Episode 18

484 24 46
                                    

گھڑی کی سویاں دن کے تین بجا رہیں تھیں کمرے میں ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا  اور ساتھ ہی خاموشی کا راج تھا فون پہ مسلسل کسی کی کالز آرہی تھی کافی دیر اس نے فون نہیں اٹھایا اور بلنکٹ میں منہ چھپائے خاموش رہی اسے اپنے جسم میں کافی تھکاوٹ اور پسلیوں میں بہت تکلیف محسوس ہو رہی تھی وہ دو دن سے اپنے کمرے سے باہر نہیں گئی تھی کھانا کھانے کے لیے بھی نہیں سنبھل اس کے لیے کھانا کمرے میں ہی لادے تھی بلنکٹ میں منہ چھپائے وہ مسلسل روئے جا رہی تھی پچھلے دو دنوں سے وہ ایسے ہی رو رہی تھی آج تک اس کے بابا نے کبھی اس سے اونچی آواز میں بات نہیں کی تھی اور آج انہوں نے ماہی پر ہاتھ اٹھایا وہ بھی ہارون کی باتوں میں اکر فلحال تو اسے یہی بات اندر ہی اندر مار رہی تھی کے اس کے اپنے بابا نے اس پر یقین نہیں کیا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ اپنی تکلیف کیسے ختم کرے آنکھوں میں کئی دنوں سےنیندکی طلب تھی اسے یو لگ رہا تھا جیسے درد سے اس کا سر پھٹ جائے گا آخر میں تنگ آکر اس نے شدید بخار کی حالت میں بلنکٹ ہٹایا اور سائڈ ٹیبل پر رکھا فون اٹھا دیا
کہا ہوں یار
کل یونی کیوں نہیں آئی
اور آج بھی نہیں آئی تھی
فون کی دوسری جانب اس شخص کی آواز سنتے ہی اس نے ایک نظر سکرین پر ابھرتے ہوئے نام پر ڈالی جو کے احمد کا تھا وہ خاموش رہی دوسری جانب احمد جو کے کیفے میں پریشان بیٹھا ہوا تھا ماہی کے جواب نا دینے پر وہ مزید پریشان ہو گیا
ماہی.....
وہ پریشانی سے کہہ رہا تھا
ہاں بولو
وہ اتنا ہی کہہ سکی
تم ٹھیک ہو نا؟
احمد کو فکر ہونے لگی
میں ٹھیک ہوں
اس نے بس اتنا ہی کہا
میں پچھلے دو دنوں سے تمہارا فون ٹرائے کررہا ہوں تم میری کال کیوں نہیں اٹھا رہی؟
احمد سنجیدگی سے بولا
کوئی ضرورت نہیں کال کرنے کی آئندہ مجھے کال مت کرنا احمد
کیا ہوا ہے ماہی تم ایسا کیو بول رہی ہوں میں محبت کرتا ہوں تم سے کوئی پریشانی ہے تو مجھے بتاو لیکن مجھے خود سے دور ہونے کا مت کھو پلیز
احمد...
کتنا درد تھا اسکی آواز میں
کیا ہوا ہے ماہی تم مجھ سے کچھ چھپا رہی ہوں کیا؟
بابا نے میری شادی فکس کردی ہے
وہ کہتے کہتے روکھ گئی تھی....
ہارون کے ساتھ
ابکی بار اسنے روتے ہوئے کہا تھا احمد کوئی حرکت نہیں کر سکا اسے سمجھ نہیں آرہا کے وہ اس بات کا کیا جواب دے اور وہ کوئی جواب دیتا اسے پہلے ماہی نے کال کاٹ دی احمد نے دوبارہ کال کی تو ماہی نے کال کاٹ دی شدید پریشانی کے عالم میں اس نے تیسری بار کال کی پر اس بار ماہی کا فون بند آرہا تھا وہ فورا سے اٹھا اور بل پے کر کے وہا سے جاکر گاڑی میں بیٹھ گیا اور تیزی سے گاڑی منزل کی اور روانا کردی...
پورا کمرا اب اس کی سسکیوں سے گھونج رہا تھا وہ منہ پر ہاتھ رکھے روئے جارہی تھی وہ دل کے ہاتھوں بڑی طرح مجبور ہوگئی تھی ماہی ہارون سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی اب اسے احساس ہو رہا تھا کے احمد سے بدلہ لینے کے چکر میں اس نے احمد کو ہی کھو دیا ہے اسے اندازہ ہوگیا تھا کے اسے دانش صاحب کو پہلے سے ہی سب بتا دینا چاہیے تھا آگر وہ پہلے بتا دیتی تو آج یہ سب نہیں ہو رہا ہوتا
☆☆☆☆☆
دسمبر کا مہینہ تھا موعز ہاؤس میں ہر طرف سکون اور خوشگواری پہلی ہوئی تھی
باہر ٹھندی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی جو ماحول میں ایک الگ ہی تازگی پیش کر رہی تھی سب گھر والے لیونگ روم میں بیٹھے چائے پی رہے تھے اور ساتھ ہی باتوں میں لگے ہوئے تھے اچانگ انہیں بار بار ہارن کہ آواز سنائی دی جو کے بند ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی چوکیدار اپنی کاٹیچ سے باہر نکلا اور بیرونی دروازے کی طرف بھاگتے ہوئے گیا اور جلدی سے دروازہ کھول دیا گاڑی تیزی سے گھسی اور پورچ میں جاکر رکی چوکیدار نے اسے سلام کیا جس پر اسنے بلکل بھی دھیان نہیں دیا یا یوں کہو کے اسے سنائی ہی نہیں دیا احمد بنا کسی کی طرف دیکھے گھر کے اندر چلا گیا چوکیدار کو کافی حیرانگی ہوئی کیونکہ احمد ایسا نہیں تھا وہ تو ایک خوش مزاج اور سب کی پرواہ کرنے والا تھا پر آج وہ بنا سلام کا جواب دیے ہی چلا گیا تھا کچھ وقت وہی کڑے ہونے کے بعد وہ واپس سے اپنے کاٹیچ میں چلا گیا
کتنی بار کہا ہے آپ لوگو کو اس لڑکے کو زیادہ سر پر نا چڑھائے نخرے تو دیکھو اس کے
سیما بیگم ٹیبل پر کپ رکھ کر کہا یقینن وہ احمد کا لگاتار ہارن بجھانے پر کافی چھڑ گئی تھی اور اب وہ باکی سب کو کوس رہی تھی اسے پہلے کوئی اور کچھ کہتا احمد چہرے پر اداسی سجائے لیوینگ روم میں داخل ہوا تھا
مجھے آپ سب سے کچھ بات کرنی ہے..
اس نے کسی کو سلام کرنے کا موقع نا کیا دیتے ہوئے کہا وہا بیٹھے سب لوگوں کو احمد کی اچانک بات پر توڑی پریشانی ہوئی
اللہ خیر کیا ہوا ہے احمد سب خیریت ہے نا؟
فاطمہ اما نے گھبراتے ہوئے کہا
سب خیریت ہے دادو بس مجھے کچھ ضروری بات کرنی ہے آپ لوگوں سے
احمد نے ایک نظر سیما بیگم کو دیکھا اور پھر جاوید صاحب کو دیکھا
بولوں بیٹھا کیا بات ہے؟
جاوید صاحب نے کہا
احمد...علوینہ نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے نا بتانے کا اشارہ کیا کیونکہ وہ جانتی تھی کے احمد کیا بات کرنے والا ہے
کیا بات ہے علوینہ تم دونوں کیا چھپا رہے ہوں ہم سے؟
سیما بیگم نے علوینہ سے کہا تو وہ خاموش رہی
احمد بولو بیٹھا کیا بات ہے
احتشام صاحب نے نرم لہجے میں کہا
میں شادی کرنا چاہتا ہوں
احمد کی بات پر وہا بیٹھے سب لوگ مسکرانے لگے علوینہ اور اسد کو چھوڑ کر کیونکہ علوینہ کو پتا تھا کے موعز ہاؤس میں کوئی بھی احمد کو سپورٹ نہیں کریگا اسی لیے نہیں کے وہ ماہی سے شادی کرنا چاہتا ہے بلکہ اسی لیے کے وہ ماہی کا رشتہ پکا ہونے کے بعد سب سے کہ رہا ہے اسد بھی خاموش رہا اسکے پاس کہنے کے لیے الفاظ ہی نہیں تھے
بس اتنی سی بات تم نے تو ہمیں درا ہی دیا تھا
حمیدہ بیگم نے مسکرا کر اس کا کان پکڑتے ہوئے کھینچا تھا
لڑکی کون ہے کہا سے ہے کیا کرتی ہے کچھ تو بتاو ایک کام کرو ہمیں کل اس کے گھر لیکر چلو ہم کل ہی رشتہ پکا کرا کر آتے ہے
جاوید صاحب نے خوشی ظاہر کرتے ہوئے کہا احمد خاموش رہا کیونکہ اسے اچھی طرح اندازہ تھا کے کچھ دیر بعد سب ایسے ہی نہیں رہنے والے
احمد بیٹا کون ہے وہ؟
فاطمہ اما نے کہا وہ خاموش رہا سب اس کے جواب کا منظر تھے
ماہی...
