"ماما! کیا ہوا آپ کو؟ آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟"حمائل کمرے میں داخل ہوئی اور اپنا بیگ سائیڈ پر پھینک کر اپنی ماں کے قریب آئی،جو بیڈ پر نڈھال پڑی تھیں۔
"ہممم۔۔۔بیٹا میں ٹھیک ہوں۔"فرحت بیگم اسے اپنے پاس بیٹھاتے ہوئے بولیں۔
"نہیں ماما آپ ٹھیک نہیں لگ رہیں، آپ اٹھیں ہم ڈاکٹر کے چلتے ہیں۔"
وہ فورًا کھڑی ہوئی مگر فرحت بیگم نے اسے واپس بیٹھا دیا۔"حمائل کچھ نہیں ہوا مجھے،ویسے بھی ابھی گھر پر کوئی نہیں ہے، کیسے جائیں گے؟ یہاں بیٹھو اور آرام سے میری بات سنو۔"
"جی۔۔۔" وہ ان کے پاس بیٹھی اور انکا سر دبانے لگی۔ "حمائل مجھ سے ایک وعدہ کرو گی؟" اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے بولیں۔
"کیسا وعدہ ماما؟"
"میری جان وعدہ کرو کبھی ہمت نہیں ہارو گی،پڑھ لکھ کر اپنے بابا اور بھائی کی طرح کامیاب انسان بنو گی،ان کی بھی یہی خواہش تھی کہ تم بہادر اور نڈر لڑکی بنو۔""ماما میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں جیسا آپ چاہتی ہیں میں آپ کو بالکل ویسی ہی بن کر دیکھائوں گی، آپ کا سہارا بنوں گی۔میں آپ کو کبھی رسوا نہیں کروں گی۔"ان کا ہاتھ چومتے ہوئے بولی۔
"بیٹا انسان کی زندگی کا بھروسہ نہیں ہوتا،یہ سانسیں ناجانے کب رک جائیں کچھ معلوم نہیں۔ آج میں ساتھ ہوں کل نہیں ہوں گی۔۔۔ مگر تمہیں ویسی ہی زندگی گزارنی ہے جس کا تم نے مجھ سے وعدہ کیا ہے۔"
"ماما پلیز اس طرح کی باتیں نہ کریں۔ کچھ نہیں ہو گا آپ کو۔"حمائل غصے سے بولی۔
"اچھا میری ماں! اب رونے مت لگ جانا۔۔۔یہ مجھے پانی کا گلاس تو پکڑا دو۔"وہ حمائل کا غصہ کم کرنے کے لیے ہنس کر بولیں۔ حمائل انھیں پانی کا گلاس پکڑا کر واش روم کی جانب بڑھ گئی۔
وہ جب واش روم سے باہر آئی تو گلاس زمین پر گرا پڑا تھا اور فرحت بیگم کا ہاتھ بیڈ سے نیچے لٹک رہا تھا۔ "ماما اٹھیں۔ آنکھیں کھولیں۔"وہ ان کا چہرہ تھپتھپاتے چیخی۔گھر پر سوائے ان دونوں کے کوئی اور نہیں تھا۔ اس کو کچھ سمجھ نہ آیا تو اس نے پاس پڑے موبائل سے وقار کو کال ملا دی۔
____________________________________
"السلام علیکم ڈاکٹر صاحب!"وہ ڈاکٹر کے روم میں داخل ہوتے ہوئے بولا۔ "جی وعلیکم السلام تشریف رکھیں۔"ڈاکٹر نے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔
"آپ کے پیشنٹ کی رپورٹس آ گئی ہیں جس کے مطابق انہیں برین ٹیومر ہے اور۔۔۔ان کا ٹیومر آخری سٹیج پر ہے۔"
وقار کچھ دیر بے یقینی سے ڈاکٹر کو دیکھتا رہا اور پھر بولا "ہم ان کا آپریشن بھی تو کروا سکتے ہیں نا۔"
"وقار صاحب! ان کا ٹیومر آخری سٹیج پر ہے اس صورت میں اگر ہم آپریشن کر بھی دیں تو کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا۔ہم انہیں میڈیسن وغیرہ دے کر صرف اب کوشش ہی کر سکتے ہیں کہ ان کا ٹیومر نہ بڑھے۔۔۔باقی زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔"وہ ڈاکٹر سے ان کی کنڈیشن کے بارے میں پوچھ رہا تھا جو اسے بتا رہے تھے کہ اب فرحت بیگم کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔
"کیا کہا ڈاکٹر نے؟"اس نے وقار کو ڈاکٹر کے روم سے باہر آتا دیکھ کر فوراً پوچھا۔
"کوئی پریشانی والی بات نہیں ہے بس تھوڑا بی پی لو ہو گیا تھا انکا۔"وہ نظریں چراتے ہوئے بولا۔
"آپ سچ بول رہے ہیں نا؟مجھے ماما کی رپورٹس دیکھائیں۔" اسے وقار کی بات پر یقین نہ آیا تو پوچھا۔"جی میں سچ بول رہا ہوں اور رپورٹ ابھی نہیں آئی۔۔۔آپ آنٹی کے پاس اندر جائیں میں یہ میڈیسنس لے کر آتا ہوں۔"وقار کہہ کر فورًا وہاں سے چلا گیا۔
____________________________________
ماں جی!ماں جی۔۔۔"عماد اونچی آواز میں بولتا ہوا اندر آیا اور کچن کی طرف بڑھ گیا کیونکہ فوزیہ بیگم اکثر اس وقت وہاں ہی ہوتی تھیں۔
"چلو جی۔۔۔یہ پھر آگئے۔"فاطمہ جو زہرہ کے ساتھ کچن میں کام کر رہی تھی، عماد کی آواز سن کر بولی۔
"ہاں جی! میں پھر آگیا۔۔۔زہرہ آپی! ماں جی کہاں ہیں؟" عماد نے کچن میں داخل ہوتے ہوئے مسکرا کر کہا اور ڈائینگ ٹیبل کی ایک کرسی کھینچ کر ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر بیٹھ گیا۔ "وہ ہمارے پرانے محلّے میں ایک فوتگی ہو گئی ہے،وہیں گئی ہیں۔میں ابھی انھیں کو ہی فون کرنے جارہی تھی۔" زہرہ نے جواب دیا اور کچن سے باہر چلی گئی۔
"عماد بھائی! ویسے ایک بات تو بتائیں،آپ کو اپنے گھر چین نہیں ہے۔"فاطمہ اس کے سامنے،سینے پر ہاتھ باندھ کر کھڑی ہو گئی۔
"میں نے تمہیں کتنی مرتبہ کہا ہے کہ مجھے بھائی نہ کہا کرو۔"وہ اچھل کر کھڑا ہوا اور غصے سے گھورتے ہوئے بولا۔"تو اور کیا کہا کروں؟ ایک منٹ! اممم۔۔۔چاچو کہہ لیا کروں؟"اس نے اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے مصنوعی سنجیدگی سے پوچھا۔
"تم نا! چچا ،پھپھا ، ماما، تایا سب کچھ بول دو۔۔۔بس عماد نہ بولنا۔" وہ چڑ کر بولا۔
"اففف۔۔۔دیکھیں میرے میں ابھی اتنی تمیز ہے کہ اگر میں اپنے بھائی کو بھائی کہہ کر بلاتی ہوں تو اس لحاظ سے انکے دوستوں کو بھی بھائی ہی کہوں۔"
"بھاڑ میں جاؤ تم اور تمہاری تمیز۔"وہ دانت پیستے ہوئے بولا اور وہاں سے واک آؤٹ کر گیا۔
"اوہو! آپ تو ناراض ہو گئے،عماد بھااائی۔" وہ اونچی آواز میں بولی اور ہنسنے لگی۔____________________________________
جاری ہے۔۔۔Vote and also comment😊

YOU ARE READING
تپتی دھوپ کا سفر(COMPLETED✅)
General Fictionیہ کہانی ہے رشتوں کے تلخ روپ کی۔۔۔صبر کی، خدا پر یقین کامل کی ،زندگی کے کٹھن راستوں سے گزر کر منزل پر پہنچنے کی۔آزمائیشوں اودکھوں سے بھری زندگی کی۔ محبت کے خوبصورت سفر کی۔۔۔ تپتی دھوپ کے سفر کی کہانی۔۔۔۔