دیکھ رہا تھا جو اس وقت بہت حسین لگ رہی تھی
"چلے"
ماہی نے احمد کی جانب مسکرا کر دیکھا تو احمد اس کے ساتھ چل دیا وہ دونوں سیڑھیاں اترتے ہوئے نیچھے چلے گئے جہا سب گھر والے ناشتے پر ان کا انتظار کر رہے تھے دانش صاحب اور مسکان بیگم بھی ناشتہ لیکر آئے ہوئے تھے

Assalam o alaikum umeed hy ap sbh ko ep acha laga hoga jin readers ko asad or mahi ka coupl psnd tha unko sorry lkn asad k sth bhi acha hoga❤

دلِ نادان Where stories live. Discover now