EPISODE 16

116 18 1
                                    

EPISODE 16

"ہیلو سویٹ گرل۔۔۔"
کال اٹھاتے ہی اُسکے کانوں میں ایک خوبصورت آواز گونجی مگر اُسے نہایت بری لگی تھی

"کون ہو تم؟"
ہزار بار کا دوہرایا ہوا سوال

اس بندے ناچیز کو تم زیڈ اے کہے سکتی ہوں
انداز میں رتی برابر فرق نا آیا۔۔۔ زویا چونکہ کیونکہ آج سے پہلے اسنے ایسا کوئی نام نہیں بتایا تھا

"چاہتے کیا ہو؟"
دوہرایا ہوا سوال

"تمہیں…"
جھٹ سے جواب موصول ہوا

"کیوں پیچھے پڑے ہو میرے…"
دانت پیس کر پوچھا گیا

"اپنی زندگی میں شامل کرنے کے لیۓ…"
وہ شوخ ہوا

"کال مت کیا کرو سمجھے…"
اسنے وارننگ دی

"کبھی سمجھا ہوں کیا میں؟..."
وہ ڈھیٹ تھا
"کاش۔۔۔۔ کاش تم میرے سامنے ہوتے کاش۔۔۔ اور میں تمہیں اپنے ان ہاتھوں سے قتل کرتی.."
بڑی حسرت سے کہا گیا تھا۔۔۔ مقابل مسکرایا

"وللہ تمہارے ہاتھوں سے تو میں مرنا بھی پسند کروں گا.."
دلفریب انداز میں کہا گیا جملہ سن کر زویا کلس کر کال ہی بند کر دیا اور موبائل وہی بیڈ پر پھینکتی نیچے کے جانب بڑھی۔۔۔ سوچ مسلسل اُسی کے جانب تھی

"کیا کہا تھا زیڈ کے۔۔ زیڈ۔۔۔۔ سے کون ہو سکتا ہے؟"

وہ سڑیوں سے نیچے اترتے ہوئے ہر اس شخص کے بارے میں سوچنے لگی جسکا نام زیڈ سے شروع ہوتا ہے اُسے اپنے احباب میں کوئی ايسا نا ملا۔۔۔ اچانک ذہن میں جھماکا ہوا۔۔ قدم رکے۔۔۔ سوچو کا رخ ذوہان کی طرف گیا۔۔۔۔ غصے سے کنپٹی کی رگيں اُبھری

"ذوہان۔۔۔ کیا یہ ذوہان کر رہا ہے..."
اسنے بیقینی سے سوچا اُسکا ہر لہجہ ہر انداز اُسے یاد آ رہا تھا

"ذوہان اگر یہ تم ہوئے نا میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی...."
وہ واپس روم میں آئی اور نور کو کال کیا

"السلام و علیکم..."
شاید موبائل اُسکے ہاتھوں میں ہی تھی لمحہ ضائع کیئے بنا اٹھا لیا گیا تھا

"وعلیکم اسلام، نور اُس نمبر کا کچھ پتہ چلا..."
بے چینی سے ٹہلتے ہوئے پوچھا اُسکے انداز پر وہ چونکہ

"نہیں۔۔۔"
جھوٹ بولا گیا

"نور مجھے۔۔۔ مجھے لگتا ہے وہ۔۔۔ وہ ذ۔۔۔ذوہان ہے..."

زبان لڑکھڑائی۔۔۔ نور کو حیرانی ہوئی کیونکہ ذوہان اسے بتانے سے رہا اور۔۔۔ اگر یہ اندازہ تھا تو ایکدم صحیح تھا۔۔۔ اُسکے صحیح اندازا لگانے پر بے ساختہ اُسکے ہونٹ مسکرائے

"تم غلط تھے ذوہان تم اُسے بیوقوف نہیں بنا پائے..."
اسنے دل میں ہی ذوہان کو مخاطب کیا

"تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے..."
وہ عام سے انداز میں بولی

ہماری دوستی بےمثال (COMPLETE)Место, где живут истории. Откройте их для себя