آنکھیں ہے کہ بٹن دیکھ کے نہیں چل سکتے کیا؟
اسد جو اپنے کمرے سے آرہا تھا اچانک صالحہ کا اس کے سامنے آنے پر وہ دونوں ٹکڑا گئے اور یہ الفاظ صالحہ نے کہے تھے
توبہ ہے صالحہ ایک تو غلطی کرتی ہوں اوپر سے مانتی بھی نہیں اور میری آنکھیں بٹن ہے تو تمہاری آنکھیں تو ٹھیک ہے تم دیکھ کے چلا کرو
اسد نے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا
لڑکیوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے تم میں ذرا سی بھی
بدتمیز لوگ تمیز کی بات کرتے ہوئے اچھے نہیں لگتے
اسد نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا تو صالحہ ٹپ اٹھی
اب سامنے سے ہٹو جانا ہے میں نے
وہ اسے اور چڑہاتے ہوئے بولا اور آگے نکل گیا
تمہیں تو میں دیکھ لونگی
صالحہ پیر پٹختے ہوئے غصے کی حالت میں لاؤنج کی طرف چلی گی
☆☆☆☆☆
یہ آپ کی کیا لگتی ہے؟ ڈاکٹر نے ماہی کی طرف اشارہ کرتے پوچھا
بیوی ہے میری ہوش کیوں نہیں آ رہا اسے ۔۔ احمد کہ چہرے سے پریشانی صاف واضع تھی ۔
کوئی پریشانی کی بات نہی ہے کچھ دیر تک ہوش آ جائے گا ویکنس کی وجہ سے ایسی حالت میں ہو جاتا ہے آپ ان کا خیال رکھیں
جی شکریہ ڈاکٹر احمد کی نظریں ابھی بھی ماہی کی طرف تھیں
ڈاکٹر نے ایک مسکراتی نگاہ احمد کی طرف بھیجی اور ماہی کی رپورٹس احمد کو پکرائی
مبارک ہو مسٹر احمد آپ باپ بننے والے ہیں یہ کچھ میڈیسن ہیں جو آپ لے آئیں ۔
احمد کے چہرے پر پریشانی کی جگہ ایک گہری مسکراہٹ نے لے لی بے اختیار اس نے آسمان کی طرف نگاہ کی شاید وہ خدا کا شکر کر رہا تھا
بہت بہت شکریہ ڈاکٹر ۔۔۔ مسکراتے لہجے میں شکریہ احمد کی خوشی کا منہ بولتا ثبوت دے رہا تھا
تھوڑی دیر میں ماہی کو ہوش آ چکا تھا ۔۔ احمد نے اسے کچھ بولنے کا موقع دیے بغیر سب سے پہلے خوش خبری سنائی
جس کے بعد ماہی نے احمد کا خوشی سے پھولا چہرہ دیکھا اور مسکرا کر نظریں نیچی کر لیں
بے شک حیا ہی عورت کا بہترین زیور ہے ۔
احمد اور ماہی راستے میں تھے
احمد ذرا تیز گاڑی چلاو
مگر احمد تو شاید کچھ سننے کے موڈ میں نہیں تھا
ماہی نے غصہ سے احمد کو دیکھا
یہ تو ابھی سے مجھے کچھوے کی سواری پر بٹھا رہا ہے ہائے اللہ اگلے نو ماہ میں توں اب مجھے حوصلہ دینا " ماہی کی آواز اتنی ضرور تھی کے احمد با آسانی سن لے
جس پر احمد نے آمین کہتے ایک زور دار قہقہ لگایا
ہسپتال سے آتے وقت انہیں توڑی دیر ہوگئی تھی گھر آ کر سب کے پریشان سے چہرے دیکھ کر احمد کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کے کیوں اس نے کسی کی کال نہیں اٹھائی اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا مٹھائی کا ڈبہ ٹیبل پر رکھ دیا پھر ایک کروا گھونٹ پانی کا لے کر سب کی طرف دیکھا جو احمد کو ہی دیکھ رہے تھے ۔
ارے مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں کال کا پتا نہیں لگا ۔۔
وہ سب چھوڑو ماہی کو ڈاکٹر نے کیا کہا کیسے بے ہوش ہوئی سب ٹھیک ہے ؟
سیما بیگم نے پریشانی کے عالم میں کہا
جی سب ٹھیک ہے بس آپ دادی بننے والی ہیں اس وجہ سے کمزوری ہے اسے۔
جتنے آرام سے احمد نے بتایا اتنے ہی جھٹکے سے سب نے اسے مبارک دی
سب کے چہرے سے خوشی صاف نظر آ رہی تھی سوائے اسد کے جسے جب پتا لگا تو ایک عجیب سی جلن ایک انجان سا درد اسے اپنے سینے میں محسوس ہوا مگر وہ بہت جلد اپنے احساسات پر قابو پا چکا تھا۔ اس نے احمد کو گلے لگاتے ہوئے مبارک بات دی اور بنا کچھ کہے ہی اپنے کمرے کی طرف ہو لیا کافی دیر تک وہ سب وہی بیٹھے باتیں کر رہے تھے سب گھر والے بہت خوش تھے فاطمہ اما کو در تھا کے اسد کی وجہ سے ماہی اور احمد کے بیچھ دوری نا آجائے لیکن اب یہ خبر سن کر وہ بہت پی پرسکون ہوگئی تھی دوسری جانب انہیں اسد کی بھی بہت فکر ہو رہی تھی لیکن انہوں نے اس وقت اسد کو اکیلا چھوڑنا ہی بہتر سمجھا تھا
☆☆☆☆☆
رات کا آخری پہر تھا کمرے میں ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا کمرے میں سارے لائٹس آف تھے پردے گرے ہونے کی وجہ سے مکمل اندھیرا تھا کوئی بھی چیز اپنے اصل جگہ پر نہیں تھی زمین پر کانچ کے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے جگہ جگہ photo frame تھے مگر ان میں ایک بھی تصویر نہیں تھی بیڈ سے توڑے ہی فاصلے پر راکھ پڑی ہوئی تھی جو یہ منظر پیش کر رہا تھا کے اس نے ہی وہ سب تصویرے نکال کر جلائی ہے وہ بیڈ پر لیٹھا ہوا تھا اور اس کے ہاتھ میں ابھی بھی آدھ جلا سگریٹ تھا نیند پوری نا ہونے کی وجہ سے اس کی آنکھیں سرخ پڑھ گئی تھی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا اسے ہو کیا رہا ہے کیو اسے سکون نہیں مل رہا کیو اس کا دل اتنا بے چین ہے وہ بھی اس کے لیے جسے اس کی حالت کی خبر تک نہیں ہے بہت دیر سے سے وہ جاگ رہا تھا اس نے کانپتے ہوئے ہاتھ سے سگریٹ اپنے ہونٹوں کے قریب کیا اور ایک کش لگاتے ہوئے اس کی آنکھ سے ایک آنسو گر کر بیڈ پر جذب ہو گیا دنیا میں بہت سے ایسے لوگ ہوتے ہے جنہیں کسی چیز کی طلب ہوتی ہے لیکن پھر بھی وہ اسے نہیں ملتی ان لوگوں میں اسد بھی شامل تھا اسے طلب کی جستجو میں رکھا گیا تھا اس کے لیے اس کی طلب اس کی محبت ہی سب سے بڑی آزمائش بنائی گئی تھی وہ جانتا تھا وہ غلط ہے لیکن اس کا اپنے دل پر کوئی بس نہیں چل رہا تھا دھیرے دھیرے کر کے اس کی آنکھیں بند ہوتی گئی اور وہ پوری طرح نیند کی وادی میں اتر چکا تھا
