ماما ماہی کہا ہے؟ وہ ناشتہ کرنے نہیں آرہی ہے کیا؟
یہ آواز احمد کی تھی جس نے سیما بیگم سے پوچھا
میں گئی تھی بلانے پر وہ سو رہی تھی
سیما بیگم نے جواب دیا
اتنی دیر تک تو وہ کبھی نہیں سوتی
فاطمہ امام نے پریشانی سے کہا
اسد رات کو دیر سے آئے تھے آپ لوگ؟
احتشام صاحب نے کچھ سوچتے ہوئے سوال کیا
نہیں بابا ہم وقت پر ہی آئے تھے
اسد نے ہونٹوں پر خیر مقدمی مسکراہٹ سجائے احمد کو دیکھا تھا
اسلام علیکم
ماہی نے ڈائننگ ٹیبل کے قریب آکر سب کو سلام کیا جس کا سب نے بہت پیار سے جواب دیا تھا
ادھر اجاو نانو کے ساتھ بیٹھ کر ناشتہ کرلو
فاطمہ امام نے اسے اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا
نہیں نانو مجھے جلدی نکل نا ہے میں ناشتہ نہیں کرونگی
اس کی باتھ پر وہا بیٹھے سب لوگوں نے ماہی کو سوالیہ نظروں سے دیکھا جیسے کہنا چاہتے ہو کے اتنی صبح کہا جانا ہے جو دیر ہو رہی ہے
وہ مجھے اپنی ایک دوست کی طرف جانا ہے
اسنے سوچتے ہوئے جواب دیا تھا
ایسی کونسی دوست ہے تمہاری جس سے اتنی صبح ملنے جارہی ہوں
کسی کے کچھ بولنے سے پہلے ہی احمد نے سوال کیا ماہی نے اسے گھوری سے نوازا کچھ دیر تک جب ماہی چپ رہی تو فاطمہ امانے بھی ماہی سے یہی سوال کیا
اسکی امی ہاسٹل میں ہے اسی لیے
ماہی نے احمد کو دیکھتے ہوئے اسکی امی ہاسٹل میں ہے لفظ پر زور دے ہوئے کہا
ایسی کونسی دوست ہے جسکی امی ہاسٹل میں ہے اور ہمیں پتا ہی نہیں
احمد نے اسد کی طرف دیکھ کر کہا وہ جانتا تھا ماہی جھوٹ بول رہی ہے
میں چلتی ہوں نانوں اللہ حافظ
احمد کو اگنورکرتے ہوئے ماہی آگے بڑھی ہی تھی کے احمد کی آواز پر وہ فورن سے رکھ گئی
چلو اچھا ہے مجھے آپ سب سے کچھ کہنا تھا جو شاید ماہی کے سامنے کہنے میں مشکل لگ رہا تھا پر اب میں آرام سے آپ سب کو اپنی باتھ سمجھا سکتا ہوں
احمد ہونٹوں پر شرارتی مسکراہٹ سجاتے ہوئے بولا سیکیندز ہی گزرے تھے کے ماہی کرسی پر بیٹھ گئی
میں سوچ رہی ہوں یونی کے بعد اس سے ملنے چلی جاو ابھی ناشتہ کرتے ہے
وہ چہرے پر جھوٹی مسکراہٹ لاتے ہوئے بولی اس کی باتھ پر احمد کے لیے اپنی ہنسی روکنا بہت مشکل ہو رہا تھا
سہی کہا پہلے ناشتہ کرلو پھر آرام سے بعد میں چلی جانا
احتشام صاحب نے کہا
احمد تمہیں کیا کہنا تھا؟
فاطمہ اما نے سوال کیا
کچھ خاص نہیں نانوں پھر کبھی آرام سے باتھ کر لینگے
احمد ہستے ہوئے بولا تھا وہا موجود لوگو کو اس بات کا بلکل پتا نہیں تھا کے احمد ہس کیو رہا ہے سوائے اسد اور ماہی کے
☆☆☆☆☆
میرا خیال ہے ہمیں ایک بار ماہی سے ضرور بات کرنی چاہیے
سنبھل نے دانش صاحب کو چائے کا کپ پکراتے ہوئے کہا
کیوں بیٹھا آپ کو اپنے بابا پر یقین نہیں کیا؟
دانش صاحب نے سنجیدگی سے کہا
بات یقین کی نہیں ہے بابا مجھے لگتا ہے ہم سب اس کے ساتھ زیادتی کر رہے ہے
سنبھل نے تیزی سے جواب دیا
کیا مطلب کیسی زیادتی؟
ابکی بار دانش صاحب نے پریشان ہوکر کہا
بابا ہارون بھائی ہم سب کزنز میں سے بڑے ہے
ہاں تو کیا ہوا جو سب سے بڑے ہے
بابا ہارون بھائی تو ردا سے بھی ایک سال بڑے ہے تو ماہی تو گھر میں سب سے چھوٹی ہے
تو کیا ہوا اگر ہارون ماہی سے چند سال بڑا ہے صرف چھ سال کا ہی تو فرک ہے
سنبھل کی بات سنتے ہی دانش صاحب نے ایک نظر اس پر ڈالی
بات صرف ایج کی نہیں ہے بابا
سنبھل ہر ممکن کوشش کر رہی تھی کہ کسی طرح دانش صاحب یہ اس کا اشارہ سمجھ لے
بابا تائی امی ماہی کو بلکل پسند نہیں کرتی مجھے نہیں لگتا کے تائی امی ماہی کو کبھی دل سے قبول کرینگی
دانش صاحب کو چپ دیکھ کر سنبل پھر سے بول پڑی
سنبل بیٹھا میں جانتا ہوں پر آپ ہارون کی محبت بھی تو دیکھیں وہ ماہی کو پسند کرتا ہے اور ماہی ہارون کے ساتھ بہت خوش رہے گی اور اس سے بھی بھڑ کر وہ ہمیشہ میرے نظروں کے سامنے رہے گی ایک گھر میں ایک چھت کے نیچے
سمبل کو اپنی چھوٹی بہن کے لیے پریشان دیکھ کر دانش صاحب کو اپنی لاڈلی شہزادی پر بہت پیار آیا اور انہوں نے بہت ہی پیار سے سنبل کے سر پہ اپنا ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے سمجھایا
نہیں بابا ہارون بھائی ماہی سے پیار نہ
اسلام علیکم چچا جان
اسے پہلے سنبھل اپنی بات پوری کرتی ہارون بھی وہی لیوینگ روم میں آگیا تھا جسے دیکھ کر سنبل گھبرا گئی
وعلیکم اسلام ہارون بیٹھا آپ ابھی تک آفس نہیں گئے؟
آج دانش صاحب کی تعبیت توڑی خراب تھی جس کی وجہ سے وہ آج آفس نہیں گئے تھے
جی چچا جان بس ابھی جانے ہی والا ہوں وہ میری کچھ فائلز نہیں مل رہی تو سوچھا سنبھل سے کہہ دو کے فائلز ڈھونڈ نے میں میری توڑی مدد کرلے میں بھول گیا کہا رکھی ہے
ہارون کے کہتے ہی دانش صاحب نے سنبھل کو ہارون کی مدد کرنے کو کہا دانش صاحب کے کہے مطابق وہ ہارون کے کمرے میں چلی گئی اور الماری کھول کر فائل ڈھونڈ نے لگی
بھائی یہا تو کوئی فائل نہیں ہے
توڑی دیر ڈھونڈ نے کے بعد سنبھل نے کہا
فائل ہوگی تو ملے گی نا
ناجانے کب سے ہارون اسے گھور رہا تھا جو اب جاکر سنبھل نے دیکھا اسکی آنکھو میں سنبھل کے لیے غصہ صاف نظر آرہا تھا
میری بات کان کھول کر سن لو سنبھل میرے معاملات میں پڑھنے کی کوشش مت کروں ورنہ میں بھول جاونگا کے تم میری چچا زاد بہن ہوں
ہارون نے اسے دھمکی دی
آپ بابا کے ساتھ اچھا نہیں کر رہے ہیں بھائی انہیں آپ پر کتنا یقین ہے
