Episode 24

97 12 0
                                    

بارات سپشل
(یہ قسط پڑھنے کے بعد آپ کے ذہن میں سوال ہوں گے مگر ناول کو ابھی چلنے دیجیے آپ کو سارے سوالوں کے جواب ملیں گے )

شادی ہال میں عجیب رنگینی کا عالم تھا پورا شادی حال روشنیوں اور دیگر آرائشی سامان سے سجایا گیا تھا ہال کو پرانے طرز سے آراستہ کیا گیا تھا بتیوں کی جگہ روشنی دیوں اور لالٹینوں سے کی گئی تھی نارنجی آگ کی روشنی منظر کو خوشنما بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی رہی تھی ہال میں عجیب چہل پہل تھی اچانک ایک شور برپا ہوا اور ہال کے بیرونی دروازے کے قریب لوگوں کو جھنگٹا بن گیا
"بارات آگئی بارات آگئی "کی صدا نے سارے ہال کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو محسن صاحب اپنی بیوی کے ساتھ ہال کے دروازے کی طرف لپکے صائمہ بھی ان کے پیچھے ہولی گھر کی چھوٹی بچیوں نے پھولوں کی ٹوکریاں ہاتھوں میں تھام لیں اور سب ہال کے صدر دروازے پر پہنچ گئے اچانک نور باہر سے بھاگتی ہوئی آئی اور عافیہ بیگم کے پاس آئی
"آنٹی میں نے سوچا کہ منال کی کوئی بہن نہیں تو سالی کی ساری ذمہ داری می اٹھاؤں گی "
"پر بیٹا آپ تو بارات کے ساتھ ہوں "
"بارات کے ساتھ آئی ضرور ہوں مگر اب میرا ارادہ بدل گیا ہے اب میں دلہن کی طرف سے ہوں لائے پھولوں کی ٹوکریاں مجھے تھمائے "
عافیہ بیگم نے پھولوں کی پرات اسے تھمائی
"ذرا شاہ میر بھائی کو آنے دو کتنے پیسے نکلواتی ہوں "
دور سے ہجوم آتا دکھائی دیا تو دروازے پر موجود لوگوں نے بیچ سے راستہ بنادیا ۔۔۔
بارات کا ہجوم ہال کی حدود میں سرایت کرنے لگا تو سب ان پر پھول پھینکنے لگے
جب سب لوگ اندر چلے گئے تو شاہ میر اپنے ابا اور سبحان کے ساتھ اندر کی طرف آیا
"ایسے تو اندر نہیں جانے دوں گی شاہ میر بھائی "
نور نے اپنے دونوں ہاتھ دروازے کے ساتھ چپکا کر راستہ روکا
"ویسے انکل آپ جاسکتے ہیں "
نور نے رضوان صاحب کا راستہ کھولا تو محسن صاحب ان کو اندر لے گئے
"نور میرے خیال میں تم دلہے کی بہن ہو نا"
سبحان نے کہا
"جب میں اپنے گھر تھی تو تب جب تک شاہ میر بھائی ان کے شادی کے پیسے نہی لیے تھے تب تک ان کی بہن تھی مگر اب ان کی سالی ہوں سمجھے
اور آپ اتنی سائڈ نہ لیں آپ بھی اس وقت صرف اور صرف دلہے کے دوست ہیں پیسے نکالیں "
"یار یہ تو لینے کے دینے پڑ گئے''
"پیسے نکالیں ورنہ ہم اپنی منال نہیں دیں گے'"
"اچھا بابا یہ لو سو روپے"
سبحان نے سو روپیہ نکالے "
"صرف سو "
"نہیں اور میں اپنی ساری جیب خالی کروں ویسے بہت پیاری لگ رہی ہو "
"شرم کریں میرے بھائی آپ کے ساتھ کھڑے ہیں "
"ارے ابھی تو آپ کی ان کی سالی تھیں اب بھائی بنا لیا "
