باپ کی شفقت، ماں کی ٹھنڈی چھائوں اور بڑے بھائی کی بے لوث محبت کے بغیر زندگی کیا ہے؟ یہ بات حمائل بہت اچھی طرح جان گئی تھی۔محض ایک سال میں اس کے ساتھ کتنا کچھ ہو گیا،سب کچھ ختم ہو گیا تھا سوائے اس کی اپنی ذات کے۔۔۔
لیکن اب اس کی بھی کسے پروا تھی۔سب فکر اور احساس کرنے والے تو چلے گئے اور جو پاس ہیں وہ ساتھ نہیں ہیں۔
گھر میں کاموں اور پڑھائی کی روٹیں ویسے ہی تھی جیسی اس کی ماں کے ہوتے ہوئے تھی۔بس فرق اتنا تھا کہ وہ جو کبھی کبھار کچھ بول لیتی تھی یا ہنس لیتی تھی، اب بالکل خاموش ہو گئی تھی۔وہ اپنی زندگی دوسروں کے اشاروں پر گزار رہی تھی۔اس گھر میں اس کی حیثیت محض ایک غلام کی تھی جس کا کام صرف اپنے مالک کا حکم ماننا تھا۔ اس گھر کے مکینوں کا حمائل پر اتنا احسان تھا کہ اسے پڑھائی کی اور یونیورسٹی جانے کی اجازت دی گئی تھی۔
دوپہر کے وقت وہ کچن میں اپنے کام میں مصروف تھی۔ جب قریب سے کسی کی آواز سن کر چونکی۔
"ہیلو ڈیئر کزن!" عمر شوخ لہجے میں بولا۔
"آپ؟ کچھ چاہیئے آپ کو؟" حمائل اس سے فاصلے پر کھڑی ہو گئی۔
"پوچھ تو ایسے رہی ہو جیسے جو میں مانگوں گا فورًا دے دو گی۔"وہ کمینگی سے ہنستا ہوا بولا۔
"جی؟" حمائل نے ناسمجھی سے پوچھا۔
"ویسے تمہیں ایک بات بتاؤں، تم اتنی معصوم ہو نہیں جتنی بننے کی کوشش کرتی ہو۔" وہ دانت پیستے ہوئے غصے سے بولا۔
وہ سر جھکائے خاموش کھڑی رہی۔
اس کے اس طرح خاموش کھڑے رہنے پر عمر طیش میں آگیا۔عمر نے اس کے بال اپنی مٹھی میں دبوچ لیے۔
"تمہارے منہ میں زبان نہیں کیا اور اپنی یہ اکڑ اپنے اس عاشق کو دکھایا کرو جو تمہاری ایک فون کال پر دوڑا چلا آتا ہے۔" وہ غصے سے دانت پیستے ہوئے بولا۔"میرے بال چھوڑیں پلززز۔۔۔مجھے درد ہو رہا ہے۔" ۔حمائل بال اس کے ہاتھ سے چھڑواتے ہوئے بولی۔
"عمر؟ کدھر ہو تم؟ میرے کمرے میں آ کر ذرا میری بات سن جائو۔" لائونج سے صائمہ بیگم کی آواز آئی جو عمر کو ہی ڈھونڈ رہیں تھیں۔
"آرہا ہو مام!" وہ ایک جھٹکے سے اس کے بال چھوڑ کر کچن سے باہر چلا گیا۔
وہ وہیں کھڑی اپنی قسمت پر آنسو بہا رہی تھی۔اور اب یہ آنسو اس کامقدر تھے شاید۔۔۔
وہ جسے کبھی ہوا بھی چھو کر نہ گزری تھی آج اس کے ساتھ ایسا سلوک ہو رہا تھا جس کا اس نے کبھی تصور بھی نہ کیا تھا۔____________________________________
"السلام علیکم! رضا انکل گھر پر ہیں؟" اس نے گارڈ سے پوچھا۔
"والیکم اسلام! نہیں جی، صاحب جی تو گھر پر نہیں ہیں، آٹھ بجے تک تو آجاتے ہیں آج تھوڑا لیٹ ہو گئے ہیں۔" گارڈ نے جواب دیا۔

YOU ARE READING
تپتی دھوپ کا سفر(COMPLETED✅)
General Fictionیہ کہانی ہے رشتوں کے تلخ روپ کی۔۔۔صبر کی، خدا پر یقین کامل کی ،زندگی کے کٹھن راستوں سے گزر کر منزل پر پہنچنے کی۔آزمائیشوں اودکھوں سے بھری زندگی کی۔ محبت کے خوبصورت سفر کی۔۔۔ تپتی دھوپ کے سفر کی کہانی۔۔۔۔