ماہی کا نام سنتے ہی وہا خاموشی چھا گئی ابھی تک سب اتنا خوش ہو رہے تھے ابھی دور دور تک انکے چہروں پر کوئی خوشی نظر نہیں آرہی تھی سب حیرانگی سے احمد کو دیکھ رہے تھے
اندازہ بھی ہے کیا کہہ رہے ہوں تم
سیما بیگم غصے سے بولی
میں ماہی سے بہت محبت کرتا ہوں ماما اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں
وہ سنجیدگی سے بولا
کیا بکواس کر رہے ہوں کچھ ہی دنو میں اسکی شادی ہونے والی ہے پتا بھی ہے تمہیں؟
جاوید صاحب نے زوردار آواز میں کہا احمد کے لیے واقعی یہ حیرانگی کی بات تھی کے ماہی کی شادی کا اس کے گھر والوں کو پتا تھا
اکرام آپ بچوں کو لیکر اپنے روم میں چلے جائے
علوینہ نے اکرام کو جانےکا کہا تو وہ حسن اور حانیہ کو لیکر اوپر روم میں چلا گیا
یہ ناممکن ہے اب بہت دیر ہوگئی ہے
فاطمہ اما گھری سانس لیتے ہوئے مایوسی سے بولی
کچھ بھی ناممکن نہیں دادو میں اسے پسند کرتا ہوں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا میں آپ لوگ پلیز انکل سے بات تو کر کے دیکھے وہ مان جائنگے
احمد فاطمہ اما کے سامنے جا کر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر لاچاری سے کہ رہا تھا
سمجھ بھی رہے ہوں کے کیا بولے جارہے ہوں تم تمہاری ذرا سی غلطی سے دونوں خاندانوں کے تعلقات بگڑ سکتے ہے کچھ ہوش ہے تمہیں؟
احتشام صاحب نے سنجیدہ ہوکر کہا
چاچو آپ یقین کرے میرا ایسا کچھ نہیں ہوگا آپ ایک بار انکل سے بات تو کر کے دیکھے
احمد سہی کہہ رہا ہے پاپا ہمیں ایک بار دانش انکل سے بات کر لینی چاہیے
پوری گفتگو میں اب جاکر اسد نے کچھ کہا تھا
کیا بات کرنی چاہیے مجھ سے؟
اسد کی بات کا کوئی جواب دیتا اتنے میں ہی دانش صاحب اس کے پیچھے سے آتے ہوئے بولے ان کے ساتھ مسکان بیگم بھی تھی یقینن وہ ماہی اور ہارون کی شادی کی جبر دینے ہی آئے تھے
ارے دانش تم کب آئے؟
جاوید صاحب چھرے پر جھوٹی مسکراہٹ لاتے ہوئے بولے باکی سب نے بھی اپنی حالت درست کی
بس ابھی آیا ہوں سوچھا آپ لوگوں سے ملاقات کرلوں
دانش صاحب ان سے گلے ملے سلام دعا کے بعد سب اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے تھے اور اب سب اپنی ہی باتوں میں مگن تھے احمد دانش صاحب اور باکی سب کو سلام کرتے ہی اپنے کمرے میں چلا گیا کیونکہ اس کے وہا ہونے سے سب گھر والوں کو کافی فکر ہورہی تھے کے احمد نادانی میں دانش صاحب کے سامنے کچھ ایسا نا بولدے جس پر بعد میں سب کو پچھتاوا ہوں اسد بھی کچھ دیر وہا بیٹھ گیا اور پھر وہ بھی احمد کے پاس چلا گیا
☆☆☆☆☆
مجھے یقین نہیں آرہا کے میرے گھر والے میرے ساتھ ایسا بھی کر سکتے
احمد کی بات پر اسد نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا
نہیں مطلب کچھ بھی اسد... میں اسے چاہتا ہوں اور ماہی بھی مجھے چاہتی ہے تو گھر والے کیوں بھیچ میں آرہے ہے انہیں تو خوشی خوشی راضی ہونا چاہیے تھا
احمد غصے سے بولے جا رہا تھا
احمد وہ سب اپنی جگہ سہی بھی تو ہے تم لوگوں نے بتانے میں بہت دیر کردی ہے
اسد نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا
کچھ بھی دیر نہیں ہوئی ہے دیر تب ہوگی جب اسکی شادی ہارون سے ہوگی اور یہ میں کبھی ہونے نہیں دونگا
احمد...
اسد نے دروازے میں کڑی سیما بیگم کو دیکھ کر احمد کو مخاطب کیا
جب احمد نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو سیما بیگم کے ہونے سے اسے کچھ خاص فرک نہیں پڑا تھا
تم سے کچھ بات کرنے آئی ہوں
سیما بیگم اس کی جانب بڑھی اور احمد کے سامنے رکھے ٹیبل پر ایک کارڈ رکھ دیا احمد نے کارڈ اٹھایا تو وہ ویڈنگ کارڈ تھا جس پہ ماہی اور ہارون کا نام لکھا ہوا تھا اس کا بھس چلتا تو ابھی ماہی کو بھاگا لے جاتا
ماما پلیز مجھے آپکی توڑی سی ہیلپ چاہیے پلیز منا مت کرنا
احمد نے اس سے ریقویست کرنے والے انداز میں کہا
میں جانتی ہوں تمہیں کیا ہیلپ چاہیے میں یہا تمہاری فضول باتیں سنے نہیں آئی ہوں تمہیں یہ بتانے آئی ہوں کے اس لڑکی کی زندگی برباد مت کرو چھوڑ دو اس کا پیچھا ہمارا نہیں تو کم سے کم اس بچی کا ہی سوچھ لو تمہاری ذرا سی بیوقوفی کی وجہ سے وہ بہت بڑی مصیبت میں پڑ سکتی ہے
سیما بیگم نے غصے سے کہا
میں ماہی سے محبت کرتا ہوں ماما میں کیسے اسے برباد کر سکتا ہوں برباد تو وہ ہارون کے ساتھ شادی کرکے ہوگی جو میں ہونے نہیں دونگا
اسنے صوفہ سے اپنا جیکٹ اٹھایا اور اسے پہن کر دروازے کی جانب بڑھا تھا
خبردار احمد اگر ایک  قدم بھی آگے بڑھایا
سیما بیگم گھبراتے ہوئے بولی اسے لگا کے احمد دانش صاحب سے بات کرنے جا رہا ہے
فکر نہیں کرے ماما میری طرف سے آپ لوگوں کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی
اتنا کہتے ہوئے وہ باہر چلا گیا
اس کے پیچھے مت جاو اسد کچھ دیر اسے اکیلا چھوڑ دو
اسد اسکے پیچھے جانے لگا پر سیما بیگم نے اسے روکھ دیا
چچی جان احمد کو اکیلے جانے دینا ٹھیک نہیں ہے اس وقت احمد کافی غصے کی حالت میں گھر سے نکلا ہے
اسد پریشانی سے بولا
فکر مت کرو اسد توڑی دیر اکیلا رہے گا تو اپنے آپ ٹھیک ہوجائے گا
سیما بیگم کے کہنے پہ اسد اسکے پیچھے تو نہیں گیا پر اسے احمد کی بہت فکر ہو رہی تھی
☆☆☆☆☆
دروازہ کھولنے کی آواز سنتے ہی اسنے آنکھیں بند کرلی تھی وہ اچھے سے جانتی تھی کے اس وقت اسکے کمرے میں صرف ایک ہی شخص آسکتا ہے اور وہ اس کے بابا تھے وہ کل بھی اسی ٹائم ماہی کے کمرے میں آئے تھے انکا خیال تھا ماہی سو رہی ہے پر یہ صرف خیال ہی تھا وہ کل بھی جھاگ رہی تھی اور آج بھی دانش صاحب قدم قدم ماہی کے پاس آئے اور بیڈ کے سائڈ پر بیٹھ گئے انہوں نے ماہی کے سر پر ہاتھ پھیرا
میں جانتا ہوں میں نے تمہارے ساتھ غلط کیا پر میں اپنے بھائی کے خلاف نہیں جا سکتا
وہ بھاری دل کے ساتھ بول رہے تھے
مجھے اپنی بیٹھی پر پورا یقین ہے وہ اپنے بابا کا سر کبھی کسی کےسامنے جھکنے نہیں دے گی پر کاش تم اس وقت میری پریشانی بھی سمجھ سکتی
