موصول مرام قسط 1

1.3K 36 2
                                    


خود سے میں دور جارہا ہوں تیرے قریب آرہا ہوں
یہ بے وجا تو نہیں ہے ، تو جو ملا..
گلوکارکی سہر انگیز آواز پورے ماحول کو خوبصورت بنا رہی تهی . ایک میز پر دو لڑکیاں اور تین لڑکوں کا گروپ خوش گپیوں میں مصروف تها . اپنی میل آرڈر کرنے کے بعد اس ٹیبل پر کسی ٹاپک پر بحث ہو رہی تهی . یار آج کی کلاس فارغ تهی بلکہ دن ہی فارغ تها . ٹیبل پر موجود لڑکیوں میں سے ایک نے بےزاری سے کہا. تمهیں تو ہر کلاس ہی فارغ لگتی ہے یار کونسی نئی بات ہے دوسری لڑکی نے بهی بات کا جواب سرسری انداز میں دیا اور بیگ میں کچھ تلاش کرنے لگی .
مزینہ ، ملائکہ ،  صائم ، ولی اور فائق کا گروپ گزشتہ ایک سال سے C.I.T  کے انسٹیٹیوٹ میں ساتھ تهے اور یونیورسٹی میں بھی ساتھ ہی پڑھتے تھے۔ ان پانچوں میں ملائکہ کا سرے سے ہی اس میں دلچسپی نہیں تهی ۔ مزینہ اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی ہے جسکو اپنے والدین کے لیے وہ سب کچھ کرنا تها جو ایک بیٹا کرتا ہے . وہ ایک اکیلی اولاد ہونے کے باوجود ایک اسٹرونگ اور کانفیڈنٹ لڑکی ہے .
مزینہ اب کیا ڈهونڈ رہی ہو بیگ میں یار.. ملائکہ کو قوفت ہونے لگی .جب کے تینوں لڑکے نا جانے کون سی گُتهی سلجها رہے تهے. اتنے میں ویٹر نے کهانا سرو کیا اور سب ندیدوں کی طرح اس پر ٹوٹ پڑے ولی نے روٹی کا لُقمہ لے کر سب کو مخاطب کر کے کہا ویک اینڈ کا کیا پلان ہے ۔ کچھ خاص نہیں صائم نے سوچنے کے بعد جواب دیا باقی سب نے بهی کچھ اسی طرح کا جواب دیا  مزینہ نے ولی سے پوچها تم کیوں پوچھ رہے؟؟ ولی نے بہت ہی نرم لہجے اپناتے ہوئےمزینہ کو جواب دیا میں بس اس لیئے کہہ رہا تها  کیوں نا کہیں آئوٹنگ پر چلیں ویسے بهی اس ویک بہت پک چکا ہوں ایک ہی روٹین سے سب نے ولی کی بات سے متفق ہوکر کہا صحیح کہ رہے ہو یار کلاس کے بعد چلیں گے ۔ مزینہ نے بهی اس بات پر ٹهیک ہے کہا اور  بِل پے کر کے گهر کے لیے نکل پڑے۔

چلچلاتی ہوئی دهوپ کی وجہ سے سب اپنے گهروں میں قید تهے یہ ان دنوں کی بات ہے جب کراچی کے مختلف علاقوں میں پانی کی پائپ لائن کے لیے کُهدائی ہو رہی تهی. کُهدائی کرنے کے بعد مزدور کافی وقت کے لیے نا جانے کہاں چلے جاتے تهے . ان کهڈوں کو دیکھ کر بچوں میں ایک عجیب شرارت کی لہر دوڑ جاتی تهی. دوپہر میں اپنی والدہ کے سونے کے بعد محلے کے سارے بچے باہر گهومنے نکل پڑتے تهے . دهوپ سے گرمی سے ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا تها . مزینہ اس ایریا میں نئی نئی شفٹ ہوئی تهی. اپنا دل بہلانے کے لیے وہ بهی باہر بچوں کے ساتھ کهیلنے کے لیے بهاگی اس وقت مزینہ کی عمر پانچ سال تهی . کُهدی ہوئی پائپ لائنز کے اردگرد اور بچے کهڑے تھے اور ان لائینز میں جمپ لگا رہے تهے مزینہ یہ سب دیکھ کر لطف اندوز ہو رہی تهی. ایکسائیٹمنٹ میں برابر میں کهڑی چهوٹی بچی مزینہ کے ساتھ ٹکرا کر گر گئی گرنے والی بچی اپنے بهائی کے ساتھ تهی اور مزینہ اکیلی تهی. خوف سے مزینہ  تیزی سے بهاگتی ہوئی گهر آگئی.
