Episode:14

143 6 3
                                    

گرنے کی وجہ سے چادر اس لڑکی کے چہرے سے ہٹ گئی تھی۔

وقار زمین سے اس کا بیگ اٹھانے کے لیے جھکا ہی تھا کہ اس کی نظر اس لڑکی پر پڑی۔

چہرے پر اداسی، برسوں کی تھکن کے سے آثار اور خود ہی سے ہاری ہوئی لڑکی لگ رہی تھی وہ۔

خود پر اس کی نظریں محسوس کر کے حمائل نے بامشکل اپنی پلکیں اٹھائیں اور اس پر نظر پڑتے ہی حیران ہو گئی۔ کچھ پل دونوں بےیقینی سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔

حمائل ہوش کی دنیا میں لوٹی۔اس نے ایک جھٹکے سے وقار کے ہاتھ سے اپنا بیگ کھینچا اور کھڑی ہو گئی۔

اس نے ان چند لمحوں میں حمائل کی آنکھوں میں درد، تکلیف، اذیت، شکست، اپنے لیے نفرت اور ناجانے کیا کچھ دیکھ لیا تھا۔

وہ وقار سے رخ موڑ کر کھڑی ہو گئی تھی۔
"حمائل! کہاں جارہی ہیں؟" وقار نے سنبھلتے ہوئے پوچھا۔

"میں جہاں مرضی جائوں ، آپ کو اس سے کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیئے۔" اس نے اکھڑے لہجے میں کہا۔

"گاڑی میں بیٹھیں۔آپ کو جہاں جانا ہے میں چھوڑ دیتا ہوں۔"وقار نے آگے بڑھ کر اس کا بیگ پکڑنا چاہا مگر اس نے ہاتھ جھٹک دیا۔

"بہت شکریہ! مجھے آپ کے مزید کسی احسان کی ضرورت نہیں ہے۔" وہ غصے سے بولی۔

"میں نے آپ پر کبھی کوئی احسان نہیں کیا۔" وقار نرمی سے بولا۔

"آپ کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ کیوں بار بار آجاتے ہیں میرے سامنے؟" حمائل اس کے اس پر سکون انداز پر چیخ کر بولی۔

اس کے اس طرح سے چیخے پر آس پاس موجود چند لوگوں نے اسے دیکھا۔

"حمائل پلیز، یہاں سب کے سامنے تماشہ کیوں لگا رہی ہیں۔"وہ اس کے اس طرح چیخنے پر اپناغصہ ضبط کرتے ہوئے بولا۔

"تماشہ میں لگا رہی ہوں؟ تماشہ تو آپ نے میرا بنایا تھا، سب کے سامنے میری عزت کی دھجیا اڑا دیں اور اب کہہ رہے ہیں کہ میں تماشا بنا رہی ہوں۔آپ۔۔۔آپ نے۔۔۔" وہ غصے میں چیخ رہی تھی۔وہ کہتے کہتے رکی۔اس کی آنکھوں کے سامنے ایک دم اندھیرا چھا گیا۔

وہ پورے ایک دن سے بھوکی تھی۔ سارا دن کھانا کھائے بغیر گزارا اور رات میں بھی وہ گھر سے ایسے ہی بھوکی نکل آئی تھی۔

بھوکے رہنے، مسلسل چلنے اور اب اس طرح چیخنے سے اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔وہ لڑکھڑا کرزمین پر گرنے ہی لگی تھی کہ وقار نے اسے بازو سے پکڑ کر پاس پڑی کرسی پر بیٹھا دیا۔

وہ جاکر اس کے لیے پانی لے آیا۔
"پکڑیں اسے۔۔۔پانی پیئیں۔" وقار اسےگلاس تھماتے ہوئے بولا۔

اس نے خاموشی سے گلاس پکڑلیا اور ایک گھونٹ پی کر زمین پر رکھ دیا۔وہ دوبارہ کھڑی ہوگئی اور تیزی سے قدم اٹھانے لگی۔

وقار اس کے پیچھے گیا اور ایک جھٹکے سے اس کا بازو دبوچ لیا۔

"چلیں میرے ساتھ۔۔۔"وہ اسے اپنے ساتھ گھسیٹتا ہوا گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔

"میرے بازو چھوڑیں۔۔۔آپ میرے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتے۔" حمائل اپنا بازو چھڑوانے کی کوشش کرتے ہوئے بولی۔

"خاموش! بالکل خاموش۔مجھے اب آپ کی آواز نہ آئے۔" وہ اس کی طرف دیکھ کر غصے سے دھاڑا اور گاڑی کا فرنٹ ڈور کھول کر اسے سیٹ پر بیٹھا کر زور سے دروازہ بند کیا۔

حمائل کو اس کے اس طرح سے بولنے اور اس کی غصے سے لال انگارہ ہوتی آنکھوں سے خوف آنے لگا۔وہ خاموش ہوگئی۔

وقار ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور ایک لمبا سانس لیتے ہوئے خود کو نارمل کیا۔

اس نے ایک نظر حمائل کو دیکھا جو سہمی ہوئی گاڑی کے دروازے سے چپک کر بیٹھی تھی۔

"حمائل میں نہیں جانتا کہ آپ کو مجھ سے کیا مسئلہ ہے یا پھر آپ نے میرے بارے میں کونسی غلط فہمی پال رکھی۔" وقار نے ڈرائیو کرتے ہوئے ونڈ سکرین سے باہر دیکھتے ہوئے آہستگی سے کہا۔

"کوئی غلط فہمی نہیں ہے مجھے آپ کے بارے میں۔۔۔بہت اچھی طرح جانتی ہوں میں کہ آپ کس قسم کے مرد ہیں۔" حمائل نفرت سے بولی۔

وقار نے ایک اسے دیکھا جو اپنی بات کہہ کر کھڑی کی طرف رخ موڑ گئی تھی اور پھر تاسف سے نفی میں سر ہلاہا اور خاموشی سے ڈرائیو کرنے لگا۔

حمائل سڑکوں پر دوڑتی زندگی کو دیکھتے ہوئے اپنی سوچوں میں گم ہو گئی تھی۔

"آپ نے اب تک شادی کیوں نہیں کی؟" اس نے اپنے ساتھ چلتے وقار کی طرف دیکھ کر پوچھا۔

"بس کوئی ملی ہی نہیں ابھی تک۔" وقار کندھے اچکا کر بولا۔

"اچھا۔۔۔محبت تو کی ہو گی کسی سے؟" حمائل نے تجسس سے پوچھا۔

"نہیں! پہلے کبھی کسی سے محبت بھی نہیں ہوئی۔۔۔مگر شاید اب ہو گئی ہے۔" اس نے حمائل کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا۔

"اوہ! ان سے پھر کب ملوا رہے ہیں مجھے جن سے آپ کو محبت ہو گئی ہے؟"حمائل نے آپ لفظ پر زور دیتے ہوئے پوچھا۔

"آپ تو مل چکی ہیں اس سے۔" اس نے ہنستے ہوئے کہا۔

"سچ میں! آپ مجھے نام بتائیں اس کا پھر مجھے پتا چل جائے گا کہ آپ کس کی بات کررہے ہیں۔" اس نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔

_______________________________________
                                                       جاری ہے۔۔۔

Vote and comment 😊

Waiting for ur feedback❤

تپتی دھوپ کا سفر(COMPLETED✅)Where stories live. Discover now