EPISODE 17

120 20 1
                                    

EPISODE 17

اُسکے ہارن بجانے سے چوکیدار نے گیٹ کھولا وہ زن سے کار اندر لے گیا کار کو پورچ میں پارک کرتا، وہ باہر نکلتے سیدھا چلتے گھر کے اندر داخل ہوا گھر تو بلکل نہیں تھا کسی شہزادے کا محل کہنا سہی ہوگا، خوبصورت سا ہال سفید ماربل سے بنے فرش پر چلتے وہ روم کے جانب جانے ہی والا تھا، جب اُسکے کانوں میں ایک دردناک چیخ سنائی دی، چیخ کی آواز ذولفقار صادق کے روم سے آئی تھی وہ لمحے ضائع کیئے بغیر حواس باختہ سا روم میں داخل ہوا سامنے کا منظر دیکھ کر اُسکا خون کھول اٹھا ماتھے پر کئی بل پڑے دانتوں کو سختی سے دانت پر جمائے تھے چہرا اتنا سرخ ہو چکا تھا جیسے سارا خون نچوڑ کر ایک حصے میں جمع ہو گیا ہو وہ لمحہ ضائع کیا بنا آگے بڑھتے ہی ذولفقار صادق کو دور دھکیلتے رضیہ بیگم کو اپنے باہوں میں سميٹ لیا اُنکی حالت ابتر تھی ماتھے پر گہرے کٹ کے باعث فوارے کے مانند خون نکل رہا تھا گال پر سوجن ہو گئے تھے ہونٹ ایک کنارے سے پھٹنے کے ساتھ نیل بھی ہو چکا تھا وہاں سے بھی گرم سیال نکل رہا تھا ایسا تو پہلی بار نہیں ہوا تھا، وہ اُنہیں اٹھاتا باہر کے جانب جاتے ہوئے روکا

"اسکا حساب دینا ہوگا آپ کو۔۔۔"

آنکھوں سے شعلے ابل رہے تھے لہجہ كاٹدر تھا
وہ اُنہیں دھمکانے کے انداز میں کہتا بھاگنے سے انداز میں گھر سے باہر نکل گیا رضیہ بیگم کو کار میں ڈالتا فل سپیڈ سے ہاسپٹل کے راستے پر کار دوڑانے لگا
__________________________________

ا"بے یار کہاں ہے تو؟۔۔۔"
طلحہ کی جھجھلاتی آواز اُسکے کان میں ٹکرائی

"میں ہاسپٹل ہوں..."
وہ سامنے روم کے دروازے پر نظر گاڑے بے تاثر لہجے میں گویا ہوا طلحہ کو اچنبا ہوا

"تو ہاسپٹل کیا کر رہا ہے؟ تو ٹھیک تو ہے نا؟"
وہ فکرمندی سے بولا

"یار میں ٹھیک ہوں۔ مام ہاسپٹل ہے…٫
اپنے لیئے فکرمند دیکھ وہ پھیکا سا مسکرایا

"آنٹی کو کیا ہوا؟…"
اسنے اچنبے سے سوال کیا

"ہمارے گھر میں ہی جیتی جاگتی مصیبت ہے، تو وہاں کون حفاظت سے رہے سکتا ہے، طلحہ یار وہ انسان نہیں جانور ہے جانور…"

وہ زہر خند لہجے میں بولا طلحہ سمجھ گیا تھا وہ کس کے بارے میں بات کر رہا ہے، وہ پھیکا سا مسکرایا تھا دنیا کا یہ قانون بھی نا کتنا عجیب ہے۔۔۔ اگر کسی کے والدین نہیں ہوتے تو اُسے دنیا کی ہر سرگرمیوں ہر مصیبت ہر تکلیف میں ہر پل یاد آتے ہے اور کچھ باپ ایسے ہوتے ہے جنہیں نا اپنی بیوی سے اپنی اولاد اور نا اپنی فیملی سے محبت ہوتی ہے، اُنہیں صرف پیسا، دولت شہرت نظر آتے ہے اور اسی لالچ میں وہ اپنا ایمان بیچ دیتے ہے انکا ضمیر مر چکا ہوتا ہے،
اور اُسکے دوست نے یہ اذیت تو برسو سے سہی ہے

"میرے پاس سب ہے مگر والدین نہیں، اور اُسکے پاس بھی سب ہے مگر وہ باپ کے محبت و شفقت سے محروم ہے، فرق بس اتنا ہے میرے والدین نا ہوتے ہوئے بھی محبت کرتے ہے اور اسکا باپ زندہ ہوکر بھی محبت نہیں کرتا..."
طلحہ نے ذولفقار صادق کے بارے تلخی سے سوچا

ہماری دوستی بےمثال (COMPLETE)Dove le storie prendono vita. Scoprilo ora