☆☆☆☆☆
دادو کہا جا رہی ہے آپ؟ کچھ کام ہے تو مجھے بتائیں
فاطمہ صاحبہ سیڑھیاں چڑھ رہی تھی اتنے میں اوپر سے آتے ہوئے اکرام نے ان سے سوال کیا
نہیں بیٹھا کوئی کام نہیں ہے بس اسد کو دیکھنے جا رہی تھی
انہوں نے مسکرا کر جواب دیا
میں بلا کرلاو بھائی کو؟
نہیں نہیں میں خد اس کے چلتی ہوں تم جاکر ناشتہ پر ہمارا انتظار کرو
او کے دادو
اکرام اتنا کہتے ہی نیچے اتر کر لیونگ روم کی طرف بڑھ گیا اسکے جاتے ہی فاطمہ صاحبہ بھی سیڑھیاں چڑھ تے ہوئے اسد کے کمرے تک جا پہنچی وہ زیادہ طر اوپر نہیں آتی کیونکہ ان کے گھٹنوں میں درد ہوتا ہے آج بھی ان کے گھٹنوں میں کافی درد ہو رہا تھا لیکن وہ پھر بھی اسد کے پاس آگئی کیونکہ اس نے رات سے کچھ بھی نہیں کھایا تھا انہوں نے کمرے کا دروازہ کھولا تو ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا کھڑکیوں سے ہلکی ہلکی روشنی ارہی تھی وہ کھڑکیوں کے پاس گئی اور
کھڑکیوں سے پردے ہٹائے تو سامنے کا منظر دیکھ کر وہ حیران ہو کر رہ گئی اسد زمیں پر دراز تھا اس کے سامنے فرش پر جگہ جگہ سگریٹ کے ادھ جلے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے اسد کو ابھی تک ان کی موجودگی کا احساس نہیں ہوا تھا فاطمہ صاحبہ کے لیے یہ سب ناقابل یقین تھا وہ اسد کے توڑا قریب گئی تو انہے سگریٹ کے دھویں میں اپنا دم گھٹا ہوا محسوس ہو رہا تھا وہ زمین پر بیٹھا ابھی بھی سگرٹ کے کش لے رہا تھا فاطمہ صاحبہ کے کھانسنے پر اسد نے اسے دیکھا تو فورن سے سگریٹ پھینک دی اور ہاتھ ہلاتے ہوئے وہ دھواں ختم کرنے کی کوشش کرنے لگا
آ...دادو..آپ کب آئی؟
اسد بے یقینی سے کہتے ہوئے اٹھ کڑا ہوا
دن رات اپنے آپ کو کمرے میں بند کر کے تم یہ سب کرتے ہوں؟
فاطمہ صاحبہ نےایک زوردار تھپڑ اس کے منہ پر رسید کیا
اسد سر جھکائے خاموشی سے کڑا تھا
تمہیں اندازہ بھی ہے اگر تمہارے باپ کو تمہاری ان حرکتوں کا پتا چلا تو کیا گزرے گی اس پر
فاطمہ صاحبہ غصے سے بولی اسد ابھی بھی خاموش تھا اسے بہت کچھ کہنا تھا لیکن وہ خاموش تھا وہ کہتا بھی کیا کے اسے اپنے بھائی کی بی وی سے محبت ہے؟ اور اسے بھلانے کے لیے وہ ان سب چیزو کا سہارا لے رہا ہے
بیٹھا میری بات سنو
فاطمہ صاحبہ اپنا لہجہ نرم کرتے ہوئے بولی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا اسے اسد پر ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے تھا
سنے کو کچھ بچھا ہی نہیں ہے دادو سب کچھ ختم ہو چکا ہے سب کچھ بس آپ جائے یہا سے
اسد یہ کس طریقے سے بات کر رہے ہوں تم میرے ساتھ
دادو please leave me alone
اسد نے نرمی سے کہا اور منہ دوسری طرف موڑ لیا
