"منال بیٹا سو جاؤ کل زیادہ کام کررہے تھے نا آپ اور دیکھو کل کیا ہوا زیادہ پڑھائی کی وجہ سے ہوا ہوگا "
منال پڑھ رہی تھی کہ عافیہ بیگم نے اسے سونے کو کیا
"امی بس تھوڑی دیر اور آپ جائیے میں بس کام کمپلیٹ کرلوں "
"پکا تھوڑی دیر ٹھیک ہے نا "
"جی پکا "
'اوکے بیٹا "
عافیہ بیگم کے جانے کے بعد منال کام نپٹانے لگی کام ختم کر کے اس نے کتابیں بیگ میں ڈالیں مگر اگلے لمحے اسے یوں لگا جیسے زمین نیچے سے ہل رہی ہو آسمان سے چھت گر رہی ہو کمرے کی ہر چیز چل رہی ہو
منال کے سامنے چٹائی اوپر چھت کی طرف جارہی تھی اور اس کا بیگ اڑ کر ہوا میں اڑ رہا تھا منال چلانے لگی
..........
"تمہاری زندگی کو تمہارے لیے عذاب بنا دوں گی منال تم نے میرے بیٹے کو ٹھکرایا تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے بیٹے کو ٹھکرانے کی "
صائمہ تعویز جلا کر اس کی راکھ کو چاند کی روشنی میں پھونک مار کر اڑا رہی تھی
"یہ راکھ تمہاری زندگی کو اس قدر تکلیف دہ کردے گی تم نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا میرے بیٹے کی شادی تو عنقریب ہو ہی جائے گی مگر تم ساری زندگی کنواری رہو گی "
صائمہ نے ماچس کی ڈبیہ سے تمدیا سلائی رگڑی أگ جلی تو ہونٹ بھینچ کر اس کو پھونک مار کر بجھا دیا
.............
عروہ شاہ میر کے کمرے میں آئی تو کانوں میں ہینڈز فری ٹھونسے اور سامنے پڑے لیپ ٹاپ پر چیٹنگ کرتا شاہ میر اڈے دکھائی دیا
"شاہ میر بھائی مما کا بلڈ پریشر بڑھ گیا ہے "
آتے ہی عروہ نے کہا مگر شاہ میر کی طرف سے کوئی جواب موصول نہ ہوا
"شاہ میر بھائی "
عروہ چلائی اس بار بھی شاہ میر نے کوئی جواب نہ دیا تو مجبوراً عروہ نے قریب جاکر شاہ میر کے کان سے ہینڈز فری نکالی اور اس کی نظر سامنے سکرین پر لکھے ٹیکسٹ پر پڑی جو لکھا تھا
"آئی لو یو جان"
ٹیکسٹ پڑھتے ہی عروہ چلائی
"وٹ دا ہیل شاہ میر بھائی یہ سب "
شاہ میر کے کان سے ہینڈز فری نکلی تو وہ سہم گیا اور جلدی جلدی سے لیپ ٹاپ کو کور ڈاؤن کیا تو شاہ میر نے چوری چوری اپنا چہرہ نیچے کی طرف کیا
"عروہ تمہیں آئس کریم کھانی ہے "
شاہ میر نے مسکراتے ہوئے کہا
"تو مجھے آئس کریم کی رشوت دی جارہی ہے "
"بس تم مما کو نہ بتانا مم میں وعدہ کرتا ہوں کہ ابھی آئس کریم کھلاؤں گا "
"مسٹر ابھی تو آپ مما کو ہسپتال لے کے جارہے ہیں اینڈ آئس کریم نہیں میں تو کل آپ سے بروسٹ پارٹی لوں گی اب آپ کا راز بھی تو رکھنا ہے "
"چلو جو بھی لے لینا لیکن مما کہاں ہیں "
"وہ باہر کار میں ہیں ان کا بی پی تھوڑا سا ہائی ہوگیا ہے چیک کرانا ہے "
"اوکے بائے "
شاہ میر کمرے سے باہر نکل گیا
.........
سبحان مسلسل دو دن سے مسج کالز کررہا تھا مگر نور نہین اٹھا رہی تھی ابھی وہ سونے کے لیے لیٹی تھی مگر نیند نہیں أرپی تھی وہ سارا واقعہ اس کی آنکھوں میں گھوم رہا تھا عین اسی وقت سبحان کا مسج آیا نور نے موبائل پکڑا اور مسج پڑھا
"نور فار گوڈ سیک مجھے یہ تو بتاؤ میری غلطی کیا ہے "
تو نور زیر لب بڑبڑائی
"تمہاری کوئی غلطی نہیں ہے سبحان میں تم سے کس طرح بات کروں شرمندگی ہوتی ہے مجھے"
مگر پھر ہمت کرکے اس نے انگلیاں فرمائی اور سبحان کا نمبر ڈائل کرنے لگی
............