"بات جو بدلیں مت سبحان پیسے نکالیں "
تو سبحان نے پانچ ہزار کا نوٹ اڈے تھمایا تو نور نے راستہ کھولا عافیہ بیگم شاہ میر کو اندر لے گئیں
"ویسے نور کل جب تم دلہن بنو گی تب کتنی پیاری لگو گی"
"ارے واہ دلہن کی بہن دیکھی نہیں اور لائن مارنا شروع"
"سنو مس ہمارا نکاح ہوچکا ہے"
"نکاح ہی تو ہوا ہے بس'"
"نکاح بس ہوتا ہے کیا '
"جی صرف نکاح کی تو ہوا ہے ویسے بھی میں آپ کو نہیں جانتی آپ تو دلہے کے دوست ہیں "
"بہت اچھے "
سبحان منہ بناتا ہوا اندر چلا گیا
"کل منہ دکھائی کے لیے دو ایسے نوٹ لوں گی"
نور نے پیچھے سے زور سے آواز دی
تو سبحان واپس آیا
"مس نور آپ کو بھکاریوں کی طرح پیسے مانگنے کی عادت ہے کیا"
"بھکاری نہیں منکوحہ ہوں آپ کی"
"ارے واہ ابھی تو کہہ رہی تھیں کہ نکاح کچھ نہیں ہوتا"
"ہاں تو نکاح سے کیا ہوتا ہے اگر ابھی میں کہہ دوں تو کل شادی کینسل کرادوں گی"
"نہ بابا نا ایسا ظلم مت کرنا تم مجھ سے پندرہ ہزار لے لینا"
"یعنی آپ مجھے خود سے شادی کرنے کی قیمت دے رہے ہیں "
"آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا"
سبحان کان بند کرکے سٹیج کی طرف چلا گیا مگر نور بولتی رہی جسے وہ سنی ان سنی کر گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری رگ رگ میں بسنے لگا ہے گوئی
میری نس نس میں چلنے لگا ہے کوئی
ہاں کوئی بستا ہے میری رگ رگ میں
کوئی چلتا ہے میری نس نس میں
کوئی پنچھی ہے قید میرے دل میں
یا مری روح غائب ہے میرے تن سے
جیسے محبت ہوگئی ہے مجھے
جیسے محبت ہوگئی ہےمجھے
میں تلاشوں اسے ہر لمحہ
میں سراغوں اسے ہر لحظہ
ہر لحظہ میں سراغوں اسے
ہر لمحہ میں تلاشوں اسے
فضاؤں میں ہواؤں میں
جسم کے سب اعضاؤں میں
جیسے محبت ہوگئی ہے مجھے
جیسے محبت ہوگئی ہے مجھے
........................
"یہ دیکھو منال 5 ہزار بٹورے ہیں تمہاری بہن نے "
نور دلہن روم میں داخل ہوئی سامنے کرسی پر سرخ لباس میں ملبوس منال بیٹھی تھی منال نے کوئی جواب نہ دیا
"منال "
نور منال کے قریب گئی تو منال کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے سرخ فراک میں سفید چہرہ کاجل کی وجہ سے بدھا لگ رہا تھا
"تم رو رہی ہو ادھر آؤ میرے پاس "
نور نے منال کو گلے سے لگایا
"ماما بابا سے دور جارہی ہوں "
"ایسے نہیں روتے منال سارا میک اپ خراب کردیا "
"نور ماما بابا کو بہت مس کروں گی"
"منال ایک نہ ایک دن جانا ہی تھا سب لڑکیوں کو ہی ایسا کرنا ہوتا ہے اب دیکھو کل میری بھی شادی ہوگی اپنا موڈ سیٹ کرو میں میک اپ سیٹ کردیتی ہوں "
اتنے میں کمرے کا دروازہ کھلا تو خدیجہ اپنی بہن کے ساتھ اندر آئیں
"بھابھی آپ آئیے نا"