انہوںے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا دانش صاحب کی باتیں سن کر ماہی کے لیے اپنے آنسوؤں کوروکھنا مشکل ہو رہا تھا
ڈیڈ آپ یہا
دانش صاحب ماہی کے ساتھ ہی بیٹھے ہوئے تھے جب کمرے میں ردا آئی
کیا ماہی نے آج بھی کھانا نہیں کھایا؟
وہ افسوس سے بولے
نہیں وہ تو کمرے سے باہر ہی نہیں آئی ہے
اچھا تم جاو میں آتا ہوں
دانش صاحب کی بات پر ردا وہا سے چلی گئی دانش صاحب وہا ویسے ہی بیٹھے رہے پھر توڑی دیر بعد وہ بھی ماہی کے کمرے سے چلے گئے دروازہ بند کرنے کی دیر تھی کے ماہی نے  پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کرے تو آخر کیا کرے ایک طرف احمد اسکی محبت تھی تو دوسری طرف دانش صاحب اس کی زندگی تھی محبت کے بغیر زندگی بہت  ویران ہوتی ہے پر جب زندگی ہی نہیں رہے گی تو محبت کا کوئی کیا کرے گا وہ انہی سوچھو میں تھی
اور دل ہی دل میں اسنے فیصلہ بھی کر دیا تھا زندگی کی خاطر محبت کو چھوڑ دینے کا فیصلہ
☆☆☆☆☆
ایک محبت ہی تو ہے جو کسی سے بھی بے وجا ہوں جاتی ہے مجھے نہیں پتا کے میں تمہیں کتنا چاہتی ہوں بس اتنا جانتی ہوں کے میرے دل میں جو جذبات تمہارے لیے ہے وہ اس سے پہلے کبھی بھی کسی کے لیے نہیں آئے احمد تم میری پہلی اور آخری محبت ہوں
ماہی نے احمد کہ طرف مسکراتے ہوئے کہا
ماہی میں تم سے یہ وعدہ کرتا ہوں کے ہمیشہ تمہارا ساتھ دونگا چاہے جو بھی ہوں اور دیکھنا ہمارا ایک بہت ہی اچھا future ہوگا بس کچھ وقت کی بات ہے پھر ہم دونوں ایک ساتھ ہونگے
احمد محبت سے بھرپور انداز میں بولا
مجھے تم پر پورا یقین ہے احمد بس کبھی میرا یقین مت توڑنا پلیز
ماہی نے اسکے کندھے پر سر رکھ کر کھا احمد کے لبو سے اک دم مسکراہٹ غائب ہوگئی
ماہی مجھے تم سے ضروری بات شیر کرنی ہے
وہ ہچکچاتے ہوئے بولا آواز میں اس کو کھو دینے کا در صاف واضح ہو رہا تھا
فون کی رینگ ٹیون نے اسے ماضی کے حسین گرداب سے باہر کھینچا اس نے نام دیکھے بغیر کال ریسیو کرلی تھی
احمد کہا ہوں تم میں کب سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں
یہ آواز اسد کہ تھی
میرا انتظار مت کرو اسد میں گھر نہیں آؤنگا
اس نے دوٹوک انداز میں جواب دیا
احمد کیا ہوگیا ہے یار ذرا سی بات پر کوئی گھر چھوڑ کر جاتا ہے بھالہ
اسد اسے سمجھاتے ہوئے بولا
یہ تمہیں ذرا سی بات لگتی ہے؟ سب سے زیادہ مجھے اپنی فیملی پر ہی تو یقین تھا کہ چاہے جو بھی وہ لوگ میرا ساتھ دینگے لیکن میں غلط تھا مجھے چاہیے تھا کے فیملی کے بجائے اللہ سے امید رکھتا اگر میں نے اپنی محبت کو اللہ سے مانگا ہوتا تو اب ماہی میرے پاس ہوتی
احمد نم آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا
احمد میرے بچے بس ایک بار گھر آجاو ہم بیٹھ کر بات کرتے ہے اس بارے میں
فاطمہ اما کی آواز سنتے ہی وہ سجھ گیا کے اسد نے سپیکر آن کیا ہوا ہے اس وقت گھر کے سب لوگ فاطمہ اما کے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے
احمد کی گاڑی سمندر سے توڑے فاصلے پر کڑی ہوئی تھی وہ گاڑی کے کے اوپر بیٹھا فون کان سے لگائے ہوئے تھا
دادوں میرا انتظار مت کرے میں اب وہا نہیں آؤنگا بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کے اب جو بھی ہوگا اس کے ذمےدار آپ لوگ اور دانش انکل ہونگے
جواب سنے بغیر ہی اسنے فون کاٹ دیا اور ایک نظر ہاتھ میں پہنی ہوئی ریست واٹچ پر ڈالی تو رات کے گیارہ بھج رہے تھے اس نے فون پر ماہی کا نمبر دائل کیا پر ماہی نے فون ریسیو نہیں کی اس نے دوبارہ کوشش کی تب بھی ماہی نے فون ریسیو نہیں کیا تیسری بار احمد نے کال نہیں کی اس نے نیچے اتر کر گاڑی کا دروازہ کھولا اور اندر بیٹھ گیا
☆☆☆☆☆
صبح کے نو بج رہے تھے اس کے فون پر مسسل ویڈیو کالز آرہی تھی رینگ ٹیون کی وجہ سے اس کی آنکھ کھلی اس نے فون کی سکرین پر ابھرتے نام کو دیکھا تو ایک سیکنڈ میں ہی اس نے کال کاٹ دی اسے دوبارہ سے اسی نمبر پر پھر سے کال آئی وہ احمد کی کال تھی ماہی نے کال ریسیو نہیں کی اگلے ہی لمہے اسے احمد کا مسج آیا اور ساتھی اس نے اپنے ہاتھ کی تصویر بھی بھیجی جس میں اس نے گن پکڑی ہوئی تھی
"ماہی اگر تم سبھی مجھ سے بات نہیں کی تو گولی چلانے میں ذرا سی بھی دیر نہیں لگی مجھے"
ماہی نے جیسے ہی اس کا مسج پڑھا فورا سے بیٹھ گئی اس نے احمد کو کال کی جو اگلے ہی لمہے احمد نے ریسیو کی
پاگل ہوگئے ہوکیا تم
وہ گھری گھری سانسیں لیتی ہوئی بول رہی تھی
مجھے کوئی بہانا نہیں سنا اگر تم ابھی مجھ سے ملنے نہیں آئی تو بہت برا ہوگا
وہ وارننگ دیتے ہوئے بولا تھا
احمد پلیز ایک بار میری بات
بہت دیر ہوگئی ہے ماہی اب سنے کا وقت نہیں رہا اگر تم ملنے نہیں آئی تو جان لوں انجام برا ہوگا
ماہی اپنا جملہ پورا کرتی اسے پہلے احمد نے کہا اور کہتے ہی فون کاٹ دیا ماہی فورن اپنے کمرے سے باہر نکل گئی اور بھاگتے ہوئے سیڑھیوں سے اترنے لگی ڈائننگ ٹیبل پر موجود سب گھر والے اسے بھاگتا دیکھ کر پریشان ہوگئے تھے
روکھ جاو ماہی کہا جا رہی ہوں اور وہ بھی اس حالت میں
دانش صاحب نے پیچھے سے آواز دیتے ہوئے اسے روکھ دیا
بابا میرے پاس بلکل بھی وقت نہیں ہے میرا جانا بہت ضروری ہے پلیز
ماہینے ایک بار مڑ کر دانش صاحب کو دیکھا اور واپس سے جانے لگی
احمد کے پاس جا رہی ہوں نا؟
ہارون اونچی آوازمیں بولا
دیکھوں ہارون یہ میرا ذاتی معاملہ ہے بہتر ہوگا تم اس سے دور ہی رہو
ماہی نے بھی اسی کے انداز میں کہا
دیکھ رہے ہے چچا جان کیسے اس لڑکے سے ملنے کے لیے اپنے ہونے والے شوہر کے ساتھ بدتمیزی کر رہی ہے
ہارون جانتا تھا ایک دانش صاحب ہی ہے جو ماہی کو کابو میں لا سکتے ہے
بکواس بند کرو اپنی گھٹیا انسان
ماہی مڑی اور اپنی شہادت کی انگلی کو ہارون کی طرف اٹھاتے ہوئے کہا دانش صاحب ماہی کو اس حالت میں دیکھ کر حیران رہ گئے اس نے آج تک اپنے بابا کے سامنے کسی کو جواب تک نہیں دیا تھا وہا موجود سب لوگ اسے دیکھتے رہ گئے سیمی بیگم کا بھس چلتا تو ابھی اس کا گلہ دبا دیتی سلیمان صاحب نے ماہی کا یہ والا روپ تو کبھی نہیں دیکھا تھا شہریار سنبھل اور ردا ساتھ کڑے ہوئے حیرانگی سے یپ سارا منظر دیکھ رہے تھے
ماہی اپنے کمرے میں جاو
ہارون اس پر دھاڑا ماہی نے اسکی بات ان سنی کردی اور جانے ہی لگی
تم نے ایک قدم بھی بڑھایا تو سمجھ لینا کے تمہاری ماں کے ساتھ ساتھ تمہارا باپ بھی مر گیا تمہارے لیے
دانش صاحب کی بات پر ہارون آگے بڑھا اور اسے ہاتھ سے پکڑتے ہوئے کھینچا
ہارون میرا ہاتھ چھوڑو
وہ اپنا ہاتھ چھڑانے لگی ہارون نے اسے دانش صاحب کے سامنے لا کر کڑا کر دیا
بابا میری بات سنے ایک بار بس ایک بار مجھے احمد سے ملنے دے پلیز بس ایک بار میرا اسے ملنا بہت ضروری ہے پلیز
وہ التجا کرنے لگی
ہارون ماہی کو اس کےکمرے تک چھوڑ آو
ہارون اسے اپنے پیچھے کھینچتے ہوئے جانے لگا ماہی مسلسل چلا رہی تھی
بابا وہ مر جائے گا پلیز مجھے ایک بار اس کے پاس جانے دے پلیز بابا
ماہی کو اس حالت میں دیکھ کر سنبھل بھی رونے لگ گئی
ہارون میرا ہاتھ چھوڑو ہارون چھوڑو مجھے تم اچھا نہیں کر رہے میرے ساتھ میں نے کہا چھوڑ مجھے
ماہی کے بار بار چلانے پر ہارون کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تھا
ہارون نے اس کا ہاتھ ابھی بھی نہیں چھوڑا
بابا پلیز ہارون سے کہے مجھے چھوڑ ڈے مجھے ایک بار احمد سے ملنے دے پلیز بابا میں احمد کے بغیر نہیں رہ سکتی بابا میں مر جاو گی اس کے بغیر
وہ حلق پھاڑ کر چینخی تھی ماہی کے جذبات میں کی گئی باتوں نے دانش صاحب کے دل پر ایک چھاپ چھوڑ دی تھی
تو مر جاو
ہارون چلایا تھا جب اسے کوئی اور راستہ دکھائی نہیں دیا تو اسنے ہارون کے ہاتھ پر اپنا منہ رکھ کرزور سے کاٹ لیا
آہ.ہہہہ
جیسے ہی ہارون نے اس کا ہاتھ چھوڑا  وہ دانش صاحب کے پاس جانے ہی لگی اتنے میں ہارون نے اسے کھینچا اور ایک زور آواز دار تھپڑ اس کے منہ پہ رسید کیا ماہی کے ہارون کو کاٹنے پر ہارون کے اندر کا حیوان جہاگ اٹھا تھا
بھائی...
شہریار دور سے ماہی کی طرف بھاگتے ہوئے آیا تھا ماہی اسکے تھپڑ کا درد برداشت نہیں کرسکی تھپڑ پڑتے ہی وہ نڈھال ہوتی فرش پر گر گئی آنسو لڑھک کر گالوں پہ بہکر اس کی گود میں گرتے گئے ہارون کے زوردار تھپڑ نے ماہی کا ہونٹ پھاڑ کر زخمی کر دیا تھا اس کے ہونٹ سے خون بہنا شروع ہو گیا تھا
میں بے تمہیں ہی حق نہین دیا ہے کے تم میری بچی پر ہاتھ اٹھاؤ
دانش صاحب ہارون پر چلائے تھے ماہی کو اس حالت میں دیکھ کر دانش صاحب کو زندگی میں پہلی بار اپنے کیے گئے فیصلے پر پچھتاوا ہوا وہ نہیں چاہتے تھے اس وقت وہ سلیمان صاحب کے سامنے ہارون کو اور کچھ کہے سنبھل ماہی کے پاس آئی اور اسے سہارا دے کر اٹھایا تھا ماہی چھپ چھاپ بنا کچھ کہے اپنے کمرے کی طرف روانہ ہوئی کمرے میں جاتے ہی اس نے دیکھا کے بیڈ پر پڑا اس کا فون وائبریٹ ہو رہا تھا اس نے ویڈیو کال ریسیو کی
میں نے کہا تھا اگر تم نہیں آئی تو گولی چلا دونگا اب اپنی آنکھوں سے میری موتکا تماشہ دیکھو ماہی
احمد نے اسے پہلے کی طرح ویڈیو کال کی ہوئی تھی ماہی نے دیکھا اس نے اپنی کنپٹی پر گن رکھی ہوئی تھی وہ ویڈیو کال پر احمد کو دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی احمد نے اس کے چہرے پر نظر ڈالی تو وہ سانس لینا بھول گیا اس کے
ماہی کے گال پر تھپڑ کے نشان اور ہونٹ سے بہتا ہوا خون دیکھ کر اسے یوں روتا ہوا دیکھ کر اس وقت اس کا خون گھول رہا تھا اس کی آنکھوں سے بااختیار آنسو گرنے شروع ہو گئے اسے یو لگ رہا تھا جیسے کسی نے اس کا دل جھکڑا ہوں
کس نے کیا یہ؟
ماہی نے کوئی جواب نہیں دیا وہ بس روئے جارہی تھی
تمہیں میری قسم سے بولو ماہی یہ سب کس نے کیا؟
وہ غصہ سے آگ بگولا ہو کر بول رہا تھا
ہارون
ہارون کا نام لیتے ہی ماہی کے رونے میں مزید اضافہ ہوا تھا احمد نے دل ہی دل میں فیصلہ کر دیا تھا کے وہ ہارون کو بخشیں گا نہیں
میں ابھی اور اسی وقت تمہارے پاس آرہا ہوں تم رونا بند کرو پلیز
احمد کی آواز میں ہربڑاہٹ تھی وہ پہلے سے ہی اپنی گاڑی میں بیٹھا ہوا تھا اس نے فورا سے اپنی گاڑی سٹارٹ کی اور فون بند کر کے گاڑی فل سپیڈ سے چلانے لگا
بس بہت کر لیا بڑو کا لحاظ اب اور نہیں
آنسو تھے کے رکھنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے اس وقت وہ کچھ بھی کہنے اور سمجھنے کی حالت میں نہیں تھا اس کے فون پر اسد کی کالز آرہی تھی وہ فل سپیڈ سے گاڑی چلا رہا تھا اسنے فون ریسییو کی
احمد مجھے تم سے ملنا ہے بتا کہا ہے تو؟
آخری آواز اسنے اگر کسی کی سنی تھی تو وہ آواز اسد کی سنی تھی اس کے بعد احمد کے کانو میں کسی چیز سے ٹکرانے کی زوردار آواز آئی تھی وہ سر اٹھا کر دیکھنا چاہتا تھا لیکن اسٹیرنگ اس کے اس کے سر کے پچھلے حصے پر جا لگا ساتھا کانچ کا ٹکڑا بھی اس کے سر کے پچھلے حصے پر لگا تھا کچھ ہی دیر میں وہ خون سے لت پت پڑا تھا اس کے سر سے خون بہتا ہوا اس کی گردن پر آرہا تھا اس نے فون کی طرف دیکھا تو فون کی دوسری جانب اسد مسلسل اس کا نام لیتے ہوئے چلا رہا تھا اس نے مشکل سے چند سانسیں لی تھی اس کے سامنے ماہی کا مسکراتا ہوا چہرا سامنے آرہا تھا اس کے بعد احمد کی انکھوں کے سامنے ہر منظر دھندلا پڑھ گیا

جاری ہے

"Assalam o Alaikum Umeed hy ap sbh khryt sy hongy mujht insta pr or whatpad 2no py msg arahy thy k asad or mahi ko mila dy or mny ha bhi kh dia tha pr shyd meny glt kr dia ha bol kr Q k mujhy story ko achy sy lkhna hy yea ni k shadi krady or bs kherr choryy"

"Dil E Nadaan Ki
Next Episode Second Last
Episode Hogi"

دلِ نادان Where stories live. Discover now