فجر کی نماز ادا ہو چکی تھی۔اب وہ مسجد سے نکل کر سیدھی سڑک پر چل رہا تھا جو مسجد سے قریبی قبرستان کی طرف جاتی تھی۔
وہ سر جھکاۓ آہستہ قدموں سے قبرستان کی جانب بڑھ رہا تھا۔چونکہ فجر کا وقت تھا۔سورج ابھی پوری طرح طلوع بھی نہیں ہوا تھا،کچھ مری کا موسم اور کچھ صبح کا وقت، ہر طرف سے سردی اپنی آمد کا پتہ دے رہی تھی۔
خزاں کا موسم ابھی بھی اپنی آخری سانسیں گن رہا تھا۔اسکے من پر بھی شاید خزاں ہی چھاٸ ہوٸ تھی۔
مگر وہ موسم کی شوخیوں سے بے نیاز قدرے گہری سوچ میں ڈوبا قبرستان کے مین گیٹ کے سامنے آکھڑا ہوا۔گیٹ کھول کر وہ چلتا ہوا کٸ قبروں کو پار کرکے دو ایک ساتھ انتہاٸ نزدیک بنی قبروں کے سرہانے رک گیا۔کچھ دیر تو وہ یونہی خاموش کھڑا رہا پھر دعا کیلۓ ہاتھ اٹھاۓ تو جہاں اسکے لب ہل رہے تھے وہی ایک ساتھ کٸ خاموش آنسو ایک ساتھ ہی اسکی پلکوں سے ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے تھے۔
وہ جو کبھی کسی بڑی سے بڑی چوٹ پر بھی نہیں رویا تھا۔ وہ جسکے متعلق اسکی دادی کا کہنا تھا کہ وہ تہ کبھی شیرخواری میں بھی نہیں رویا تھا۔ جسکے ضبط و تحمل کی پورا خاندان مثالیں دیا کرتا تھا۔وہ آج یوں بے بسی سے ان قبروں کے سامنے بے آواز رو رہا تھا۔
پچھلے چھ سالوں میں وہ کبھی ان قبروں کے سامنے نہیں رویا تھا۔ لیکن آج اسکے دل میں عجیب سا درد اُٹھ رہا تھا۔
"مما، مجھے معاف کردیجۓ گا۔میں آج آپکے سامنے آپکے ناپسندیدہ کام کا مرتکب ہوا ہوں"
(وہ ان میں سے ایک قبر سے مخاطب تھا)"بابا جانی آپ تو مما کو آسانی سے منالیتے ہیں نا،ان سے کہیں مجھ سے خفا نہ ہوں"
(وہ اب دوسری قبر سے مخاطب تھا)"چلیں اب لالا" (دفعتاً اسے اپنے پیچھے سے آواز آٸ تو وہ فوراً سنبھلا)
جلدی سے آنسو صاف کۓ اور مڑ کر مدھم مسکان اور نرم نگاہوں سے تقریباً قد میں اپنے برابر انتہاٸ خوبرو لڑکے کو دیکھا۔دونوں میں بلا کی شباہت تھی۔"ہاں چلو"(دونوں قبرستان سے نکل کر کچھ فاصلے پر کھڑی سیاہ جیپ میں بیٹھ کر وہاں سے روانہ ہوگۓ۔
گاڑی میں سنّاٹا چھایا ہوا تھا۔دونوں ہی شاٸد گفتگو میں ایک دوسرے سے پہل کی توقع کر رہے تھے۔"زیب"(اچانک ہی اسنے ڈرایٸونگ کرنے والے نوجوان کو بغیر دیکھے مخاطب کیا)
"جی جہان لالا" (دوسرے نوجوان نے نہایت ادب سے جواب دیا)
"بچے تمھیں کیسے پتہ چلا کہ میں قبرستان میں ہوں، مجھے لگا تم گھر چلے گۓ ہو"
(اس نے دھیمے لہجے میں پوچھا)"لالا پچھلے چھ سالوں سے آپ ہر سال آج کے دن وہاں قبرستان ضرور جاتے ہیں،اور میں آپکے بغیر گھر کبھی نہیں جاتا یہ آپکو معلوم ہے"
(دوسرے نوجوان نے بھی دھیمے انداز میں جواب دیا)گھر کی جانب مڑتے ہوۓ اچانک ایک خیال کے تحت جیپ رُکوا کر وہ اترا اور سڑک پار کرکے دوسری جانب بنی بڑی سی سپر سٹور میں داخل ہوا۔جیپ میں بیٹھے نوجوان کو اسکے اس طرح جانے پر تعجب نہیں ہوا تھا کیونکہ وہ وجہ جانتا تھا۔
وہ ایک طرف بنی چاکلیٹ ریک کے سامنے کھڑا ہوکر کچھ ڈھونڈنے لگا۔مطلوبہ چاکلیٹ مل جانے پر ڈھیر ساری ویسی ہی چاکلیٹس اٹھا کر کاٶنٹر پر رکھیں اور سیلزمین کو پیسے دے کر چاکلیٹس شاپر میں ڈالتے ہوۓ سٹور سے نکل کر دوبارہ جیپ میں آبیٹھا۔
ڈراٸیونگ سیٹ پر بیٹھے نوجوان نے مسکرا کر جیپ سٹارٹ کردی۔قریباً پانچ سات منٹ کی ڈراٸیو کے بعد وہ ایک بہت بڑے،شاندار اور جدید طرز پر بنے تقریباً سات کنال کے رقبے پر بنے گھر کے سامنے آکر رُکے۔
ہارن کی آواز پر ایک نسبتاً ادھیڑ عمر چوکیدار نے گیٹ کھولا اور جیپ اندر داخل ہوٸ۔
دونوں ایک ساتھ جیپ سے اترے، ایک جیسا قد قریباً چھ فٹ چار انچ، کالی قمیص اور سفید شلوار کے اوپر سرمٸ رنگ کی مردانہ شال اوڑھے مضبوط و توانا جسم،سرخ و سفید رنگت اور نیلی آنکھوں کیساتھ دونوں بے حد خوبرہ اور باوقار لگ رہے تھے۔
YOU ARE READING
مارخور (مکمل)
Romanceوادی سوات کی فضاٶں میں پروان چڑھنے والی املتاس اور ایک مارخور کی داستانِ محبت Based on some true events and characters.