نور نے خدیجہ کو کہا تو منال نے آنسو سمیٹے
"آپی دلہن تو دکھائیے "
خدیجہ کی بہن نے کہا تو منال نے اپنا چہرہ اس طرف کیا جونہی منال نے خدیجہ کی بہن کو دیکھا اور اس نے منال کو دونوں چیخین اور ایک دوسرے کے گلے لگ گئیں
"مہوش "
"میں تمہیں بہت مس کیا منال"
"میں بھی تمہیں "
خدیجہ اور نور ان دونوں کو دیکھ رہی تھیں
"یار ٹل نہ مجھے تو کوئی بتائے آپ ایک دوسرے کو جانتی ہیں "
نور نے پوچھا
"نور یہ میری فرینڈ ہے مہوش جس کے بارے میں تمہیں بتایا تھا "
"اور نور یہ میری فرینڈ ہے منال "
"ارے واہ خدیجہ بھابھی آپ نے دو بچھڑی دوستوں کو ملا دیا "
نور نے کہا
"انجانے میں ہوا سب چلو اب اپنی دیورانی سے انڈرسٹینڈ نگ ہوجائے گی مہوش کے بہانے"
تو سب مسکرا دیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منال اور شاہ میر سٹیج پر بیٹھے تھے
"منال بہت پیاری لگ رہی ہو''"
"بتانے کی ضرورت نہیں مجھے پتا ہے"
"منال اپنا ہاتھ دینا"
"بہت جلدی ہے آپ کو انتظار کریے محترم ابھی نکاح نہی ہوا"
"یار یہ نکاح کب ہوگا"
"انتظار فرمائیے اور منہ بند رکھیے "
دونوں دبی دبی آواز میں باتیں کررہے تھے پھر نکاح خوان آئے
"منال بنت محسن علی آپ کو شاہ میر بن رضوان سے نکاح قبول ہے "
منال شاہ میر کے منہ کی طرف دیکھنے لگی
"میرے منہ کی طرف مت دیکھو منال کی بچی جواب دو "
شاہ میر نے دل میں سوچا
"منال بنت محسن علی آپ کو شاہ میر بن رضوان سے نکاح قبول ہے"
منال پھر سے شاہ میر کو دیکھنے لگی
"منال بیٹا اس موقع پر دلہے کو دیکھتے نہیں جواب دیتے ہیں "
نکاح خوان ایک بار پھر بولا تو کانپتے ہوئے منال بولی
"قبول ہے "
تو سب ایک دوسرے کو مبارکباد دینے لگے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری رگ رگ میں بسنے لگا ہے گوئی
میری نس نس میں چلنے لگا ہے کوئی
ہاں کوئی بستا ہے میری رگ رگ میں
کوئی چلتا ہے میری نس نس میں
کوئی پنچھی ہے قید میرے دل میں
یا مری روح غائب ہے میرے تن سے
جیسے محبت ہوگئی ہے مجھے
جیسے محبت ہوگئی ہےمجھے
میں تلاشوں اسے ہر لمحہ
میں سراغوں اسے ہر لحظہ
ہر لحظہ میں سراغوں اسے
ہر لمحہ میں تلاشوں اسے
فضاؤں میں ہواؤں میں
جسم کے سب اعضاؤں میں
جیسے محبت ہوگئی ہے مجھے
جیسے محبت ہوگئی ہے مجھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہال کر دروازے پر منال عافیہ بیگم کے گلے لگ کر رورہی تھی
"بس بیٹا اب بس اور مت روؤ دلہے کواتںا انتظار نہی کراتے "
''ابا"
منال محسن صاحب کے گلے لگ گئی
اس وقت ان سب کو بیتائے پل یاد آرہے تھے
صائمہ پاس کھڑی منال کو گھور رہی تھی
"آج اگر پیر صاحب کا مؤکل ہوتا تو دیکھتی میں کہ کیسے شادی ہوتی یہ "
صائمہ نے منہ بسورا
پھر منال کو محسن صاحب نے سر پر پیار کیا
"جاؤ بیٹا "
محسن صاحب نے خود کو منال سے چھڑایا پیچھے جو بھاگے کیوںکہ زیادہ دیر پکڑے رکھتے تو مزید ٹوٹ جاتے
نورین بیگم اور نور نے اسے سنبھالا اور پکڑا
منال اپنی امی اور ابا کو پیچھے مڑ مڑ کر دیکھا رہی تھی پھر اسے کار می بٹھا دیا گیا محسن صاحب اور عافیہ بیگم اسے جاتا دیکھ رہے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منال گھونگھٹ کیے بیڈ پر بیٹھی تھی کمرا سجایا گیا تھا شاہ میر اندر آیا اس نے ہاتھ میں ایک گفٹ پکڑا تھاجسے اس نے جیب میں چھپا لیا اس نے سرخ شیروانی پہن رکھی تھی
"منال گھونگھٹ اٹھاو یا میں اٹھاؤں "
"منال نے کوئی جواب نہ دیا تو شاہ میر نے گھونگھٹ اٹھایا تو نیچے منال اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھی شاہ میر نے اپنا چہرہ منال کے بہت قریب کرلیا اور منال نے بھی
پھر وہ دونوں ایک دوسرے کے اور قریب ہوتے گئے اتنا قریب کے ان کے درمیان کے سارے فاصلے مٹ گئے تھے
"آج میں صرف تمہاری ہوگئیں یوں شاہ میر"
"اور میں صرف تمہارا
منال مجھے وعدہ کرو"
شاہ میر نے اپنا ہاتھ بڑھایا
"آج میں عہد کرتا ہوں تمہیں دنیا کی ہر خوشی دوں گا کچھی کوئی تکلیف نہیں ہونے دوں گا"
"میں بھی شاہ میر "
منال نے اپنا ہاتھ شاہ میر کے ہاتھ پر رکھا تو منال نے اپنا منہ آگے بڑھا کر اس کے ہاتھ کو چوما تو شاہ میر نے منال کو دوسرے بازو سے زور سے کھینچا تو منال اس سے دور ہوگئی تو شاہ میر نے اسے گھمایا اپنے ہاتھ کے زور پر منال گھومتے ہوئے جاکر شاہ میر کے گلے لگ گئی اور شاہ میر منال کی پیشانی کو تکنے لگا
پھر شاہ میر نے اپنا منہ اس کی پیشانی کے قریب کیا اور اس کی پیشانی کا بوسہ لیا منال نے آنکھیں اوپر کرکے شاہ میر کو دیکھا
"بہت پیارے لگ رہے ہو "
"تم بھی "
شاہ میر نے اسے مزید زور سے گلے سے لگا لیا
فطرت نے شوہر اور بیوی کا رشتہ بہت ہی خوبصورت بنایا ہے اور آج وہ دونوں اس رشتے میں بندھنے گئے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری رگ رگ میں بسنے لگا ہے گوئی
میری نس نس میں چلنے لگا ہے کوئی
ہاں کوئی بستا ہے میری رگ رگ میں
کوئی چلتا ہے میری نس نس میں
کوئی پنچھی ہے قید میرے دل میں
یا مری روح غائب ہے میرے تن سے
جیسے محبت ہوگئی ہے مجھے
جیسے محبت ہوگئی ہےمجھے
میں تلاشوں اسے ہر لمحہ
میں سراغوں اسے ہر لحظہ
ہر لحظہ میں سراغوں اسے
ہر لمحہ میں تلاشوں اسے
فضاؤں میں ہواؤں میں
جسم کے سب اعضاؤں میں
جیسے محبت ہوگئی ہے مجھے
جیسے محبت ہوگئی ہے مجھے

Muhabbat Kahkishan Ho GaiTempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang