اس نے عام سے انداز میں کہا مزینہ ٹکر ٹکر اپنے برابر میں بیٹھے شخص کی شکل دیکھ رہی تهی جو بچوں کی طرح بتا رہا تها کہ امی نہیں کهانے دیتی ۔ ہاشر نے مزینہ سے سوالیہ انداز میں کہا ویسے آپنے یہ کیوں کہا مجھے روم جانے کے لیے انتظار کرنا پڑتا مزینہ نےاپنے جلد بازی میں بولے گئے جملے پر خود کو کوسا وہ اصل میں میری وش تھی۔ روم جانے کی بس اس وجہ سے ہاشر نے مزینہ کو شرمندہ دیکھا تو مزید بولنے سے گریز کیا اور اسپیڈ بڑھا کر بی ایم سی کے سامنے گاڑی روک دی جہاں ان دونوں کا ہی ویٹ ہورہا تھا ۔تمام افراد روم کے لیے روانہ ہوچکے تھے ۔مزینہ اپنی خواہش پوری ہونے پر حد سے زیادہ خوش تھی ۔ جبکہ ہاشر کے بجھا بجھا سا لگ رہا تھا۔
کافی لمبے سفر کے بعد وہ لوگ روم (Rome) داخل ہوچکے تهے مگر سب چونکہ بائے روڈ آئے تھے تو تھکن کی وجہ سے سب بُک کیے ہوئے ہوٹل میں ریسٹ کرنے چلے گئے ۔
اپنے اپنے روم میں آرام کر لینے کے ہاشر نے مزینہ کو کال کر کے باہر بلایا تا کہ وہ دونوں سب ہی کال کر کے اکھٹا کر لیں اور روم گهوم سکیں۔ مزینہ جلدی سے اپنا ضروری سامان بیک پیک میں بهر کر آچکی تهی ۔مزینہ نے کے ڈریس پر نیل پینٹ گر گیا تها جسکی وجہ سے اسے آنے میں تهوڑا وقت لگ گیا تها۔ ہاشر نے سرسری سی نگاہ مزینہ پر ڈالی ویسے ماننا پڑے گا آپ لڑکیوں کے پاس ریڈی ہونے کے لیے ہمیشہ وقت ہوتا ہے مزینہ نے سوالیہ انداز میں پوچها کیا مطلب ؟؟ ہاشر نے کچھ نہیں کہہ کر جان چهڑوائی کیوں اب تک اس نے جتنا مزینہ کو سمجها تها وہ بال کی کهال نکلانے والوں میں سے ایک تهی اس لیے اس نے جان بوجھ کر اسے چھیڑا تها مزینہ اپنی عادت کے عین مطابق ہاشر کا سر کهانے لگی تهی ۔ اس وقت وہ دونوں پارکننگ ائیریا میں موجود تهے ۔ مزینہ اور ہاشر نے کالز کر کے سب کو پارکننگ ایریا میں بلا لیا تھا۔ کیوں کے اب وہ لوگ سب ساتھ روم گھومنے والے تھے ۔ سب کو کال کر لینے کے بعد ہاشر فیسبک چیک کرنے لگا مزینہ کو ہاشر کی بات یاد آئی تو چڑ کر بولی میرے ڈریس کے پیچھے بهی کوئی وجہ ہے ہاشر نے موبائل سے نظر ہٹا کر مزینہ کو دیکھا جو کافی غصہ میں لگ رہی تھی ، میں تو بس ایک جینرل بات کر رہا تها آپ تو مائینڈ کر گئیں۔ مزینہ نے جواب میں کہ آپکی طرح مجھ سے بھی غلط بات برداشت نہیں ہوتی ابهی آپ نے مجهے جو لڑکیوں کی مثال دے کر کہا اس کا جواب یہ ہے کہ میرے کپڑوں پر نیل پینٹ گر گیا تها۔ ڈیٹس وائے مجهے ٹائم لگا کوئی شوق نہیں مجهے بلاوجہ وقت ضائع کرنے کا ہاشر کچھ کہتا تب تک آفس کے تمام لوگ آچکے تھے ۔ اب کے ان بڑی گاڑی کا انتظام کیا گیا تھا تا کہ سب ایک ساتھ ہی سب جگہ جا سکیں روم کی کہانی اب شروع ہوچکی تھی ۔ جس میں کسی کی وش پوری ہو رہی تھی ۔اور کسی کے غم تازہ ہورہےتھے۔ یہ لمحے مزینہ کے لیے بہت یادگار تھے ۔☆☆☆☆☆
سب لائونج موجود خوش گپیوں میں مصروف تهے ۔وہیں دائم بے چین سی بیٹهی تهی ۔ یہ بے چینی کسی سے چھپی نہیں تهی۔ سُمیرا بریڈ رولز کهاتے ہوئے دائم سے بولی کیا بات ہے تم کهوئی کهوئی سی لگ رہی ہو ۔
دائم نے کنفیوز سے انداز میں کہا نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں صالحہ نے بهی اب کے پوچها کیا ہوا ہے؟؟