سنبھل کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو گرنے لگے جسے دیکھ کر ہارون سنبھل کے پاس آیا
نہیں گڑیا روتے نہیں ہے دیکھو بھائی کو برا لگ رہا ہے چپ ہو جاو
ہارون اسکے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا جیسے وہ کسی تین سالہ بچی کو چپ کرا رہا ہوں
ہارون بھائی پلیز ماہی کو معاف کردے پلیز اس نے نادانی میں سب کیا تھا اسے تو یاد بھی نہیں ہوگا یہ سب
سنبھل اپنی حالت ٹھیک کرتے ہوئے بولی
غلطی کی ہے تو سزا بھی تو ملنی ہے نا پر تم درو نہیں میں تمہیں کچھ نہیں کر رہا
بھائی اسنے غلطی نہیں مذاق کیا تھا جسے آپ نے اتنے سالوں سے سیریس لیا ہوا ہے
مذاق کیا ہو یا جان بھوج کے کیا ہوں سزا تو اسے ملنی ہی ہے اور اسکی سزا یہی ہے کے اسے اپنی پوری زندگی ایک ایسے شخص کے ساتھ گزارنی ہوگی جو اسے شدید نفرت کرتا ہے
اتنا کہتے ہی وہ کمرے سے باہر جانے لگا دروازے کے ساتھ پہنچتے ہی اس نے دوبارہ پیچھے مڑ کے سنبھل کو دیکھا
اور ہاں آئندہ میرے بارے میں کچھ بھی بکواس کی تو انجام اچھا نہیں ہوگا
اس کی بات پر سنبھل بہت در گئی اور ہارون کے جاتے ہی وہ تیز قدموں سے چلتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی
☆☆☆☆☆
ماہی جلدی کروں تمہاری وجہ سے اکرام کو بھی دیر ہو رہی ہے
احمد جو کب سے ماہی کو باہر آنے کا بول رہا تھا ماہی اپنے کمرے میں بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی
فضول میں کوشش نہیں کرو میں باہر قدم بھی نہیں رکھنے والی
اچھا میری ماں میں کسی سے کچھ نہیں کھونگا اب تو باہر آجاو
احمد ہار مانتے ہوئے بولا تھا
پہلے وعدہ کرو
ماہی نے فورن سے جواب دیا
ہاں مگر جب تم باہر آو گی
احمد نے جواب دیا
بیوقوف تو نہیں بنا رہے ہوں نا؟
احمد کی باتھ سنتے ہی ماہی اٹھی اور دروازہ کھول کر اسے جھانکتی ہوئی بولی
نہیں میں نے جھوٹ بولا تھا
احمد مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا ماہی دروازہ بند کرنے ہی لگی تھی کے احمد نے فورن سے دروازے کے بیچھ میں اپنا ہاتھ رکھ دیا جس کی وجہ سے ماہی دروازہ بند کرنے میں ناکام رہی
اچھا یار مذاق کر رہا ہوں تم نہیں چاہتی کے ان سب میں تمہارا نام آئے تو نہیں آئے گا آئی پرومس اب چلو نیچے آجاو
احمد نے نرمی سے کہا تب جاکر اس کے دل کو سکون ملا
تم لوگ آرہے ہوں یا میں چلا جاو
کچھ ہی دیر بعد اسد نے اسے آواز دی تھی
تم لوگ جاو میں خود سے آجاونگی
اسد کی آواز سنتے ہی اسنے احمد سے کہا
کیوں ساتھ جانے میں کیا مسلہ ہے در لگ رہا ہے ہمارے ساتھ جانے میں کوئی دیکھنا لے تمہیں
احمد نے دو ٹک انداز میں کہا تو ماہی نے اسے گھورا تھا وہ سمجھ گئی تھی احمد ہارون کی بات کر رہا ہے
مجھے ٹائم لگے گا تم لوگ جاو
اس کا جواب سنے بغیر ہی ماہی نے دروازہ بند کر دیا اور جاکر اپنے لیے کپڑے نکالنے لگی ماہی کے دروازہ بند کرتے ہی احمد وہا سے چلا گیا نیچے جاتے ہی اس نے اسد سے کہا کے ماہی بعد میں آئے گی اسد نے رکھنا چاہا پر فاطمہ اما نے اسے یہ کہہ کر یونی جانے کا کہا کے ماہی ڈرائیور کے ساتھ آجائے گی فاطمہ اما کی بات پر وہ دونو اکرام کو سکول چھوڑ کر یونی کے لیے چل دیے
☆☆☆☆☆
دوپہر کے ایک بھج رہے تھے کینٹین میں زیادہ رش نا ہونے کے برابر تھا اس وقت وہ تینوں کینٹین میں سب سے پیچھے والی میز پر بیٹھی ہوئی تھی صالحہ ہمیشہ کی طرح کھانے کے ساتھ انصاف کرنے میں مگن تھی جب کہ ثناء کسی سے میسجز پر بات کر رہی تھی اس کے سامنے ایک سینڈوچ رکھا ہوا تھا جس پر اس وقت صالحہ نے اپنی بھوکی نظریں جمائی ہوئی تھی ان دونوں کے ٹھیک سامنے ماہی بیٹھی ہوئی تھی اس کے سامنے کافی سے بھری ہوئی کپ رکھی تھی اور وہ کتاب پڑھنے میں مصروف تھی جسکی وجہ سے اسنے کپ کو چھوا تک نہیں تھا
یہ کیا بغیرتی ہے صالحہ؟
جیسے ہی اسکی نظریں فون سے ہٹی تو سامنے سینڈوچ کو نا پاکر وہ صالحہ پر چلائی تھی جس کی زور دار آواز پر ماہی نے انہیں دیکھا تھا
کیا ہوگیا ہے یار وہ پلیٹ میں پڑا سڑ رھا تھا میں نے اسکی حالت پہ ترس کھا کر توڑا سا کھالیا
صالحہ معصوم شکل بنا کر بولی ماہی کو اس وقت وہ بہت معصوم لگی تھی حالانکہ وہ جانتی تھی صالحہ اور معصومیت کا کوئی لینا دینا نہیں ہے اس نے دونوں کو بنا کچھ کہے کافی کا ایک سپ لیا اور دوبارہ کتاب پڑھنے لگی
اگر مجھے پتا ہوتا میرے سینڈوچ پر تمہاری بری نظر ہے میں نے قسم سے اس میں زہر ملا دینا تھا
ثناء نے اس کے سامنے رکھا ہوا آدھا سینڈوچ اپنی طرف کرتے ہوئے کہا
اتنا بھالہ برا کھا کم سے کم پورا تو کھانے دوں
صالحہ نے نظریں اٹھا کر ثناء کو دیکھا جو مسکراتے ہوئے کسی کو میسج کر رہی تھی اس نے دوبارہ سے ثناء کے سامنے رکھا ہوا سینڈوچ اٹھایا اور اسے کھانے لگی
مرجاو صالحہ میں نے ناشتہ بھی نہیں کیا تھا
صالحہ کی اس حرکت پر نظر پڑھتے ہی ثناء نے چھڑتے ہوئے کہا
کونسی بڑی بات ہے تمہاری بھوک تو عاروش سے بات کرنے میں ہی مٹھ جاتی ہے
صالحہ دھٹائی سے بولی اس کی بات پر ثناء نے حیران نظروں سے اسے گھورا تھا جب کے ماہی پر کچھ خاص اثر نہیں پڑا تھا
بکواس نہیں کرو صالحہ
ثناء اپنی حالت ٹھیک کرتی ہوئی ہچکچاتے ہوئے بولی تھی
ہاں میں تو بکواس ہی کرتی ہوں تمہیں کہا میری باتیں اچھی لگتی ہے تمہارے دل و دماغ پہ تو عاروش نے قبضہ کر لیا ہے
وہ کہا چھپ رہنے والوں میں سے تھی ماہی کتاب کے پیچھے منہ چھپائے ہوئے ان کی باتوں پر مسکرا رہی تھی
بکواس نہیں کرو صالحہ ہمارے بیچھ ایسا کچھ نہیں ہے میں اور عاروش صرف اچھے دوست ہے میرے دل میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے
ثناء نے دو ٹک انداز میں کہا اسکی معصومیت اسے لگا صالحہ اس پر یقین کر لے گی
پہلی بات تو یہ کے میں بکواس نہیں کر رہی دوسری میں نے کب کہا کے کچھ ہے؟ تیسری اور سب ضروری بات میں نے یہ کب کہا کہ تمہارے دل میں کچھ کچھ ہے؟
صالحہ نے دھٹائی سے اسکی طرف دیکھا اسے پہلے ثناء پھر کوئی بھانا بناتی صالحہ نے اس سے پہلے کہا
اور ہاں سب سے زیادہ ضروری بات تو کہنا ہی بھول گئی
کیا؟
یہی کہ تم دونوں شادی کب کر رہے ہوں
صالحہ نے آنکھ کا کھونا دبائے ہوئے کہا اسکی بات پر ثناء نے مسکراتے ہوئے نظریں نیچے کردی
او ہوئے ہماری دلہن رانی شرما گئی؟
صالحہ اس کا مذاق اڑاتے ہوئے بولی
بس کردو صالحہ کب سے اس بیچاری کو تنگ کر رہی ہوں چلو باہر چلے
ماہی نے تیزی سے کہا اسے پتا تھا صالحہ پیار سے مانے والوں میں سے نہیں تھی اسکی بات پر صالحہ اور ثناء دونوں چل دی کینٹین سے باہر نکلتے ہی وہ تینوں باہر کو نکل دی اتنے میں صالحہ پھر سے شروع ہوگئی
ثناء بتاو نا یار شادی کب ہے
میری شادی کی فکر کرنا چھوڑ دو تم اور ماہی سے پوچھو یہ کب کرنے والی ہے ہارون بھائی سے شادی
ثناء نے شادی لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا
میں نہیں کرنے والی اسے شادی
ماہی نے فورا سے جواب دیا
کیا مطلب شادی نہیں کرنے والی
صالحہ اور ثناء نے حیرانگی سے ایک دوسرے کو دیکھا
بابا کروا رہے ہے پوری بات تو سن لیا کرو تم دونوں
ماہی ہلکا سا مسکراتے ہوئے بولی
اسے پہلے صالحہ کچھ کہتی اسے کسی کی کال آئی تھی اسنے نام دیکھا تو پریشانی سےماہی کو دیکھا
کون ہے صالحہ؟
ماہی نے اس کے اڑتے ہوئے رنگ پر نظر ڈالتے ہوئے سنجیدگی سے کہا
ہارون بھائی ہے کیا کرو
فون پر لگاتار ہارون کی کالس آرہی تھی پر صالحہ میں اتنی ہمت نہیں تھی کے وہ ہارون سے بات کرتی
صالحہ اٹھالے ورنا بہت بڑی مصیبت میں پھنس جاو گی
ثناء نے کہا صالحہ نے ایک نظر ماہی کو دیکھا جیسے اسکی مرضی جانا چاہ رہی ہوں
سنو صالحہ غلطی سے بھی یہ مت کہنا کے میں تمہارے ساتھ ہوں
ماہی اسے سمجھاتے ہوئے بولی صالحہ نے ہاں میں سر ہلایا
اسلام علیکم ہارون بھائی
صالحہ گھبراتے ہوئے بولی
ماہی تمہارے ساتھ ہے؟
بنا سلام کا جواب دیے ہارون نے کہا
ن..نہیں بھائی وہ میرے س
صالحہ اپنی بات پوری کرتی اسے پہلے ہارون نے فون کٹ کر دیا
شکر ہے انہیں شک نہیں ہوا کے میں جھوٹ بول رہی تھی
صالحہ لمبی سانس لیتے ہوئے بولی
شک نہیں یقین تھا کے تم جھوٹ بول رہی ہوں
ثناء کی بات پر صالحہ اور ماہی نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا ثناء آگے دیکھ ماہی اور صالحہ نے آگے دیکھا تو ہارون انکی طرف ہی آرہا تھا ہارون پر نظر پڑتے ہی صالحہ اور ثناء بنا ماہی کو بتائے واپس اندر چل دی ماہی نے پیچھے دیکھا تو وہ دونو غائب ہی ہوگئی تھی ہارون اب بلکل اس کے سامنے کڑا ہو چکا تھا ماہی کے کچھ کہنے سے پہلے ہارون نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے لیکر وہ آگے بڑھا تھا یہ منظر اس وقت پوری یونیورسٹی دیک رہی تھی جس میں ایک اسد بھی تھا گاڑی کے پاس پہنچتے ہی ہارون نے اس کے لیے دروازہ کھولا اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور ماہی چھپ چھاپ بیٹھ گئی
یار صالحہ ہم نے ماہی کے ساتھ اچھا نہیں کیا
ثناء بولی
کیا مطلب
صالحہ سمجھی نہیں کے ثناء کس بارے میں باتھ کر رہی ہے
مطلب ہمیں ہارون بھائی کو دیکھ کر بھاگنا نہیں چاہیے تھا
ہاں یہ تو سہی کہہ رہی ہوں ہمیں اسے اکیلا نہیں چھوڑنا چاہیے تھا
صالحہ افسوس کرتی ہوئی بولی
☆☆☆☆☆
میڈم آپ سے کوئی ملنے آیا ہے
وہ بیڈ پر لیٹھی ہوئی ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر ڈالے فون میں مصروف تھی اور سات ہی اس نے ٹی وی بھی آن کیا ہوا تھا ملازمہ کا اسے ڈسٹرب کرنے پر اسے کافی غصہ آگیا تھا اسنے ملازمہ کو گھورا تھا
میں نے کتنی بار کہا ہے میرے کمرے میں مت آیا کرو سمجھ کیوں نہیں آتی تم لوگوں کو جاہل مڈل کلاس لوگ
شدید غصے کے عالم میں اسنے کہا تھا
وہ میڈم سر جی اور بڑی میڈم جی گھر پر نہیں ہے
ملازمہ نے گھبراہٹ کے مارے روکھ روکھ کر جواب دیا
تو میں کیا کرو جاکر بول دو میں بزی ہوں کل آئے
ابکی بار وہ لگ بھگ چلائی تھی
میں نے کہا تھا آپ مصروف ہے ان صاحب نے کہا آپ کو ان کا نام بتادوں
ملازمہ نے ہمت کر کے بڑی مشکل سے اپنی بات کی
چاہے جو بھی ہوں مجھے نہیں ملنا مطلب نہیں ملنا جاو یہا سے
اسنے ایک کشن اٹھا کر ملازمہ کی طرف پھینکا ملازمہ وہا سے چلی گئی ملازمہ کے جانے کے کچھ ہی دیر بعد دوسری ملازمہ آگئی اور اسنے بھی یہی کہا تھا جو پہلی ملازمہ نے کہا
کیا مصیبت ہے کیا نام بتایا ہے اپنا؟
آخر اس نے تنگ آکر نام پوچھ لیا
احمد موعز
کیا واقعی اس نے اپنا نام احمد ہی بتایا ہے نا؟
اسے جیسے یقین نہیں آرہا تھا کے احمد اسے ملنے آیا ہے
جی میڈم
یہا کڑی کڑی میرا منہ کیا دیکھ رہی ہوں جاکر انہیں بیٹھنے کا کہو میں آرہی ہوں
اس نے ملازمہ کو اپنا حکم سناتے ہوئے ایک ڈریس نکالی اور شیشے کے سامنے کڑے ہوکر اسے خود پر دیکھنے لگی
اچھا سنو چائے کے ساتھ کچھ اچھا سا بھی بنا لینا بلکہ ایک کام کرو تمہیں جو اچھا لگے سب بنا دو اور ہاں جلدی بنانا سب
ملازمہ جانے ہی لگی تھی کے اسنے دوبارہ سے ملازمہ کو حکم سنایا ملازمہ نے سر ہاں میں ہلاتے ہوئے کمرے سے باہر چلی گئی
سر آپ بیٹھ جائے میڈم توڑی دیر میں آتی ہیں
احمد جو کب سے آیا ہوا تھا اور کڑے ہوکر زویا کا ہی انتظار کر رہا تھا ملازمہ کی بات پر وہ بیٹھا نہیں بلکہ ویسے ہی کڑا رہا اور زویا کا انتظار کرنے لگا
سر آپ پلیز بیٹھ جائے میڈم آتی ہی ہونگی
کچھ دیر بعد ملازمہ پھر سے اس کے پاس آئی
نہیں میں بیٹھنے کے لیے نہیں آیا ہوں آپ بس زویا کو بلادے مجھے دیر ہو رہی ہے
احمد نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا
تو فائنلی تم یہا آہی گئے
ملازمہ کچھ کہتی اسے پہلے زویا سیڑھیوں سے اترتے ہوئے بولی زویا کے آتے ہی ملازمہ وہا سے چلی گئی
مجھے یقین تھا احمد تم مجھ سے ملنے ضرور آو گے
زویا اسے گلے لگانے کے لیے بڑھی تو احمد پیچھے ہٹ گیا
میں یہا بات کرنے آیا ہوں زویا
زویا کو احمد کی یہ حرکت بلکل بھی اچھی نہیں لگی
بات بیٹھ کر بھی تو کر سکتے ہوں بیٹھوں
زویا نے اسے بیٹھنے کا کہا تو وہ بیٹھ گیا
تو کہوں کیا بات کرنے آئے ہوں مجھ سے؟
زویا اسکے قریبی صوفہ پر بیٹھ گئی
تم اچھے سے جانتی ہوں زویا میں کیا بات کرنے آیا ہوں
احمد نے اسے گھورا تھا
نہیں مجھے نہیں پتا تم کہوں کیا بات کرنی ہے؟
زویا نے اطمینان سے جواب دیا
میں ماہی سے بہت محبت کرتا ہوں زویا
وہ اسے کچھ یاد کرانے لگا
تو یہ سب تم مجھے کیوں بتا رہے ہوں؟
کیونکہ تم بار بار ہمارے بیچھ میں آرہی ہوں اور ہمارے بیچھ غلط فہمیاں ڈال کر چلی جاتی ہوں
کیا ثبوت ہے تمہارے پاس کے میں تم لوگوں کے بیچھ میں آرہی ہوں؟
میری بات سنو زویا
احمد نے آرام سے اسے جواب دیا
تم میری بات سنو احمد میں تم سے پیار کرتی ہوں اور تم بھی مجھ ہی سے پیار کرتے ہوں تو بھیچ میں کون آرہا ہے میں یا وہ؟
مجھے تم سے کوئی محبت نہیں ہے زویا میں صرف ماہی سے محبت کرتا ہوں
احمد کڑا ہوا اور جانے ہی لگا تھا کے زویا کی بات پر روکھ گیا
میں تم دونوں کو کبھی ایک نہیں ہونے دونگی احمد یاد رکھنا
وہ چلاتے ہوئے بولی
گریٹ تم سے یہی امید تھی میں ہی پاگل تھا جو ایک دوست ہونے کی حیثیت سے تمہیں سمجھانے چلا آیا اور ہاں اسے پہلے بھی تو یہی کیا تھا تم نے کچھ فائدہ ہوا؟
اووہ تو تمہیں سب پتا چل گیا؟
زویا چھرے پر شیطانی مسکراہٹ لاتے ہوئے بولی
زویا میں نے تم پہ یقین کیا تمہیں اپنا دوست سمجھا اور تم نے مجھ سے میرے ہی محبت کو الگ کرنا چاہا کیا لگتا ہے تمہیں تم کچھ بھی کر لوں گی اور مجھے کبھی پتا نہیں لگے گا؟ میں ہی بیوقوف تھا جو یہ سمجھا کے تم میری دوست ہوں
احمد نے نفرت سے بھر پور انداز میں جواب دیا
می...میری بات سنو احمد میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں بہت زیادہ ت..تم مجھے کیسے چھوڑ کر کسی اور کے پاس جا سکتے ہوں تمہیں پانے کے لیے میں نے یہ سب کیا میں تمہیں کھونا نہیں چاہتی تھی اور تم مجھے غلط سمجھ رہے ہوں
وہ تڑپ کر بولی
جسے کبھی پایا ہی نا ہوں اسے کھونے کا در کیسا؟ محبت کسی کو پانے کا نام تو نہیں کے اسے پانے کے لیے اسکی ہی خوشیوں کو آگ لگادی جائے اپنی خوشی کے لیے اپنے محبوب کو دکھ دینا کوئی محبت نہیں ہوتی
احمد افسوس کرتا ہوا بولا
میرا یقین کرو احمد میں تمہیں بہت چاہتی ہوں
زویا روتے ہوئے بولی
لیکن میں نہیں چاہتا.... ایک وقت تھا کے تمہارے پیچھے دیوانہ ہوا پھرتا تھا کیا کچھ نہیں کیا میں نے تمہارے لیے تمہاری خوشی کے لیے اور تم نے کیا کیا مجھے اپنی جھوٹی محبت کے جال میں پھنسا کر پورے کالج کے سامنے صرف ریجیکٹ نہیں کیا میرے احساسات کا گلہ گھونٹ دیا میرے خاندان تک کو نہیں بخشا تھا تم نے میں نے پھر بھی کچھ نہیں کہا لیکن جب تم سے ملے زخم پر کوئی مرحم لگانے لگا تو تمہیں برداشت نہیں ہوا ارے مجھے اس لڑکی سے محبت کیسے نہیں ہوگی جو میری تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتی ہے اور میری خوشی کے لیے کچھ بھی کر گزر جاتی تھی تین سال وہ مجھ سے دور رہی صرف اسی لیے کیونکہ اسے یہ بتایا گیا تھا کہ میں اس کے بغیر خوش ہوں وہ میری ہی خوشی کے لیے مجھ سے دور رہی اور یہ سب اس کے دماغ میں تم نے ڈالا تھا
تم سمجھ نہیں رہے وہ جھوٹ بولتی ہے جھوٹی ہے وہ تم سے محبت نہیں کرتی وہ تمہیں مجھ سے چھینا چاھتی ہے اسے تم سے کوئی محبت نہیں ہے
زویا پاگلوں کی طرح اسے اپنی محبت کا یقین دلا رہی تھی
بہتر ہوگا تم ماہی اور مجھ سے دور رہو
احمد جانے لگا
تم میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتےاحمد
زویا نے اسے روکھنا چاہا مگر وہ اپنا ہاتھ چڑھاتے ہوئے چل دیا
میں تم دونوں کو کبھی ایک نہیں ہونے دونگی احمد تم میرے ہوں صرف اور صرف میرے
شدید غصے کی حالت میں زویا چلاتے ہوئے بولی اور ٹیبل پر رکھی چیزے زور زور سے زمین پر پھینکے لگی لیکن احمد تو کب کا وہا سے چلا گیا تھاجاری ہے،،،،،
YOU ARE READING
دلِ نادان
Fantasyیہ کہانی ایک ضدی بدتمیز لاپرواہ طوفانی لڑکی کی جسے محبت نے بدل دیا ایک ایسی لڑکی جو لوگوں میں مسکراہٹیں بانٹتی ہے جو کسی کو غمزدہ نہیں دیکھ سکتی جو ہر وقت مدد کے لئے تیار رہتی ہے مگر اس کو یہ نہیں پتا کے دکھ اس کا مقدر بن جائنگے یہ کہانی ہے صبر و ا...