Episode:13

117 8 0
                                    

"یااللہ میں کیا کروں؟ کدھر جاؤں؟پلیز میری مدد کریں۔" وہ روتے ہوئے بڑبڑا رہی تھی۔

وہ کتنی ہی دیر زمین پر بیٹھی گھٹنوں میں سر دیے روتی رہی۔اس نے ایک دم اپنا سر اٹھا کر گھڑی کی طرف دیکھاجہاں رات کا ایک بج رہا تھا اور فورًا کھڑی ہو گئی۔

اپنی الماری سے ایک بیگ نکالا اور اس میں اس نے اپنے کپڑوں کے چند جوڑے، ضرورت کی کچھ چیزیں اور اپنی سونے کی چین اور بالیاں رکھیں۔

"میں بس چلی جاؤں گی یہاں سے۔۔۔عمر مجھے بیچ دے گا ورنہ۔۔۔ہاں میں کہیں بھی چلی جاؤں گی۔۔۔" وہ بیگ میں چیزیں رکھتے ہوئے خود ہی سے باتیں کر رہی تھی اور اپنی آنکھوں سے نکلتے بے آواز آنسوؤں کو بے دردی سے رگڑ کر صاف کررہی تھی۔
اپنے پاس جمع کیے ہوئے تھوڑے بہت پیسے بھی اسی بیگ میں رکھ کر زپ بند کر دی۔

بیگ کو بیڈ پر رکھ کر وہ واشروم گھس گئی۔وہ وضو کرکے باہر نکلی اور تہجد ادا کرنے لگی۔

نماز سے فارغ ہر کر اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو اپنا ضبط کھو بیٹھی اور اپنے رب کے سامنے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔

"یا اللہ! میں آج اپنی عزت، اپنا مال اور اپنی جان سب کچھ داؤ پر لگا کر اس دہلیز کو پار کرنے جا رہی ہوں۔۔۔ میری منزل کیا ہے میں نہیں جانتی مگر آپ تو جانتے ہیں نا، میری مدد کریں۔۔۔"وہ روتے ہوئے دعا مانگ رہی تھی۔

وہ دعا مانگ کر کھڑی ہوئی۔جائے نماز طے کر کے وہیں بیڈ پر رکھ دیا۔ بیڈ پر پڑا ہوا بیگ کاندھے پر ڈالا اور الماری سے بڑی سی چادر نکال کر اوڑھ لی۔

کمرے کے دروازے تک پہنچ کر ایک نظر مڑ کر کمرے کو دیکھا اور باہر نکل گئی۔
وہ آج یہاں اپنی ماں کے ساتھ گزرے لمحوں کی یادیں چھوڑ کر جا رہی تھی۔ اس جگہ کو چھوڑ کر جارہی تھی جہاں اس کی ماں نے اپنی زندگی کی آخری سانسیں لی تھیں۔

دبے قدموں سے چلتی ہوئی وہ گیٹ تک آئی تو گارڈ سے دیکھ کر فورًا کھڑا ہو گیا۔

"آپ اس وقت کہاں جا رہی ہیں بی بی۔" خان بابا نے پوچھا۔

"وہ۔۔۔میں۔۔۔میری فلائیٹ ہے نا کراچی کی۔ وہاں پڑھنے جارہی ہوں نا۔" وہ نظریں چراتی ہوئی بولی۔

"اچھا۔۔۔اکیلی ہی جارہی ہیں؟" خان بابا نے جانچتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"جی۔۔۔"حمائل نے اپنی انگلیاں مڑوڑتے ہوئے کہا۔

"بٹیا! میں جانتا ہوں کہیں نہیں پڑھنے وڑھنے جا رہی تم، ان گھر والوں سے چھپ کر بھاگ رہی ہو۔" ان کے اس طرح سے اچانک سچ جاننے پر وہ ڈر گئی۔

"تو اور کیا کروں خان بابا؟ اگر آج یہاں سے نہ گئی تو یہ لوگ مجھے بیچ دیں گے۔"وہ روتے ہوئے بے بسی سے بولی۔

"مجھے سب معلوم ہے بیٹا۔ کہنے کو تو میں نوکری گھر کے باہر گیٹ پر کرتا ہوں مگر اس گھر میں کس کے ساتھ کیسا سلوک ہوتا ہے سب جانتا ہوں۔" وہ اداسی سے بولے۔

"میری مجبوری ہے یہاں سے جانا۔" حمائل فورًا بولی۔

"ہممم۔۔۔ضرور جاؤ میری بیٹی! مگر میری ایک بات یاد رکھنا، ساری زندگی اسی طرح لوگوں سے بھاگتی نہ رہنا۔۔۔ ابھی اس دہلیز کو پار کرنے کے بعد کہیں بھی روپوش ہو جا، اور پھر تب اس دنیا کے سامنے آئیں جب تو اس دنیا کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جائے۔ پڑھ لکھ کر بڑی افسر لگ جا۔ پھر دیکھیں یہی لوگ تیرے آگے پیچھے دم ہلاتے پھریں گے۔" آخری بات انھوں نے گھر کی طرف اشارہ کر کے کہی۔

"بہت شکریہ خان بابا۔بس میرے لیے دعا کیجیئے گا۔" وہ دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔

"ضرور دعا کروں گا بٹیا۔۔۔، اب دن چڑھنے والا ہے کوئی جاگ نا جائے ، آپ فورًا یہاں سے چلی جائو۔اور فکر نہ کرنا میں کسی کو کچھ نہیں بتائوں گا۔"وہ شفیق لہجے میں بولے۔

"جی خان بابا۔ اللہ حافظ۔"حمائل کہہ کر گیٹ سے باہر چلی گئی۔

"اللہ حافظ بیٹا! اللہ تجھے بہت کامیاب کرے اور اپنی امان میں رکھے۔" وہ پیچھے سے اسے دعائیں دینے لگے۔

_______________________________________

وہ اسلام آباد سے واپس لاہور آرہا تھا۔ اپنے بززنس کے سلسلے میں وہ اکثر دوسرے شہروں میں جاتا رہتا۔

صبح سویرے کا وقت تھا۔ سردیوں کی صبح، دھند کا راج، ویران سڑکیں۔

وہ لاہور کی حدود میں داخل ہونے کے بعد ایک ڈھابے پر چائے پینے کی غرض سے رکا۔
وہ اتنا بڑا بزنس مین ہو کر بھی ایک ڈھابے پر چائے پی رہا تھا۔ شاید اس کی یہی عاجزی اور انکساری رب کو پسند آگئی تھی کہ وہ دولت اور شہرت حاصل کرنے کے بعد بھی کبھی مغرور نہیں ہوا تھا۔ تبھی دیکھتے ہی دیکھتے رب نے اسے اتنی کامیابیوں سے نواز دیا۔

وہ چارپائی پر بیٹھا چائے پی رہا تھا جب دور سے ایک لڑکی اکیلی چلتی ہوئی اسی جانب آرہی تھی۔ بڑی سی چادر اوڑھے ، چادر سے اپنا منہ چھپائے ہوئے، ایک کاندھے پر بیگ ڈالے اور لڑکھڑاتے قدموں سے وہ آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔

آس پاس موجود چند ٹرک ڈرائیور اور آوارہ آدمی اسے عجیب نظروں سے گھور رہے تھے۔

وقار نے ایک نظر ان لوگوں پر ڈالی اور فورًا کھڑا ہو گیا۔وہ تیزی سے چلتا ہوا اس لڑکی کے قریب آیا۔

ابھی وہ اس کے پاس پہنچا ہی تھا کہ لڑکی لڑکھڑا کر زمین پر اس کے قدموں میں گر پڑی۔ اور اس کے کاندھے پر لٹکا بیگ بھی ایک طرف جا گرا۔

وہ اپنے دونوں ہاتھوں کا سہارا لیے زمین پر بیٹھی تھی۔اس کی گردن جھکی ہوئی تھی۔ اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ ایک نظر اس شخص کو دیکھ لے جس کے قدموں میں قسمت نے اسے لا پٹخا ہے۔

_______________________________________
                                                        جاری ہے۔۔۔

vote and comment💗

Also share ur feedback in comment section❤❤❤

تپتی دھوپ کا سفر(COMPLETED✅)Where stories live. Discover now