Episode 15

87 11 0
                                    

کار کے آگے والے بلب سڑک پر اندھیرے میں روشنی بکھیر رہے تھے کار گلی کے بالکل سامنے آکر رکی اور حماد کار سے باہر نکلا اس کی حالت بتارہی تھی کہ اس نے نشہ کیا ہوا ہے کیونکہ وہ جب کار سے باہر نکلا لڑکھڑا رہا تھا کار سے نکلتے ہی اس نے اندر موجود اپنے دوستوں کو ہاتھ ہلا کر خیر باد کہا اور گلی میں چلا گیا کار میں اب تین لڑکے رہ گئے تھے
"کتنا بیوقوف ہے یہ لڑکا "ایک نے کہا
"آج اپنی شادی کی شاپنگ کی ہے اور ہمیں بھی کرائی"
ایک اور نے کہا
"اور تمہیں پتا ہے اس نے مجھ سے ایک شرط لگائی تھی اپنی ماموں کی بیٹی سے شادی کرنے کی اور اس میں ہار گیا تو اپنی اماں کا زیور چرا کے اس نے مجھے شرط کے پیسے دیے "
"ہاہاہا"
سب نے قہقہہ لگایا اور ڈرائیونگ سیٹ پر موجود لڑکے نے کار کی چابی گمائی تو کار سٹارٹ ہوگئی
..........

ایمبولینس انتہائی تیز رفتاری سے چوک کو کراس کررہی تھی سامنے دیوار پر لگا گھڑیال رات کے بارہ بجارہا تھا سڑک پر زیادہ ٹریفک نہ تھی مگر پھر بھی گاڑیاں ایمبولینس کو دیکھ کر راستہ دے دیتیں اور ایک طرف ہوجاتیں ایمبولینس کا رخ ہسپتال کی طرف تھا ایمبولینس کی آواز سنتے ہی شاہ میر نے کار ایک طرف کر لی
"یااللہ رحم "
شاہ میر کی امی نے ایمبولینس دیکھ کر کہا
"مجھے یاد ہے بیٹا جب تمہارے نانا ابو کی دیٹھ ہوئی تھی تو اس طرح ایمبولینس میں میں تھی اور تمہاری آنٹی اور میری بانہوں میں دم توڑ گئے "
شاہ میر کی امی چلڈنے لگی
"امی پہلے آپ کی طبیعت خراب ہے اتنی ٹینشن نہ لیں"
"جب بھی ایمبولینس دیکھتی ہوں یہی ہوتا ہے مجھے ابا یاد آتے ہیں "
شاہ میر اپنی امی کو چپ کرانے لگا
"لیں ہسپتال آگیا "
ایمبولینس ہسپتال کے گیٹ پر آکے رکی شاہ میر نے کار ایمبولینس سے تھوڑے فاصلے پر روکی ایمبولینس سے سٹریچر پر ایک باڈی کو باہر لایا گیا تو پیچھے آتے محسن صاحب پر شاہ میر کی نظر پڑی جو ایمبولینس سے باہر نکل رہے تھے
"یہ یہ تو محسن صاحب ہیں "
کار چلاتا ہوا شاہ میر بڑبڑایا تو اس کی امی مارے حیرت کے اسے دیکھنے لگی
"امی یہ محسن انکل ہیں جن کے بارے میں میں آپ کو بتایا تھا اور دیکھیں یہ ایمبولینس کے پاس کھڑے ہیں "
"ارے بیٹا پتا کرو انہیں کوئی مدد تو نہیں چاہیے"
"جی امی ''
شاہ میر اپنی امی کو کار میں چھوڑ کر باہر کو لپکا
مگر اس وقت اس وجود کو اسٹریچر پر ڈال کر ہسپتال کے اندر لے جایا جا چکا تھا اور محسن صاحب بھی پیچھے پاگلوں کی طرح دوڑ رہے تھے شاہ میر اپنی امی کے پاس واپس آیا
"چلیے امی اندر چلتے ہیں "
شاہ میر نے کہا تو اپنی امی کو سہارا دے کر اٹھانے لگا
جب وہ ہال سے گزر رہے تھے تو اس نے دو نرسوں کو کہتے سنا
"ابھی جس لڑکی کو ایمبولینس میں لایا گیا ہے نا وہ بے ہوش ہے ہوش میں نہیں آرہی"
تو شاہ میر کے اوسان خطا ہوگئے
"اس کا مطلب محسن صاحب کی بیٹی "
شاہ میر کے ہوش اڑ گئے
"نہیں اسے کچھ نہیں ہوسکتا کچھ بھی نہیں "
اپنے بیٹے کے بدلتے تیور اس کی ماں دیکھ رہی تھی مگر شاہ میر نے بھی یہ بھانپ لیا تھا اس نے اپنی امی کو لیب میں چھوڑا جہاں ان کو ڈرپ لگ گئی اور اسی وجہ سے ان کی آنکھ لگ گئی اور شاہ میر ان کے پاس بیٹھا تھا طرح طرح کے خیالات اس کے دماغ میں آرہے تھے عین اسی وقت اسے ہسپتال کی مسجد سے فجر کی اذان کی آواز آئی
حی علی الفلاح
پر لبیک کہتے ہوئے شاہ میر ہسپتال کی مسجد میں چلا گیا
بے شک جہاں انسان کی تمام تر خواہشات اور کوششیں ختم ہوتی ہیں وہیں سے تو خدا کی عطا کا آغاز ہوتا ہے اس دنیا میں واحد ایک ہی ذات ہے جس سے رجوع کرنا ہی انسان کو تمام تر مشکلات سے نکال سکتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نور اور سبحان مارننگ واک کررہے تھے پارک میں
"سبحان صبح کتنی خوبصورت ہوتی ہے نا"
"بالکل بہت زیادہ یہ صبح ہمیں پچھلے دن میں ہونے والے تمام برے واقعات کو بھلا کر ایک نیا آغاز کرنے کی امید دلاتی ہے اور پیچھے ہونے والے اچھے واقعات سے حوصلہ افزائی کراتے ہوئے مزید ثابت قدم رہنے کا سبق دیتی ہے "
سبحان نے نور کی طرف دیکھا
"تم صحیح کہتے ہو سبحان "
"دیکھو نور "
سبحان نے نور کے ہاتھ پکڑ کر کہا
"آج کے بعد میرے بارے میں کبھی بھی کچھ غلط نہ سوچنا تم میرے لیے ہیرا ہو چاہے تم پیتل کی بھی بن جاؤ گی نہ تم میرے لیے ہیرا رہو گی اور میں ہمیشہ تم سے پیار کرتا رہوں گا اس لیے ایسا کبھی مت سوچنا "
سبحان نے کیا تو نور سبحان کے گلے لگ گئ
"آئی لو یو سبحان "
"آئی لو یو ٹو مائے ڈئیر "
عین اسی وقت نور کے موبائل کی گھنٹی بجی
تو نور نے پرس سے فون نکالا
"شٹ مما کا فون ہے "
نور نے فون ریسیو کیا تو دوسری طرف سے آنے والی آواز پر نورنے دانت بھینچ لیے اور فون بند کردیا
"کالج ٹائم ہونے کو ہے مما ڈانٹ رہی تھیں ٬٬
نور نے سبحان سے کہا
"اور مائے گوڈ باتوں میں پتا ہی نہ چلا "
سبحان نے مسکراتے ہوئے کہا اور وہ دونوں پارک میں پھولوں کے درمیان بنی راہداری پر چلنے لگے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نماز کے بعد بھی شاہ میر بیٹھا دعا مانگ رہا تھا
"یااللہ اس لڑکی کو ہوش میں کے آئیے یاللہ اسے ہوش میں لے آئے یااللہ میں نے آج تک اسے نہ دیکھا نہ اسے جانتا ہوں مگر جب سے اس کی آنکھیں دیکھی ہیں اس کی معصوم نگاہوں نے مجھے بہت متاثر کیا ہے یااللہ وہ ایک بہت معصوم بھولی بھالی لڑکی ہے اسے شفا عطا کریں نہ جانے کیوں اسے کھونے کا ڈر مجھے کاٹ کھائے جارہا ہے اس بات کے باوجود کہ میں اسے جانتا بھی نہیں ہوں یااللہ مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میرا اس سے کوئی رشتہ ہے کوئی بہت گہرا رشتہ اسے ٹھیک کردیں "
شاہ میر نے دعا مانگی اور باہر آگیا
جب سے اس نے ہوش سنبھالا تھا آج تک کبھی نمازنہیں پڑھی تھی مگر یہ نہ جانے کیسا رشتہ تھا جس نے آج پہلی بار اسے اللہ کے سامنے گڑگڑانے پر مجبور کردیا وہ بھی کسی اور کے لیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راہداری سے گزرتے ہوئے اس کی نظر محسن صاحب پر پڑی جو کافی پریشان تھے تو شاہ میر ان کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا سلام دعا کے بعد محسن صاحب نے اڈے بتایا کہ ان کی بیٹی رات میں چلا ہے جارہی تھی کہہ رہی تھی کہ زمین پھٹ گئی ہے زیمن آسماں کو جارہی ہے اور عجیب و غریب باتیں کررہی تھی پھر بے ہوش ہوگئی اور ابھی تک ہوش نہیں أیا شاہ میر پریشان ہوگیا اور محسن صاحب کو تسلی دینے لگا عین اسی وقت ایک نرس وہاں آئی اور آکر محسن صاحب سے کہا
"آپ کی بیٹی منال کو ہوش آگیا ہے "
محسن صاحب اور شاہ میر کا چہرہ خوشی سے جھومنے لگا

Muhabbat Kahkishan Ho GaiDonde viven las historias. Descúbrelo ahora