گھر کے باقی حصوں کی طرح لان کو بھی خوبصرتی سے سجایا گیا تھا۔ جس کی ایک طرف کیاری تھی جو مختلف رنگوں کے دلکش پھولوں سے بھری ہوئی تھی اور دوسری طرف ایک شیڈ لگا کر اس کے نیچے سلیقے سے میز اور کرسیاں رکھی گئی تھیں۔موسم بہت خوشگوار تھا۔ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔شام کو سب لان میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ جب گیٹ پر بیل بجی۔ "میں دیکھتا ہوں۔"وقار یہ کہہ کر گیٹ کھولنے چلا گیا۔
"سلام جانِ من!" وقار نے گیٹ کھولا تو عماد اس کے گلے لگ کر لڑکیوں کے انداز میں بولا۔
"پیچھے ہٹ۔میں نے تجھے کتنی مرتبہ کہا ہے کے میرے ساتھ ایسے فضول لفظ نہ بولا کر۔"وقار اسے اپنے سے الگ کرتے ہوئے بولا۔
"اوکے جانِ من۔" عماد ایک آنکھ دبا کر بولا اور لان کی طرف بھاگ گیا اور پیچھے سے وقار مسکرا دیا۔وقار سنجیدہ اور تھوڑا خاموش طبیعت کا شخص تھا جبکہ عماد اس سے بالکل الٹ تھا۔ ہر کسی کی بات کا الٹا جواب دینا، وقار کو الٹے سیدھے ناموں سے پکارنا(جس سے وقار کو سخت چڑ تھی) اور ہر چھوٹی خوشی کو بھرپور طریقے سے انجوائے کرنے والا شخص تھا۔ ان کی نیچر ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھی لیکن ان کی دوستی اتنی ہی مضبوط تھی۔
عماد سب سے سلام کر کے وہیں فوزیہ بیگم کے پاس بیٹھ گیا۔ "عماد کہاں گم تھے؟ اتنے دنوں بعد آئے ہو۔"فوزیہ بیگم نے اس کے کان کھینچتے ہوئے پوچھا۔ "ہائےےے ماں جی! نہ پوچھیں، یہ جو آپ کا ظالم بیٹا ہے نا سارا دن مجھ سے کام کرواتا ہے، اس نے اپنا بزنس سیٹ کرنے کے چکر میں مجھ جیسے عظیم انسان کو بھی ساتھ گھسیٹ لیا ہے۔"عماد اپنا کان چھڑواتے ہوئے معصوم شکل بنا کر بولا۔
"عماد بھائی! عظیم انسان نہیں، انتہائی فارغ انسان ہیں آپ۔"فاطمہ ہاتھ لہراتے ہوئے بولی۔
"ہونہہ! کہہ کون رہا ہے۔"عماد نے بھی فورًا ہنس کر جواب دیا۔
"تم دونوں پھر سے شروع ہو گئے ہو۔"زہرہ ان دونوں کو غصے سے گھورتے ہوئی بولی۔
"میں نے کیا کہا ہے اب؟عماد بھائی ہی بولی جا رہے ہیں۔"فاطمہ چڑ کر بولی۔"اچھا اب بس کرو۔ امّی میں ذرا ایک ضروری کام سے جا رہا ہوں،رات کو آنے میں دیر ہو جائے گی آپ لوگ کھانا کھا لیجیے گا۔"وقار موبائل پر انگلیاں چلاتے ہوئے مصروف انداز میں بولا۔ "ٹھیک ہے۔ خیریت سے جائو۔"فوزیہ بیگم بولیں۔ وقار ان سے سر پر پیار لے کر چلا گیا اور فوزیہ بیگم بھی نماز پڑھنے کے لیے اندر چلی گئیں۔
"فاطمہ جائو عماد کے لیے چائے بنا لائو۔" زہرہ، ناراض بیٹھی فاطمہ سے بولی۔
"کیوں؟ ان کو اپنے گھر چائے نہیں ملتی؟" فاطمہ،عماد کو دیکھ کر غصے سے بولی۔
"نہیں۔" عماد ڈھٹائی سے مسکرا کر کہا۔
"تو پھر خود ہی بنا لیں۔کیونکہ میں تو نہیں بنانے والی آپ کے لیے چائے۔"فاطمہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے نارمل انداز میںں بولی۔
"بنانے کی غلطی بھی نہ کرنا۔ تمہارے ہاتھ کی چائے پینے سے اچھا بندہ زہر کھا لے۔"عماد اس کا مذاق اڑاتے ہوئے ہنس کر بولا۔
"تو پھر زہر ہی کھالیں۔"فاطمہ غصے سے کہہ کر پیر پٹختی اندر چلی گئی۔

ČTEŠ
تپتی دھوپ کا سفر(COMPLETED✅)
Beletrieیہ کہانی ہے رشتوں کے تلخ روپ کی۔۔۔صبر کی، خدا پر یقین کامل کی ،زندگی کے کٹھن راستوں سے گزر کر منزل پر پہنچنے کی۔آزمائیشوں اودکھوں سے بھری زندگی کی۔ محبت کے خوبصورت سفر کی۔۔۔ تپتی دھوپ کے سفر کی کہانی۔۔۔۔