سالگرہ سپشل
فہد جہاز میں بیٹھا تھا اور کھڑکی سے باہر کے نظارے کو دیکھ رہا تھا جہاز برق رفتاری سے بادلوں کو چیرتا ہوا جارہا تھا نیچے سے سرسبزوشاداب زمین دکھائی دے رہی تھی۔۔۔
سب کچھ بہت چھوٹا چھوٹا دکھائی دے رہا تھا کہیں چھوٹے چھوٹے کھیت کھلیان دکھائی دیتے اور ان میں ہل چلاتا کسان۔ دور گاؤں کی لڑکیوں ندی پر پانی بھرتی دکھائی دے رہی تھی
"کتنا خوبصورت ہے میرا ملک "
وہ آج چار سال بعد پاکستان لوٹ رہا تھا پچھلے چار سال سے وہ کینیڈا تھا وہاں سٹڈی کے لیے گیا تھا اور پھر وہاں کی رنگینیت دیکھ کر اسی رنگینی میں گھل گیا تھا آج چار سال بعد واپس آرہا تھا تو اسے یہ دیس بہت خوبصورت دکھائی دے رہا تھا
جہاز حیدرآباد شہر کی حدود میں داخل ہوچکا تھا خوبصورت عمارتیں کچے مکان دکھائی دے رہے تھے دور سے ائیرپورٹ دکھائی دے رہا تھا ابھرتے دن کے باوجود بھی ائیرپورٹ پر بتیاں جل رہی تھیں
"سب سیٹل ہوجائیں ہم لینڈ کررہے ہیں "
ائیر ہوسٹس کی آواز نے اسے چونکا دیا تو وہ سیٹ بیلٹ کسنے لگا
..................جہاز ائیر پورٹ پر رکا ہوا تھاتو تمام مسافر جہاز سے باہر نکل کر سامان وغیرہ لے رہے تھے دوپہر ہوچکی تھی اور جہاز نے دو بجے پرواز بھرنی تھی آدھا گھنٹہ بچاتھا ابھی ۔
فہد نے بھی کچھ سامان خریدا اور اپنی سیٹ پر جاکر بیٹھ گیا
"لگتا ہے ٹائلٹ جانا پڑے گا"
فہد اٹھا اور ٹائلٹ جانے کے لیے چلنے لگا
ٹائلٹ سے واپس آکر وہ سیٹوں کے درمیان سے چلتا ہوا اپنی کرسی کی طرف جارہا تھا کہ وہ کسی سے ٹکرایا یہ ایک لڑکی تھی جس نے چادر سے اپنا چہرہ ڈھکا ہوا تھا
جونہی فہد اس سے ٹکرایا چہرے پر سے نقاب ہٹ گیا اور منال کس خوبصورت چاند سا چہرہ باہر نکلا اور فہد اس چہرے کو گھورنے لگا تھا
منال نے چہرہ جھکا یا
"آئی ایم سوری"
اور نقاب کرنے لگی اور اپنی سیٹ تلاش کرنے لگی
مگر فہد جاتی ہوئی منال کو دیکھ رہا تھا اس کے دل میں ایک ہلچل مچی تھی ایک عجیب ہلچل
.................................منال محسن صاحب اور عافیہ بیگم کے ساتھ بیٹھی تھی فہد اپنی سیٹ پر گیا اتفاقا منال اس سیٹ پر بیٹھی تھی جو فہد کی نشست کے بالکل ساتھ تھی
"السلام علیکم انکل"
فہد نے محسن صاحب کوسلام کیا
"وعلیکم السلام"
"سیٹ بیلٹ باندھ لیجیے جہاز پرواز کرنے والا ہے"
ائیر ہوسٹس کی آواز سن کر سب بیلٹ باندھنے لگے
"انکل میرے ابا کہتے ہیں بڑوں کی دعا میں طاقت ہوتی ہے پلیز مجھے بھی سفر کی سلامتی کی دعا دیجیے"
فہد نے منال کے سامنے خود کو ثابت کرنے کے لیے کہا تو فہد کی بات محسن صاحب کے دل کو چھو گئی
"کیوں نہیں بیٹا تم میرے بیٹے جیسے ہو"
محسن صاحب نے فہد کے سر پر ہاتھ رکھا اور اسے دعا دی
"کتنا اچھا بچہ ہے"
محسن صاحب نے عافیہ بیگم سے کہا
"بالکل بہت ہی پیارا بچہ ہے"
"انکل آپ کہاں سے ہیں ؟؟ وہ دراصل جب سفر کا ساتھی مل جائے تو سفر بہت اچھا گزر جاتا ہے "
فہد نے منال کو آنکھ کا اشارہ کیا
"بیٹا ہم کراچی سے ہیں "
"میں بھی کراچی سے ہوں انکل نائس تو میٹ یو"
فہد نے منال کی طرف دیکھا اور محسن صاحب سے ہاتھ ملانے لگا
پھر محسن صاحب نے اپنا پتا اسے بتایا اور فہد نے بھی اپنا پتا بتایا
"بیٹا آنا کبھی ہمارے ہاں "
"ضرور انکل اب تو آنا جانا لگا ہی رہے گا دوستی جو ہوگئی ہے"
فہد نے پھر سے منال کو دیکھا
"دوستی جو ہوگئی کے"
اس نے فقرہ دہرایا
"انکل آپ آئیےگا ملنے جلنے سے ہی تو پیار بڑھتا ہے"
فہد نے ایک بار پھر منال کو دیکھا
اس سارے سفر میں محسن صاحب فہد سے کافی متاثر ہوئے تھے جبکہ فہد منال سے
جہاز لینڈکرنے لگا تھا
اندھیرا چھارہا تھا
جونہی جہاز رکا تو جھٹکے سے منال کے ہاتھ سے پرس اچھلا اور کوئی چیز نیچے گر گئی
منال اس بات سے انجان آٹھ کر چکی گئی مگر فہد نے پکڑ لی تھی
"خداحافظ انکل آپ سے مل کر بہت اچھا لگا"سلام دعا کے بعد محسن صاحب کو خدا حافظ کہا اور فہد اس کارڈ کو دیکھنے لگا
یہ سٹوڈنٹ کارڈ تھا
اچانک اسے اپنے کندھے پر کسی کا ہاتھ محسوس ہوا
"شاہ میر میرا بھائی میری جان"
فہد نے شاہ میر کو گلے سے لگا لیا
"چلیں بھائی سب آپ کا انتظار کررہے ہیں"
شاہ میر فہد کو دور اشارہ کرکے بتانے لگا کیونکہ دور کار کے پاس عروہ نور اور ان کے والدین کھڑے تھے
.......................ساری رات منال سو نہ سکی تھی یہ تیسری رات تھی اسے نیند نہیں آرہی تھی جب سے اس نے صائمہ کی بات سنی تھی اس کے بعد اس کی نیند اڑ گئی تھی شادی کے باقی دن بھی اداس سی رہی تھی آج بھی وہ گھر پہنچے تو دس بج گئے تھے عافیہ اور محسن آتے ہی سونے کی تیاری میں لگ گئے
"آج اماں ابا کو میں نہیں بتا سکتی وہ تھکے ہیں "
"ایسا کرتی ہوں زمین کھود کر اس پتلے کو نکال دیتی ہوں "
"نہیں اندھیرا ہے نہیں "
ساری رات اسی کشمکش میں گزر گئی اور وہ بھول گئی کہ آج اس کی سالگرہ ہے کیونکہ 7مارچ کا دن شروع ہوچکا تھا نیا دن 12 بجے کے بعد شروع ہوجاتا ہے ایک بج گیا تھا
.......................................ناشتے میں بھی وہ عافیہ بیگم کو کچھ نہ بتا سکتی اور اداس منال کالج کو روانہ ہوگئی
جونہی اس نے کمرہ جماعت کا دروازہ کھولا اندر کا منظر دیکھ کر وہ حیران رہ گئی ساری کلاس سجی ہوئی تھی ایک دم سے آواز آئی
"ہیپی برتھڈے منال"
منال نے پیچھے مڑ کر دیکھا
اس کی کلاس کی ساری لڑکیاں اس کے پیچھے کھڑی اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھیں
YOU ARE READING
Muhabbat Kahkishan Ho Gai
Horrorاس ناول میں ایک ایسی داستان سنائی گئی ہے جس میں ایک لڑکی کی کہانی ہے جو حالات سے لڑتی ہوئی آخرکار کہکشاں ہوجاتی ہے آئیے جانتے ہیں کس طرح دنیا اور اس میں موجود لوگوں نے اس کی زندگی کو خار دار بنا دیا ۔۔کس طرح شیطانی طریقوں سے اس کی زندگی کو عذاب بنا...