ہارون بیٹا بس کروں کیوں ماں کو پریشان کر رہے ہوں
سیما بیگم نے بہت لاچاری سے کہا
وہ لگاتار پنچنگ بیگ کو پنچ مار رہا تھا اس کا جسم پسینے سے بھیگا ہوا تھا اس نے سیما بیگم کو بنا جواب دئے پنچنگ بیگ کوآخری لات رسید کر وہ تیبل کی جانب بڑھا اور پانی کی بوتل اٹھا کر اپنے چھرے پر اندیل دی اور بنا کچھ کہے جم سے نکل کر سیڑھیوں کی جانب بڑھا تھا
ہارون....بیٹا میری باتھ تو سنو سیما بیگم نے پیچھے سے آواز دیتے ہوئے کہا
مجھے فلحال اس ٹاپک پر کوئی باتھ نہیں کرنی ماما
بنا پیچھے دیکھے ہی اس نے سیما بیگم سے اتنا ہی کہا اور آگے بڑھ گیا
چاہے جو بھی ہو جائے تمہاری یہ خواہش تو میں کبھی پوری نہیں ہونے دونگی
ہارون کہ جانے کی دیر تھی سیما بیگم نے دانت پیس کر کہا
وہ تیزی سے اپنے کمرے کی جانب برھ رہا تھا کہ سامنے سے بھاگتی ہوئی ردا سے ٹکرایا لمحے بھر کہ لئے ردا کو دن میں تارے نظر آگئے تھے اس نے موبائل ہاتھ میں جکڑا ہارون نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا جب کہ ردا بے چاری کب کی گر چکی تھی
آنکھیں ہے آپ کہ پاس
ردا نے اٹھتے ہوئے کہا
تم کبھی دھیان سے نہیں چل سکتی کیا؟ جب دیکھو ٹکرا تی رہتی ہو
ہارون لگاتار اسے غصے سے دیکھے جا رہا تھا
اوو ہیلو مسٹر تم اچھی طرح جانتے ہوں کے سب تمہاری غلطی تھی
ردا اکتا کر بولی
ریلی سب میری غلطی تھی؟
ہارون اسے حیرت سے دیکھنے لگا
آپ کہ اس طرح پوچھنے سے میری باتھ نہیں بدلنے والی
ابکی بار اسنے نیچھے گرا ہوا اپنا بیگ اٹھایا اور اسے ٹھیک کرتے ہوئے کہا
تم اتنی صبح میرے ہی گھر میں میرے ہی روم کہ پاس کڑے ہوکر مجھ پر ہی چلا رہی ہوں
ہارون غصے سے بولا
اووو اچھا اپکا گھر
وہ وائٹ جینس پر یلو کرتا پہنے بالوں کی پونی ٹیل بنائے غصے سے اسے دیکھی جا رہی تھی
جی میرا گھر کیو تمہیں کوئی شک ہے
اس نے دونو ہاتھوں کو کمر پر رکھا اور سامنے کڑی ردا کو گھور نے لگا
جسے آپ اپنا گھر بول رہے ہے وہ میرے ابو نے بنایا ہے تو یقینن میرے ابو کا ہی ہوا اور جو میرے ابو کا ہے وہ انکی پیاری ردا کا ہے
وہ ایک نخرے سے مسکرا کر اسی کہ انداز میں بولی
ہاں میں تو جیسے مفت میں کھا پی رہا ہوں دن رات ایک کر کے انکی مدد کی ہے بزنس ہیا تک پہنچانے میں
اس نے احسان جتانے والے انداز میں کہا
اور ہا تم اور پیاری مذاق اچھا ہے
ہارون نے گویا ناک سے مکھی ارائی
ایک چیز ہوتی ہیں جسے تمیز کہا جاتا ہے اور اسکا تم سے دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں ہیں
ردا بلند آواز سے کہنے لگی
آواز نیچھے مجھ سے برداشت نہیں ہوتا کوئی بھی مجھ سے انچھی آواز میں باتھ کرے
ہارون اسے انگلی دیکا کر بولا
جی معلوم ہے مجھے تبھی انچھی آواز میں کہا
اس نے ہارون کی انگلی کو دوسری جانب کرتے ہوئے کہا
میرے منہ نا لگو ورنہ
ارے کیا ہوگیا ہے کیو چلا رہے ہو اتنی صبح صبح
اسے پہلے ہارون اپنی باتھ پوری کرتا سامنے سے مسکان بیگم (ردا کی امی)کی آواز آئی جسے سنتے ہی ہارون چھپ ہوگیا تھا اور ردا کی تو ھالت ہی ٹائٹ ہوگئی تھی مسکان بیگم کی آواز سن کر
پھپوں آپ سمجھالے اپنی بیٹی کو میرے منہ لگنے کی ضرورت نہیں ہے اسے
ہارون نے ایک نظر ردا کی طرح دیکھا
اللہ کیا کرو میں تمہارا لڑکی کیو بھائی کو تنگ کر رہی ہو
مسکان بیگم نے اسکا کان پکڑتے ہوئے کہا جسے دیکھ کر ہارون کو تو سمجھو دلی سکون ملگیا تھا
بھائی.ی.ی.ی.ی تو دور کی باتھ میں اسے اپنا ڈرائیور بھی نہ بناو
اسنے ہارون کی طرح منہ بناتے ہوئے کہا
دیکھو
ہارون اس کی جانب بڑھا ہی تھا کہ مسکان بیگم نے اسے روکھا
تم جاو بیٹا میں اسے دیکھتی ہوں
اس نے زور سے ردا کا کان کھینچتے ہوئے کہا
آہ آرام سے امی
وہ کان پر ہاتھ رکھتئ ہوئی بولی
ہارون اپنے کمرے میں چلاگیا جب کہ مسکان بیگم ردا کو اس کہ کمرے میں لے جانے لگی تھی
♡ ♡ ♡ ♡ ♡ ♡ ♡ ♡ ♡ ♡
آرے کڑے کیوں ہو تم سب ناشتہ نہیں کرنا بیٹھ جاو سب
توڑی دیر بعد فاطمہ آما نے کہا تھا تو سب dining کی طرف بڑھے تھے
اتنی خوشی مجھے زندگی میں کبھی نہیں ہوئی جتنی آج ہو رہی ہے
جاوید صاحب نے کرسی پر پیٹتے ہوئے کہا
واقی آج میرا بھائی آیا ہوا ہے خوشی کیسی نہیں ہوگی
احتشام صاحب نے بڑے فخریہ انداز میں کہا جس پر سب مسکرا دئے
ہاں ہاں خوشی کیو نہیں ہوگی اکیلے جو آئے ہوئے ہیں
صالحہ انکے پیچھے سے آتے ہوئے بولی اور اس کہ ساتھ سمیر اور صفیہ بیگم بھی تھی جو dining کہ کریب آکر کرسی پر بیٹھ گئے سب کہ ساتھ ناشتہ کرنے کے لئے
ہاں تو ڈیڈ سہی تو بول رہے تم تو روز منہ اٹھا کر چلی آتی ہوں
اسد نے احمد کی طرف دیکھ کر آنکھ کا کھونا دباتے ہوئے کہا
عزت سے کبھی باتھ نا کرنا مجھ سے کیا پتا عزت سے باتھ کرنے پر تمہیں موت آجائے
صالحہ نے اپنے لئے کپ میں چائے دالتے ہوئے کہا
تم ہو ہی ایسی کیا پتا واقی تم سے اچھی طرح پیش آنے پر آجائے
وہ بھی کہا چھپ رہنے والو میں سے تھا وہ اسد تھا چھپ رہنا تو اس کی دشنری میں ہی نہیں تھا
تو کیا یہ طے ہے کہ تم لوگوں نے چپ نہیں رہنا
ماہی نے ایک نظر صالحہ کو دکھ کر کہا تھا
میں تو چپ ہی تھہ یہ چوزا بکواس کئے جا رہا ہے
صالحہ نے اسد کی طرف ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے کہا
دیکھا آنٹی کتنی بدتمیزی کر رہی ہے یہ میرے ساتھ
اسد نے صفیہ بیگم کو دیکھا
صالحہ بس کرو حد ہوتی ہے ہر ایک چیز کی بھی
صفیہ بیگم نے صالحہ کو کہا تھا جس پر اسد کو کافی ہسی آئی جسے وہ بڑی مشکل سے چھپانے میں کامیاب ہوگیا
بس کروں بچھو جب سے آئے ہو لڑے جا رہے ہوں
فاطمہ آما نے اسد اور صالحہ کو دیکھ کرکہا جس پر وہ دونو خاموش ہوگئے تھے اور چپ چھاپ اپنا ناشتہ کرنے لگے
مجھے تو ابھی بھی یقین نہیں ہو رہا کہ ہم سب ساتھ بیٹے ہے
جاوید صاحب نے حکمت صاحب کو دیکھ کر کھا
دو سال ہوگئے ہیں اب تو یہ جادو ہونا ہی تھا
حکمت صاحب نے شرمندگی سے کہا تو احتشام صاحب نے ان کا کنڈا تھپتپایا
کیا پراٹے بنائے ہیں بھابھی مزا آگیا
حکمت صاحب نے پراٹے کا ایک ٹوکڑا ٹوڑ کر منہ میں ڈالتے ہوئے سیمی کہا
شکریہ بھائی صاحب پر یہ میں نے نہیں علوینہ اور ماہی نے ملکر بنائے ہیں
سیمی بیگم نے ایک نظر علوینہ کو دیکھا جو لگاتار حانیہ کو ناشتہ کروا رہی تھی تو دوسری جانب ماہی کو دیکھا جو کافی خاموشی کہ ساتھ کافی پی رہی تھی
ڈیڈ صبح کافی جلدی ہی اٹھے تھے اور ساتھی ہمیں بھی جگہ دیا
سمیر نے بیزاری سے کہا
میں تو سمجھ گئی کہ ابو نے یہا آنا ہے اسی لئے اتنے بیچین ہے
صالحہ نے بھی حصہ لیا
کافی سمجدار ہوگئی ہے ہماری صالحہ
احمد نے اس کا مذاق اڑانے والے انداز میں کہا
میں نے تو اسے مسج بھی کیا تھا ناشتے میں میری پسند کا کچھ بنادے ہم ناشتے پر آرہے ہیں
صالحہ نے ماہی کو دیکھ کر کہا تھا
سوری میں نے فون چیک ہی نہیں کیا تھا صالحہ
اس نے معذرت چاہی
کوئی باتھ نہیں تم بعد میں بنا لینا
اس نے دھٹائی سے جواب دیا
میں کہتا ہو شادی کر وادو اس کی کب تک ہمارا جینا حرام کرتی رہے گی
صالحہ کی باتھ سنتے ہی اسد خود کو اور چپ نہیں کر سکا اسد کی اس باتھ پر صالحہ اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا تھا
اب پھر سے شروع مت ہوجانا چپ چاپ ناشتہ کرو
احمد نے دونوں کو دیکھ کر کھا صالحہ اور اسد فورن سے چپ ہوگئے جسے دیکھ کر سب ہس دئے تھے
YOU ARE READING
دلِ نادان
Fantasyیہ کہانی ایک ضدی بدتمیز لاپرواہ طوفانی لڑکی کی جسے محبت نے بدل دیا ایک ایسی لڑکی جو لوگوں میں مسکراہٹیں بانٹتی ہے جو کسی کو غمزدہ نہیں دیکھ سکتی جو ہر وقت مدد کے لئے تیار رہتی ہے مگر اس کو یہ نہیں پتا کے دکھ اس کا مقدر بن جائنگے یہ کہانی ہے صبر و ا...