Episode 7

120 14 0
                                    

"اماں میں اپنا ناپ دے آیا ہوں درزی کو"
فرش پر بیٹھی تسبیح بڑھتی ہوئی صائمہ کے پاس حماد آتا ہے
تو صائمہ کے تسبیح پڑھتے ہاتھ اور ہونٹ رک جاتے ہٰن وہ حماد کی طرف متوجہ ہوتی ہے
"کونسا ڈیزائن پھر پسند آیا میرے پتر کو؟"
صائمہ نے کھڑے ہوکر کہا تو حماد نے ہاتھ میں پکڑی ڈریس ڈیزائن کی کاپی صائمہ کو دکھاتے ہوئے کہا
"یہ والا"
"ہائے ماں صدقت جائے"
صائمہ نے حماد کا ماتھا چوما
اور صدقے واری جانے لگی
"اس سوٹ میں تو میرا پتر راجا لگے گا
"پتر تو نے بہت اچھا فیصلہ کیا تھا منال سے شادی اک فیصلہ ترک کرکے"
مگر حماد نے کچھ نہ بولا
"اماں کو اب کیا پتا کہ وہ محبت سب جھوٹ تھا صرف شرط جیتنے کے لیے
ان کو تو یہ بھی نہیں پتا کہ ان کا زیور غائب ہے"
حماد کے چہرے پر شیطانی مسکان آئی
"بہت تڑپایا ہے اس لڑکی نے میرے پتر کو عامل بابا سے مٰن کہا ہے کہ اگر وہ لڑکی تمہاری نہٰن ہوسکتی تو وہ کسی کی بھی نہیں ہوگی"
صائمہ نے حماد کو گلے سے لگایا
"اچھا اب میں تسبیح مکمل کرلوں عامل بابا نے کہا ہے کہ ہر سہ پہر مجھے یہ تسبیح کرنی ہوگی"
حماد وہاں سے چلا جاتا ہے وت صائمہ تسبیح پھر سے پڑھنے لگتی ہے
✍️✍️✍️✍️✍️
سہ پہر کا وقت تھا بھینی بھینی ہوا چل رہی تھی ایسے میں شاہ میر گاڑی میں کہیں جارہا تھا گاڑی کے شیشے کھلے ہونے کی وجہ سے وا اندر کو جاتی اور شاہ میر کے بال اڑاتی گاڑی میں گانے لگے تھے جن کی دھن میں شاہ میر گاڑی چلا رہا تھا اس کا موبائل کب سے بج رہا تھا مگر گانوں کی آوز مٰنا سے پتا نہیں چل رہا تھا اچانک وہ پینٹ سے ببل نکالنے کے لیے ہاتھ ڈالتا ہے
"اوہو یہ کس کی کال ہے"
شاہ میر پینٹ میں ہاتھ ڈال کر موبائل نکالتا ہے
"آنٹی کی"
شاہمیر کال رسیو کرتا ہے
"جی آنٹی میں بس پہنچ رہا ہوں ہسپتال آپ نور کو پارک مٰن لے جائیے ہسپتال کے اچھا میں فون رکھتا ہوں"
شاہ میر نے فون رکھا مگر اگلا لمحہ چکرا دینے والا تھا
شاہ میر کی نظر سامنے زیبرا کراسنگ پر سڑک عبور کرتی برقعے میں ملبوس لڑکی پر پڑی اور ٹھہر گئی
شاہ میر راس کی آنکھوں کے ساغر مٰن اس قدر کھو گیا کہ وہ بھول گیا کہ وہ کہاں ہے کیا کررہا ہے
جب محبت ہوتی ہے تو انسان کو سبھی کچھ بھول جاتا ہے یہی شہا میر کےساتھ ہوا مگر بجائے زیبرا کراسنگ پر سلو کرنے کے کار سامنے اسی لڑکی کے بیچ میں لگی
زیبرا کراسنگ پر چلتی منال نے لاکھ اشارے کیے مگر گاڑی تیزی سے اس کی طرف آرہی تھی
"سٹاپ"
منال چیخ رہی تھی مگر گاڑی رک نہیں رہی تھی
✍️✍️✍️✍️✍️
"یہ منال کی مںحوس پیدائش کے نام"
صائمہ تسبیح کا دانہ نیچے کرتی ہے اور منہ میں کچھ بڑبڑائی
پھر ایک اور دانہ ہاتھ سے نیچے ٹیکا
"یہ اپنی نحوست دکھانے کے لیے"
پھر وہ تسبیح کا ایک اور دانہ نیچے کیی طرف کیا
"یہ میرے بیٹے کو پٹانے کے لیے"
اب وہ لگاتار دانے نیچے کرتی اور منال کو کوستی
✍️✍️✍️✍️✍️
شاہ میر زیبرا کراسنگ پر لڑکی کو چلاتا ہوا دیکھ کر ہوش مٰن آیا تو اسے حالات کو پتا چلا اس نے ایمرجنسی بریک لگائی
گاڑی منال کے پاس آکر اچانک رک گئی مگر منال اپنا توان بحال نہ کرسکی اور زمین پر گر گئی
اس کا سر کار سے ٹکرایا اور اس کے ہاتھ مٰن موجود شاپنگ بیگ دور جاگرے
منال کی ماں سڑک کے دوسری طرف فٹ پاتھ پر سے یہ دیکھ کر بھاگنے لگی
اچانک دو ہاتھ منال کی طرف بڑھے یہ مردانہ ہاتھ تھے جو اسے ہلا رہے تھے یہ شاہ میر کے تھے
"آپ ٹھیک ہیں"
شاہ میر نے منال کو جھنجھوڑا
اردگرد ٹریفک کے لوگ جمع ہوگئے
منال کا سر چکرا رہا تھا
منال کی امں بھیا دھر آگئی
"منال "
وہ چلانے لگی
"آئی ایم سو سوری آنٹی آپ ان کو جانتی ہیں"
برقعے میں ملبوس عورت سے شاہ میر نے کہا جو منال کی طرف پاگلوں کی طرح لپک رہی تھی
"رکیے میں ان کو ہسپتال لے جاتا ہوں"
شاہ میر نے منال کی امں کو تھپکی دی
منال اس وقت سڑک پر بے سدھ پڑی تھی
بےسدھ پڑے اس وجود کی طرف دو ہاتھ لپکے جنہوں نے اس وجود کو اپنی بانہوں میں اٹھایا منال کا چہرہ شاہ میر کے منہ کے قریب گیا شاہ میر نے نقاب مین موجود اس چہرے کی خوشبو کے اپنی سانس مین اتارا
ان آنکھوں میں بستے ساغر کو اپنے اندر لایا
وہ بند آنکھیں سرمے سے بھری بہت خوبصورت دکھائی دے رہی تھیں
شاہ میر نے منال کو گاڑی میں رکھا
منال کی ماں بھی کار میں بیٹھی
اب وہ ہسپتال کی طرف رواں تھے
✍️✍️✍️✍️✍️
صائمہ تسبیح کو پاس رکھتی ہے اور ایک پریا کھولتی ہے اور قریب پڑی ماچس کی ڈبی سے تیلی نکال کر اس پریا کو جلاتی ہے
آگ کے شعلے کاغذ سے نکل کر فضا میں بکھرنے لگتے ہیں
✍️✍️✍️✍️✍️
شاہ میر بجلی کی تیزی سے گاڑی چلا رہا تھا منال کی ماں منہ میں دعائیں مانگ رہی تھی پاس ہی سیٹ پر منال بےسدھ پڑی تھی
"بیٹا اپنا فون دینا"
منال کی ماں کی آواز سن کر شاہ میر اپنی سوچوں سے باہر آیا وہ مانل کی آنکھوں کے بارے میں سوچ رہا تھا
"یہ لیجیے "
شاہ میر اپنا فون دیتا ہے تو مناک کی امی کوئی نمبر ڈائل کرنے لگتی ہے
✍️✍️✍️✍️✍️
"لو جی تعویز توت جل گیا اب جلد ہی اس کا اثر اس کم بخت منال پر ہو گا"
صائمہ راکھ کو کیچن میں واش بیسن میں پانی مٰن بہاتی ہے
اسی وقت فون کی گھنٹی بجتی ہے
صائمہ فون سنتی ہے اور پھر مسکراتی ہے
"لو تعویز نے کامم بھی دکھا دیا"
✍️✍️✍️✍️✍️
شاہ میر اور منال کی ماں کرسیوں پر بیٹھے تھے کہ ڈاکٹر آتا ہے
جسے دیکھ کر منال کی ماں اور شاہ میر ڈاکٹر کی طرف بڑھتے ہیں
"مریضہ بالکل ٹھیک ہے بس سر میں تھوڑی چوٹ آئی ہے ڈرپس اور انجکشن لگے گیں یہ لسٹ لیجیے"
ڈاکٹر منال کی ماں کو دکھاتے ہٰن تو منال کی مان کا سر چکرانے لگتا ہے
"آنٹی آپ فکر مت کریے میں لاتا ہوں"
شاہ میر منال کی امن کے ہاتھ سے چٹ پکڑتا ہے
"نہیں بیٹا "
"آنٹی یہ سب میری وجہ سے ہوا تو بل میں ہی پے کروں گا"
شاہ میر لسٹ لے کر وہاں سے چلا جاتا ہے
"یااللہ محسن ساحب کو بس صائمہ ب بتا دے۔۔صائمہ کو بتا تو دیا ہے پتا نہٰن محسن جی کو بتاتی ہے کہ نہیں میرے ذہن مٰں صرف صائہ کو ہی موبائل نمبر آیا یااللہ کرم فرما"
منال کی ماں کرسی پربیٹھ کر دعائیں مانگنے لگتی ہے
✍️✍️✍️✍️✍️
"ارے شاہ میر کیوں بار بار اسی کو سوچ رہا ہے تو پال ہوگیا ہے کیا"
شاہ میر دوا کی پرچی فارمیسی پر پکڑاتا ہے مگر اس کا ذہن اسی سڑک پر موجود لڑکی کی آنکھوں کی طرف ہوتا ہے
"اگر اس لڑکی وک انجکشن لگا تو تھوڑی دیر تک ہوش آئے گا پھر ڈاکٹر اندر جانے کی اجازت دے گا اور پھر مٰں اس کا چہرہ دیکھوں گا"
شاہ میر دل ہی دل میں سوچتا ہے اور اس بات سے ناانجان ہوتا ہے کہ اس کا فون کب سے بج رہا تھا
ایک چھوٹا بچہ اسے ہلاتا ہے
"بھائی آپ کو فون بج رہا ہے"
تو شاہ میر ہوش میں آتا ہے مگر خیالوں میں اس قدر کھویا ہوتا ہے کہفون نکالنا بھول جاتا ہے اور دوا پکڑ کر چلا جاتا ہے
✍️✍️✍️✍️✍️
"تمہارا بہت بہت شکریہ بٰتا۔۔"
محسن صاحب شاہ میر کو گلے سے لگاتے ہٰں
"آج تم نہ ہوتے تو نہ جانے کیا ہوتا"
"تمہرا احسان مٰن کبھی بھی نہیں چکا سکتا"
محسن صاحب اپنے آنسو صاف کرتے ہیں
"ارے انکل اس کی ضرورت نہیں"
شاہ میر محسن صاحب سے کہتا ہے
"یہا یکسیڈنٹ میری وجہ سے ہوا تو میں یہ سب کردیا اس مٰن کوی حرج نہیں"
اتنے میں منال کی مان آتی ہے
"ڈداکٹر صاحب کا کہنا ہے ہم منال سے مل سکتے ہیں"
منال کی امں محسن صاحب سے کہتی ہے تو محسن صاحب سر ہلاتے ہٰںا ور شاہ میر سے کہتے ہیں
"بیٹا تم نے ہمارہی بہت مدد کی لیکن میرا خیال ہے اب تمہیں چلے جانا چاہیے دیکھو کافی رات ہوچکی ہے"
شاہ میر کا تو مانو جیسے دل ٹوٹ گیا ہو
بجھے دل کے ساتھ وہ وہاں سے نکلتا ہے
✍️✍️✍️✍️✍️
شاہ میر جونہی گھر کے لاؤنج میں داخل ہوتا ہے وہاں گھر کے تمام افراد اسے قہرآمیز نگاہوں سے دیکھ رہے ہوتئے ہیں

Muhabbat Kahkishan Ho GaiWhere stories live. Discover now