Episode 22

84 11 0
                                        

"فہد بیٹا خدیجہ کے گھر والے شادی کی بات کررہے تھے آج اس کی امی سے ملاقات ہوئی تھی"
فہد اپنی امی کے ساتھ کھانے کی میز پر تھا
"امی مجھے ابھی اتنی جلدی شادی نہیں کرنی"
"بیٹا بہت دیر ہوگئی ہے اب تو تم پچیس کے ہوگئے ہو ۔۔
کہیں ایسا تو نہیں خدیجہ سے تمہارا من بھر گیا ہے"
"امی چھوڑیں خدیجہ کو مجھے اس سے شادی نہیں کرنی"
"پاگل ہوگئے ہو تم تم دونوں کی منگنی ہوئی تھی چار سال پہلے یاد ہے نا اور تم دونوں کے کہنے پر ہوئی تھی"
"مگر امی اب مجھے کوئی اور پسند آگیا ہے"
"تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے کیا کون ہے وہ،؟؟"
تو فہد نے جہاز والا سارا واقعہ اپنی امی کو سنایا
"بیٹا خدیجہ کے بارے میں سوچو اس کی زندگی برباد ہو جائے گی "
"صرف منگنی ہی تو ہوئی تھی "
"منگنی صرف نہیں ہوتی بیٹا یہ پاکستان ہے یہ معاشرہ خدیجہ کو جینا محال کرکے دے گا"
"امی میں بہت ٹینشن میں ہوں مجھے منال سے پیار ہوگیا ہے"
"بیٹا ہم ماڈرن ہیں اوپن مائنڈڈ ضرور ہیں مگر بے حیا نہیں ہے میں خدیجہ کے ساتھ ایسا نہیں ہونے دوں گی تم جاؤ آرام سے سوچو کہ تم خدیجہ کے ساتھ غلط کررہے ہو"
انہوں نے سلائسپر جیم لگاتے ہوئے کہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منال کو ہوش آیا تو سب جاچکے تھے صرف نور باقی بچی تھی جو اسکے سرہانے بیٹھی تھی منال کو ڈرپ لگی تھی
"مم میں کہاں ہوں ؟"
"منال بی بریو تم بالکل ٹھیک ہو"
"مجھے کیا ہوا تھا امی "
منال نے دوسری طرف بیٹھی امی سے کہا
''بس چکر آگیا تھا بیٹا ابجی ڈاکٹر آیا تھا ڈرپ لگا گیا ہے میں نے ضد کی تھی کہ گھر میں ہی لگانی ہے "
"امی"
منال کہتے ہویے عافیہ بیگم کے گلے لگ گئی
"نور تم اسے سمجھاؤ بیٹا "
"جی آنٹی "
عافیہ بیگم کہہ کر چلیں گئیں تو نور منال کو سمجھانے لگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساری رات فہد اپنی امی کی باتیں سوچتا رہا
"میں خدیجہ کی زندگی برباد نہیں کرنے دوں گی"
"کیا میرے اس فعل سے سچ میں خدیجہ کی زندگی برباد ہو جائے گی
یہ تو غلط ہوگا خدیجہ کے ساتھ نہیں میں ایسا نہیں کروں گا
مجھے خدیجہ سے ہی شادی کرنی ہوگی"
وہ بستر پر لیٹا چھت کو گھور رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"نور یہ سب ضروری تھا کیا"
منال نے موبائل آن کرتے ہوئے کہا
وہ دونوں کالج کی سیڑھیوں میں بیٹھی تھیں
"ہاں یہ بہت ضروری تھا منال تمہی خیریت جاننے کے لیے"
"مگر نور "
"بس ایک لفظ اور نہیں اس میں نیو سم ہے اسلیے تمہیں سارے پکجز فری ملے ہیں میں ان کو اکٹو کردیتی ہوں "
نور نے موبائل پکڑا
"نور اگر عام موبائل ہوتا تو بھی چل جاتا مگر یہ تو سمارٹ فون ہےوہ بھی مہنگا والا"
"سمارٹ تو ہے مگر تم سے مہنگا نہیں"
تو منال مسکرا دی
"میں اپنا نمبر سیو کردیا ہے "
پھر نور منال کو طریقہ سمجھانے لگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
''امی میں فیصلہ کرلیا ہے "
فہد اپنی امی کے ساتھ ناشتے کی میز پر بیٹھا تھا
"میں خدیجہ سے ہی شادی کروں گا لیکن وہ بھی اگلے ہفتے "
"اتنی جلدی کیوں بیٹا؟؟
پہلے مان نہیں رہے تھے اور اب اتنی جلدی پتا ہے نا آج جمعرات ہے اور "
"جی امی مجھے منال سے پیار ہوتا جارہا ہے اس سے پہلے منال میرے دل میں گھر کر جائے مجھے خدیجہ کو اپنی زندگی میں جگہ دینی ہوگی"
"بہت اچھا فیصلہ کیا"
اس کی ماں نے اس کا ماتھا چوما
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"نور ایک کام تھا مجھے تم سے "
"کیا کام ہے"
منال اور نور کینٹین پر تھیں
"آج جب تمہارے بھائی تمہیں لینے آئیں گے تو میں بھی تم لوگوں کے ساتھ چکی جاؤں پاپا فری نہیں اور رکشے والے ساتھ ہسپتال نہیں جاسکتی رپورٹس لینی ہیں "
"کوئی بات نہیں منال میں ابھی شاہ میر بھائی کو فون کرکے کہتی ہوں "
"تھینکس نور "
تو نور شاہ میر کا نمبر ملانے لگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سبحان واٹر بوتل سے یونیورسٹی بجے گراؤنڈ میں ایک پودے کو پانی دے رہا تھا کہ اسے دور سے شاہ میر آتا دکھائی دیا
"سبحان میں تمہیں سارے کالج میں ڈھونڈ کر تھک گیا اور تم یہاں تھے "
"کیا ہوا کوئی کام تھا"
"ہاں نور کو کالج سے گھر ڈراپ کردو گے میں سائرہ کے ساتھ بزی ہوں آج لنچ پر جارہے ہیں "
سبحان نے حقارت آمیز نگاہوں سے اسے دیکھا
اور باہر پارکنگ کو جانے لگا
۔۔۔۔۔۔۔۔
"سبحان یہیں رکنا ہم رپورٹس لے آئیں ٬
"یس پلیزگو"
نور نے سبحان کو کار میں رکنے کا اشارہ کیا اور خود منال کے ساتھ ہسپتال کے اندر جانے لگی
۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"نور برتھ ڈے میں بھول ہی گئی ایک بات بتانا تمہی دن بھی بتانے لگی تو عریشہ آگئی تھی"
منال چھت پر کھڑی فون پر نور سے بات کررہی تھی
"کیا بات"
تو نور نے پتلے والی ساری بات نور کو بتائی
"اسی وجہ سے برتھ ڈے کے دن میں پریشان تھی"
"پھپھو نے تم پر کالا جادو کیا'
"یقین مجھے بھی نہی آرہا"
"ایسا کرو اب اپنی امی کو بتادو "
"نور میں نہیں بتا پاؤں گی"
"ایسا کرو پریشان نہ ہو آج شام میں آؤں گی تمہارے گھر سبحان کے ساتھ میں بتاؤں گی عافیہ آنٹی کو"
"تھینکس نور تم میری سب سے اچھی دوست ہو "
"ارے اس کی ضرورت نہیں ہے "
"نور تم سے مجھے اپنی پرانی دوست کی یاد آتی ہے وہ بھی میرا ایسے ہی خیال رکھتی تھی بہت اچھی تھی وہ مگر اس کی شادی ہوگئی اور اس کے بعد ہم کبھی نہیں ملے "
"سیڈ انشاءاللہ اللہ تم دونوں کو ضرور ملوائی گے ویسے ایک بات بتاؤں آج فہد بھائی کی بات طہ ہوئی ہے "
"ارے واہ اچھا مما بلا رہی ہیں تم جلدی آجانا یہاں "
"ٹھیک ہے بائے "
.........................
"امی نے کل وہ پتلا نکال کر پھینک دیا تھا لیکن مجھے پھر بھی ڈر لگ رہا ہے "
نور اور منال گراؤنڈ میں بیٹھی باتیں کررہی تھیں
"ڈرو مت انشاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا"
"اللہ کرے ایسا ہی ہو''
"ویسے رپورٹس دیکھیں کیا"
"نہی مجھے ان میں کچھ سمجھ نہیں آرہا"
"کیوں "
"رات کو پاپا آئیں گے تو ان سے کہوں گی کل پتلے میں مصروف رہے تو یاد نہیں رہا"
"منال میں کل نہیں آؤں گی "
"کیوں "
"کل فہد بھائی کی مہندی ہے"
"واؤ"
"منال تم بھی آنا تمہارے بغیر مجھے مزہ نہیں آئے گا"
"نہی بابا نہیں آنے دیں گے ویسے بھی میں بہت پریشان ہوں"
"پریشاں مت ہوا کرو"
"نور تم سے مجھے مہوش کی یاد آتی ہے "
"انشاءاللہ اللہ ضرور تم دونوں کو ملائیں گے "
"انشاءاللہ"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلو بھئی عروہ اور نور تم دونوں ہال میں جاؤ میں کار پارک کر کے آتا ہوں "
آج فہد کی بارات تھی اور شاہ میر کے ساتھ کار میں عروہ اور نور بھی آئیں تھی
نور اور عروہ ہال میں چلی گئیں تو شاہ میر کار پارک کرنے لگا عین اسی وقت کار میں ایک موبائل بجا شاہ میر نے پیچھے والی سیٹ پر دیکھا تو نور کا بیگ پڑا تھا
"لاپرواہ اپنا بیگ چھوڑ گئی"
شاہ میر بیگ کھول کر موبائل نکالا تو سامنے سکرین پر نام تھا
"منال محسن"
شاہ میر کے رونگٹے کھڑے ہوگئے
کپکپاتے ہاتھوں سے اس نے کال ریسیو کی تو دوسری طرف سے آنے والی آواز سن کر شاہ میر کے جسم کا ہر خلیہ ہل سا گیا اور وہ منال کی آواز کے جادو میں خود کو اتارنے لگا

میری رگ رگ میں بسنے لگا ہے گوئی
میری نس نس میں چلنے لگا ہے کوئی
ہاں کوئی بستا ہے میری رگ رگ میں
کوئی چلتا ہے میری نس نس میں
کوئی پنچھی ہے قید میرے دل میں
یا مری روح غائب ہے میرے تن سے
جیسے محبت ہوگئی ہے مجھے
جیسے محبت ہوگئی ہےمجھے
میں تلاشوں اسے ہر لمحہ
میں سراغوں اسے ہر لحظہ
ہر لحظہ میں سراغوں اسے
ہر لمحہ میں تلاشوں اسے
فضاؤں میں ہواؤں میں
جسم کے سب اعضاؤں میں
جیسے محبت ہوگئی ہے مجھے
جیسے محبت ہوگئی ہے مجھے

Muhabbat Kahkishan Ho GaiWhere stories live. Discover now