"نور پلیز ٹرائے تو انڈرسٹینڈ اٹ نور اگر تم مجھ سے ناراض ہو تو پلیز مجھے معاف کردو یو ناؤ اس میں میری کوئی میسٹیک نہیں تھی سب اس قدر انجانے میں ہوگیا تھا کہ"
نور کی کال ریسیو کرتے ہی سبحان لگاتار بولنے لگا تھا
"آئی ناؤ سبحان یہ تمہاری میسٹیک نہیں ہے میں جانتی ہوں سبحان سب انجانے میں ہوا مجھے تم سے شرمندگی ہوتی ہے کس منہ سے تمہارا سامنا کروں "
"ارے اتنی آپ سیٹ نہ ہو میں وہی ہوں پہلے والا اینڈ شاہ میر کو تو پتا ہے نا سب اینڈ اس نے بھی تو کسی کو کچھ نہیں پتایا"
"سبحان تمہیں نہیں پتا شاہ میر بھائی کو دیکھ کر مجھے کتنی شرمندگی ہوتی ہے ان سے نظریں نہیں ملا ہوتی عروہ نے بھی غور کیا ہے مجھے کہہ رہی تھی کہ آپی آپ کی شاہ میر بھائی سے لڑائی ہوئی ہے ایون شاہ میر کی مما نے بھی پوچھا کہ عروہ بتارہی تھی کہ شاہ میر سے تمہاری لڑائی ہوئی ہے اب میں کیسے سب کو بتاؤں "
"ریلیکس یار ریلیکس خود کو اتنا پریشرائزاڈ نہ کرو شاہ میر کے ساتھ خود کو اڈجسٹ کرو اینڈ فار گوڈ سیک مجھ سے شرمندہ مت ہو یو ناؤ کے ہمارے درمیان کچھ بھی ایسا ویسا نہیں ہوا "
"لیکن سبحان کریکٹر ہر داغ تو لگ گیا پولیس بھی پوری تفتیش کیوں نہیں کرتی بلاوجہ تم پر شک کرلیا "
"اچھا وہ سب چھوڑو کل پارک چلیں گے مارننگ واک می ابھی ریلیکس ہوکر سو جاؤ اور کوئی ٹینشن نہیں لینی ٹھیک ہے نا آنٹی بھی کہہ رہی تھیں کہ نور کو سمجھایا کرو کہ جلدی شادی کردیں تم دونوں کی اچھا نور اب بس کل مارننگ واک کے لیے ریڈی رہنا"
"ٹھیک ہے بابا اوکے بائے گڈ نائٹ "
"گڈ نائٹ"
نور نے مسکراتے ہوئے فون میز پر رکھ دیا
"بہت بڑی پرابلم سولو ہوگئی
................
ایمبولینس انتہائی تیز رفتاری سے چوک کو کراس کررہی تھی سامنے دیوار پر لگا گھڑیال رات کے بارہ بجارہا تھا سڑک پر زیادہ ٹریفک نہ تھی مگر پھر بھی گاڑیاں ایمبولینس کو دیکھ کر راستہ دے دیتیں اور ایک طرف ہوجاتیں ایمبولینس کا رخ ہسپتال کی طرف تھا ایمبولینس کی آواز سنتے ہی شاہ میر نے کار ایک طرف کر لی
"یااللہ رحم "
شاہ میر کی امی نے ایمبولینس دیکھ کر کہا
"مجھے یاد ہے بیٹا جب تمہارے نانا ابو کی دیٹھ ہوئی تھی تو اس طرح ایمبولینس میں میں تھی اور تمہاری آنٹی اور میری بانہوں میں دم توڑ گئے "
شاہ میر کی امی چلڈنے لگی
"امی پہلے آپ کی طبیعت خراب ہے اتنی ٹینشن نہ لیں"
"جب بھی ایمبولینس دیکھتی ہوں یہی ہوتا ہے مجھے ابا یاد آتے ہیں "
شاہ میر اپنی امی کو چپ کرانے لگا
"لیں ہسپتال آگیا "
ایمبولینس ہسپتال کے گیٹ پر آکے رکی شاہ میر نے کار ایمبولینس سے تھوڑے فاصلے پر روکی ایمبولینس سے سٹریچر پر ایک باڈی کو باہر لایا گیا تو پیچھے آتے محسن صاحب پر شاہ میر کی نظر پڑی جو ایمبولینس سے باہر نکل رہے تھے
VOCÊ ESTÁ LENDO
Muhabbat Kahkishan Ho Gai
Terrorاس ناول میں ایک ایسی داستان سنائی گئی ہے جس میں ایک لڑکی کی کہانی ہے جو حالات سے لڑتی ہوئی آخرکار کہکشاں ہوجاتی ہے آئیے جانتے ہیں کس طرح دنیا اور اس میں موجود لوگوں نے اس کی زندگی کو خار دار بنا دیا ۔۔کس طرح شیطانی طریقوں سے اس کی زندگی کو عذاب بنا...