اسکول میں داخلے لینے کے بعد گهر سے کچھ فاصلے پر مدرسہ میں مزینہ داخلہ لینے اپنی امی کے ساتھ گئی .مزینہ کی نظر اسی بچی پر پڑی جو کل اس کی وجہ سے گر گئی تهی..مزینہ اپنی امی کے بالکل پیچهے ہوگئی اور چهپ کر اس بچی کو دیکهنے لگی. اب کے اس بچی کے ساتھ اسکا بهائی نہیں تها بلکہ بڑی بہن تهی ..اگلے دن مدرسہ میں اس بچی کے برابر میں بیٹهنے کو جگہ ملی اس چهوٹی سی بچی کا نام جمائمہ تها اور بڑی بہن کا نام دائم تها ۔
دائم اور جمائمہ سے تهوڑی ہی دیر میں مزینہ کی دوستی ہوگئی .بچپن میں سب سے خوبصورت بات یہ ہوتی ہے دوستی کرنے میں نفع نقصان یا اپنامفاد کا علم نہیں ہوتا.
گزرتے دنوں کے ساتھ مزینہ  اور دائم کی دوستی گہری ہوگئی .  پڑهائی سے فارغ ہوکر
دونوں کا زیادہ تر وقت ایک ساتھ گزرتا مزینہ کے گهر کا صحن کافی بڑا تها . اسلیے دائم اپنی چهوٹی بہنوں کے ساتھ مزینہ کے گهر چلی جاتی تهی. مزینہ کے پاس ایک کهلونا گاڑی تهی . جس پر ایک وقت میں ایک ہی بچہ بیٹھ سکتا ہے اس گاڑی پر دائم اور مزینہ دونوں باری باری پورے صحن کا رائونڈ لگاتی پهرتی تهیں ۔ ایک لوہے کا پلر صحن کے سائیڈ میں موجود تها جس پر اورنج کلر کا واٹر پائپ لٹکتا تها. وہ ان دو لڑکیوں کا پیٹرول پمپ ہوا کرتا تها. وقت بہت تیز رفتاری سے گزر رہا تها. مزینہ اور دائم دونوں ساتھ ہی مدرسہ آتی جاتی تهیں.
دو سال اسی طرح گزر گئے.
دائم کے قران کی آخری سورہ رہ گئی تهی جو آج سنانے کے بعد اسکا قرآن مکمل ہونا تها . اپنا سبق سنا  کر دائم بہت خوشی خوشی گهر لوٹی مگر گهر پہنچ کر ایک حیرت کا جهٹکا اسے لگا اس کے گهر اسکے ابو کے ماموں کے گهر والے اپنا سارا سامان ٹِرک میں لے کر نازل ہوگئے تهے. دائم کی عمر تقریبا'' سات سال تهی جیسے تیسے ضروری سامان دائم کی امی بهائی وغیرہ نے پیک کرنا شروع کیا یہ سب کچھ اتنی جلدبازی میں ہورہا تها . دائم اپنی خوشی تک اپنی ماں سے نہیں کہہ پائی . اپنی امی سے اجازت لے کر اس نے مزینہ کے گهر کی طرف دوڑ لگائی مزینہ گهر پر نہیں تهی وہ ٹیوشن جا چکی تهی. مزینہ کی امی نے دائم سے آنے کی وجہ پوچهی تو وہ بهی سن کر حیران ہوئی کے اتنی اچانک ایسے گهر چهوڑنا  مزینہ کی امی نے دائم سے مزینہ کے ٹیوشن اس سے ملنے جانے کو کہا. دائم ٹیوشن کے دروازہ پر ہی تهی . اسکا بهائی اسے بلانے آگیا اور دائم بغیر مزینہ سے ملے اپنی فیملی کے ساتھ نا جانے کہاں چلی گئی.
بچپن کی دوستی ایک جهٹکے میں ٹوٹ گئی.
دائم کا گهر وغیرہ سیٹ ہوچکا تها نئے علاقے میں آنے کے بعد بهی وہ مزینہ کو نہیں بهول سکی تهی. دائم کی دادی کا گهر مزینہ کے گهر کی طرف تها .دائم کے دادا کے انتقال کی وجہ سے دائم اپنی دادی کے گهر تهی. چهوٹی تهی اتنی سمجهدار نہیں تهی.
اپنی امی سے ضد کر کے وہ اپنے بهائی کے ساتھ مزینہ سے ملنے کی غرض سے اسکے گهر چلی گئی.
دائم مزینہ سے ملنے کا سوچ کر اسے سرپرائز کرنے کی خوشی لےکر جب اسکے گهر پہنچی تو پتہ چلا مزینہ گهر پر نہیں تهی . تهوڑی دیر تک دائم نے اسکا انتظار بهی کیا مگر مزینہ نہیں آئی ۔ دائم بہت اداس ہوکر واپس گهر چلی گئی ۔اسکے بعد دائم کی ایک بار اپنی پهوپهو کی بیٹی کے توسط سے ایک بار فون پر بات ہوئی مگر تب مزینہ پہلی جیسی نہیں رہی تهی. مختصر سی بات کے بعد پهر دونوں ایک دوسرے سے  دور ہوگئیں .
اور اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ہوگئیں.
وقت گزرتا گیا۔ مزینہ کی اسکول لائف کا اختتام ہونے کو تها.
مزینہ میٹرک کے پیپر دے کر فارغ ہی ہوئی تھی ، کہ نیا نیا انٹرنیٹ کنیکشن ہوا گھر میں، بیڑا غرق ہو ان فیس بک بنانے والوں کو، کیا بلا نوجوان نسل کے ہاتھ لگی، اب تو صبح ہو یا شام ایک نئی نئی مصروفیات مل گئی تھی۔ پھر دوستیاں ہونا شروع ہو گئیں۔۔۔ ایک لڑکی ملی وہ بھی نئی نئی فیس بک یوسر تھی۔۔۔۔ اس سے میری گہری دوستی ہوگئی ، اب تو صبح ہو یا شام اسکائپ پر بات ہوتی۔ مجھے لڑکوں سے ویسے ہی چڑ سی تھی۔ اس لڑکی کے ایک دوست کا میسج آیا تو اسے اچھی خاسی سنا کر بلاک دیا، اور اس ہی ایک سال گزر گیا پتا بھی نا چلا۔۔۔ اس سال اس کا ایڈمیشن کالج میں ہوگیا تھا، وہ کالج سے گھر آئی تھی فریش ہوکر کالج کی دوست کو میسج کرنے کے لئے سیل فون اٹھایا، وہاں فیس بک نوٹیفکیشن آیا ہوا تھا، دیکھا اور ایک پوسٹ کے کومنٹس میں بہس شروع کردی۔ خیر لوگوں سے بہس کرنا اس کا ہمیشہ پسندیدہ مشغلہ رہا تھا، اس اچھی خاصی بہس کے بعد بات دوستی تک پہنچ گئی تھی، اور دوستی ہوگئی۔۔۔
اور یہ دوستی گہری ہوتی گئی ۔ اتنی کہ وہ ایک دوسرے پر کافی بھروسہ کرنے لگے، یہ دوستی سچی تھی ملاوٹ سے پاک۔ مگر تھا تو وہ ایک نامحرم۔ شمس کے دل میں مزینہ کی بہت عزت تھی اور شاید کچھ خاص احساسات بھی۔ اس ہی طرح تیں سال گزر گئے اور مزینہ نے شمس کی ہی فیلڈ (شعبہ) میں اپلائے کرنے کا سوچا اور ایڈمیشن لے لیا، شمس اس کی ہر طرح سے مدد کرتا تھا، اس کی پڑھائی میں اس نے ہمیشہ شمس کی ہی مدد لی، ان دونوں کی کسی مفاد سے پاک دوستی رہی اور مزینہ کا ایک سمسٹر گزر گیا، اور سمسٹر کے بعد یونیورسٹی میں آیا ایک فنکشن۔۔۔۔۔۔۔
مزینہ کی اپنی کلاس میں صرف چار لوگوں سے ہی اچھی بات چیت تھی، ملائکہ جو کہ اس کی پہلی کلاس میں ہی دوست بن گئی تھی اور مزینہ کے بنا کوئی بھی پلان نا بناتی۔ اور ایک ماہ میں ان دونوں کی، سائم فائق اور ولی سے بھی اچھی دوستی ہوگئی۔ یہ تینوں بھی مزینہ اور ملائکہ کی طرح ایک دوسرے کے پہلے دن کے ہی پکے والے دوست بن گئے تھے۔ وہ لوگ ایک واٹس ایپ گروپ بنا کر روز اس میں ہر کلاس کے متعلق ڈسکس کرتے، کبھی ہنسی مزاک اور کلاس کے دوسرے لوگوں کی خوب برائیاں بھی کرتے۔
سمسٹر اگزام کے بعد جب فنکشن کا سنا تو ان پانچوں کی ایکسائٹمنٹ ہی الگ تھی۔ پھر کیفے ہو یا گروپ فنکشن کی ہی ڈسکشن جاری تھی۔۔۔
مزینہ یونیورسٹی سے جب گھر پہنچی تو پتا چلا کہ شمس کا میسج آیا ہے کہ اس کے کیمپس سے بھی فنکشن میں سب انوائٹڈ ہیں۔ چار سال بعد پہلی بار ایک دوسرے کو دیکھنا تھا، دونوں نروس۔۔۔
جب مزینہ فنکشن میں پہنچی تو ملائکہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا ۔۔
کہاں تھی تم؟ میں ہی بےوقوف پہلے پہنچ گئی تم سب کے سب لیٹ لطیف ہو۔ ملائکہ نے خفگی سے کہا،
اچھا نا میری ماں ٹریفک کی وجہ سے دیر ہوگئ۔ اور وہ تینوں نمونے نہیں آئے؟؟؟ مزینہ نے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا۔
اللہ جانے کدھر بھٹک رہے ہیں یہ تینوں آتمائیں، جو ابھی تک نا پہنچے ہیں، ملائکہ تو جیسے چڑی بیٹھی تھی۔
اتنے میں انٹرنس گیٹ سے وہ تینوں نازل ہوئے،
لو دیکھو نام لیا اود شیطان حاضر، وہ دیکھو آگئے ۔ مزینہ نے ہنستے ہوئے کہا
پانچوں مل گئے تو پھر ٹیچرز کے ساتھ سیلفیز بھی لیں، گیمز بھی کھیلے، پیٹ پوجا بھی ہوئی اور شاپنگ بھی۔ مگر پورا وقت مزینہ کی نظریں ایک ہی شخص کو کھوجتے گزریں،
مزینہ ملائکہ کے ساتھ گول گپے کھانے میں مصروف تھی جب اس کی نظر اس شخص پر پڑی اور اس کا حلق تک کڑوا ہوگیا وہ شمس تھا۔۔۔
معمولی سی شکل و صورت نارمل قد اور ایک برانڈڈ شرٹ اور بلیو جینز میں،
مگر۔۔۔۔
مگر یہ کیا؟ وہ تو اپنے دوستوں اور کزنز کے ساتھ لائوڈ اسپیکر پر چلتے ہوئے گانوں پر بھنگڑے ڈالنے میں مصروف تھا۔۔۔
مزینہ کا تو ہی دیکھ کر ہی موڈ خراب ہو گیا تھا۔
کچھ دیر اپنے ٹیچرز کے ساتھ بات کرکے مزینہ پیچھے مڑی ہی تھی کہ پیچھے شمس کھڑا تھا،
وہ اتنا نروس ہوگئی کہ سلام کرتی اس نے ہاتھ ہی آگے بڑھا دیا۔
پہلے تو شمس بیچارہ کچھ سمجھا نہیں پھر جھٹ سے ہاتھ ملا نے کی ناکام کوشش کی۔ مزینہ کو اپنی بےوقوفی پر انتہائی غصہ آیا اور ہاتھ پیچھے کرلیا،
کیسی ہیں آپ؟ شمس نے سوال کیا
میں ٹھیک، اور آپ ؟ مزینہ نے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
آپ کب آئیں؟ شمس نے بات بڑھانی چاہی،
میں تو کافی پہلے سے ، آپ نے شاید دیکھا نہیں (البتہ آپ بھنگڑے ڈالنے میں مصروف تھے) مزینہ نے دل میں سوچا۔
جی جی ! میں اپنے کزنز کے ساتھ تھا، شمس نے اپنے کزنز کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
اتنے میں اس کا بھائی اور کزن وہیں نازل ہوگئے۔ شمس نے تعارف کروایا مزینہ سلام  نے کیا، اور شمس سے ایکسکیوز کر کے وہاں سے نکلنے میں ہی آفیت جانی
۔
گهر کے باہر سب ریڈی کهڑے ہوتے ہیں  میر بار بار گهڑی کی طرف نظریں دوڑا رہا ہوتا ہے بے چینی صاف اسکے چہرے سے عیاں ہے۔
کیا بات ہے میر کس کا انتظار کر رہے ہو؟؟؟ میر چونک کر دیکهتا ہے نہیں آپی کسی کا انتظار نہیں کر رہا نکلنے کی کریں بس اب کب سے تیار ہوکر ویٹ کر رہا ہوں آپی نے اپنا دوپٹہ پِن سے سیٹ کرتے ہوئے کہا تمہیں بہت جلدی ہے ویسے وہاں جانے کی میر نے خاموشی سے بنا کچھ کہے وہاں سے کھسک لیا .
گهر کے اندر ایک الگ ہی ماحول تها .ہر طرف رنگے برنگے ملبوسات میں خواتین اپنے آپ کے بنائو سنگهار میں جی جان سے محنت کر رہی تهیں . ہر کمرے میں لوگ جمع ہوئے بیٹهے تهے. ایک کمرہ جہاں پر صرف تین لیڈیز جو ماں اور بیٹاں تهیں .مل کر دلہن کو تیار کر رہی تهیں.
دلہن تیار ہونے کے بعد اور نکهر گئی تهی. شروع سے میک اپ کرنے کا شوق  اسے نہیں تها یہ عادت اسے اپنی والدہ سے ملی تهی . آج کے دن بهی اس نے ہلکا پھلکا میک اپ کیا ہوا تها. نازک سے کام والے ریڈ اور وائٹ جوڑے میں وہ بہت پیاری لگ رہی تهی. باہر سے کسی نے گیٹ پر دستک دے کر اطلاع دی مہمان کے آنے کی اور سب کمرے سے نکل گئے مہمان کے ویلکم کے لیے  اب دلہن بنی وہ  اپنے آپ کا سر سے پیر تک جائزہ لے رہی تهی. میسج سے موبائل اسکرین جگمگا اٹھی ۔" آج کے بعد تم صرف میری ہو صرف میر کی " میسج کا رپلائی آپشن کهولا ہی تها کے بهائی ابو وغیرہ کمرے میں آچکے تهے.
[ آج دو محبت کرنے والوں کا تاعمر ساتھ ہوجانے کا دن تها. اتنے سالوں تک ایک ہی انسان کے ساتھ ساری زندگی گزارنے کا خواب سچ ہونے کو تها وہ اپنے آپکو کسی فیری سے کم نہیں سمجھ رہی تهی جسے اسکا شہزادہ ملنے والا تها. محبت اگر پاک ہو اسمیں کوئی کهوٹ نا ہو تو اس کا اختتام شریعت کے مطابق مل جانا کسی معجزے سے کم نہیں ہوتا. ایسا ہی کچھ میر کے ساتھ ہورہا تها.

Husul maraamWhere stories live. Discover now