جمائمہ نے منہ پهٹ انداز میں کہا میر بهائی آگئے نا بنا بات کرے دل کیسا لگے گا ؟؟ اس بات پر سب ہی ہنس دئیے جبکہ دائم نے خفگی سے کہا ایسی کوئی بات نہیں ہے، کم بولا کرو تم چهوٹی عورت ..! جمائمہ نے منہ چڑایا تو دائم نے چڑ کر تارم کو مخاطب کیا امی دیکهیں نا وہ جو ان دونوں کو لڑتا ہوا دیکھ رہی تهیں غصہ سے بولیں کسی آئے گئے کا ہی لحاظ کر لو تم لوگ دائم اٹھ کر اپنے کمرے میں جا چکی تهی کیوں کے تارم نے سب کے سامنے کافی عزت افزائی کر دی تهی ۔ کمرے میں آنے کے بعد موبائل چیک کیا جہاں پر کہیں بهی میر کا میسج اور کال نظر نہیں آرہے تهے ۔ اس نے بے دلی سے موبائل رکھ دیا تها ۔ باہر ابهی تک باتوں کی آوازیں ہنوز برقرار تهیں۔ شام ہونے کو آئی تهی دائم تهوڑی دیر سونے کے بعد جب لائونج میں پہنچی تو صالحہ اور سُمیرا جا چکی تهیں ۔ تارم رات کے کهانے کی تیاری کر رہی تهیں ۔ دائم نے امی کا غصہ چیک کرنے کے لیے پہلے امی کی شکل دیکهی جس پر غصہ کہیں نظر نہیں آرہا تها۔ مگر بہت سنجیدہ لگ رہی تهیں۔ دائم نے پاس کی چئیر گھسیٹ کر بیٹھتے ہوئے کہا صالحہ آنٹی کب گئیں؟؟ دائم نے چکن کو میرینیٹ کرتے ہوئے جواب دیا تهوڑی دیر پہلے دائم اگلے سوال کے لئے لفظ سوچنے لگی۔ تارم نے ایک نظر دائم پر ڈالی پهر بولیں میرا موڈ چیک کر رہی ہو نا تم؟؟ وہ جو پہلے ہی ڈری ہوئی تهی فورا بولی ”امی جمائمہ نے بدتمیزی کی تهی میں نے نہیں“ تارم نے دائم کو ہی جهاڑ لگاتے ہوئے کہا ”تم تو بڑی ہو نا ساس نند کے سامنے ہی شروع ہوگئیں تماشہ دکهانے کہ کس طرح کی لڑکیاں ہیں یہ جمائمہ کا تو دماغ درست کرونگی میں بہت زبان چلتی ہے اس کی بهی“ تارم اب روایتی امی بن چکی تهیں ۔ تارم نے ڈانٹیں سننے کے بعد زیدی صاحب کا پوچها ابو کہاں ہیں نظر نہیں آئے تب سے؟؟؟ " وہ تو بہت زیادہ ناراض ہورہے تهے میر ویسے ہی انهیں نہیں پسند اوپر سے دوپہر والے واقعے کے بعد تو اور ہی زیادہ غصہ ہیں خاص کر تم سے تمهاری عقل کہاں چلی گئی تهی بنا دیکهے دروازہ کهول دیا تم نے " دائم نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا امی مجهے کیا پتہ تها میر ایسے اچانک آجائینگے اور ویسے بهی کوئی جینٹس نہیں آتا ہمارے گهر تارم اپنی کم عقل بیٹی کی شکل دیکھ رہی تهیں” تمھیں اپنے شوہر کی شکل کی ہی پہچان نہیں ہے ویسے حد ہوتی ہے “
دائم صدمہ سے گویا ہوئی امی آپنے حلیہ چیک کیا تها ان کا کتنے بدل گئے ہیں عجیب ہی حلیہ بنا ہوا تها نہیں پہچان پائی میں ۔
تارم نے ہنستے ہوئے کہا بیٹا اللّٰہ ہی حافظ ہے تمهارا دائم اب سوچ میں پڑھ گئی تهی ۔ تارم نے ٹوکا اب کیا سوچنے لگ گئی ۔ ”چلو جائو ابو کے کپڑے آئرن کردو اس کے بعد کل کی دعوت کی بهی تیاری کرنی ہے“
دائم نے دعوت کا سنا تو سوالیہ نظروں سے تارم کو دیکها کس کی دعوت؟؟ میر صاحب کی دعوت اور کس کی۔
دائم اچها کہتی وہاں سے اٹھ کے چلی گئی۔ ☆☆☆☆
YOU ARE READING
Husul maraam
General Fictionپیش لفظ حصول مرام سے مراد خواہش کا پورا ہونا ۔ ہم انسانوں کی زندگی کا ایک حصہ خواہشوں اور مرادوں کا ہوتا ہے جو انسان کے ساتھ ہمیشہ رہتا ہے ۔ میری یہ کہانی دو ایسی لڑکیوں پر مبنی ہے جو اپنی حصول مرام کے لئے ہر حد تک جانے کی ممکن کوشش کرتی ہیں ۔ لیکن...