Episode 11

102 13 1
                                        


ویلنٹائن ڈے سپشل

بادلوں نے آسمان کو گھیر رکھا تھا اور ٹھنڈی سی ہوا چل رہی تھی جو پسینے سے بھرے محسن صاحب کے چہرے پر سے گزرتی تو ان کو ٹھنڈ کا احساس ہوتا اور وہ مزید پرجوش ہو کر موٹر بائیک چلانے لگتے تھے۔ یہی حال ان کے پیچھے بیٹھی منال کا بھی تھا جس کا چہرہ نقاب کے نیچے چھپا ضرور تھا مگر اس کا جوش واضح تھا ہوا کا جھونکا جب اپنی چونچالی سے اس کے چہرے کے پاس آکر پاس سے گزرتا تو نقاب کے پیچھے سے پرجوش چہرہ دکھتا۔۔۔
نیلی وردی میں ملبوس منال کالج گیٹ میں داخل ہوئی اس کے قدموں میں کپکپاہٹ تھی ۔۔ ایک عجیب سا خوف ۔۔ آج اس کا کالج کا پہلا دن تھا یونہی تو کالج کو شروع ہوئے ایک ہفتہ ہونے کو تھا مگر منال کا پیر استری سے جل گیا تھا اس لیے ایک ہفتے کی تاخیر ہوگئی۔۔ کالج کے اندر داخل ہوتے ہوئے اسے عجیب گھٹن ہورہی تھی وہ الٹے پاؤں مڑی ۔۔ سامنے اس کی نظر کار پر سے اترتی نور پر پڑی۔۔
"گڈ بائے بھائی"
نور شاہ میر کو گڈ بائے کہہ کر آگے کو چلی تو شاہ میر نے بھی کار سٹارٹ کرلی۔۔
نور کو جیسے کچھ یاد آگیا تھا۔۔
"شاہ میرر بھائی "
نور چلائی تو سٹیرنگ کی طرف ہاتھ بڑھاتا شاہ میر رک گیا اور کار سے باہر آیا
منال ان دونوں کو دکھ رہی تھی۔۔ شاہ میر نے جونہی کار سے باہر پیر رکھا منال کے چہرے کے ہوش اڑ گئے۔۔
نرم ہوا سے شاہ میر کے سر کے بال ہوا میں ہل رہے تھے
اور نور آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی۔۔
شاہ میر نور کی طرف مڑا ہی تھا کہ اس کی نظر سامنے کھڑی نقاب پوش منال پر پڑی۔۔
اور اٹک کر رہ گئی
"وہی سکوت وہی چمک"
شاہ میر کی زبان سے نکلا
شاہ میر کو خود کو اس طرح گھورتا دیکھ کر پہلے سے سہمی ہوئی منال مزید سہم گئی۔۔
اور آنکھ بچا کر کالج گیٹ کی طرف گئی
"بھائی کہاں کھوئے ہیں؟؟ "
نور نے شاہ میر کے منہ کے آگے چٹکی بجائی
""دراصل میری واٹر بوتل کار میں رہ گئی تھی"
نور اپنی بوتل نال چکی تھی۔۔
"اچھا تم جاؤ"
شاہ میر ابھی بھی دروازے کی طرف جاتی منال کو دیکھ رہا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منال ڈرتی ہوئی پھر سے گیٹ کی طرف گئی۔۔ مگر اس بار بھی گیٹ سے کچھ فاصلے پر رک گئی اسے اپنے کندھے پر کسی کا ہاتھ محسوس ہوا اس نے پیچھے مڑ کر میک اپ میں موجود ایک لڑکی کو دیکھا
"ہلو"
وہ لڑ بول
"آئی تھینک آج آپ کا فرسٹ ڈے ہے"
اس نے کہا تو منال نے ڈرت ہوئے سر ہلایا
"آئی ایم نور ۔۔۔ کم ناؤ وڈ می۔۔۔"
نور نے منال کو کھینچا
تو منال مزید ڈر گئی
"ارے ڈونٹ افریڈ آف می۔۔مجھ سے کیوں ڈر رہی ہو۔۔ مجھے اپنی فرینڈ ہی سمجھ لو۔۔"
نور نے کہا تو منال کے حواس بحال ہوئے۔۔
"مم مجھے فرسٹ ائیر کلاس "
ابھی منال نے بات ختم ہی نا کی تھی کہ نور بول پڑی
"سو گلیڈ میں بھی فرسٹ ائیر کی سٹوڈنٹ ہوں ۔۔۔۔ "
نور نے کہا اور اسے کالج کے اندر جانے کو کہا۔۔
اندر ایک گراؤنڈ تھا وہ دونوں گراؤنڈ کے اندر سے گزر رہی تھیں ۔۔
گراؤنڈ میں بہت سی لڑکیاں تھیں کچھ کھیل رہی تھی کچھ چہل مگو میں مصروف تھیں۔۔
منال ہر چیز کا آنکھیں کھول کر معائینہ کررہی تھی نور بھی بھانپ گئی کہ منال زیادہ ماڈرن فیملی سے منسلک نہیں ہے۔۔
"آپ بولتی نہیں یا مجھ سےشرما رہی ہو؟"
نور نے بھنوے سوالیہ انداز سے اچکائے
"وو وہ مم "
منال نے کچھ بولنا چاہا مگر بول نہ پائی
"اچھا اپنا نام تو بتاؤ۔۔"
نور نے منال کو اس طرح دیکھ کر کہا
"مم میں منال ہوں"
"واؤ گریٹ نام منال۔۔ کم منال آج سے ہ فرینڈز ہیں"
نور نے ہاتھ بڑھایا تو مسکراتے ہوئے منال نے بھی ہاتھ ملا دیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منال اور نور کی دوستی بڑھنے لگی ۔۔ نور خاموش مزاج منال کو ہر روز ھیر ساری باتیں کراتی اور اسے ماڈرن دنیا سے انٹروڈیوز کراتی سادہ مزاج منال جس نے میٹرک بھی ایک سرکاری سکول سے کیا تھا اب کالج کے رنگوں میں گھلنے لگی تھی لیکن ہر کام میں وہ اپنے ابا اور اپنے خاندان کی عزت کا مکمل خیال رکھتی ۔۔ نور بھی اچھی لڑکی تھی ۔۔ اس لیے منال اور نور کالج کے رنگوں میں رنگ ضررو رہی تھیں مگر بگڑ نہیں رہیں تھیں جلد ہی منال اور نور کی دوستی کالج میں مشہور ہوگئی۔۔۔
منال اپنی زندگی میں نور کے ذریعے سے نئی خوشیاں سمیٹ رہی تھی ۔۔ وہاں دوسری طرف صائمہ ہر روز نئی نئی عملیات کرتی اور منال کو تکلیف دیتی مگر نور ہمیشہ ہر سکھ دکھ کی گھڑی مٰں اس کی ساتھی بن جاتی اور اسے ساری پریشانی بھول جاتی۔۔۔۔۔
نور اور منال کی دوستی سے صائمہ کو بھی بہت غصہ آتا۔۔۔
وہ ان کی دوستی توڑنے کے درپے تھی مگر
دوستی کا رشتہ روحوں کے ملنے سے تشکیل پاتا ہے جسموں کی دوری بھی اسے ختم نہٰں کرپاتی۔۔۔
منال نور کو اپنے اہل و عیال کے بارے میں سب کچھ بتاتی اور نور بھی منال کو ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منال کلاس میں کرسی پر بیتھی ڈائری پر کچھ لکھ رہی تھی۔۔۔۔
زندگی کی راہوں میں
میں ہوجاؤں تری بانہوں میں
ہمارے پریم کی خوشبو پھیلے پھر
ساری دلکش فضاؤں میں
بس اک ترے ساتھ کی جستجو ہے
تو ہے کون، کہاں مجہول ہے؟
میں ہوں بے سہارا
ڈوب رہی ہوں میں
ملتا نہں مجھے کننارہ
منال لکھنے ے ساتھ ساتھ ان الفاظ و گنگنا بھ رہ تھک۔اچانک کسی نے اس آنکھوں پر ہاتھ رکھا تو اس نے گبھرا یچھے دیکھا
یہ نور تھی یہ کافی خوش دکھائی دے رہی تھی۔۔
اس نے ہاتھ میں ایک کاغذ پکڑ رکھا تھا
"یی یہ کیا ہے "
"منال تمہیں نہیں پتا آج میں کتنی خوش ہوں۔۔"
"کیا ہوگیا ہے"
"آج مجھے سبحان نے بلایا ہے"
"ک کیوں؟"
"اری پاگل آج ویلنٹائن ہے نا اس لیے"
"اوہ ہاں مجھے یاد ہی نہیں تھا"
منال نے منہ بسورتے ہوئے کہا
"میں بہت اکسائٹڈ ہوں"
"کیوں؟/"
"اری پاگل سبحان کے ساتھ باہر جارہی ہوں اچھا بائے میں جارہی ہوں"
نور کہہ کے چلی گئی اور منال سوچنے لگی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور نے کار کا دروازہ کھولا نور اندر جاکر بیٹھ گئی
"سبحان کہاں رہ گئے"
نور نے سیٹ پر بیٹھ کر موبائل نکالا اور سبحان کو مسج کرنے لگی تھی کہ کار کا دروازہ کھلا اور سبحان ہاتھ میں ایک گلدستہ پکڑے اندر آیا
"ہاؤ سویٹ"
سبحان کو دیکھتے ہی نور خوشی سے چلائی
"یہ سارا جوش میرے آنے پر تھا یہ بکے پر تھا"
"مسٹر سبحان آپ کو یہ غلط فہمی کب ہوگئی کہ مجھے آپ کی آمد پر خوشی ہوئی
مجھے تو ان پھولوں کی وجہ سے خوشی ہوئی"
نور نے سبحان کے ہاتھ سے گلدستہ چھینا
"یعنی پھول دینے والے کی کوئی عزت ہی نہیں"
"جی ہاں بالکل"
نور نے پھول سونگھتے ہوئے کہا
"آپ کا شہر میں کیا پھول دینے والے کا کانٹوں سے استقبال کیا جاتا ہے کیا؟"
"فار یور کائنڈ انفارمیشن ۔۔۔ آپ بھی اسوی شہر کے ہی ہو۔"
نور نے منہ بسورا
اب سبحان ڈرائونگ سیٹ پر بیٹھ گیا تھا اور پیچھھے منہ کر کے نور کو دیکھ رہا تھا
"مجھے یوں گھورتے رہو گے یا کہیں چلے گےبھی ہم"
"صرف گھورتا رہوں گا ۔۔ اب اتنی خوبصورت شکل کو دیکھنے س منع کون کرسکتا ہے بھلا"
"اب اتنی کوشامد بھی نہ کرو میری"
نور نے منہ بنایا
"میڈم اب خوشامد کے لیے اس دنیا میں آپ ہی بچی تھیں کیا۔۔۔۔ آپ سے کس نے کہا کہ آپ پیاری ہیں؟"
سبحان نے بھنوے اچکائے
"ارے واہ ود ہی کہتے ہو اور پھر مکر جاتے ہو بس میں نہیں چلنے والی تمہارے ساتھ۔۔"
نور سیٹ سے اٹھی اور کار کے دروازے کی طرف لپکی
"دروازہ تو بند ہے اور چابی میرے پاس ہے نکل سکتی ہو تو نکل جاؤ"
"یہی تو اب میں تم سے کہتی ہوں۔۔۔ میرے دل کا دروازہ بند ہے اور چابی بھی صرف میرے پاس ہے نکل سکتے ہو تو نکل جاؤ"
نور نے سکراتے ہوئے کہا
"بڑی باتیں بنانی آگئیں ہیں۔۔ابھی تم کہہ رہی تھی کہ تمہیں پھولوں کی خوشی ہوئی میری نہٰں مکر گئی۔۔"
"ارے اب کیا کروں جب اتنا خوبصورت ہینڈسم لڑکا سامنے ہوگا تو محبت تو ہو ہی جائے گی"
نور نے ہلکا سا تھپر سبحان کی گال پر مارا
"چلو اب نوکر گاڑی چلاؤ میڈم کو گبھراہٹ ہوررہی ہے یہاں "
نور نے شوکی سے کہا
"جی میڈم صاحبہ آپ کا خادم آپ کی سیوا مٰن حاضر ہے"
اور مسکراتے ہوئے سبحان بھی کار چلانے لگا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور اور سبحان ریسٹورنٹ میں بیٹھے تھے یہاں کا ماحول بتا رہا تھا کہ یہ ویلنٹائن ڈے ہے کیونکہ اتنے سارے کپلز یہاں بیٹھے چہلیں کرنے مں مصروف تھے۔۔
نور ٹیبل پر پڑے پھول س ونگھ رہی تھی
اور سبحان اسے دیکھ رہا تھا
"کیا دیکھ رہے ہو؟"
"تمہیں "
ادھر سے جواب آیا
"دیکھتے رہو میرا کیا جاتا ہے تمہاری انکھیں ہی دکھیں گی"
زوردار جواب آیا
"تم کیا سونگھ رہی ہو؟"
"تمہاری خوشبو"
"سونگھتی رہو مجھے کیا ہے تمہارا ہی ناک دکھے گا"
دوسری طرف سے بھی زوردار جواب آیا
نور نے غصے سے پھولوں کا گلدستہ سبحان کے منہ پر دے مارا۔۔
تو سبحان نے خود کو بچاتے ہوئے نور کا ہاتھ پکڑ لیا
"اب کہاں بچ کر جاؤ گی۔۔؟"
"جہاں سے آئی ہوں"
"کہاں سے آئی ہو؟"
"ارے بابا جہاں تم سے ملنے سے پہلے سے رہتی تھی"
"اور وہ کہاں رہتی تھی؟"
"خود میں مصروف"
"اور اب کہاں رہتی ہو"
"اب تم میں مصروف"
"مجھ میں سے کبھی نکل پاؤ گی کیا؟؟"
"نہیں کبھی نہیں تم میں ڈوب چکی ہوں"
"پہلے کیوں کہا؟"
"تاکہ تمہٰں بتا سکوں "
نور نے شرماتے ہوئے کہا
"نور میری بات سنو "
سبحان نے نور کا ہاتھ پکڑا اور اسے سامنے کرسی پر بیٹھنے کو کہا
پھر اپنیی جیب سے ایک پھول نکلا
"نور مجھ سے شادی کرو گی""
"نہیں کیا تم مجھ سے شادی کرو گے؟"
"نہیں ۔۔۔۔"
"پھر پوچھا کیوں؟ "
"تاکہ تم سے شادی کرسکوں"
"ابھی کہا کہ تم سے شادی نہٰں کروں گا اور اب"
"کیونکہ میں تم سے نہیں شادی نہیں کروں گا نا ہی تم مجھ سے کرو گی
ہم دونوں ایک دوسرے سے شادی کریں گے"
سبحان نےکہا تو نور نے کرسی پر پڑا پلو سبحان کے منہ پر دے مارا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے آٹھ بجے تھے سڑک بالکل ویران تھی دور دور تک کوئی گاڑی نہ تھی ایسے نورا ور سبھان گاڑی میں آرہے تھے
اشارہ لگا تو سبحان نے گاڑی روک دی۔۔
"نور میرے پاس آجاؤ"
نور پیچھے والی سیٹ پر بیٹھی تھی
"جناب میں یاہں ہی ٹھیک ہوں"
"گریٹ۔۔"
"اچھا سبحان مجھے گھٹن ہورہی ہے دروازہ کھولنا پلیز۔۔۔ مجھے باہر جانا ہے"
"اوکے ویٹ۔۔۔"
سبحان نے جیب مٰں ہاتھ ڈالا
"چابی کہان گئی؟"
سبحان کے رنگ اڑ گئے۔۔
کیونکہ چابی ریسٹورینٹ میں ہی گر گئی تھی
نور کا زیادہ دیر میں رہنے کی وجہ سے حال خراب ہو اتھا
بنا سوچے سمجھے بولی
"سبحان دد دروازہ سس ب"
اس کا سانس گھٹنے لگا تھا
اور سبحان ادھر ادھر دیکھنے لگا
اسی وقت ایک پولیس والا گاڑی رکی دیکھ کر ادھر کو آیا
پولیس والے وک دیکھ کر گاڑی کے دروازے بند دیکھ کر اور نور کوک بیہوش دیکھ کر سبحان کے رنگ فق ہوگئے۔۔۔۔

Muhabbat Kahkishan Ho GaiTempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang