Episode:3

134 8 8
                                    

اس نے کال سننے کے بعد گیٹ کھٹکھٹایا۔ فاطمہ نے آکر گیٹ کھولا تو فاطمہ کو سامان پکڑاتے ہوئے وہ تقریبًا بھاگتے ہوئے گھر کے صحن میں داخل ہوا ۔فوزیہ بیگم جو صحن میں چارپائی پر بیٹھی سبزی بنا رہی تھیں، وقار جا کر ان کے گلے لگ گیا۔ فاطمہ گھبرا کر فورًا سائیڈ پر ہو گئی تھی ورنہ شاید وقار سے ٹکرا کر وہیں گر جاتی۔
"بھائی بریک لگائیں۔ کیا ہو گیا ہے؟"فاطمہ اس کے پاس آتے ہوئے بولی۔ "ہاں بیٹا کیا ہوا؟ خیریت ہے نا؟" فوزیہ بیگم نے اسے اپنے سے الگ کرتے ہوئے پوچھا۔ "جی امی جان سب خیریت ہے۔"وقار نے مسکرا کر جواب دیا۔ "ماشااللہ! بھائی جان مسکرا رہے ہیں۔ ہمیں بھی بتا دیں کیا ہوا ہے؟"فاطمہ کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولی۔ "ہاں بتا رہا ہوں۔ میں کل جہاں انٹرویو کے لیے گیا تھا وہاں سے کال آئی ہے۔انھوں نے مجھے اپائینٹ کر لیا ہے اور کہا ہے کہ کل سے جوائن کر لوں۔"وقار ہنوز مسکراتے ہوئے بولا۔ "شکر ہے خدا کا۔ اللہ میرے بیٹے کو ڈھیروں کامیابیاں دے۔"فوزیہ بیگم اس کے سر پر پیار کرتے ہوئے بولیں۔

وقار بہت فرماں بردار ، خوش اخلاق، سلجھا ہوا اور ہنسنے مسکرانے والا لڑکا تھا۔ وہ بہنوں کے ساتھ شرارتیں کرنے والا،دوستوں کے ساتھ ہنسی مذاق کرنے والا، چھوٹی چھوٹی باتوں پر مسکرانے والا خوش مزاج لڑکا تھا۔
مگر ایک سال قبل اپنے والد کی وفات کے بعد سے وہ بہت سنجیدہ ہو گیا تھا۔وقت اور حالات نے اسے بالکل بدل دیا تھا۔ وہ بہت کم کسی بات پر مسکراتا اور ہنسنا تو شاید وہ بھول ہی چکا تھا۔دوستوں میں بھی صرف عماد سے بات کرتا تھا۔
آج اس کو اس طرح سے مسکراتا ہوا دیکھ کر فوزیہ بیگم اور اس کی بہنیں بہت خوش تھیں۔

سب وقت اور تقدیر کے کھیل ہوتے ہیں۔وقت کسی کا بھی لحاظ کیے بغیر گزرتا چلا جاتا ہے اور تقدیر میں جو لکھا ہے وہ ہو کر ہی رہتا ہے۔ انسان لاکھ کوشش کر لے مگر تقدیر کے فیصلوں کو بدل نہیں سکتا۔
انسان کی قسمت صرف ایک چیز ہی بدل سکتی ہے اور وہ ہے "دعا"۔ اگر انسان خلوصِ نیت سے اللہ کے حضور رو کر گڑگڑا کر دعا مانگے تو وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔ اللہ تعالٰی تو اپنے بندوں سے ستر مائوں سے زیادہ پیار کرتے ہیں وہ کبھی اپنے بندے کی دعائوں کو رد نہیں کرتے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"مجھ سے مانگو میں تمہیں عطا کروں گا۔"
____________________________________

اب وہ صبح یونیورسٹی جاتی،،، یونیورسٹی سے واپسی پر گھر کے سارے کام کرتی اور سارا دن صائمہ بیگم کے طعنے سنتی۔رات کو اپنی پڑھائی کرتی۔اس کی ماں کو اکثر سردرد کی شکایت رہتی اس لیے وہ کوئی زیادہ کام نہ کر پاتیں۔

آج بھی وہ رات دیر تک پڑھ رہی تھی جب اسے بھوک محسوس ہوئی۔وہ کچھ کھانے کی غرض سے کچن گئی اور فریج سے رات کے چاول نکال کر گرم کیے۔

چاولوں کی پلیٹ میز پر رکھی اور ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔

وہ اپنے دھیان کھانے میں مصروف تھی جب صائمہ بیگم کچن میں آئی۔اسے اس طرح کھاتا دیکھ کر غصے سے چلائی

تپتی دھوپ کا سفر(COMPLETED✅)Where stories live. Discover now