پرانی باتوں کو یاد کر کے اسے عجیب سی وہشت ہورہی تھی۔ ولی کے دن بہ دن بڑھتے ہوئے میسجز اسے تکلیف دے رہے تھےاور پھر ایسی سیچوئشن میں اس کا پاکستان واپس لوٹنا سب کچھ اتنا اچانک تھا ۔ تھوڑے ہی وقت کے لئے صحیح وہ ان سب جھنجھٹوں سے دور ہوگئی تھی۔ اس وقت سب سے مشکل مرحلہ اسے پاکستان جانا لگ رہا ۔ یہی سب سوچتے سوچتے کب 7 بج گئے اسے پتہ ہی نہیں چلا اسے ہاشر کی کال کا خیال آیا تو جلدی سے اٹھ کر ریڈی ہونے چلی گئی۔
واپس آکر اپنا موبائل اور بیگ پیک اٹھائے وہ ہاشر کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچی جہاں تقریبا سب ہی آچکے تھے ۔
ہاشر مزینہ کو آتا دیکھ کر مسکرایا وہ اب تیز تیز قدم بڑهاتی ہاشر کے قریب پہنچی " آئی ایم رئیلی سوری وقت کا پتہ نہیں چلا مجهے اسی لئے تهوڑی لیٹ ہوگئی "
"اٹس اوکے میں جانتا ہوں آپ اور لڑکیوں کی طرح تیاری میں وقت نہیں لگاتیں" ہاشر نے اسے چهیڑا تها ۔
مزینہ نے اس کی بات پر چڑ کر کہا لگتا ہے انڈین ڈرامے آپ بہت شوق سے دیکهتے ہیں ۔
ہاشر نے ہنستے ہوئے کہا میں سمجها نہیں ..!
سب گاڑی میں سوار ہورہے تهے ۔مزینہ نے ان کے پیچھے چلتے ہوئے جواب دیا "گهما پهرا کر طنز کر ہی دیتے ہیں آپ اور ایسی چالاکیاں تو ہمسائے ملک کے ڈراموں میں ہی پائی جاتی ہیں" یہ کہنے کے بعد وہ گاڑی میں بیٹھ چکی تهی۔
ہاشر اس کی باتوں پر اب تک مسکرا رہا تها ۔ اس نے مزینہ کے برابر والی نشست سنبهالتے ہوئے کہا
" آپ سے کوئی نہیں جیت سکتا "
مزینہ نے ترچهی نظروں سے اسے دیکها پهر اترا کر کہا "وہ تو ہے " اب کے وہ دونوں ہی بے ساختہ مسکرا دئیے .
"ہم کہاں جا رہے ہیں ؟؟" اس نے کهڑکی سے باہر نظریں دوڑاتے ہوئے سوال کیا۔
"ہم آج جس جگہ جا رہے ہیں ... وہ وہیں جا کر پتہ چلے گا ابهی میں کچھ نہیں بتا سکتا آپکو " اس نے اپنے ہیڈفونز سیٹ کرتے ہوئے جواب دیا.
مزینہ نے اس کی بات سننے کے بعد خاموش ہوگئی کیوں کے اس کے ہیڈ فونز لگانے کا مطلب تها مزید کوئی بات نہیں۔********
ہلکی سی بوندا باندی سے سب نکهرا نکهرا لگ رہا تها ۔ گیلی مٹی کی خوشبو ہر سو گردش کر رہی تهی۔ سر سبز درخت دُهل کر تازگی بخش رہے تهے۔ پهولوں پر پڑی بارش کی بوندیں بہت بهلی دکهائی دے رہی تهیں۔ ایک طرف وہ اس حسین موسم میں باہر سیرو تفریح کی غرض سے جانے کا سوچ کر خوش تهی۔ تو دوسری طرف سب کے گهر میں موجود ہونے سے الگ ہی پریشان سی تهی۔ کچھ دیر تک وہ اسی کیفیت میں مبتلا رہی اس کے بعد اپنا سوٹ اٹها کر چینج کرنے چلی گئی ۔
تهوڑی ہی دیر بعد وہ انگوری رنگ کا سوٹ پہنے دوپٹہ شانوں پر پهیلائے شیشے کے سامنے کهڑی ہوکر بالوں کو سلجهانے لگی ۔ کمرے سے باہر نکل کر جانے کا سوچ سوچ کر ہی اس کا دل گهبرا رہا تها۔
بال سلجها لینے کے بعد اسکارف لپیٹ کر اس نے موبائل اٹهایا جس پر میر کا میسج آیا ہوا تها۔وہ جلدی جلدی اپنی ضروری چیزیں ہینڈ بیگ میں رکھ کر کمرے سے باہر نکلی ۔سامنے کا منظر دیکهنے کے بعد اس کے قدم وہیں رک گئے ۔ میر زیدی صاحب اور داؤد کے ساتھ بیٹھا باتیں کر رہا تها تارم بهی وہیں موجود تهیں ۔ دائم کو دیکھ کر اچانک ہی خاموشی ہوگئی ۔ وہ اپنی جگہ اب تک ساکت کهڑی تهی ۔" آؤ بیٹا وہاں کیوں کهڑی ہو " زیدی صاحب نے اسے نارمل انداز میں مخاطب کیا ۔ دائم ابو کے اس رد عمل پر چونکی تهی ۔ تارم بهی حیرت سے شوہر کو دیکهنے لگیں ۔
اسے اتنے دن سے ابو کا سامنا کرنا مشکل کر رہا تها ۔ مگر ان کے اس رویہ پر وہ بهی حیران ہوئے بنا نہیں رہ سکی تهی ۔اب کے زیدی صاحب نے پهر سے اسے مخاطب کیا "دائم میر کو دیر ہو رہی ہوگی"
وہ اب ٹرانس کی کیفیت سے باہر آئی ۔
الفاظ تو ساتھ دے نہیں رہے تهے اسلئے سر ہلا کر بات کا جواب دیا ۔ میر سب کو الوداعی کلمات کہتا ہوا باہر کی طرف چل دیا دائم زیدی صاحب کے پاس آکر کهڑی ہوگئی۔ نظریں اٹهانے کی اس میں ہمت نہیں تهی ۔
اس کی نیچی جهکی ہوئی نظروں سے صاف ظاہر تها کہ یہ سب وہ بهی خوشی سے نہیں کر رہی تهی ۔ زیدی صاحب نے شفقت بهرا ہاتھ اس کے سر پر رکها ۔ جس سے اسے احساس ہوا کے وہ بلا وجہ ہی ابو سے چهپ رہی تهی ۔ وہ اس سے ذرا بهی ناراض نہیں تهے- اس نے کچھ کہنے کے لئے لب کهولے ہی تهے کہ باہر سے ہارن کی آواز آنے لگی ۔ تارم نے اسے جانے کو کہا وہ تیز تیز قدم بڑهاتی وہاں سے چلی گئی ۔
زیدی صاحب نے اپنی بیگم کو مخاطب کر کے کہا " آپ نے میری بیٹی کے لئے غلط شخص کا انتخاب کر لیا ہے " ان کے چہرے سے افسردگی صاف ظاہر تهی ۔ تارم آئے دن یہ جملہ سن رہی تھیں۔ مگر کچھ بھی کہنے سے قاصر تھیں۔
YOU ARE READING
Husul maraam
General Fictionپیش لفظ حصول مرام سے مراد خواہش کا پورا ہونا ۔ ہم انسانوں کی زندگی کا ایک حصہ خواہشوں اور مرادوں کا ہوتا ہے جو انسان کے ساتھ ہمیشہ رہتا ہے ۔ میری یہ کہانی دو ایسی لڑکیوں پر مبنی ہے جو اپنی حصول مرام کے لئے ہر حد تک جانے کی ممکن کوشش کرتی ہیں ۔ لیکن...