کیوں خود کو اذیت دئے جا رہے ہوں تم کوئی تین سالہ بچے نہیں ہو تمہیں سمجھ نا چاہے کے جو تمہاری قسمت میں نہیں ہے وہ تمہارے لاکھ چاہنے پر بھی تمہیں نہیں مل سکتا
دادو آپ پلیز چلی جائے یہا سے پلیز چلی جائے
جواب دیتے ہوئے اسد کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے
ادھر آو میرے ساتھ بیٹھو ہمیں بات کرنی چاہیے
فاطمہ صاحبہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ بیڈ پر بٹھایا اسد بھی خاموشی سے ان کے ساتھ بیٹھ گیا کیونکہ اسے بھی کوئی بات کرنے والا چاہیے جس سے وہ بات کرکے اپنا دل ہلکہ کر سکے کافی دیر تک ان دونوں میں کوئی بات نہیں ہوئی اسد ان کی کوڈ میں سر رکھے ہوئے خاموشی سے آنسو بہائے جا رہا تھا اور فاطمہ صاحبہ میں اسے چپ کرانے کی ہمت نہیں تھی وہ اسد کی اس حالت کا ذمےدار خود کو مان رہی تھی انہے لگتا تھا اسد کی تکلیف کی وجہ وہ ہے انکی وجہ سے آج اسد تکلیف میں ہے وہ خود بھی اسد کی اس حالت پر رو رہی تھی
بول جاو اسے اور اپنی زندگی کے بارے میں سوچو تم دونو کا کوئی
مقدر نہیں ہے اسے اپنی زندگی میں خوش رہنے دو
وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی
میرے بس میں نہیں ہے اسے بھول نا مجھ سے نہیں ہوتا یہ سب آپ کو کیا لگتا ہے میں نے کبھی کوشش نہیں کی ہوگی اسے بھول نے کی آپ کو پتا ہے کیا کسی کو بھول نا آسان نہیں ہوتا بلکل بھی نہیں اور نا ہی کسی کو بھول نا مصلے کا حل ہوتا ہے
وہ ٹوٹے لہجے میں بولا
اسد بیٹھا بات کو سمجھو اسی میں تمہاری بہتری ہے
فاطمہ صاحبہ اس کے ماتھے پر پیار کرتے ہوئے بولی
دادو میں اچھے سے سمجھتا ہوں کے جو چلا گیا وہ میرے حق میں بہتر نہیں تھا تبھی تو اللہ نے اسے مجھ سے دور کر دیا جتنا اس گھر سے ماہی سے دور رہتا ہوں تو لگتا ہے مجھے صبر آگیا ہے لیکن میں یہ بھول جاتا ہوں کے مجھے لوٹ کر یہی پر آنا ہے مجھ سے نہیں ہو رہا میں اسے کسی اور کے ساتھ نہیں دیکھ پا رہا میرا دل اسکی محبت میں ایسے گرفتار ہوگیا ہے کے میں چاہ کر بھی اسے رہائی نہیں دے پا رہا نا چاہتے ہوئے بھی اللہ سے ضد کرنے لگ جاتا ہوں اللہ سے اسی کو مانگنے لگتا ہوں اس کی یادیں میرا پیچھا نہیں چھوڑ رہی ہے
وہ سسکتے ہوئے بولا
دادو میں تھک چکا ہوں میں برداشت نہیں کر پا رہا یہ سب اللہ تو سب جانتا ہے نا تو وہ مجھے صبر کیو نہیں دیتا مجھے صبر کیو نہیں آتا دادو میں مر جاونگا مجھ سے اور برداشت نہیں ہو رہا پلیز کچھ کرے دادو پلیز
میرے بچے خود کو سنبھالوں
کبھی کبھی ہمیں لگتا ہے کے اللہ پاک ہمیں نہیں سن رہا وہ ہماری دعائیں نہیں سن رہا ہماری پکار نہیں سن رہا ہم سے ناراض ہے تب ہی تو جو ہم مانگ رہے ہے ہمیں وہ نہیں دیا جا رہا حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہوتا یہ سب بس ہماری خود کی سوچ ہے اگر ہمارے لاکھ مانگنے کے بعد بھی اللہ پاک ہمیں ہماری من پسند چیز نہیں دے رہا تو اس کا مطلب یہ نہیں کے اس پاک ذات نے ہمیں سنا چھوڑ دیا وہ اپنے بندو کی ہمیشہ سنتا ہے وہ نہیں سنے گا تو اور کون سنے گا
اسد کافی غور سے انکی باتیں نا صرف سن نہیں رہا تھا بلکہ سمجھنے کی کوشش بھی کر رہا تھا
وہ ہم سے اتنی زیادہ محبت کرتا ہے کے ہماری من پسند چیز کو ہماری بہتری کے لیے ہی نہیں دیتا تمہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کے تم اپنی ہر تکلیف کے ذمےدار خود ہوں یہ اذیت اللہ پاک نہیں تم خود اپنے آپ کو دے رہے ہوں بیٹا ہماری زندگی میں بہت سے ایسے لوگ آتے ہے جنہیں ہم بہت چاہتے ہے لیکن ہمارے چاہنے سے کوئی ہمارا تو نہیں بن جاتا نا اسد زندگی میں ایک ایسا وقت بھی آجاتا ہے جہا ہم بہک جاتے ہے بھٹک جاتے ہے سہی اور غلط میں فرک کرنا مشکل ہو جاتا ہے ہمارے لئے لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کے ہم ہمیشہ گمراہ ہی رہے تم سمجھ رہے ہوں نا میں کیا کہنا چاہتے ہوں؟
انہوں نے حیرت بھری نظروں سے اسد کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا
"جی"
تمہیں یہ سب ابھی بہت مشکل لگتا ہوگا لیکن تم ہار مت ماننا اور ہمیشہ اللہ پر بھروسہ رکھنا وہ جو بھی کرے گا تمہاری بہتری کے لیے ہی کریگا میں جانتی ہوں تم اس وقت بہت تکلیف میں ہوں لیکن مجھے یہ بھی امید ہے کے تم جلدی ہی سنبھال لوگے خود کو
وہ بہت پیار سے اسے سمجھا رہی تھی
دادو تکلیف بہت ہوتی ہے لیکن میں جانتا ہوں کے یہ سب ایک وقت تک ہی ہوگا
کہتے کہتے اس نے یک دم رونا شروع کر دیا اس کے دل کا غبار اچھے سے باہر نکل رہا تھا کافی دیر تک وہ فاطمہ صاحبہ کی گود میں سر رکھے یونہی روتا رہا اور روتے روتے کب اس کی آنکھ لگ گئی تھی اس کا پتا فاطمہ صاحبہ کو بھی نہیں چلا
☆☆☆☆☆
آج احمد کو کچھ کام تھا اسے گھر آنے میں کافی دیر ہوگئی تھی رات کو جب وہ تھاکا ہوا گھر آیا تو علوینہ نے اسے کہا کے ماہی نے صبح سے کچھ بھی نہیں کھایا ہے اور پورا دن وہ اپنے کمرے میں ہی رہی علوینہ اس کے کمرے میں کھانا بھی لیکر گئی تھی پر ماہی نے کھانے سے انکار کر دیا
جب وہ اپنے کمرے میں آیا تو ماہی آنکھیں بند کیے ہوئے بیڈ پر لیٹھی ہوئی تھی ابھی رات کے دس بھج رہے تھے وہ اس وقت کبھی نہیں سوتی احمد نے اپنا جیکٹ اتار کر صوفے پر رکھا اور ماہی کے پاس آیا اس نے ماہی کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر چیک کیا کے کہی اسے بخار تو نہیں ہے ماہی نے آنکھیں کھولی تو سامنے احمد تھا
کیا ہوا ہے ابھی کیو سو رہی ہوں تمہاری طبعیت تو ٹھیک ہے؟
مجھے کیا ہونا ہے بلکل ٹھیک ہوں میں
ماہی نے اک نظر اس پر ڈال کر واپس اپنی آنکھیں بند کردی
تو صبح سے کچھ کیو نہیں کھایا؟
دل نہیں کر رہا تھا
وہ آنکھیں بند کیے ہی بولی
موڈ کیوں آف ہے تمہارا کچھ ہوا ہے کیا؟
احمد نے اسے بٹھا کر اپنے ساتھ لگایا
ماہی نے کوئی جواب نہیں دیا بس اس کے سینے پر سر رکھے خاموشی سے بیٹھی ہوئی تھی
آج بابا سے بات ہوئی میری
گہری خاموشی کے بعد اس نے بات کا آغاز کیا
اچھا پھر؟
وہ سنجیدگی سے ماہی کوسن رہا تھا
بابا نے ردا آپی اور ہارون کی شادی کرادی ہے
اب کی بار احمد کو جھٹکا لگا ساری پرانی باتیں کسی فلم کی طرح اس کی انکھوں کے سامنے آنے لگی
کیا مطلب انکل ایسا کیسے کر سکتے ہے کیا وہ ہارون کو نہیں جانتے کہ وہ کس قدر گھٹیا آدمی ہے
وہ بے یقینی سے بول رہا تھا ماہی خاموشی سے اسے سن رہی تھی اس کے پاس خود بھی کوئی جواب نہیں تھا دینے کو
جہاں تک میں ردا کو جانتا ہوں وہ ہارون کے ساتھ شادی کرنے کا فیصلہ کبھی نہیں لینگی ضرور اسے مجبور کیا ہوگا
کسی نے مجبور نہیں کیا ہے آپی نے اپنی مرضی سے شادی کے لیے ہاں کی تھی
ماہی نے اس سے الگ ہوکر افسردہ چہرہ بناتے ہوئے کہا
جب انکی مرضی سے سب ہوا ہے تو تم کیوں پریشان ہو رہی ہوں جانے دو اس بات کو ویسے بھی اب بہت دیر ہوچکی ہے
اس نے ایک گھری سانس لیتے ہوئے کہا
احمد میں چاہ کربھی اس بات کو نظرانداز نہیں کر پا رہی ہارون بلکل بھی اچھا انسان نہیں ہے
اس کی آواز بھر آئی تھی احمد نے بنا کچھ کہے اسے اپنے ساتھ لگایا وہ جانتا تھا ماہی اندر ہی اندر در رہی تھی وہ در ردا کے لیے کم اور اپنے لیے زیادہ تھا ہارون نے کوئی کثر نہیں چھوڑی تھی ماہی کو برباد کرنے کی
پریشان مت ہوں میں ہو نا تمہارے پاس میں خود ردا سے بات کرونگا ٹھیک ہے نا
احمد اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا اتنے میں کسی نے دروازے پہ دستک دی
اندر آجائے
احمد کےکہتے ہی نوری ان دونو کےلیے کھانا لیکر کمرے کے اندر آگئی تھی اس نے ساری چیزیں ٹیبل پر سیٹ کی اور وہا سے چلی گئی
چلو اٹھو اور کھانا کھاؤ
نہیں مجھے بھوک نہیں ہے
ایسے کیسے بھوک نہیں ہے؟
بس دل نہیں کر رہا
دل کیوں نہیں کر رہا؟
اس نے ماہی کو دیکھتے ہوئے دلچسپی سے کہا
اللہ احمد تم کتنے سوال کرتے ہوں
اسے فکر کہتے ہے میڈم سوال نہیں
اس نے مسکراتے ہوئے کہا
چلو اٹھو شاباش کھانا کھا لوں
احمد ماہی کے پاس سے اٹھ کر بولا
احمد میرا بلکل بھی دل نہیں کر رہا
ماہی نے پیچھے سے آواز دی وہ رکھ گیا
ٹھیک پھر میں بھی نہیں کھا رہا
وہ واپس آکر ماہی کے سامنے بیٹھ گیا
کیا مطلب تم نے ابھی تک کھانا نہیں کھایا؟
سوچھا گھر آکر تمہارے ساتھ کھا لونگا لیکن تمہارا تو دل ہی نہیں کر رہا
احمد معصوم شکل بنا کر بولا
تمہیں مجھے بتانا چاہیے تھا نا
ماہی منہ بنا کر بولی
ابھی تو بتایا ہے ابھی اٹھو
احمد مسکراتے ہوئے بولا اور ماہی کو سہارا دیتے ہوئے اس نے ماہی کو صوفہ پربٹھایا اور نوالہ بناکر اسکی طرف بڑھایا تو اس نے نا میں سر کو ہلایا
میرے لیے توڑا سا کھالو
اس کے لہجے میں کتنی محبت تھی یہ ماہی اچھے سے جانتی تھی ماہی نے منہ کھول کر روٹی کا لقمہ اپنے منہ میں اتار دیا
تمہاری پڑھائی کیسی چل رہی ہے؟
احمد نے کہتے ہوئے دوسرا نوالہ اسکی طرف بڑھایا جسے ماہی نے کھا لیا پڑھائی کی بات اس نے بس ماہی کا دھیان بھٹکانے کے لیے شروع کی تھی
فلحال تو سب سہی چل رہا ہے اللہ کرے آگے بھی سب سہی ہوں
اس نے سنجیدگی سے جواب دیا
میں کھا لو نگی تم چھوڑو
اس نے ٹرے اپنی طرف کرتے ہوئے کہا
میرے کھلانے میں کیا مصلہ ہے؟
احمد مسکراتے ہوئے بولا
احمد مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے
اچانک کچھ یاد آنے پر اس نے احمد سے کہا
ہاں بولوں
اسنے دلچسپی سے جواب دیا
ابھی نہیں تم کھانا کھالو اسکے بعد بتاتی ہوں
اسنے ارادہ ترک کیا احمد بھی بنا کچھ کہے کھانا کھانے لگا کھانا کھانے کے بعد وہ دونوں سونے کے لیے چلے گئے
تم سوجاو میں یہ کام ختم کر کے سو جاو گا
احمد سر دباتے ہوئے بولا
تمہارے سر میں درد ہے؟
ابھی تک تو ٹھیک تھا اب اچانک سر میں بہت درد ہو رہا ہے
ماہی نے بیڈ کے سائڈ والے دراز میں سے سر درد کی میڈیسن نکالی اور اس کے ہاتھ میں رکھ دی اور اسے پانی کا گلاس تھامایا تھا احمد نے گلاس خالی کر کے واپس رکھ کر ماہی کا شکریہ ادا کیا اور لیپ ٹاپ پر کام کرنے میں مصروف ہوگیا
احمد سر میں درد ہے تو چھوڑو یہ سب اور آرام کرو
ماہی اس کا لیپ ٹاپ بند کرتے ہوئے بولی
بس توڑا سا ہی رہ گیا ہے
وہ تھکے تھکے انداز میں بولا
اچھا تمہیں کچھ بات کرنی تھی
یاد آنے پر احمد نے کہا
کچھ خاص بات نہیں تھی
وہ کچھ سوچتے ہوئےبولی
پکا نا کوئی بات نہیں ہے؟
ہاں کوئی بات نہیں ہے
اچھا پھر سوجاو رات بہت ہوگئی ہے
احمد نے محبت سے بھرے لہجے میں کہتے ہوئے اسے لٹایا اور لیپ ٹاپ بند کر کے اسے سائڈ ٹیبل پر رکھ کر خود بھی اس کے برابر کروٹ لیکر لیٹ گیا
☆☆☆☆☆
《ایک ماہ》
YOU ARE READING
دلِ نادان
Fantasyیہ کہانی ایک ضدی بدتمیز لاپرواہ طوفانی لڑکی کی جسے محبت نے بدل دیا ایک ایسی لڑکی جو لوگوں میں مسکراہٹیں بانٹتی ہے جو کسی کو غمزدہ نہیں دیکھ سکتی جو ہر وقت مدد کے لئے تیار رہتی ہے مگر اس کو یہ نہیں پتا کے دکھ اس کا مقدر بن جائنگے یہ کہانی ہے صبر و ا...